حفیظ جالندھری :::: آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
حفیظ جالندھری

آرزوئے وصلِ جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانندِ شمعِ مُختصر ہونے لگی

رازِ الفت کھُل نہ جائے، بات رہ جائے مِری
بزمِ جاناں میں الہٰی چشم تر ہونے لگی

اب شکیبِ دل کہاں، حسرت ہی حسرت رہ گئی
زندگی اِک خواب کی صُورت بسر ہونے لگی

یہ طِلِسمِ حُسن ہے، یا کہ مآلِ عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی

سُن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سرِ بالین آج
میری آہِ نارسا بھی، با اثرہونے لگی

اُن سے وابستہ اُمیدیں جو بھی تھیں، وہ مِٹ گئیں
اب طبیعت، آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی

وہ تبسّم تھا، کہ برقِ حُسن کا اعجاز تھا
کائناتِ جان و دل زیر و زبر ہونے لگی

دل کی دھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آ گئے
غالباً میری طرف اُن کی نظر ہونے گی

جب چلا مُشتاق اپنا کارواں سُوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی

حفیظ جالندھری
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
یہ حفیظ جالندھری کی غزل نہیں ہے بلکہ شیخ غلام معین الدین مشتاق کی ہے۔ مقطع میں شاعر نے اپنا تخلص بھی استعمال کیا ہے۔ خلیل الرحمان بھائی سے گذارش ہے کہ عنوان اور ٹیگ میں تبدیلی کر دی جائے۔
اس غزل کو اس ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top