آسان حل۔۔۔۔۔۔۔

زبیر مرزا

محفلین
بے اعتباری سے بہتر ہے اعتبار کیا جائے اور جو ٹوٹ جائے سو ٹوٹ جائے نازک چیز تھی کسی غافل سے ٹوٹ گی
(جان بوجھ کریا نجانے میں) توکیا ہوا
اورہاں خرم شہزاد خرم بھائی کیا کہتے ہیں آپ اس مسئلے کے بیچ کہ آپ نے ایک دن سنایا تھا ناں
مٹھی کھیر پکا محمد
کتیا اگے دھرنی

(میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ)
یہ صوفیائے کرام بھی کمال کے نقطے بیاں کرتے ہیں -
مجھے نہیں پتا کہ میاں صاحب سرکارنے یہ کس لیے فرمایا تھا مجھے تو ایسے ہی سجھ آیا اور روح میں سما گیا
اعتبارکی میٹھی کھیرپکانا سب کا نصیب نہیں ہوتا اورپکا کے ہرکس وناکس کے آگے
پیش کرنا بھی- جب تک اعتبار کی میٹھی کھیرپکتی رہے گی انسانیت کا بھرم قائم رہے گا
 

زبیر مرزا

محفلین
نیرنگ خیال صبح جلدی بیدار ہوجاتے ہو بڑی اچھی عادت ہے- اسکائپ پراس وقت دیکھ کرخوشی ہوتی ہے
نوٹ: ہمارے ہاں اس وقت رات ہوتی ہے (کہیں اسے ہماری اپنی تعریف نا سمجھ لیاجائے:))
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال صبح جلدی بیدار ہوجاتے ہو بڑی اچھی عادت ہے- اسکائپ پراس وقت دیکھ کرخوشی ہوتی ہے
نوٹ: ہمارے ہاں اس وقت رات ہوتی ہے (کہیں اسے ہماری اپنی تعریف نا سمجھ لیاجائے:))
جی زبیر بھائی بہت پرانی عادت ہے۔ اور میں نے اسے کبھی بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
حاصل تھی اگرچہ ہاسٹل میں ہر طرح کی آزادی
نہ چھوٹے مجھ سے لاہور میں بھی آداب سحر خیزی :laugh:

آپ تو اسکائپ تو کبھی سائن آؤٹ کیا ہی نہیں۔ آپ تو ادھر ہیں بھی نہیں اس وقت :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بے اعتباری سے بہتر ہے اعتبار کیا جائے اور جو ٹوٹ جائے سو ٹوٹ جائے نازک چیز تھی کسی غافل سے ٹوٹ گی
(جان بوجھ کریا نجانے میں) توکیا ہوا
اورہاں خرم شہزاد خرم بھائی کیا کہتے ہیں آپ اس مسئلے کے بیچ کہ آپ نے ایک دن سنایا تھا ناں
مٹھی کھیر پکا محمد
کتیا اگے دھرنی

(میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ)
یہ صوفیائے کرام بھی کمال کے نقطے بیاں کرتے ہیں -
مجھے نہیں پتا کہ میاں صاحب سرکارنے یہ کس لیے فرمایا تھا مجھے تو ایسے ہی سجھ آیا اور روح میں سما گیا
اعتبارکی میٹھی کھیرپکانا سب کا نصیب نہیں ہوتا اورپکا کے ہرکس وناکس کے آگے
پیش کرنا بھی- جب تک اعتبار کی میٹھی کھیرپکتی رہے گی انسانیت کا بھرم قائم رہے گا
صوفیائے کرام کے نقطے کمال کے ہی ہوتے ہیں ان کا کام ہوتے ہیں بس کہہ دینا اور سمجھنے والا اپنے اپنے انداز سے سمجھتا ہے
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کن باتوں میں الجھتی ہو بالکی۔ ان کے درمیاں میں بھی بہت کچھ ہے۔ اعتبار و بے اعتباری کے درمیان یقین و کشمکش ہے۔ اب میں کیسے سمجھاؤں۔ :) کیوں عینی بٹیا سے ہماری گوشمالی کروانی ہے۔
برین ہیکر بھائی نے وضاحت فرمائی تو ہے۔ :)
بھیا یہ غیروں جیسی باتیں مجھ سے مت کیا کریں
اور یہی فائدہ ہے جب ہم کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو اس کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں
آپ کو پوری اجازت ہے میرے کسی بھی تھریڈ میں گفتگو کرنے کی
کیونکہ اسی طرح سیکھنے کو ملتا ہے :happy:
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
میں اس بات بالکل متفق ہوں کہ اعتبار کیا جائے
محبت پھیلائی جائے
اور بے یقینی جیسی بیماری کو تو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا جائے
کیونکہ یقین چلچلاتی دھوپ میں سائبان کی طرح ہے
یقین لمبے تھکادینے والے سفر میں آرام دہ پڑاؤ کی طرح ہے
پھر اگر اس اعتبار کے بدلے بے اعتباری ملے
یقین کے بدلے بے یقینی ملے تو خود کو سنبھال لینا ۔۔اپنی ذات کو بہتر سے بہتر بنانا ۔۔سست رفتاری کے بعد سبک رفتار ہوجانا نہایت ضروری ہے اس لیئے کہ بھلائی اللہ کے لیئے اللہ کے بندوں سے کرنی ہے تو بدلہ بھی وہی دینے والے ہیں
عموما ہم انسانوں کے رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر اپنی سیدھی راہ چھوڑ دیتے ہیں ۔۔اور خود کو تباہ کر لیتے ہیں ۔۔۔حالانکہ زندگی تو اللہ تعالی کی دی ہوئی ہے کسی کی عطا کردہ نہیں تو پھر ہر بھلائی کے بعد نظر اللہ کی طرف ہو ۔۔تاکہ ٹھوکر لگے تو وہ سنبھال لے ضائع نہ ہونے دے ۔۔۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بے اعتباری سے بہتر ہے اعتبار کیا جائے اور جو ٹوٹ جائے سو ٹوٹ جائے نازک چیز تھی کسی غافل سے ٹوٹ گی
(جان بوجھ کریا نجانے میں) توکیا ہوا
اورہاں خرم شہزاد خرم بھائی کیا کہتے ہیں آپ اس مسئلے کے بیچ کہ آپ نے ایک دن سنایا تھا ناں
مٹھی کھیر پکا محمد
کتیا اگے دھرنی

(میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ)
یہ صوفیائے کرام بھی کمال کے نقطے بیاں کرتے ہیں -
مجھے نہیں پتا کہ میاں صاحب سرکارنے یہ کس لیے فرمایا تھا مجھے تو ایسے ہی سجھ آیا اور روح میں سما گیا
اعتبارکی میٹھی کھیرپکانا سب کا نصیب نہیں ہوتا اورپکا کے ہرکس وناکس کے آگے
پیش کرنا بھی- جب تک اعتبار کی میٹھی کھیرپکتی رہے گی انسانیت کا بھرم قائم رہے گا
متفق بھیا
اعتبار کرتے رہنا چاہیئے ۔۔!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بھیا یہ غیروں جیسی باتیں مجھ سے مت کیا کریں
اور یہی فائدہ ہے جب ہم کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو اس کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں
آپ کو پوری اجازت ہے میرے کسی بھی تھریڈ میں گفتگو کرنے کی
کیونکہ اسی طرح سیکھنے کو ملتا ہے :happy:
ارے وہ تو نیلم کو گولی کروائی تھی۔ :laugh:
 

علی وقار

محفلین
ایک حکیم صاحب تھے۔ایک شخص ان کے پاس آیا۔اس کے پاس ایک ڈبہ تھا۔اس نے ڈبہ کھول کر ایک زیور نکالا۔
اس نے کہا یہ خالص سونے کا زیور ہے۔اس کی قیمت دس ہزار سے کم نہیں۔اس وقت مجھے مجبوری ہے۔
آپ اس کو رکھ کر پانچ ہزار روپے مجھے دے دیجئے میں ایک ماہ میں روپیہ دے کر اسے واپس لے لوں گا۔
حکیم صاحب نے کہا نہیں میں اس قسم کا کام نہیں کرتا۔مگر آدمی نے کچھ اس انداز سے اپنی مجبوری بیان کی کہ حکیم صاحب کو
ترس آگیا اور انہوں نے پانچ ہزار روپیہ دے کر زیور لے لیا۔اس کے بعد انہوں نے زیور کو لوہے کی الماری میں بند کرکے رکھ دیا۔
مہینوں گزر گئے وہ آدمی واپس نہیں آیا۔حکیم صاحب کو تشویش ہوئی۔آخر انہوں نے ایک روز اس زیور کو لوہے کی الماری سے نکالا اور اس کو بیچنے کے لیئے بازار بھیجا۔
مگر سنار نے جانچ پر بتایا کہ وہ پیتل کا ہے۔حکیم صاحب کو سخت صدمہ ہوا ۔تاہم روپیہ کھونے کے
بعد وہ اپنے آپ کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔انہوں نے اس کو بھلادیا انہوں نے صرف یہ کیا کہ جس سونے کو وہ لوہے کی الماری میں
رکھے ہوئے تھے اسے وہاں سے نکال کر پیتل کے خانے میں رکھ دیا ۔
انسانی معاملات کے لیئے بھی یہی طریقہ بہترین طریقہ ہے ۔انسانوں کے درمیان اکثر شکایت اور تلخی اس لیئے پیدا ہوتی ہے کہ
ایک آدمی سے ہم نے جو امید قائم کر رکھی تھی اس پر وہ پورا نہیں اترا۔ہم نے ایک آدمی کو بااصول سمجھا تھا مگر تجربہ کے بعد
معلوم ہوا کہ وہ آدمی بے اصول ہے۔ہم نے ایک شخص کو اپنا خیر خواہ سمجھا مگر وہ بدخواہ ثابت ہوا ۔ہم نے ایک شخص کو معقول
سمجھ رکھا تھا مگر برتنے کے بعد وہ شخص غیر معقول نکلا۔
ایسے مواقع پر بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو اس خانہ سے نکال کر اس خانہ میں رکھ دیا جائے۔۔۔
جس چیز کو ہم نے سونے کی الماری میں محفوظ کر رکھا تھا برتنے کے بعد اگر وہ اس قابل نہیں تو خود کو کھونے،کڑھنے
اور تباہ کرنے کے بجائے اسے اسی خانے میں رکھ دیا جائے جس روئیے کا اس نے اظہار کیا۔یہی محفوظ راستہ ہے۔

رازِ حیات
مولانا وحیدالدین خان
عمدہ۔
 
Top