آج کا شعر

سیما علی

لائبریرین
کامیابی کا سدیشی پر ہر اک در بستہ ہے
چونچ طوطا رام نے کھولی مگر پربستہ ہے

دھن دیس کی تھی جس میں گاتا تھا اک دہاتی
بسکٹ سے ہے ملائم پوری ہے یا چپاتی

تحریک سودیشی پہ مجھے وجد ہے اکبرؔ
کیاخوب یہ نغمہ ہے چھڑا دیس کی دھن میں
 

سیما علی

لائبریرین
شگفتہ کیے گل ، بہ فصلِ بہار
عنادل بھی اور قمری و کبک و سار
بر و برگ و نخل و شجر ، شاخسار
طراوت سے،خوشبو سے ہنگامِ کار
رواں کی صبا ہر طرف اور نسیم

نظیر اکبر آبادی
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
مرزا اسد اللّہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین
کھوجتا کیا ہے اندھیروں میں تفاہم کے دیے
آ چراغوں میں لہو ڈال، اجالے ہوں گے
ذوالفقار نقوی
 
Top