آس کا دن ہے یہ بھی گذر جائے گا - سید شاہ نعیم الدین جہانیان

کاشفی

محفلین
غزل
(سید شاہ نعیم الدین جہانیان)

آس کا دن ہے یہ بھی گذر جائے گا
ہم کو معلوم ہے وہ مُکر جائے گا

ہوتا کوئی ٹھکانہ تو پھر دن ڈھلے
ہوتی خواہش کہ وہ اپنے گھر جائے گا

پوچھیں کس سے یہ ویرانہء دشت میں
کوئی رستہ جو میرے نگر جائے گا

حاکمِ شہر کے ہے وہ زیرِ عتاب
اُس پر اتنا ستم ہے کہ مر جائے گا

ہو وہ خاموش گر، ہونٹ بھی بند ہوں
آنکھوں‌ آنکھوں میں بات کر جائے گا

ہو گریزاں تو ہو بھی رہے بے سکوں
ملتفت ہوں تو ظالم بکھر جائے گا

تہمتِ قتل سے وہ بری تو ہوا
دیکھیں اب الزام کس کے سر جائے گا

دن کو سورج کے جیسا نچھاور ہے وہ
شب کو تاروں کی صورت بکھر جائے گا

اُٹھ تو جائیں گے اٹھنے کو محفل سے ہم
ڈر ہے چہرہ تمہارا اُتر جائے گا

رکھ کے قبصہ میں اپنے وہ کون و مکاں
پوچھتا ہے کہ اب تُو کدھر جائے گا

روند ڈالی روِش جب چمن کی نعیم
کس کو امید وہ پھر سنور جائے گا


بشکریہ: علیگڑھ اردو کلب۔ دیدہ ور
 
Top