صبا اکبر آبادی آرزو۔۔صبا اکبر آبادی

فرحت کیانی

لائبریرین
آرزو
دامن کی آرزو نہ گریباں کی آرزو
ہم کو ہے بس بہارِ گلستاں کی آرزو
کرنا ہے ان کو جشنِ بہاراں کا اہتمام
اب تک تھی جن کو جشنِ بہاراں کی آرزو
آنکھوں کو ہے تجلئ اخلاص سے غرض
دل میں ہے صرف رفعتِ انساں کی آرزو
جس سے چُھپا رہے نہ کوئی رنگِ کائنات
رکھتا ہوں ایسے دیدۂ حیراں کی آرزو
تاریکیوں کے دور سے گزرنے کے بعد ہم
رکھتے ہیں ہر گلی میں چراغاں کی آرزو
ایک اک شجر میں چاہیے فردوسَ رنگ و بُو
ہے شاخ شاخ ہرگلِ خنداں کی آرزو
ہم اپنے جھونپڑوں میں ہیں مسرور و مطمئن
ہے قصر کی تلاش نہ ایواں کی آرزو
اللہ ان گھروں کو اُجالا کرے نصیب
تھی جن کو اِک چراغِ شبستاں کی آرزو
بُت جن میں تھے ہوس کے وہ بُت خانے رہ گئے
پُوری ہُوئی ہے قلبِ مسلماں کی آرزو
پچھلے پہر کے ڈُوبتے تاروں کا ذکر کیا
ہے صبحَ نو کے مہرِ درخشاں کی آرزو
عیسیٰ نفس بنو کہ نہ دَم توڑ نہ دے کہیں
دِل میں کسی مریض کے درماں کی آرزو
اُٹھو کہ جنگلوں میں نئی بستیاں بسائیں
پُوری ہو اب تو دشت و بیاباں کی آرزو
پیشِ نظر صحیفۂ دل چاہیے صبا
ہر وقت ہے تلاوتِ قرآں کی آرزو

--صبا اکبر آبادی (1948ء)
 
Top