آج کی بات

سیما علی

لائبریرین
دستگیری
‏کسی مضطرب کی داد فریاد سننا اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلانا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔
‏✍🏻 امیرالمؤمنینؑ حضرت علی علیہ السلام
‏📗 نہج البلاغہ۔حکمت 23
 

یاسر شاہ

محفلین
غیر مقلد کو جب تک کوئی اور غیر مقلد نہ ٹکرے لوازمات تقلید یاد نہیں آتے۔بزرگوں کا ادب،شائستگی،شگفتگی ،بڑوں کے آگے بے جا چون و چرا نہ کرنا، کہیں زانوئے تلمذ تہہ کرنا اور شتر بے مہار نہ بننا ساری خوشبوئیں سونگھنے کی حس یکلخت لوٹ آتی ہے۔

ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

از "ناشائستگی در پردہء شائستگی"(زیر تحریر)
 

سیما علی

لائبریرین
ارسطو کا قول ہے جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ ان سے زیادہ عزت مند اور قابل احترام ہیں جو بچوں کو پیدا کرتے ہیں ، یہ اس لیے کہ والدین بچوں کو صرف زندگی دیتے ہیں اور اساتذہ ان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ، الغرض استاد ہر لحاظ سے واجب الاحترام ہے ۔

سکندر اعظم کا واقعہ مشہور ہے ، وہ اپنے ارسطو کے ساتھ سفر کر رہا تھا ، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے ، سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے ، ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا استاد ہوں ، تمہیں میری بات ماننی ہوگی ، پانی میں پہلے میں اتروں گا ، سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاد محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جا سکتی ہے ، لہٰذا! میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہو جائے ، کیونکہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر تمہیں زندگی کی حقیقت معلوم ہو جائے تو بے شک تم کوئی اور ساتھی نہ چنو گے سوا عشق حقیقی کے ...!

‏مولانا جلال الدین رومی ..!
 

سیما علی

لائبریرین

اپنی زندگی میں رشتوں کو بھی ساتھ لیکر چلنا چاہئے جن کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی ۔ ہماری زندگی ان رشتوں کے بغیر ادھوری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتے کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)​

 

سیما علی

لائبریرین
135۔از نہج ابلاغہ
قولِ امام علی علیہ السلام

جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ,جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا . جسے توبہ کی توفیق ہو ,وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
IMG-0848.jpg
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
عبادت گاہ میں صرف جوتے اُتار کر مت جائیں بلکہ اپنی انا اپنا کینہ و حسد بھی انہی جوتوں کے ساتھ چھوڑ کر جائیں تاکہ حقیقی سجدہ ادا ہوسکے ۔۔۔
🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
 

سیما علی

لائبریرین
‏چیزوں کی اہمیت نہی۔ں ہوتی وہ کبھی نا کبھی مِل ہی جاتی ہیں صرف اِنس۔ان ہی ہیں جِن کا کوئی نعم البدل نہی۔ں ہوتا وہ دوبارہ نہیں ملتے💯💯
 

سیما علی

لائبریرین
امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں؀
«الفرصة تمر مر السحاب فانتهزوا فرص الخير»؛[6]
فرصت بادلوں کی طرح گزر جاتی ہے پس اسے غنیمت سمجھو۔
فرصت نیک جگہ استعمال کرنا اور با لخصوص اسے آخرت کے لیے استفادہ کرنا عقل کی نشانی ہے۔ [7] اور اسی طرح فرصت کا چلا جانا اور اس سے کوئی استفادہ نہ کرنا بے عقل کی نشانی ہے۔ [8]اسی طرح فرمایا کہ فرصت کو موت کے لیے تیاری اور کوشش کرنے والے پر خدا کی رحمت ہے [9] اور ہاتھ سے گئی ہوئی فرصت پر غمگین ہونے والے پر بھی رحمت خدا ہے۔ [10] اور فرمایا کہ وقت کو غنیمت جانو[11] کیوں کہ گزرا وقت پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ [12] یا پھر بہت دیر کے بعد آئے گا۔ [13]
اسی لیے امام وصیت کرتے ہیں کہ اپنی ہر فرصت کو اطاعت خدا میں گزارو۔[14]
 

سیما علی

لائبریرین
اخفائے زہد
‏▫️بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔
‏✍🏻 کلام امیرالمؤمنینؑ علی علیہ السلام
‏📗 نہج البلاغہ۔حکمت 27
 

سیما علی

لائبریرین
وقت کی ناقدری کی ایک بڑی وجہ طبیعت کی سستی اور لا پرواہی ہے۔علاوہ ازیں آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت بھی وقت کی ناقدر شناسی کا باعث ہوتی ہے۔ اس عادت کو انگریزی میں Procrastination کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں لوگ وقت کو ضائع نہیں کرتے بلکہ یہ عادت ان کی زندگی ضائع کردیتی ہے۔ وقت کی قدر کرو، وقت بیش بہا دولت ہے، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں، جو وقت کی قدر نہیں جانتا وہ بہت گھاٹے میں ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اقوال دنیاکی ہر زبان میں موجود ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اقوال کو عملی جامہ پہنا کر وقت کو صحیح استعمال کر کے اپنی کامیابی اور ملک و ملت کی بقاء کے لئے فعال کردار ادا کریں۔
 

سیما علی

لائبریرین
امیرالمؤمنینؑ علی علیہ السلام نہج البلاغہ

کفایت شعاری​

وَ لَا تَسْأَلُوافِيهَافَوْقَ الْكَفَافِ۔ (خطبہ 45)
اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو۔

انسان جس دنیا میں رہتا ہے اگر اسے مقصد اور ہدف زندگی سمجھ بیٹھے تو جتنی دنیا زیادہ ملے گی اتنا خوش ہوگا اور خود کو کامیاب انسان سمجھے گا۔ اگر دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہو اور یقین کر لے کہ اس سے جانا ہے تو اس کا برتاؤ اس دنیا سے اور طریقے کا ہوگا۔ امیرالمؤمنینؑ نہج البلاغہ میں جن موضوعات پر زیادہ زور دیتے ہیں ان میں سے ایک دنیا کی حقیقت سے آشنائی ہے۔ مورد بحث فرمان میں آپ نے دنیا کی محبت میں کھو جانے اور اس کی خوشنمائی میں گم ہو جانے سے خبردار کیا ہے اور اسے سعادت و کمال کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ البتہ دنیا کمانے سے منع نہیں کیا بلکہ ارشاد فرمایا کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا چاہو مگر اپنی ضرورت سے زیادہ کی تمنا مت کرو اس لیے کہ دنیا کی ضرورتیں جتنی بڑھاتے جاؤ گے وہ بڑھتی جائیں گی۔ دنیا میں اس پر کفایت کرو کہ آپ کو ضرورت کے پورا کرنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اور کفایت شعاری یہی ہے کہ یوں زندگی گزاروں اور اتنا ضرور کماؤ کہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلانا پڑے۔ کفایت شعاری کے ذریعہ یعنی اپنے اخراجات پر کنٹرول کر کے آپ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچائیں اور یہی حقیقت میں دولت مندی و غنا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے یہی فرمایا کہ اپنی ضروریات سے زیادہ نہ چاہو اور جس سے زندگی بسر ہو جائے اس سے زیادہ کی خواہش بھی نہ کرو۔ ہاں اگر آپ کو اپنی ضرورت و چاہت سے زیادہ مل جاتا ہے تو یہ بھی سعادت کا ذریعہ بن سکتا ہے جب آپ اس سے اپنی ضروریات کو پورا کر کے دوسروں کی ضروریات بھی پوری کریں۔ اور کسی ہاتھ پھیلانے والے سے بھی یوں تعاون کریں کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے آئندہ بچ جائے
 

رباب واسطی

محفلین

اپنی زندگی میں رشتوں کو بھی ساتھ لیکر چلنا چاہئے جن کے بغیر زندگی نہیں گزاری جاسکتی ۔ ہماری زندگی ان رشتوں کے بغیر ادھوری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رشتے کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)​

آم۔۔۔۔۔ین ثم آمین
 

رباب واسطی

محفلین
بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں
یہ احساس اور یہ جذبہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کی مدد پر ابھارتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہےکہ آج ہم بالخصوص نوجوان نسل تعصب کا شکار نظر آتی ہے
مذہبی اور سیاسی گروہوں میں بٹ کر ہمارے نوجوان اپنے ہی بھائیوں کے دشمن بنتے جارہے ہیں
نفرت اور وحشت کا یہ احساس جہاں ان کے ذہن پر اثر انداز ہو رہاہے وہیں ان کی شخصیت کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے
نوجوان اپنی شخضیت کو سحر انگیز بنانا چاہتے ہیں تو انہیں نفرت، دہشت، فرقہ واریت، نسل پرستی اور تعصب جیسے جذبات کو اپنے دل و دماغ سے نکالنا ہوگا اور اس کی جگہ محبت، ہمدردی، ایثار اور ایک دوسرے کی مدد جیسے جذبات و احساسات کو پروان چڑھانا ہوگا
اس کے لئے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ مختلف رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں سے ملاقات کریں
ان سے دوستی اور تعاون کریں
ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کریں
اس کے علاوہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں مختلف علاقوں، رنگ و نسل، مذہب اور قومیت پر معلومات ہوں
خود کو وسیع النظر بنانا بھی ضروری ہے
کسی کے لباس، شکل و صورت، رنگ و انداز کا مذاق نہ اڑائیں بلکہ سب کی عزت و احترام کریں
یاد رکھیں جب آپ دوسروں کی عزت کریں گے تو دوسرے بھی آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں گے

منقول
 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم
کیسی ہیں آپ ۔
بہت اچھا محسوس ہوتا ہے جب آپ محفل میں آتیں ہیں ۔۔آپ سے انسیت کی خاص وجہ ایک یہ بھی کہ آپکا نام اور چھوٹی بیٹی کانام ایک ہے ۔۔ایک رباب گھر میں ہیں اور ایک محفل میں ۔۔۔
جیتی رہیے خوش رہیے ۔۔🥰🥰🥰🥰🥰
 

رباب واسطی

محفلین
السلام علیکم
کیسی ہیں آپ ۔
بہت اچھا محسوس ہوتا ہے جب آپ محفل میں آتیں ہیں ۔۔آپ سے انسیت کی خاص وجہ ایک یہ بھی کہ آپکا نام اور چھوٹی بیٹی کانام ایک ہے ۔۔ایک رباب گھر میں ہیں اور ایک محفل میں ۔۔۔
جیتی رہیے خوش رہیے ۔۔🥰🥰🥰🥰🥰
🌹
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ارسطو کا قول ہے جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں وہ ان سے زیادہ عزت مند اور قابل احترام ہیں جو بچوں کو پیدا کرتے ہیں ، یہ اس لیے کہ والدین بچوں کو صرف زندگی دیتے ہیں اور اساتذہ ان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ، الغرض استاد ہر لحاظ سے واجب الاحترام ہے ۔

سکندر اعظم کا واقعہ مشہور ہے ، وہ اپنے ارسطو کے ساتھ سفر کر رہا تھا ، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے ، سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے ، ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا استاد ہوں ، تمہیں میری بات ماننی ہوگی ، پانی میں پہلے میں اتروں گا ، سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاد محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جا سکتی ہے ، لہٰذا! میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہو جائے ، کیونکہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کر سکتے ہیں ، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
بعد میں سکندر نے اپنی فوج کا جوان اتروا کر گہرائی معلوم کروائی۔۔۔ پھر دونوں ہی اترنے سے باز رہے۔۔۔ دروغ بہ گردن فلاں فلاں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وقت کی ناقدری کی ایک بڑی وجہ طبیعت کی سستی اور لا پرواہی ہے۔علاوہ ازیں آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادت بھی وقت کی ناقدر شناسی کا باعث ہوتی ہے۔ اس عادت کو انگریزی میں Procrastination کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں لوگ وقت کو ضائع نہیں کرتے بلکہ یہ عادت ان کی زندگی ضائع کردیتی ہے۔ وقت کی قدر کرو، وقت بیش بہا دولت ہے، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں، جو وقت کی قدر نہیں جانتا وہ بہت گھاٹے میں ہے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار اقوال دنیاکی ہر زبان میں موجود ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اقوال کو عملی جامہ پہنا کر وقت کو صحیح استعمال کر کے اپنی کامیابی اور ملک و ملت کی بقاء کے لئے فعال کردار ادا کریں۔
اس پوسٹ کو پڑھ کر اتنا دکھ ہوا ہے کہ اب اگلا مہینہ کوچے کا دروازہ بند کر کے لیٹا رہوں گا۔۔ نہ کہیں آؤں گا نہ جاؤں گا۔۔۔ بس۔۔۔
 
Top