آرزو لکھنوی :::: کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی -- Aarzoo Lakhnavi

طارق شاہ

محفلین


غزلِ
آرزو لکھنوی

کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جُھوم کے آئی گھٹا ، ٹُوٹ کے برسا پانی

رُولئے پُھوٹ کے ، سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ پگھلا کے نِکالا ہے یہ جلتا پانی

کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی اُمنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

ٹکٹکی باندھے وہ پھرتے ہیں میں اِس فکر میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ گہرا پانی

بات کرنے میں وہ اُن آنکھوں سے امرت ٹپکا
آرزو دیکھتے ہی، منہ میں بھر آیا پانی

آرزو لکھنوی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی اُمنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

بات کرنے میں وہ اُن آنکھوں سے امرت ٹپکا
آرزو دیکھتے ہی، منہ میں بھر آیا پانی

واہ۔۔۔ بڑے عرصہ کے بعد کوئی رومانوی شاعری پڑھی ہے۔۔۔۔ کوئی دور تھا کہ اس قسم کی اشعار پڑھنے کو مل جاتے تھے
اس زلف شب گزیدہ کی چھاؤں کا نشہ ہے
یا چاند ہی دولخت ہوگیا ہے سحر سے

اب تو اچھی رومانی شاعری بھی خال خال ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔

بہت عمدہ شاہ سرکار۔۔۔۔ اعلی انتخاب پر داد قبول کیجیے۔ :)
 
Top