الوداعی تقریب آخری رات

یاز

محفلین
میں اپنے آپ سے اک کھیل کرنے والا ہوں
سبھی یہ سوچ رہے ہیں کہ مرنے والا ہوں

کسی کی یاد کا مہتاب ڈوبنے کو ہے
میں پھر سے شب کی تہوں میں اترنے والا ہوں

سمیٹ لو مجھے اپنی صدا کے حلقوں میں
میں خامشی کی ہوا سے بکھرنے والا ہوں

مجھے ڈبونے کا منظر حسین تھا لیکن
حسین تر ہے یہ منظر ابھرنے والا ہوں

حیات فرض تھی یا قرض کٹنے والی ہے
میں جسم و جاں کی حدوں سے گزرنے والا ہوں

میں ساتھ لے کے چلوں گا تمہیں اے ہم سفرو
میں تم سے آگے ہوں لیکن ٹھہرنے والا ہوں

صدائے دشت سہی میری زندگی آزادؔ
خلائے دشت کو اپنے سے بھرنے والا ہوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں
کاندھوں پہ غم کی شال ہے اور چاند رات ہے
دل توڑ کے خموش نظاروں کا کیا ملا
شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے
کیمپس کی نہر پر ہے ترا ہاتھ ہاتھ میں
موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے
ہر اک کلی نے اوڑھ لیا ماتمی لباس
ہر پھول پر ملال ہے اور چاند رات ہے
چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
وصی شاہ
 

عرفان سعید

محفلین
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے

اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت

لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے

آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے

پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو

پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
اس سے کئی سال پہلے فاتح کی آواز میں سنی آڈیو یاد آگئی
 

ظفری

لائبریرین
کیا بات ہے ۔ سب نے کیا آواز سے آواز ملائی ہے ۔
ہم کیوں پیچھے رہیں ۔محفل کو آخری سلام
آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے
کل تیری بزم سے دیوانہ چلا جائے گا
شمع رہ جائے گی، پروانہ چلا جائے گا
آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے
تیری محفل، تیرے جلوے، مبارک ہوں تجھ کو
تیری الفت سے نہیں ،آج بھی انکار مجھے
تیرا میخانہ سلامت رہے اے جانِ وفا
مسکرا کر تو ذرا دیکھ لے، ایک بار مجھے
پھر تیرے پیار کا مستانہ چلے جائے گا
شمع رہ جائے گی، پروانہ چلا جائے گا
میں نے چاہا کہ بتا دوں میں حقیقت اپنی
تُو نے لیکن میرا نہ رازِ محبت سمجھا
میری اُلجھن میرے حالات یہاں تک پہنچے
تیری آنکھوں نے میرے پیار کو نفرت سمجھا
اب تیری راہ سے بیگانہ چلے جائے گا
کل تیری بزم سے دیوانہ چلا جائے گا
شمع رہ جائے گی، پروانہ چلا جائے گا
تُو میرا ساتھ نہ دے راہِ الفت میں صنم
چلتے چلتے میں کسی راہ پہ مڑ جاؤں گا
کہکشاں ، چاند ستارے تیرے چومیں گے قدم
تیرے راستے کی میں ایک دھول ہوں، اُڑ جاؤں گا
ساتھ میرے میرا افسانہ چلا جا ئے گا
کل تیری بزم سے دیوانہ چلا جائے گا
شمع رہ جائے گی، پروانہ چلا جائے گا
آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے​
 
Top