آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟

میم نون

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہماری شفٹ کو شروع ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا اور ہم آرام سے بیٹھے بات چیت کر رہے تھے، ہمارے کام میں بس یہی دعا ہوتی ہے کہ کوئی کام نہ آئے، اس لئیے نہیں کہ ہم کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس لئیے کہ اگر کوئی فون نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔
ہم باتیں کر رہے تھے کہ دفتر مین فون کی گھنٹی سنائی دی اور کچھ دیر میں ہمارا ایک ساتھی آیا اور بتایا کہ ایک مریض کو ہسپتال سے چھٹی ہوئی ہے اور اسے اسکے گھر چھوڑنے جانا ہے، اسکے بعد ایک اور مریض کو ساتھ والے گاؤں سے لیکر بڑے ہسپتال جانا ہے، میں اور ایک ڈرائیور ایک ایمبولینس لے کر ان دونوں کاموں کے لئیے نکل پڑے اور باقی ساتھی ایمرجنسی کے لئیے وہیں رہے۔
پہلے ہم ہسپتال گئے اور ایک بوڑھے شخص کو لیکر اس کے گھر چھوڑا اور پھر ہم ساتھ والے گاؤں کی طرف چل پڑے، میں اسی گاؤں میں رہتا ہوں، میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے تو اس نے بتایا کہ ”بڈھا آرام گاہ “ سے ایک عورت کو بڑے ہسپتال لے کر جانا ہے جہاں پر اس کی ایک ٹانگ کاٹی جانی ہے۔
یہ سن کر مجھ پر ایک سکتہ سا تاری ہو گیا، میں جب ریڈ کراس کا رضا کار بنا تو مجھے معلوم تھا کہ حادثات بھی دیکھنے پڑیں گے جہاں پر کٹے ہوئے عضاء بھی ہوں گے لیکن ان حالات میں نقصان ہو چکا ہوتا ہے اور ہم مریض کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب مریض ہمیں یہ سب کچھ کرتے دیکھتا ہے تو اسکی آنکھوں میں ایک امید سی نظر آتی ہے اور ہم دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس قابل بنایا، لیکن یہاں پر معاملہ بالکل برعکس تھا، اب میری یہی دعا تھی کہ مریض بے ہوش ہو اور ہم اسے بیہوشی میں ہی ہسپتال چھوڑ آئیں۔
جب ہم بڈھا آرام گاہ پہنچے اور مریضہ کے کمرے میں گئے تو وہ جاگ رہی تھی، ہم اسے اسٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس میں لے آئے، ڈرائیور ایمبولینس چلانے لگ گیا اور میں مریضہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔
چند منٹ خاموشی میں گزرے اور میں دعا کرتا رہا کہ سارا سفر ایسے ہی گزر جائے، لیکن کچھ ہی دیر میں عورت کراہنے لگی اور بار بار ٹانگ میں درد جتانے لگی، میں خاموشی سے سنتا رہا، اسکے بعد عورت وقفے وقفے سے کچھ نا کچھ بولتی رہی اور میں سر ہلاتا رہا، حالانکہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ درد کا کہنے لگی، وہ اسٹریچر کے ایک طرف ہو گئی تھی، میں نے یہ سوچ کر کہ شائد اس وجہ سے درد ہو رہی ہے اسے دوبارہ اسٹریچر کے درمیان کر دیا، کچھ دیر بعد عورت نے میرا نام پوچھا تو میں جیسے نیند سے جاگ گیا اب تک تو میری کوشش تھی کہ کم سے کم بات کی جائے لیکن اب اس کے نام پوچھے پر مجھے بات کرنی پڑی، میرے نام بتانے پر بولی کہ برا نہیں ہے، پھر میں نے بھی اسکا نام پوچھا (حالانکہ مجھے پہلے سے معلوم تھا) اسکے نام بتانے پر میں نے بھی اسکی تعریف کی، اب وہ دوبارہ درد کا کہنے لگی تو میں نے اسے جھوٹا دلاسہ دینا شروع کر دیا کہ ابھی ہم ہسپتال جا رہے ہیں جہاں ڈاکٹر اس کا علاج کرے گا، پتہ نہیں اسے اندازہ تھا یا نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن اس نے اتنا ضرور کہا کہ درد ہوتی اور اسکا علاج نہیں ہے، میں اپنے آپ کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا، اور اپنے آپ پر افسوس بھی ہو رہا تھا۔
اللہ اللہ کر کے ہسپتال آیا اور ہم نے اسے ہسپتال کے عملے کے حوالے کیا، ہسپتال سے نکل کر میں یہی سوچتا رہا کہ میں کتنا ناشُکرا ہوں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے، صحت ہے، جوانی ہے، لیکن پھر بھی سر کشی پر تلا ہوں زندگی غفلت میں گزر رہی ہے اور نماز کی پابندی بھی نہیں کرتا، باقی سارے سفر کے دوران میرا سر ندامت سے جھکا رہا اور یہ الفاظ میرے دماغ میں گونجتے رہے:
آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ نوید۔

ہمیں مفت میں ملی ہوئی چیز کی قدر کرنی نہیں آتی۔ پتہ اسی وقت چلتا ہے جب وہ چھن جاتی ہے۔

ایک واقعہ یاد آیا، کہیں پڑھا تھا۔ ایک بزرگ تھے، اتنے پیسے نہیں تھے کہ جوتا خرید کر پہن سکیں۔ دل میں ایسے ہی خیال آیا کہ اللہ نے اتنے پیسے نہیں دیئے کہ جوتا خرید سکوں۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے سے ایک آدمی چلا آ رہا ہے جس کے دونوں پاؤں ہی نہیں ہیں۔ اسے دیکھتے ہی سجدے میں گر گئے کہ اللہ نے مجھے پاؤں تو دے رکھے ہیں۔
 
اللہ اللہ کر کے ہسپتال آیا اور ہم نے اسے ہسپتال کے عملے کے حوالے کیا، ہسپتال سے نکل کر میں یہی سوچتا رہا کہ میں کتنا ناشُکرا ہوں کہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے، صحت ہے، جوانی ہے، لیکن پھر بھی سر کشی پر تلا ہوں زندگی غفلت میں گزر رہی ہے اور نماز کی پابندی بھی نہیں کرتا، باقی سارے سفر کے دوران میرا سر ندامت سے جھکا رہا اور یہ الفاظ میرے دماغ میں گونجتے رہے:
آخر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے؟
بہت خوب لکھاہے۔
ارشاد باری ہے انسان بڑا ناشکرا ہے اور ایک دوسرے مقام پر ہے کہ انسان بہت جلد باز ہے۔
اللہ ہمیں نعمتوں کی نعمتیں چھننے سے پہلے ہی قدردانی کی توفیق عطافرمائے۔آمین
جزاکم اللہ
 
Top