آرمی پبلک اسکول پشاور اور باچا خان یونیورسٹی کے شہدا کے نام.

ایم اے راجا

محفلین
آرمی پبلک اسکول پشاور اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے شہدا کے نام.

((((( اک ستارا میں ہو گیا ہوں اب )))))

دشمنوں کو پیام یہ دے دو
میں ڈرانے سے ڈرنے والا نہیں
مارنے سے تو مرنے والا نہیں

مجھکو خاموش کیا کرو گے تم
قطرہ قطرہ لہو کا بولے گا
راز قاتل کے سارے کھولے گا

گھر مرے جائو دوستو،
ماں کو میری بتائو تم
اور بابا کو بھی یہ سمجھائو

میں مرا تو نہیں ابھی
میں بجھا بھی نہیں ابھی

پہلے تو بس چراغ تھا، لیکن
اک ستارا میں ہو گیا ہوں اب

کل تلک صرف آپ کو تھا پر
سبکو پیارا میں ہو گیا ہوں اب
 

اکمل زیدی

محفلین

جاسمن

لائبریرین
ہر کسی نے اِس دکھ کا اظہار آنسوؤں کی زبان میں ہی کیا ہے
آپ نے آنسوؤں کو نظم میں پرو دیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، یہ بہت دن سے میری منتظر پڑی تھی!!! حالانکہ پچھلے ہفتے ہی میں نے ’اصلاح سخن‘ کے کےئ دھاگوں میں ایک ساتھ پوسٹ کیا تھا۔ خیر۔
نظم اچھی ہے، لیکن باقی سارےمصرعے ’فاعلاتن مفاعلن فعلن میں ہیں۔ لیکن یہ پانچ چھ مصرعے؟
گھر مرے جائو دوستو،
ماں کو میری بتائو تم
اور بابا کو بھی یہ سمجھائو

میں مرا تو نہیں ابھی
میں بجھا بھی نہیں ابھی

ان کو بھی اسی بحر میں کر دو پھر دیکھتا ہوں اسے۔ باقی تو درست ہے نظم۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اوہو، یہ بہت دن سے میری منتظر پڑی تھی!!! حالانکہ پچھلے ہفتے ہی میں نے ’اصلاح سخن‘ کے کےئ دھاگوں میں ایک ساتھ پوسٹ کیا تھا۔ خیر۔
نظم اچھی ہے، لیکن باقی سارےمصرعے ’فاعلاتن مفاعلن فعلن میں ہیں۔ لیکن یہ پانچ چھ مصرعے؟
گھر مرے جائو دوستو،
ماں کو میری بتائو تم
اور بابا کو بھی یہ سمجھائو

میں مرا تو نہیں ابھی
میں بجھا بھی نہیں ابھی

ان کو بھی اسی بحر میں کر دو پھر دیکھتا ہوں اسے۔ باقی تو درست ہے نظم۔
سر بطور آزاد نظم کیا یہ کرنا ضروری ہے ؟
 

الف عین

لائبریرین
آزاد نظم اور نثتی نظم میں فرق ہے۔ آزاد نظم میں کچھ افاعیل ہوتے ہیں جو مختلف تعداد میں دہرایاجا سکتا ہے۔ اس نظم میں افاعیل ہیں فاعلاتن مفاعلن فعلن
ان کو توڑا جا سکتا ہے۔
فاعلاتن
مفاعلن
فعلن
اس طرح تین مصرعوں میں۔
لیکن تمہارے یہ تین مصرعے ایسی پابندی بھی نہیں رکھتے۔
ماں کو میری بتائو تم

میں مرا تو نہیں ابھی
میں بجھا بھی نہیں ابھی
یہ نثری نظم کے ہو سکتے ہیں، اسی آزاد نظم کے نہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استاد محترم الف عین صاحب اگر یوں کیا جائے تو ؟

دشمنوں کو پیام یہ دے دو
میں ڈرانے سے ڈرنے والا نہیں
مارنے سے تو مرنے والا نہیں

مجھ کو خاموش کیا کرو گے تم
قطرہ قطرہ لہو کا بولے گا
راز قاتل کے سارے کھولے گا

گھر مرے جائو دوستو اب تم
ماں کو میری یہ بات بتلا دو
اور بابا کو جا کے سمجھادو

میں مرا تو نہیں ابھی پیارو
میں بجھا بھی نہیں ابھی پیارو

پہلے تو بس چراغ تھا، لیکن
اک ستارا میں ہو گیا ہوں اب

کل تلک صرف آپ کو تھا پر
سب کو پیارا میں ہو گیا ہوں اب
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان کے حساب سے بہتر ہے۔
مفہوم کے اعتبار سے
اس حصے میں پہلے دشمنوں کے نام پیام ہے جو
راز قاتل کے سارے کھولے گاپر ختم ہوتا ہے÷
پھر اگلے مصرع میں دوستو‘ ان سے ہی کہا جا رہا ہے یا واقعی دوستوں سے۔ اس کو واضح کرو۔

کل تلک صرف آپ کو تھا پر
سب کو پیارا میں ہو گیا ہوں اب
’کو پیاا‘ محض ’اللہ کو پیارا ہونا ‘ تو سنا ہے، آپ کو پیارا ہونا چہ معنی داری؟
آپ کو تھا پر۔۔ میں ’پر‘ بھی نا گوار لگتا ہے۔ یہاں ’تھا مگر‘ لانے میں کیا حرج ہے؟
 
Top