آج کا زبردست پاکستان

عاطف بٹ

محفلین
رانا صاحب اور حسان خان ، اب کافر و مسلمان کی بحث پر بھی ایک بات آپ کی نذر۔ اقبال کی کتاب 'ضربِ کلیم' کی نظم 'ہندی مسلمان' کا یہ شعر پڑھئے اور اس کی وضاحت کردیجئے ذرا پلیز:
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت​
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر​
 
حسان خان صاحب میرا آپ سے یا دیگر صاحبان سے بحث کرنے کا کوئی ارادہ نہیں لیکن قادیانیوں کو مسلمانوں کا فرقہ بنانے سے قبل فقط کلمہ طیبہ کا ترجمہ پڑھ لیجئیے۔خدارا مسلمانوں پر اتنا ظلم مت کریں
 
میں انشاءاللہ جلد اس حوالے سے آپ کو باقاعدہ حوالہ فراہم کردوں گا اور ساتھ ہی کوشش کروں گا قومی اسمبلی میں ہونے والی اس بحث کے کچھ حصوں کی نقل بھی یہاں پیش کرسکوں۔


میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں کہ احمدی آرگ ایک قادیانی مخالف ویب سائٹ ہے مگر میں نے اس ویب سائٹ کا حوالہ اس لئے دیا تھا کہ مجھے یہاں مذکورہ چیزیں اکٹھی پڑی ہوئی مل گئیں۔
آپ یہ بتائیے کہ کیا احمد یوسف کو بھی احمدی آرگ والوں نے ہی قتل کیا تاکہ جماعت احمدیہ پر الزام لگ سکے؟
کیا آپ کے خلیفہء خامس مرزا مسرور احمد کو احمد یوسف کی بیٹی نجمہ سے خطوط بھی احمدی آرگ والوں نے ہی لکھوائے؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو کیا آپ کے خلیفہء خامس یا جماعت کے دیگر ذمہ داران کو احمد یوسف کو بہیمانہ تشدد کر کے قتل کرنے والوں کو بےنقاب کرنے سے بھی احمدی آرگ والوں نے ہی روکا؟
کیا احمد یوسف، آپ کی جماعت کے مربی ذیشان علوی اور اس کے دونوں بھائیوں فاروق علوی اور عمران علوی، محلہ دارالعلوم والے شکیل احمد اور کراچی کے نذر محمد جوئیہ کے موبائل فونز کا ریکارڈ بھی احمدی آرگ والوں ہی جعلی بنوادیا جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بندے احمد یوسف کے قتل کے روز کہاں تھے اور ان کا کتنی بار اور کتنی دیر کے لئے آپس میں رابطہ ہوا؟
آپ کی جماعت نے اس سلسلے میں محلہ نصرت آباد میں کیوں تفتیش نہیں کی؟ کیا احمدی آرگ والوں نے روک دیا تھا؟

اب اس قتل کو ایک طرف رکھئے اور آئیے بشیر احمد مصری صاحب والے معاملے کی طرف۔
یہ بتائیے کہ بشیر احمد مصری کے والد عبدالرحمٰن مصری، جو آپ کی جماعت کے اہم ترین ارکان میں شمار ہوتے تھے، کو احمدی آرگ والوں نے آپ کے خلیفہء ثانی مرزا محمود احمد کے کردار کے بارے میں ساری معلومات فراہم کی تھیں؟
کیا آپ کے خلیفہء ثانی کو عبدالرحمٰن مصری سے ان کے کردار کے بارے میں وضاحت کے لئے تین خطوط بھی احمدی آرگ والوں نے لکھوائے تھے؟
کیا آپ کے خلیفہء ثانی کو ان تینوں خطوں کا جواب نہ دینے اور مباہلے نہ کرنے کا مشورہ بھی احمدی آرگ والوں نے دیا تھا؟
کیا عبدالرحمٰن مصری اور فخرالدین ملتانی کو مل کر مرزا غلام احمد کا مذہب آپ کے خلیفہء ثانی کے تسلط سے نکلوانے کے لئے احمدی آرگ والوں نے ہی اکسایا تھا؟
کیا عبدالرحمٰن مصری اور فخرالدین ملتانی پر قاتلانہ حملہ مرزا محمود کے پیروکاروں نے احمدی آرگ والوں کے کہنے پر کیا تھا؟
کیا عبدالرحمٰن مصری کے بیٹے بشیر احمد مصری نے مرزا محمود کے جو معاملات دیکھے، وہ احمدی آرگ والوں کی کوئی سازش تھی؟
کیا بشیر احمد مصری نے مرزا محمود کے خلاف مضامین احمدی آرگ والوں کے کہنے پر لکھے تھے؟
کیا 1988ء میں آپ کے خلیفہء چہارم مرزا طاہر نے احمدی آرگ والوں کے کہنے پر مباہلے کا چلینج کیا تھا، جس کے جواب میں بشیر احمد مصری نے جب ان کا چیلنج قبول کرلیا تو وہ کبھی مقابلے میں آنا تو دور کی بات انہیں جواب بھی نہیں دے سکے؟


رانا صاحب، میں مرزا غلام احمد قادیانی کے پہلے دعوے لے کر آپ کے خلیفہء خامس مرزا مسرور احمد کے کینیڈا میں معاملات تک اتنے کیا اور کیوں آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں کہ آپ ہزار سال کی زندگی بھی لے لیں تو ان کے جواب نہیں دے سکتے۔
:applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause: :applause:
عاطف بھائی مزہ آگیا۔جیتے رہیں
 

عسکری

معطل
میں نے سنا ہے کہ پبلک بار بار ڈس لائیک کے نوٹیفیکشن بھیجی جا رہی ہے کیسا مسئلہ ہو گیا بھئی :whistle: :whistle: :grin:
 

رانا

محفلین
میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں کہ احمدی آرگ ایک قادیانی مخالف ویب سائٹ ہے مگر میں نے اس ویب سائٹ کا حوالہ اس لئے دیا تھا کہ مجھے یہاں مذکورہ چیزیں اکٹھی پڑی ہوئی مل گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاطف صاحب آپ تو فلمی انداز میں جذباتی ہوگئے۔ اسطرح تو صرف فلموں میں ہوتا ہے کہ کیا کیا اور کہاں کہاں کی گردان کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے۔اور ہر سوال میں احمدی آرگ کا ڈرامائی تذکرہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بھی کوئی کسی غیر مصدقہ سورس کی طرف اشارہ کردے تو فورا کیا کیا کی گردان اس سورس کا نام لے لے کر کی جائے کہ کیا فلاں سورس نے یہ کیا تھا کیا یہ بھی فلاں سورس نے کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کہ کچھ منچلے اکثر فیس بک پر اس طرح کے ڈرامے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھائی آپ ایک سلجھے ہوئے شخص ہیں کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ان ڈائلاگ کی بجائے آپ اصل واقعہ کو ہی سلیس اردو میں بیان کردیتے کہ میں بھی اور محفلین بھی یہ تو جان لیتے کہ آپ کس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں اور کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔

بہرحال مختصر یہ کہ آپ کی اس کیا کیا کی گردان سے جو پوائنٹ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ احمد یوسف صاحب کے قتل میں جماعت احمدیہ آفیشلی ملوث ہے یا اس کے عہدیداران ملوث ہیں۔
کیا میں نے آپ کی اس کیا کیا سے درست نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اگر ہاں تو یہ بھی بتائیں کہ اس کیس میں جو آپ ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں کہ جماعت کے عہدیداران ملوث ہیں تو وجہ کیا تھی؟
اگر ایسا ہی ہے تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکر آپ کیوں گول کرگئے؟
اگر جماعت کے ملوث ہونے کے ثبوت بہت واضع تھے تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب پر پولیس کی طرف سے اتنا بہیمانہ تشدد کیوں کیا گیا؟
ان سے اس بیان پر دستخط لینے کے لئے زور کیوں ڈالا گیا کہ اس قتل میں جماعت کے فلاں فلاں عہدیدار شامل ہیں؟
اتنے تشدد کے بعد بھی پولیس اپنے مطلب کا بیان تو نہ حاصل کرپائی لیکن ماسٹر عبدالقدوس صاحب اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ غیر قانونی طور پولیس کسٹڈی میں بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں ہونے والا یہ قتل کس کھاتے میں ڈالا گیا ہے؟
(ڈان، ڈیلی ٹائمز، ٹرائبیون )
ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف جماعت کی طرف سے جو پرچہ درج کرانے کے کوشش کی گئی تو پولیس اور حکومت کے اعلی عہدیدار کیوں رکاوٹ بنتے رہے؟
کیوں تمام حکومتی مشینری اس معاملے میں جماعت کو صلح صفائی سے یہ معاملہ ختم کرنے پر زور دیتی اور مجبور کرتی رہی؟
اگر جماعت اس قتل میں ملوث تھی جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے تو کیوں جماعت نے ایسے موقع پر جبکہ پولیس کے اعلی افسران اور حکومتی عہدیداران صلح کے لئے دباو ڈال رہے تھے صلح نہ کرلی؟
یہ تو بہت اچھا موقع تھا کہ جماعت کو خود معاملہ ختم کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے تو جماعت کو تو فورا قبول کرلینا چاہئے تھی؟
کیوں جماعت نے ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا؟
اور پرچہ درج کرنے پر اصرار کرتی رہی؟
پھر جب معاملہ کی ہوا کچھ باہر نکلی کچھ میڈیا کو پتہ لگا تو پرچہ درج ہوا لیکن اس پر کیا کاروائی ہوئی؟
کیا ان پولیس اہلکاروں کو اکسانے والے اعلی افسران کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟

عاطف صاحب! آپ کی باتوں سے لگا تھا کہ آپ کے پاس کچھ بہت ہی خاص ہے جس کی کسی کو خبر نہیں اسی لئے میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ مجھے بھی بتائیں لیکن آپ نے تو ایک اور بے ثبوت الزام پیش کردیا۔ دوسری بار بھی آپ نے جذباتی انداز میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے۔ میرے عزیز بھائی اس طرح کے واقعات تو آئے دن جماعت کو قانونی گرفت میں لانے کے لئے کئے جاتے رہتےہیں۔ منافق تو اس جماعت میں بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی ویسے ہی منافقوں کے ساتھ مل کر آج آپ لوگ جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ آپ کا ایک نام نہاد پوتا عبدالرحمان بھی تھا جس کی خبر سے یہ دھاگہ شروع ہوا۔ البتہ یہ سمجھ کسی کو نہیں آئی کہ تمام پاور اور حکومتی مشنری مل کر بھی اس پر امن جماعت کو تمام کوششوں کے باوجود آج تک ایک بار بھی قانونی گرفت میں نہ لاسکی۔ سوچنے کی بات ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔

آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اسطرح کے کیس بنانا اور اصل واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا یا بالکل نئی بات گھڑ کر پھیلانا جماعت کے مخالفین کا عام وطیرہ ہے۔ آپ کی توجہ اس سے بھی ایک بہت بڑے کیس کی طرف مبذول کرادیتا ہوں شائد آپ گڑے مردے اکھیڑ کر سچ میں ہیرو بن سکیں۔ عبدالرحمان تو ابھی کل کی بات ہے نا اس کو چھوڑیں پھر آپ جو نئی چیز لائے ہیں اسے بھی پیچھے ذرا چلیں 1985 میں ایک مولانا صاحب غائب ہوئے تھے نام تھا مولانا اسلم قریشی۔ تھے تو وہ ایک لفٹ آپریٹر لیکن جماعت مخالف جذبے کے تحت مولانا کا لقب مل گیا۔ بہرحال وہ لاپتہ ہوئے اور الزام ایک بار پھر لگا جماعت احمدیہ کے عہدیدران پر۔ بلکہ ایک قدم آگے جماعت کے امام مرزا طاہر احمد صاحب پر۔ 1985 سے لے کر 1988 تک یہ کیس بہت اچھالا گیا اور دلچسپ بات کہ یہاں آپ کے کیس میں تو صرف صوبائی حکومت کی مشنری شامل تھی اُس کیس میں پورے پاکستان کی مشنری جنرل ضیا کی سربراہی میں اس کیس کے پیچھے کھڑی تھی۔ ہر تفتیش کا کھرا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی طرف جاتا تھا۔ الا ماشاء اللہ تمام علماء کے آئے دن بیان اخبارات میں چھپتے تھے کہ مولانا اسلم قریشی کے قاتل مرزا طاہر احمد کو لندن سے گرفتار کرکے پاکستان لاکر پھانسی دی جائے۔ آپ اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں بہت دلچسپ رہیں گے آپ کے لئے۔ بہرحال 1988 میں مولانا اسلم قریشی مقتول جن کی نماز جنازہ پتہ نہیں کتنی بار پڑھی جاچکی تھی کوئی شمار نہیں وہ ایک دن اچانک سامنے آگئے۔ پورے پاکستان کو سانپ سونگھ گیا۔ مولانا صاحب نے پریس کے سامنے بیان دیا کہ میں تو ایران چلا گیا تھا اور جنگ میں شامل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد علماء کے کیا کیا بیان چھپے وہ بھی پڑھیے گا بہت دلچسپ تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ اصلی مولانا اسلم قریشی نہیں ہے۔ ایک نے کہا کہ مولانا کو ہپنا ٹائز کیا گیا ہے۔ ایک نے کہا کہ برین واشنگ کی گئی ہے۔ مولانا کی اس نقاب کشائی کے بعد کے بیانات ضرور پڑھئے گا آپ کو بہت کچھ افاقہ ہوگا۔ خود مولانا کے بیان بھی کم دلچسپ نہیں ہیں۔

اب اس قتل کو ایک طرف رکھئے اور آئیے بشیر احمد مصری صاحب والے معاملے کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جس کیس تک آپ کی پہنچ ہے جو آپ کے صوبے کا ہی ہے اس میں تو آپ نے سوائے باتوں کے کچھ پیش نہیں کیا مصر کے کیس کی آپ کیا تفتیش کریں گے۔ اگر صرف جماعت مخالف ویب سائٹ سے ہی مواد لینا ہے تو پہلے ہی بتادیتے۔

کیا 1988ء میں آپ کے خلیفہء چہارم مرزا طاہر نے احمدی آرگ والوں کے کہنے پر مباہلے کا چلینج کیا تھا، جس کے جواب میں بشیر احمد مصری نے جب ان کا چیلنج قبول کرلیا تو وہ کبھی مقابلے میں آنا تو دور کی بات انہیں جواب بھی نہیں دے سکے؟
اس ایک بات نے آپ کی تحقیق کی حقیقت کھول کر بیان کردی۔۔۔۔
صرف ایک سوال کی جسارت کروں گا کہ کیا آپ نے وہ چیلنچ کبھی دیکھا بھی ہے؟
کبھی کھول کر پڑھا ہے؟
وہ شائد دس سے زیادہ صفحات کا نہیں ہے اگر کبھی پڑھ لیا ہوتا تو ایسا گھسا پٹا کہیں سے نقل کیا ہوا اعتراض کرنے سے پہلے ضرور کچھ سوچتے۔
اب بھی پڑھ کر صرف اتنا بتادیں کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کی کیا صورت بیان کی گئی تھی؟
اور ظاہر ہے کہ جب قبول کرلیا گیا تھا بقول آپ کے تو مرزا طاہر احمد صاحب کے مقابلے سے فرار کا کیا مطلب؟ اس چیلنج میں تو فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا؟
صرف فریق ثانی نے قبول کرنا تھا اور مباہلہ شروع ہوجاتا۔۔۔۔
لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ کیا یہ چیلنج صرف مصر کے اس ایک عالم نے قبول کیا تھا پورے پاکستان کے علماء کو کیا ہوگیا تھا؟ ان سب کو چھوڑ کر مصر جانا کچھ سمجھ نہیں آیا؟
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف صاحب آپ تو فلمی انداز میں جذباتی ہوگئے۔ اسطرح تو صرف فلموں میں ہوتا ہے کہ کیا کیا اور کہاں کہاں کی گردان کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے۔اور ہر سوال میں احمدی آرگ کا ڈرامائی تذکرہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بھی کوئی کسی غیر مصدقہ سورس کی طرف اشارہ کردے تو فورا کیا کیا کی گردان اس سورس کا نام لے لے کر کی جائے کہ کیا فلاں سورس نے یہ کیا تھا کیا یہ بھی فلاں سورس نے کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کہ کچھ منچلے اکثر فیس بک پر اس طرح کے ڈرامے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھائی آپ ایک سلجھے ہوئے شخص ہیں کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ان ڈائلاگ کی بجائے آپ اصل واقعہ کو ہی سلیس اردو میں بیان کردیتے کہ میں بھی اور محفلین بھی یہ تو جان لیتے کہ آپ کس واقعہ کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں اور کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں۔
رانا صاحب، میں یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ مجھے اس جگہ اکٹھی چیزیں ملی تھیں اس لئے اس طرف اشارہ کردیا۔ آپ کا اعتراض تھا کہ وہ قادیانی مخالف ویب سائٹ ہے، اس لئے ہر سوال میں اس کا نام لیا اور اس پر بات کی۔

بہرحال مختصر یہ کہ آپ کی اس کیا کیا کی گردان سے جو پوائنٹ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ احمد یوسف صاحب کے قتل میں جماعت احمدیہ آفیشلی ملوث ہے یا اس کے عہدیداران ملوث ہیں۔
کیا میں نے آپ کی اس کیا کیا سے درست نتیجہ اخذ کیا ہے؟
اگر ہاں تو یہ بھی بتائیں کہ اس کیس میں جو آپ ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں کہ جماعت کے عہدیداران ملوث ہیں تو وجہ کیا تھی؟
اگر ایسا ہی ہے تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکر آپ کیوں گول کرگئے؟
اگر جماعت کے ملوث ہونے کے ثبوت بہت واضع تھے تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب پر پولیس کی طرف سے اتنا بہیمانہ تشدد کیوں کیا گیا؟
ان سے اس بیان پر دستخط لینے کے لئے زور کیوں ڈالا گیا کہ اس قتل میں جماعت کے فلاں فلاں عہدیدار شامل ہیں؟
اتنے تشدد کے بعد بھی پولیس اپنے مطلب کا بیان تو نہ حاصل کرپائی لیکن ماسٹر عبدالقدوس صاحب اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ غیر قانونی طور پولیس کسٹڈی میں بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں ہونے والا یہ قتل کس کھاتے میں ڈالا گیا ہے؟
(ڈان، ڈیلی ٹائمز، ٹرائبیون )
ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف جماعت کی طرف سے جو پرچہ درج کرانے کے کوشش کی گئی تو پولیس اور حکومت کے اعلی عہدیدار کیوں رکاوٹ بنتے رہے؟
کیوں تمام حکومتی مشینری اس معاملے میں جماعت کو صلح صفائی سے یہ معاملہ ختم کرنے پر زور دیتی اور مجبور کرتی رہی؟
اگر جماعت اس قتل میں ملوث تھی جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے تو کیوں جماعت نے ایسے موقع پر جبکہ پولیس کے اعلی افسران اور حکومتی عہدیداران صلح کے لئے دباو ڈال رہے تھے صلح نہ کرلی؟
یہ تو بہت اچھا موقع تھا کہ جماعت کو خود معاملہ ختم کرنے کی پیشکش کی جارہی ہے تو جماعت کو تو فورا قبول کرلینا چاہئے تھی؟
کیوں جماعت نے ان تمام پیشکشوں کو ٹھکرا دیا؟
اور پرچہ درج کرنے پر اصرار کرتی رہی؟
پھر جب معاملہ کی ہوا کچھ باہر نکلی کچھ میڈیا کو پتہ لگا تو پرچہ درج ہوا لیکن اس پر کیا کاروائی ہوئی؟
کیا ان پولیس اہلکاروں کو اکسانے والے اعلی افسران کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی؟

ماسٹر عبدالقدوس کا کیس گول کرنے کی بات تو آپ تب کریں جب میں احمد یوسف کے قتل پر تفصیلی بات کی ہو۔ میں نے ایک حوالہ دیدیا تھا آپ کو جسے آپ نے دیکھے بغیر ہی غیرمصدقہ قرار دیدیا۔ جس کے جواب میں کچھ سوالات اٹھانے پڑے۔
ماسٹر عبدالقدوس محلہ نصرت آباد کے ہی صدر تھے اور ان کے موبائل کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ یقیناً وہ میں نے یا کسی بھی اور غیرقادیانی نے جعلی تو نہیں بنایا ہوگا ناں۔
ماسٹر عبدالقدوس کا قتل بھی ایک مشکوک کہانی ہے۔ آپ بتادیجئے، کون سے اعلیٰ عہدیدار تھے حکومت کے جو اس سارے سلسلے میں ملوث رہے۔
جماعت نے محض ماسٹر عبدالقدوس کے قتل پر ہی کیوں اتنی توجہ دی، کیا احمد یوسف قادیانی نہیں تھے؟ ان کا قتل تو اس جگہ ہوا جو آپ لوگوں کا گڑھ سمجھی جاتی ہے، پھر اس کی تفتیش اور تحقیقات کا پر زور کیوں نہیں دیا گیا؟
ماسٹر عبدالقدوس کے مرتے ہی احمد یوسف کے قتل والا معاملہ دبنے سے فائدہ کسے پہنچا؟
آپ کے لوگ بےگناہ تھے تو موبائل ریکارڈز فراہم کردیتے، خود تفتیش و تحقیق کروالیتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بیوروکریسی میں بہت اعلیٰ عہدوں پر بھی قادیانی جماعت سے وابستہ لوگ موجود ہیں تو کیوں جماعت کی جان چھڑانے کے لئے احمد یوسف کے بہیمانہ قتل کی غیرجانبدار تفتیش نہیں کروائی گئی؟
اعلیٰ عہدوں پر آپ کے بےشمار لوگ موجود ہونے کے باوجود آپ کی جماعت کے ایک اہم رکن پر ایک جھوٹے مقدمے میں پولیس تشدد کرتی رہی اور جماعت نے کچھ بھی نہیں کیا؟ بہت حیرت ہے! اس تشدد سے وہ بندہ مرگیا اور جماعت پر صلح صفائی کے لئے دباؤ ڈالا جاتا رہا، گویا آپ کے لوگوں نے اپنا اثرورسوخ استعمال نہیں کیا؟
آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ تمام حکومتی مشینری سے مراد کیا ہوتی ہے۔ کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ تمام حکومتی مشینری اس ایک مسئلے کو حل کرنے پر لگ گئی تھی؟ میرے بھائی، آپ کو شاید یہ نہیں پتا کہ پولیس تشدد سے لوگوں کے مرنے کے حوالے سے آئے روز پولیس اہلکاروں پر مقدمات درج ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کون سی اچنبھے کی بات تھی جس کے لئے پوری حکومتی مشینری کو زور لگانا پڑا۔
آپ اس سارے سلسلے میں احمد یوسف کے قتل پر بات کیوں نہیں کررہے؟ نجمہ بی بی کے خطوط پڑھ لیجئے، کچھ اور باتیں بھی آپ کے سامنے آجائیں گی۔ اگر جماعت بےگناہ تھی اس سلسلے میں تو نجمہ بی بی کے آپ کے خلیفہء خامس کو لکھے گئے خط کے بعد آپ لوگوں نے اپنا اعلیٰ سطحی اثرورسوخ استعمال کرکے اس کیس کی تفتیش کیوں نہیں کروائی؟

عاطف صاحب! آپ کی باتوں سے لگا تھا کہ آپ کے پاس کچھ بہت ہی خاص ہے جس کی کسی کو خبر نہیں اسی لئے میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ مجھے بھی بتائیں لیکن آپ نے تو ایک اور بے ثبوت الزام پیش کردیا۔ دوسری بار بھی آپ نے جذباتی انداز میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکے۔ میرے عزیز بھائی اس طرح کے واقعات تو آئے دن جماعت کو قانونی گرفت میں لانے کے لئے کئے جاتے رہتےہیں۔ منافق تو اس جماعت میں بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی ویسے ہی منافقوں کے ساتھ مل کر آج آپ لوگ جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسا کہ آپ کا ایک نام نہاد پوتا عبدالرحمان بھی تھا جس کی خبر سے یہ دھاگہ شروع ہوا۔ البتہ یہ سمجھ کسی کو نہیں آئی کہ تمام پاور اور حکومتی مشنری مل کر بھی اس پر امن جماعت کو تمام کوششوں کے باوجود آج تک ایک بار بھی قانونی گرفت میں نہ لاسکی۔ سوچنے کی بات ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے۔
میں بتا چکا ہوں کہ اپنا نام عبدالرحمٰن بتانے والا وہ شخص جھوٹا اور دھوکے باز ہے۔

آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اسطرح کے کیس بنانا اور اصل واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا یا بالکل نئی بات گھڑ کر پھیلانا جماعت کے مخالفین کا عام وطیرہ ہے۔ آپ کی توجہ اس سے بھی ایک بہت بڑے کیس کی طرف مبذول کرادیتا ہوں شائد آپ گڑے مردے اکھیڑ کر سچ میں ہیرو بن سکیں۔ عبدالرحمان تو ابھی کل کی بات ہے نا اس کو چھوڑیں پھر آپ جو نئی چیز لائے ہیں اسے بھی پیچھے ذرا چلیں 1985 میں ایک مولانا صاحب غائب ہوئے تھے نام تھا مولانا اسلم قریشی۔ تھے تو وہ ایک لفٹ آپریٹر لیکن جماعت مخالف جذبے کے تحت مولانا کا لقب مل گیا۔ بہرحال وہ لاپتہ ہوئے اور الزام ایک بار پھر لگا جماعت احمدیہ کے عہدیدران پر۔ بلکہ ایک قدم آگے جماعت کے امام مرزا طاہر احمد صاحب پر۔ 1985 سے لے کر 1988 تک یہ کیس بہت اچھالا گیا اور دلچسپ بات کہ یہاں آپ کے کیس میں تو صرف صوبائی حکومت کی مشنری شامل تھی اُس کیس میں پورے پاکستان کی مشنری جنرل ضیا کی سربراہی میں اس کیس کے پیچھے کھڑی تھی۔ ہر تفتیش کا کھرا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی طرف جاتا تھا۔ الا ماشاء اللہ تمام علماء کے آئے دن بیان اخبارات میں چھپتے تھے کہ مولانا اسلم قریشی کے قاتل مرزا طاہر احمد کو لندن سے گرفتار کرکے پاکستان لاکر پھانسی دی جائے۔ آپ اس دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں بہت دلچسپ رہیں گے آپ کے لئے۔ بہرحال 1988 میں مولانا اسلم قریشی مقتول جن کی نماز جنازہ پتہ نہیں کتنی بار پڑھی جاچکی تھی کوئی شمار نہیں وہ ایک دن اچانک سامنے آگئے۔ پورے پاکستان کو سانپ سونگھ گیا۔ مولانا صاحب نے پریس کے سامنے بیان دیا کہ میں تو ایران چلا گیا تھا اور جنگ میں شامل ہوگیا تھا۔ اس کے بعد علماء کے کیا کیا بیان چھپے وہ بھی پڑھیے گا بہت دلچسپ تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ اصلی مولانا اسلم قریشی نہیں ہے۔ ایک نے کہا کہ مولانا کو ہپنا ٹائز کیا گیا ہے۔ ایک نے کہا کہ برین واشنگ کی گئی ہے۔ مولانا کی اس نقاب کشائی کے بعد کے بیانات ضرور پڑھئے گا آپ کو بہت کچھ افاقہ ہوگا۔ خود مولانا کے بیان بھی کم دلچسپ نہیں ہیں۔


یہ بہت حیرت کی بات نہیں لگتی آپ کو کہ جماعتی عہدیداروں کی اصلیت سے واقف کئی افراد اب تک پُراسرار طور پر قتل ہوچکے ہیں اور ان کے قتل کا الزام آپ کی جماعت پر ہی لگتا ہے مگر ہر طرح کا اثرورسوخ رکھنے کے باوجود آپ لوگوں نے ایسے کسی ایک بھی قتل کی تحقیقات ٹھیک سے کروا کے قاتلوں کو بےنقاب نہیں کیا۔

محترم جس کیس تک آپ کی پہنچ ہے جو آپ کے صوبے کا ہی ہے اس میں تو آپ نے سوائے باتوں کے کچھ پیش نہیں کیا مصر کے کیس کی آپ کیا تفتیش کریں گے۔ اگر صرف جماعت مخالف ویب سائٹ سے ہی مواد لینا ہے تو پہلے ہی بتادیتے۔
رانا صاحب، آپ تو اپنی جماعت کے لوگوں کے بارے میں ہی نہیں جانتے تو بحث کیا کریں گے۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ بشیر احمد مصری کو مصری کیوں کہاں جاتا ہے اور وہ رہتے کہاں تھے؟

اس ایک بات نے آپ کی تحقیق کی حقیقت کھول کر بیان کردی۔۔۔ ۔
صرف ایک سوال کی جسارت کروں گا کہ کیا آپ نے وہ چیلنچ کبھی دیکھا بھی ہے؟
کبھی کھول کر پڑھا ہے؟
وہ شائد دس سے زیادہ صفحات کا نہیں ہے اگر کبھی پڑھ لیا ہوتا تو ایسا گھسا پٹا کہیں سے نقل کیا ہوا اعتراض کرنے سے پہلے ضرور کچھ سوچتے۔
اب بھی پڑھ کر صرف اتنا بتادیں کہ اس چیلنج کو قبول کرنے کی کیا صورت بیان کی گئی تھی؟
اور ظاہر ہے کہ جب قبول کرلیا گیا تھا بقول آپ کے تو مرزا طاہر احمد صاحب کے مقابلے سے فرار کا کیا مطلب؟ اس چیلنج میں تو فرار کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا؟
صرف فریق ثانی نے قبول کرنا تھا اور مباہلہ شروع ہوجاتا۔۔۔ ۔
لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ کیا یہ چیلنج صرف مصر کے اس ایک عالم نے قبول کیا تھا پورے پاکستان کے علماء کو کیا ہوگیا تھا؟ ان سب کو چھوڑ کر مصر جانا کچھ سمجھ نہیں آیا؟
آپ کی جماعت سے منسلک لوگ ہی مباہلے کا چلینج قبول کررہے تھے تو باہر سے کسی نے کیا کہنا تھا جناب؟ کہیں تو مصری صاحب کا وہ خط بھی پیش کردوں جو انہوں نے مرزا طاہر کو لکھا تھا؟
گزارش ہے کہ ایک بار پڑھ لیں ذرا کہ عبدالرحمٰن مصری اور بشیر احمد مصری کون تھے اور جماعت میں ان کا کیا کردار رہا ہے۔
دیگر اراکینِ محفل کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ عبدالرحمٰن مصری قادیانیوں کے خلیفہء دوم مرزا محمود احمد کی غیرموجودگی میں ان کی جگہ قادیانی جماعت کے قائمقام امیر رہے ہیں۔ رانا صاحب، معلومات اکٹھی کرلیں ان کے بارے میں، اگر نہیں ملیں گی تو انشاءاللہ وہ بھی فراہم کی جائیں گی۔
ویسے رانا صاحب، میں نے اور بہت سے سوال اٹھائے تھے جن کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اسے کیا سمجھوں؟
 

علی خان

محفلین
رانا صاحب۔ ایک بات پوچھنا تھا۔ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی مانتے ہیں۔ اور احمدی اور ہمارا مسلہ و جھگڑابھی اسی بات پر ہے۔جب آپ محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم کو آخری بنی نہیں مانتے تو پھر آپ مسلمان کسطرح اپنے اپکو کہتے ہیں۔ ہم اپنے ہر نماز میں کلمہ شہادت کہتے ہیں۔ میں آپ سے اس کے متعلق معلومات چاہونگا۔ کہ آپ اسکی جگہ کیا کہتے ہیں۔

اور یہ بھی پڑھ لیں۔
رسول اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو اور نبی ہر پیغمبر کو کہتے ہیں خواہ اسے نئی شریعت اور کتاب دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ وہ پہلی شریعت اور کتاب کا تابع ہو، پس ہر رسول نبی ہےاور ہر نبی رسول نہیں ہے۔ ( بعض علما نے نبی اور رسول کو ایک ہی معنی میں لیا ہے)
نبوت اور رسالت اپنے کسب و کوشش سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس کواللّٰہ تعالٰی بنائے وہی بنتا ہے۔پس یہ مرتبہ اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ سب نبی مرد ہوئے ہیں کوئی عورت نبی نہیں ہوئی دنیا میں بہت سے رسول اور نبی آئے بعض روایتوں میں ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار آئی ہے اور بعض میں ایک لاکھ چونتیس ہزار ، یہ تعداد قطعی نہیں ہے،غالباً کثرت کے بیان کے لئے ہے، ان کی صحیح تعداد اللّٰہ تعالٰی ہی جانتا ہے ہمیں اور آپ کو اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللّٰہ تعالٰی نے جتنے رسول اور نبی بھیجے ہم اُن سب کو برحق اور رسول اور نبی مانتے ہیں ۔ ان میں تین سو تیرہ رسول ہیں -
سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ الاسلام ہیں اور سب سے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں، یعنی آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبین ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر رسالت و نبوت ختم ہو گئی ہے آپ قیامت تک تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی قسم کا کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص حقیقی یا ظلّی یا بروزی کسی بھی قسم کی پیغمبری کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور کافرودجال ہے ۔
حضرت آدم علیہ الاسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے درمیان میں جو پیغمبر آئے ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی قران مجید و احادیث میں آئے ہیں ۔ ان میں سے مشہور نام یہ ہیں حضرت نوح، حضرت شیث، حضرت ابرہیم، حضرت اسحٰق، حضرت اسمٰعیل، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت دائود، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت موسٰی، حضرت ہارون، حضرت زکریا، حضرت یحیٰی، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت یونس، حضرت لوط، حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت عیسٰی علٰی نبینّا و علیہم الصلوت واسلام ۔رسولوں پیغمبروں میں بعض کا مرتبعہ بعض سے بڑا ہے۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں سے افضل اور بزرگ ہیں۔اللّٰہ تعالٰی کے تو آپ بھی بندے اور فرمانبردارہیں اللّٰہ تعالٰی کے بعد آپ کا مرتبہ سب سے بڑھا ہے-
 

علی خان

محفلین
س… اخبار جنگ “آپ کے مسائل اور ان کا حل” کے عنوان کے تحت آنجناب نے ایک سائل کے جواب میں کہ کسی غیرمسلم کو مسلم بنانے کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا ہے کہ:
“غیرمسلم کو کلمہ شہادت پڑھا دیجئے، مسلمان ہوجائے گا۔”
اگر مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ شہادت پڑھ لینا کافی ہے تو پھر قادیانیوں کو باوجود کلمہ شہادت پڑھنے کے غیرمسلم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ازراہ کرم اپنے جواب پر نظر ثانی فرمائیں، آپ نے تو اس جواب سے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ قادیانی اس جواب کو اپنی مسلمانی کے لئے بطورِ سند پیش کرکے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کریں گے اور آپ کو بھی خدا کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا۔
ج… مسلمان ہونے کے لئے کلمہ شہادت کے ساتھ خلافِ اسلام مذاہب سے بیزار ہونا اور ان کو چھوڑنے کا عزم کرنا بھی شرط ہے، یہ شرط میں نے اس لئے نہیں لکھی تھی کہ جو شخص اسلام لانے کے لئے آئے گا ظاہر ہے کہ وہ اپنے سابقہ عقائد کو چھوڑنے کا عزم لے کر ہی آئے گا۔ باقی قادیانی حضرات اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے، کیونکہ ان کے نزدیک کلمہ شہادت پڑھنے سے آدمی مسلمان نہیں ہوتا بلکہ مرزا صاحب کی پیروی کرنے اور ان کی بیعت کرنے میں شامل ہونے سے مسلمان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ خدا نے انہیں یہ الہام کیا ہے کہ:
“جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔” (تذکرہ طبع جدید ص:۳۳۶)
نیز مرزا قادیانی اپنا یہ الہام بھی سناتا ہے کہ:
“خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔” (مرزا کا خط بنام ڈاکٹر عبدالحکیم)
مرزا صاحب کے بڑے صاحب زادے مرزا محمود احمد صاحب لکھتے ہیں:
“کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔” (آئینہ صداقت ص:۳۵)
مرزا صاحب کے منجھلے لڑکے مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتے ہیں:
“ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا، یا محمد کو مانتا ہے مگر مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر، بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔” (کلمة الفصل ص:۱۱۰)
لنک:
 

علی خان

محفلین
لنک:
محمدعطاء اللہ صدیقی
قادیانی جماعت کی سپریم کونسل کے ڈائریکٹر مرزا غلام احمد قادیانی نے کہا ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں اور قرآن و حدیث پر عمل کو اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن ۱۹۷۴ء میں نام نہاد پارلیمنٹ اور نام نہاد صدر نے ہمیں آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے کر بڑی زیادتی کی۔بھٹو نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا جبکہ ضیاء الحق نے۱۹۸۴ء میں پابندی لگا کر اسے عروج تک پہنچا دیا۔ گڑھی شاہو کی عبادت گاہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ کوئی مانے نہ مانے ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور یہ حق ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ تمام احمدی محب وطن ہیں اور اُنھوں نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دوسری طرف کلمہ طیبہ پڑھنے اور السلام علیکم کہنے پر ہمیں سالوں کی سزائیں سنائی گئیں۔مرزا غلام احمدنے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان دینے نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ قرآن مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں۔ اُنھوں نے کہا ہم اقلیت نہیں بلکہ مسلمان ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔ [نوائے وقت:۳۱ مئی ۲۰۱۰ء]
نوائے وقت نے بجا طور پر قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کے اس بیان کو ’’عجیب و غریب دعویٰ ‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ بیان ایک آئینہ ہے جس میں قادیانیوں کی حقیقی سوچ کا واضح عکس دیکھا جاسکتا ہے، قادیانی اقلیت کی یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں اور وہ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کرسکے۔ان کی اس غلط اور غیرحقیقت پسندانہ سوچ نے پاکستان کے مسلمانوں اور حکومت کو بھی شدید آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ جب تک وہ اس سوچ کو نہیں بدلتے، موجودہ صورت حال میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس صور ت حال کے پیدا ہونے میں زیادہ تر کردار قادیانیوں نے ادا کیا ہے لیکن وہ ہمیشہ سے مسلمانوں کو الزام دیتے آئے ہیں کہ وہ ان پربہت ظلم کررہے ہیں۔
ایں ہمہ آوردۂ تست
۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا، قادیانی اسے ’’بڑی زیادتی‘‘ سمجھتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس فیصلے کو ’’زیادتی‘‘ قرار دینا ہی سب سے بڑی زیادتی ہے۔ قادیانی امت کے بانی مرزا غلام احمد کی تحریریں، کتابیں، الہامات، بیانات، الزامات اور دعوے اور پھر اُس کے نام نہاد خلفاء کے عقائد و بیانات اگر جعلی اور خود ساختہ نہیں ہیں، تو پھر تو قادیانیوں کو ’’مسلمان‘‘ سمجھنے والوں کو اپنے آپ کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دیے بغیر چارہ نہیں تھا۔ یا توقادیانی ’’مسلمان‘‘ ہیں یا پھر وہ لوگ جو مرزا غلام احمد کی جھوٹی نبوت پر یقین نہیں رکھتے، وہ مسلمان ہیں۔ یہ دونوں بیک وقت مسلمان نہیں ہوسکتے۔ آخر دنیا کی کون سی منطق اور عقلی دلیل ہے جو اسلام کی اصل تعلیمات اور قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے اربوں مسلمانوں کو محض اس بناء پر ’’غیرمسلم‘‘ قرار دے کہ وہ ایک جھوٹی نبوت کے دعویدار کے دعوؤں کو جھٹلاتے ہیں۔ کیا یورپ کے عیسائیوں نے نئے فرقے ہارمن کے اس دعوے کو تسلیم کرلیاتھاکہ جوزف سمتھ کوبھی نبی ماننے والے حق پر ہیں اور صحیح معنوں میں عیسائی وہ ہیں، مگر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ سچے عیسائی نہیں ہیں کیونکہ وہ جوزف سمتھ کو نبی نہیں مانتے، نہ ہی اس کی تعلیمات پرایمان رکھتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں عجیب وغریب دعوے کرنے والے قادیانی جماعت کے ڈائریکٹر کیا اس بات کی تردید کرسکتے ہیں کہ ان کے مسیح موعود اور ظِلّی وبروزی نبوت کے مدعیِ کاذب نے بارہا تحریر کیا تھا کہ ان کو نہ ماننے والے ’’کنجریوں کی اولاد‘‘ ہیں۔ (نقل کفر، کفر نہ باشد)
جب وہ اپنے ساتھ ہونے والی ’’بڑی زیادتی‘‘ کا رونا روتے ہیں اوراپنے آپ کو بہت بڑا مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں تو انہیں ان ننگے اور ناقابل تردید حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کے مرزا غلام احمد جس پارلیمنٹ کو’’نام نہاد‘‘ کہتے ہیں، وہ مذہبی جماعتوں کے ارکان پر مبنی نہیں تھی۔اس پارلیمنٹ میں اکثریت پیپلزپارٹی سے وابستہ ارکان کی تھی جنہوں نے سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دے رکھا تھا۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ارکان تھے جو جانے پہچانے مارکسٹ اورکیمونسٹ تھے۔پیپلزپارٹی کی قیادت بشمول جناب ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر ارکان اسمبلی، سب کادعویٰ تھاکہ وہ لبرل، ترقی پسند اور سیکولر ہیں۔ حکومت کی طرف سے اُس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار نے پارلیمنٹ کے سامنے دلائل دیے تھے۔ یہ معاملہ کئی ہفتے جاری رہا تھا۔ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد اور اس کے تین دیگر ساتھیوں کو بھرپور موقع دیا گیا کہ وہ اپنے مؤقف کے حق میں دلائل پیش کریں۔مرزا ناصر احمد نے بہت پہلو بچانے کی کوشش کی مگر وہ اس سوال کاجواب پیش نہ کرسکے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نہ ماننے والے ’’کافر‘‘ کیونکر ہیں؟ آج کے قادیانیوں کو یہ بات پیش نظر ضرور رکھنی چاہیے کہ کوئی کتنا بھی لبرل یاگناہگار مسلمان ہو، وہ یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ ایک قادیانی تو بزعم خویش ’’مسلمان‘‘ ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرے مسلمانوں کو’’مسلمان‘‘ ہی تسلیم نہ کرے۔
مرزا غلام احمد نے پریس کانفرنس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی ترمیم کو اس لیے ’’بڑی زیادتی‘‘ کہا ہے کہ قادیانی قرآن کو آخری کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں۔ بادیِ النظر میں یہ دلیل بڑی وزنی دکھائی دیتی ہے۔ اگر قادیانیوں کی اس دلیل اور دعویٰ کا اعتبار کرلیا جائے تو پھر یقین کرنا پڑے گا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کی پارلیمنٹ کے ارکان انتہائی متعصب، ظالم اور جھوٹے لوگ تھے۔ عام آدمی یہی سمجھے گا کہ اُنھوں نے’’قرآن کو آخری کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے والوں‘‘ کو خوامخواہ غیر مسلم قرار دے دیا۔ اگر حقیقت یہی کچھ ہوتی تو آج ہم بھی مان لیتے ۔مگر یہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ محض تلبیس کوشی، دھوکہ، فریب اور لفظی بازی گری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح آخری نبی نہیں مانتے جس طرح کہ عام مسلمان ختمنبوت پر یقین رکھتے ہیں۔ قادیانی مرزاغلام احمد آف قادیان کو بھی ’’محمد‘‘ اور ’’احمد‘‘ سمجھتے ہیں اور اس کی ’’نبوت‘‘ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ظل و بروز (سایہ اور عکس) قرار دیتے ہیں۔مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی شخص ’’ان کی طرح‘‘ ہوسکتا ہے نہ ان کی نبوت کا ’’ظل وبروز‘‘ ہونے کادعویٰ کرسکتا ہے۔ ایسا دعویٰ اگر کوئی کرے گا تو اس کے جھوٹا اور مرتد ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ڈائریکٹر بتائیں کہ کیا وہ مرزا غلام احمد آف قادیان کی ظلی و بروزی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے؟ مزید برآں ہمیں وہ سمجھائیں کہ ایک قادیانی شاعر کے ان اشعار کا مطلب کیا ہے؟
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
رہی بات قرآن مجید کو آخری کتاب ماننے کی۔ یہ دعویٰ بھی ناقابل اعتبار ہے کیونکہ قادیانیوں نے قرآن مجید کی آیات مبارکہ کی تفسیر کرنے میں جس طرح کی تحریف سے کام لیا ہے ، وہ ان کے کافر ہونے کے لیے کافی دلیل ہے۔ لہٰذا قادیانیوں کا قرآن مجید کو آخری کتاب ماننے کا دعویٰ بے معنی ہے جب تک وہ مرزاغلام احمد کی خرافات اور گمراہ کن تعلیمات سے انکار نہیں کرتے۔ یہ تعلیمات صریحاً کفر پرمبنی ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سارے لوگ قادیانیوں کی اس تلبیس کوشی کا شکار ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں سے ہمدردی جتانا شروع کردیتے ہیں۔جس شخص نے قادیانیوں کی کتابوں اور ان کے لٹریچر کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو، وہ اس طرح کی غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا۔ کوئی آدمی اگر قرآن مجید کو آخری کتاب اور سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مرزا غلام احمد کو مسیح موعود یا ظِلّی و بروزی نبی سمجھے۔ یہ دونوں دعوے ایک وقت میں نہیں کیے جاسکتے۔
لہٰذا یہ بات مسلّم ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیے جانے کا آئینی فیصلہ ہر اعتبار سے درست تھا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کوبہت پہلے کردینا چاہیے تھا۔ علامہ اقبال نے تو ۱۹۳۵ء میں اپنے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ قادیانی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ اُنھوں نے انگریز حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ قادیانیوں کوبھی سکھوں کی طرح الگ فرقہ قراردے۔علامہ اقبال نے دو مفصل مضامین تحریر کیے تھے اور بھرپور استدلال کے ذریعے اور فلسفیانہ اصولوں کی روشنی میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ قادیانی تو پہلے دن سے غیرمسلم تھے، ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے تو محض رسمی کارروائی کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے مخالف بھی ان کے اس فیصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کیا بعید ہے ان کا یہ تاریخی فیصلہ ان کی بخشش کا باعث بن جائے۔خدا کرے کہ ایسا ہو۔ (آمین)
قادیانی ڈائریکٹر صاحب کہتے ہیں کہ کوئی مانے نہ مانے ہمیں مسلمان کہلانے کا حق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ہم بھیاپنی رائے کے اظہار کا حق استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی قادیانی مانے یا نہ مانے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان عقائد اور تعلیمات کو نہ اپنا لے جو کسی کے مسلمان ہونے کے لیے بنیادی شرائط کا درجہ رکھتے ہیں۔ قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کاظلی و بروزی نبوت کانظریہ ایک گورکھ دہندہ ہے اور خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر وہ واقعی خلوص دل سے مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو انہیں دین اسلام میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا اور قادیانیت کی عینک اتار کر قرآن و سنت کی تعلیمات کامطالعہ کرنا ہوگا۔ یہ ’’خدائی حق‘‘ کا خود ساختہ تصور اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قرون وسطیٰ کی پاپائیت اور بادشاہوں کے ’’خدائی حقوق‘‘ کا تصور۔ یہ محض طفل تسلی ہے اور حقائق سے فرار کی ایک صورت، ورنہ اس طریقہ سے زبردستی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے، عیسائی نہ یہودی۔ کسی بھی الہامی مذہب کاپیروکار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس مذہب کی مکمل تعلیمات پرایمان لایاجائے۔ ابھی چند ماہ پہلے مرزا ناصر احمد کے ایک پوتے قادیانیت سے تائب ہوکر اسلام لے آئے ہیں۔ دیگر قادیانی بھی اگر ’’مسلمان‘‘ کہلانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی واحد راستہ یہی ہے۔ خود ساختہ و مزعومہ ’’خدائی حقوق‘‘ کی Tunnel سے گزر کر وہ اسلام کے صراط مستقیم تک نہیں آسکتے۔
مرزا غلام احمد کے بیان کا وہ حصہ سخت قابل اعتراض ہے جس میں اُنھوں نے کہا:
’’ہم اقلیت نہیں، مسلمان ہیں۔ حضرت محمدﷺکے غلام ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ہم سے یہ حق چھین سکے۔‘‘
یہ بیان آئین پاکستان سے صریحاً بغاوت ہے۔ آئین پاکستان کی رُو سے قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں۔ اگر آج کوئی قادیانی یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اقلیتی کمیونٹی کارکن نہیں، بلکہ اکثریتی جماعت یعنی مسلمانوں کی جماعت میں سے ہے، تو اس کا اعلان غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے۔ قادیانیوں کی سوچ اور طرز عمل بے حد افسوس ناک ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی ہے۔ قادیانیوں کی یہی وہ ضد ہے جوبالآخر فساد اور تصادم پر منتج ہوتی ہے۔ جب ان کے بارے میں مسلمانوں کی یہ متفقہ اور سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ ’مسلمان ‘ نہیں ہیں تو پھر وہ ’ مسلمان‘ کہلانے پربضد کیوں ہیں؟ جومسلمان اس معاملے کے متعلق شدید حساس واقع ہوئے ہیں، اس طرح کی باتیں سن کر ان کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی قادیانیوں کو یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ ’’مسلمان‘‘ ہونے کا اس طرح علی الاعلان دھنڈورا پیٹیں۔ جب ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ’’کسی کی مجال نہیں‘‘ تو فریق مخالف بھی ردِّعمل ظاہرکرسکتا ہے، ’’اچھا تو مجال کی بات کرتے ہو‘‘، تم مسلمان ہو کے دکھاؤ۔‘‘ قادیانی ڈائریکٹر کا یہ لب و لہجہ کسی ’’مظلوم اقلیت‘‘ کے نمائندے کا اُسلوب نہیں ہوسکتا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہونے کادعویٰ بھی محلِ نظر ہے۔ قادیان کے مرزا غلام احمد کا غلام کبھی بھی والیِ یثرب کا غلام نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایک مسلمان مرزا غلام احمد کاغلام نہیں ہوسکتا، اسی طرح کوئی قادیانی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا غلام نہیں ہوسکتا۔ یہ محض سخن سازی اور فریب دہی ہے اور کوئی مسلمان یہ فریب کھانے کو تیار نہیں ہے۔ جب یہ سب کچھ ممکن ہی نہیں تو پھر قادیانی کس کو دھوکہ دیتے ہیں۔اپنے آپ کو یا کسی اور کو؟ انہیں ٹھنڈے دل سے یہ سو چنا چاہیے۔ جہاں تک ان سے حق چھین لینے کی بات ہے، یہ بھی مغالطہ آمیز ہے۔ جب اُنھوں نے اپنی مرضی اور خوش دلی سے مرزا غلام احمد کاغلام بننا قبول کرلیاہے، تو پھر ان کے پاس کوئی’’حق‘‘ رہ ہی نہیں جاتا جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہونے کا دعویٰ کرسکیں۔حق بغیراستحقاق کے متعین نہیں ہوتا۔قادیانی اس طرح کا کوئی استحقاق سرے سے رکھتے ہی نہیں ہیں تو پھر یہ مبارزت طلبی کا انداز کیونکر اپناتے ہیں؟ وہ پاکستان کے شہری ہیں اوربطور شہری کے انہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔مگر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا حق حاصل کرنے کے لیے ریاست کی شہریت کا حصول ہی کافی نہیں ہے۔ یہ ایمان و یقین اور عقیدے کا معاملہ ہے، اس کا فیصلہ شہری حقوق کی میزان میں نہیں، بلکہ ایمان بالرسالت اور ختم نبوت کے معروف معیاراور میزان کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ قادیانی اطمینان رکھیں کہ وہ اقلیت تھے، اقلیت ہیں اور اقلیت رہیں گے۔ وہ خوامخواہ ’’مسلمان‘‘ ہونے کی ضد نہ کریں کیونکہ اس طرح کی باتوں کا فائدہ کچھ نہیں ہے۔ اگر وہ اس طرح کے دعوے کرتے رہیں گے تو صورت حال کے بگڑنے کے خدشات ہیں۔ ہمارے دانشور جو قادیانیوں کے مظلوم ہونے کے پراپیگنڈے پر یقین کرتے ہیں، انہیں مرزا غلام احمد کے مذکورہ بالا بیان کے اُسلوب پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
مرزا غلام احمدنے شکایت کی ہے کہ قادیانی مسجد کو مسجدنہیں کہہ سکتے، انہیں اذان دینے نہیں دی جاتی۔حتیٰ کہ قرآن مجید کی آیات تک لکھنے کی اجازت نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں توپھر یہ سب شکایتیں بلا جواز ہیں۔مساجد اور اذان توشعائر اسلام ہیں۔یہ مسلمانوں کی ثقافت اور دین کی پہچان ہیں۔ قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہوں کو ’’مساجد‘‘ کہنے اور ’’اذان‘‘ دینے کی اجازت نہیں دی جاتی تو اس میں احتجاج کی کیا گنجائش ہے۔ وہ کیوں چاہتے ہیں کہ اپنی عبادت گاہوں کو’’مساجد‘‘ کہیں اور ان میں مسلمانوں کی طرح ’’اذانیں‘ دیں۔ وہ ایسا اس لیے چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کودھوکے میں مبتلا کرسکیں۔ وہ پوری دنیا میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر تبلیغ کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر’’اسلام‘‘ بھی لے آتے ہیں مگر انہیں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اُنھوں نے’’قادیانیت‘‘ کو اسلام سمجھ کر اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے جو وہ اسلام کانام استعمال کرکے دے رہے ہیں۔جب قادیانی امت نے مسلمانوں سے اپنے جنازے تک الگ کرلیے تو اب وہ مسلمانوں کی طرح اذانیں دینے کی ضد کیوں کرتے ہیں؟ چودھری ظفر اللہ قادیانی نے قائداعظمؒ جیسے معتدل مزاج اور روشن خیال مسلمان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اُنھوں نے جواب دیا: ’’آپ مجھے ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیر یا ایک غیر مسلم ریاست کامسلم وزیر سمجھ لیں۔‘‘ اس طرح قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا بشیر الدین محمود سے ان کے ایک مرید نے سوال کیا کہ کسی غیر احمدی کااگر کوئی بچہ انتقال کرجائے توکیااس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ اس کے جواب میں مرزا بشیرالدین محمود نے کہا: ’’میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر کسی عیسائی یا ہندو کا بچہ فوت ہوجائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔’’ اس طرح کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ جب معروضی حقائق اس طرح کے ہوں تو ’مساجد‘ اور ’اذان‘ جیسے شعائر اسلام کو اپنانے کی خواہش رکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے ۲۴ دسمبر ۱۹۹۱ء کے کالم میں تحریر کیا:
’’’احمدی‘ اور مسلمانوں میں جو چیز وجۂ نزاع بنی وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی ’’نبوت‘‘ کے علاوہ اس نومولود مذہب کی طرف سے مسلمانوں کی اس تمام ’’ٹرمانالوجی‘‘ پر قبضہ تھا جوبزرگان دین اور مقامات مقدمہ کے لیے مخصوص تھی، اپنے اصل مقاصد پرپردہ ڈالنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی نے خود کو ایسا ’’نبی‘‘ قرار دیا جو اپنیشریعت نہیں لایا تھا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شریعت کو نافذ کرنے کا دعویدار تھا۔چنانچہ موصوف نے ظلی بروزی کی بحث بھی چھیڑی، خود کو احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا غلام ہی قرار دیا۔ لیکن ان کے ’صحابی‘ اس قسم کے شعر بھی کہتے رہے، جن کا ذکر اس مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے۔
مرزا غلام احمد نے کہا ہے کہ تمام احمدی محب وطن ہیں‘‘۔ نجانے ’’محب وطن‘‘ ہونے سے ان کی مراد کیا ہے؟ آخر یہ کیسی ’’حب الوطنی‘‘ ہے جو قادیانیوں کو اسرائیل میں اپنا مشن قائم کرنے سے باز نہیں رکھتی؟ کیا قادیانی ڈائریکٹر اسرائیل میں قادیانی مشن کی موجودگی کی تردید کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اس ’’حب الوطنی‘‘ کاڈھنڈور ا پیٹنے کا کیا فائدہ ہے؟ مرزا غلام احمد کا یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کہ کلمہ طیبہ پڑھنے اور ’’السلام علیکم‘‘ کہنے پر قادیانیوں کو سالوں کی سزائیں سنائی گئیں۔ ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ وہ غیر مسلم ہوتے ہوئے مسلمانوں کے کلمہ طیبہ پڑھنے اور ’’السلام علیکم‘‘ کہنے میں اس قدر دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟ اگر ان کے ’’نبی‘‘ نے اپنی ’’امت‘‘ کے لیے کوئی کلمہ ایجاد نہیں کیاتھا تو وہ خود اسے ایجاد کرلیں۔ ہمارے بعض مسلمان جو قادیانی ذہنیت سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں، وہ بھی خیال کرتے ہیں کہ اگر قادیانی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو پڑھنے دیں۔وہ دراصل بہت سادہ لوح واقع ہوئے ہیں۔ انہیں جان لینے کی ضرورت ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی ظلی و بروزی نبوت پر ایمان لانے کے بعد ان کے پیروکار’’محمد الرسول اللہ‘‘ میں ظلی و بروزی نبی کا تصور ذہن میں رکھتے ہیں۔ کیا اس خیال کے ساتھ قادیانیوں کو مسلمانوں کا کلمہ پڑھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
قادیانی ڈائریکٹر کی پریس کانفرنس کی تفصیلات پڑھ کر ایک عام مسلمان پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ۲۸ مئی کو قادیانیوں کی عبادت گاہوں میں ہونے والی دہشت گردی کو قادیانی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔بلا شبہ یہ انتہائی گھناؤنی واردات تھی۔ اسلام میں اس کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی اس طرح اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں کو ’’جہاد‘‘ کا نام دیتا ہے تو اس کا دعویٰ اتنا ہی باطل ہے جتنا کہ قادیانیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ مسلمان ہیں، اقلیت نہیں۔ اسلامی شریعت کی رُو سے ریاست مسلمان اور غیر مسلم اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔اس بارے میں کسی تفریق اور امتیاز کو روا رکھنا درست نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کے قادیانیوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ ان کی عبادت گاہوں کو ہولناک دہشت گردی کانشانہ بنایا جائے۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ علمائے دین نے قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ کرکے ان کو جان سے مار دینے کی حمایت کبھی نہیں کی۔ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں اپنی فطری موت مرا، حالانکہ ۱۸۹۲ء میں دو سو علماء کرام نے اس کے کفر کا فتویٰ دیا تھا۔ اس کے بعد اس کے خلفاء بھی اپنی موت مرے، انہیں کسی نے قتل نہیں کیا۔پرویز مشرف کے دورمیں قادیانیوں کومراعات حاصل رہیں مگر ان کی عبادت گاہوں پرایسے حملے نہ ہوئے۔ غرض اس طرح کی کارروائی ہراعتبار سے قابل مذمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے اس واقعہ کی بھرپور مذمت کی ہے۔ مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ قادیانی اس ہمدردی کی لہر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم کو واپس لینے کی تحریک شروع کردیں اور اپنے ’’مسلمان‘‘ ہونے کا اعلان کریں۔ اس کا ردّعمل سامنے آسکتاہے اور ممکن ہے قادیانی اس ہمدردی سے بھی اپنے آپ کو محروم کردیں جو انہیں آج ہرطرف سے مل رہی ہے۔
محمدعطاء اللہ صدیقی
 

علی خان

محفلین
مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک سو سال پہلے ایک جھوٹ بولا تھا اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے قادیانی جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے ۔ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ کس حوالے سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ان کے مسلمان کہلانے کے اس دعوے کودنیا بھر خاص طور پر پاکستان کے ہر فورم پر ہر اصول گفتگو کے تحت جھوٹا ثابت کیا جاچکا ہے۔ یہ کوئی متنازعہ بات نہیں ہے کہ عقائد کا وہ دائرہ جو دین اسلام ‘ مسلمان کے اردگرد بناتا ہے اس کو پار کرجانے والافرد دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے اور مرزا غلام احمد جسے قادیانی اپنا نبی تسلیم کرتے ہیں، نے اس دائرے کو ایک بارنہیں کئی بار اپنی گفتگوؤں اور تحریروں کے ذریعے توڑا ہے ۔ جس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ہوگیاہے اسے نبی تسلیم کرنے والے اپنے آپ کو مسلمان کہیں تواس کو کیا کہا جاسکتا ہے۔
اگر بقول ان کے وہ مسلمان ہیں تو پھر اسرائیل نے انہیں اپنے دارالحکومت میں مرکز کھولنے کی اجازت کیوں دے رکھی ہے ،خاص طور پر جبکہ اسرائیل کی اسلام اور مسلم دشمنی ایک ایسی حقیقت بن کر ہمارے سامنے ہے جس سے کوئی ذی شعور انکار تو کیا انکارکا تصور تک نہیں کرسکتا ۔ کیا قادیانیوں کا اسرائیل کے اندر قائم مرکز اس بات کی بین دلیل نہیں ہے کہ ان کا دین اسلام کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔کیا قادیا نی اسرائیل فوج میں بھرتی ہو کر فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑرہے اور ان کے اسرائیل کے ساتھ اس گٹھ جوڑ سے ملتِ اسلامیہ کو پچھلی ایک صدی کے دوران کتنے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان کے اندراسرائیلی معاونت کے ذریعے قادیانی پاکستان کے سیاسی، معاشرتی و معاشی حالات کو ابتر کرنے میں دن رات مصروف ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اسرائیل طرز کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم کرکے پاکستان اور ملتِ اسلامیہ کو ہر ممکن نقصان پہنچائیں۔ ان حقائق کے باوجود بھی اگر ان کی زہرناکی اور ضرر رسانی کے متعلق عوامی آگاہی کی مہم چلانا اخلاقاً نا درست قرار دیا جائے تو حیرت کی بات ہے۔
گلشن کو جن ہواؤں نے صحرا بنا دیا
کیا ظلم ہے کہ ان پر کوئی تبصرہ نہ ہو
بیٹھے جس پہاڑ پہ دنیا سے بے نیاز
گہرائیوں میں ان کی کوئی زلزلہ نہ ہو
 

رانا

محفلین
رانا صاحب، میں یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ مجھے اس جگہ اکٹھی چیزیں ملی تھیں اس لئے اس طرف اشارہ کردیا۔ آپ کا اعتراض تھا کہ وہ قادیانی مخالف ویب سائٹ ہے، اس لئے ہر سوال میں اس کا نام لیا اور اس پر بات کی۔
میرے بھائی اس طرح اصل واقعات کو گول کرکے سوالات کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرنا کہ نہ تو کوئی اصل واقعہ کو جان پائے اور تاثر یہ ملے کہ جیسے کوئی بہت بڑی خبر دی جارہی ہے۔ تاثر تو آپ یہ دینا چاہ رہے ہیں کہ جماعت اس قتل میں آفیشلی ملوث ہے جس سے ایک عام پڑھنے والے پر ایک اور تاثر یہ پڑتا ہے جیسے جماعت کے کوئی بہت اہم راز لیک ہونے کو تھے جو جماعت نے کسی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن آپ کی اپنی تحقیق اب تک اس بارے میں سامنے نہیں آئی کہ ایسا کون سا راز جماعت کا تھا جس پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ قتل کیا گیا؟ ظاہر ہے کہ آپ اپنی تحقیق کو پیش کرہی نہیں سکتے کہ کسی کے حلق سے بھی یہ بات نہیں اترے گی کہ جماعت نے ایک شخص کے قتل جیسا بڑا فیصلہ کیا اور جب وجہ کی کھوج لگائی جائے تو بچگانہ وجوہات پیش کی جائیںِ۔

میرے بھائی موبائل ریکارڈز کی آپ بات کررہے ہیں جو جماعت کے عہدیداروں کے ریکارڈز آپ کے پاس ہیں تو وہ پیش کرکے کیوں کیس آگے نہیں بڑھایا جارہا؟ اگر موبائل ریکارڈز ایسے ہی ٹھوس ثبوت پیش کررہے ہیں اور جن کے خلاف پیش کررہے ہیں وہ واقعی جماعت میں اعلی عہدیداروں پر ہیں جیسا کہ آپ تاثر دے رہے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اگر ایسے ہی ؟ٹھوس ثبوت ہیں تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب پر تشدد کرکے کیوں اپنی مرضی کا بیان لینے کی کوشش کی گئی؟ وہ ٹھوس ثبوت کافی نہیں تھے کیا؟ اور اس قتل پر اتنے سوالات اٹھا دینا اور ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکر ہی گول کرجانا کیا ظاہر کرتا ہے؟ اور جب ان کا ذکر کیا جائے بلکہ آپ کی طرح صرف زبانی کلامی نہیں اور نہ ہی امت اور آرگ جیسی سورسز پر بلکہ اخبارات کے حوالے ساتھ لگا کر ان کی طرف توجہ دلائی گئی تو یہ بچگانہ جواب کہ جناب میں نے تو احمد یوسف کے قتل پر تفصیلی بات ہی نہیں کی اس لئے ذکر نہیں کیا!!! بھائی اتنے سارے سوالات اٹھا دیئے ایک سوال ماسٹر عبدالقدوس پر بھی اٹھا دیتے؟ لیکن کیسے اٹھاتے آپ نے تو سارے زبانی کلامی سوال اٹھا دیئے ہیں ایسے سوالات تو آپ کو جماعت مخالف ویب سائٹس پر کثرت سے مل جائیں گے بلکہ وہ آپ سے زیادہ سوالات اٹھاتے ہیں ان سے بھی آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔ جس سائٹ کے مواد پر آپ کی تمام تحقیق کا مدار ہے اس کے ہوم پیج پر ہی جماعت کے ایک انتہائی مخالفت اے کے شیخ کا لنک ہے۔ جس کے بعد کسی کا یہ گمان کرنا کہ اس سائٹ پر جماعت کے بارے میں غیر جانبدارانہ مواد ہوگا اس پر آپ ہی یقین کرسکتے ہیں۔
جماعت کے کون سے بیوروکریٹس اعلی عہدوں پر ہیں؟ اگر مان لیں کہ بالفرض دو تین ہیں بھی تو آپ تو یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے تمام حکومت ان کے اشاروں پر ناچتی ہے ادھر انہوں نے اشارہ کیا اور سب لائن میں لگ گئے!!! سر جی اگر آپ نے عوام پر کوئی تاثر ہی ڈالنا ہے تو کوئی مضبوط بات کیا کریں۔ آگے آپ نے خود ہی ذکر کردیا کہ اگر ہماری اتنی ہی طاقت ہوتی تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے معاملے میں استعمال نہ کرتے؟ "اعلیٰ عہدوں پر آپ کے بےشمار لوگ ۔۔۔" کیا کہنے ایساتاثر دیا جارہا ہے جیسے اعلی عہدوں پر ہم ہی ہم ہیں باقی سب تو اقلیت میں ہیں!!! شائد آپ کا اشارہ اس مستند خبر کی طرف ہے!!!


یہ بہت حیرت کی بات نہیں لگتی آپ کو کہ جماعتی عہدیداروں کی اصلیت سے واقف کئی افراد اب تک پُراسرار طور پر قتل ہوچکے ہیں اور ان کے قتل کا الزام آپ کی جماعت پر ہی لگتا ہے مگر ہر طرح کا اثرورسوخ رکھنے کے باوجود آپ لوگوں نے ایسے کسی ایک بھی قتل کی تحقیقات ٹھیک سے کروا کے قاتلوں کو بےنقاب نہیں کیا۔
بھائی ایسی لفاظی تو مولویوں کا شیوہ ہے۔ اب ایسی ہی لفاظی کرنی تھی تو پہلے ہی بتادیتے میں خواہ مخواہ آپ سے امید لگا بیٹھا۔ یہاں بھی وہی گھسے پٹے

ویسے رانا صاحب، میں نے اور بہت سے سوال اٹھائے تھے جن کا آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اسے کیا سمجھوں؟

آپ اس سے یہ سمجھیں کہ رانا صاحب اپنے بچپن سے ایسے سوالات سنتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی ان کا سلسلہ جاری رہے گا لہذا رانا صاحب بےچارے کس کس فضولی کا جواب دیں۔ فضول میں آپ کے ساتھ اتنا وقت ضائع کیا کہ شائد کچھ ٹھوس انداز میں گفتگو ہوگی لیکن وہی الفاظ کی جنگ جس کے آپ سے بھی بڑے ماہرین پہلے گزر چکے ہیں ایک ضیا دور کی مثال اسی لئے دی تھی۔ جب بات "قادیانت" کی ہورہی ہو اور ایک دم سے ایسے سوالات دھڑادھڑ کرنا شروع کردیئے جائیں تو سوال کرنے والا جواب اسی لئے چھوڑ دیتا ہے کہ اب اس کونٹیکسٹ میں لوگ خود ہی جواب اخذ کرلیں گے۔ چند سوالات جن سے آپ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
سانحہ اوجھڑی کیمپ کے اصل ذمہ داران کون ہیں؟ (جنرل ضیا)
اسرائیل کے جہاز ربوہ میں کیا کرنے آتے ہیں؟ (علامہ بنوری)
بتایا جائے کہ لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا؟
اسرائیل میں قادیانی مشن کیوں ہیں؟
اعلی حکومتی عہدوں پر کتنے قادیانی ہیں؟
مرزا صاحب کے پوتے عبدالرحمان پر قادیانیوں نے کیوں تشدد کیا؟
وغیرہ وغیرہ

مزید سوالات کے لئے آپ اوپر کی علی خان صاحب کی پوسٹ سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ سے کافی کچھ بہتر کارکردگی لگتی ہے ان کی بیان کرنے کے حوالے سے ورنہ تو کوئی فرق نہیں جیسے وہاں الفاظ ویسے یہاں۔

بہت افسوس ہوا عاطف صاحب کہ آپ کے ساتھ اتنا وقت ضائع ہوا لیکن میرے اور محفلین کے حصے میں کیا آیا؟ صرف اور صرف الفاظ۔ آپ کے لئے تو یہ وقت کا زیاں معمولی بات ہے کہ آپ کا کام ہی یہ ہے میڈیا کے بندے ہونے کے ناطے لیکن بھائی میرے لئے اتنے وقت کا زیاں بھی بہت افسوس کا موجب ہورہا ہے۔

آخر میں ایک گزارش کروں گا کہ آپ نے اس کیس پر کام کیا ہے یا کررہے ہیں تو براہ مہربانی ان تمام ذمہ داروں کو جن کے خلاف ٹھوس ثبوت آپ کے پاس ہیں موبائل کالز کا ریکاڈ وغیرہ ان کو ضرور کٹہرے میں لائیے گا ورنہ کم از کم اتنا تو کریں کہ آپ تو میڈیا کے بندے ہیں تمام بڑے اخبارات کو بھی اس کیس کی تفصیل جاری کیجئے گا تاکہ "قادیانیوں" کا کوئی تو "سچا" جھوٹ عوام کے سامنے آئے ورنہ عوام اب عبدالرحمان جیسے ڈراموں سے کہیں تنگ نہ آجائیں۔ اور ہاں اگر کوئی اخبار اس ہوشربا اسٹوری کو شائع کرنے سے انکار کرے تو اس اخبار کا پول بھی کھولئے گا کہ اس اخبار نے یہ ٹھوس تحقیقات کو کوئی لفٹ نہیں کرائی خاص طور پر ان اخبارات کو جنہوں نے ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی اسٹوری شائع کی کہ بھائی اصل حقائق یہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ نیک کام ضرور کریں گے۔
 

علی خان

محفلین
رانا صاحب اس طرح کی سینکڑوں پوسٹیں ہیں میرے پاس جس سے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
میری آپ سے صرف ایک عرضی ہے۔ کہ آپ ہمیں اپنے باتوں سے قائل نہیں کر سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ہم قائل ہونگے۔ تو پھر آپ اتنی کشت کیونکر کر رہیں ہیں۔
جس اسمبلی میں آپ لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ میرے خیال میں وہاں پر آپ اور ہم سے زیادہ عاقل اور زیادہ پاور والے لوگ موجود تھے۔ تو اُنہوں نے کچھ دیکھ کر ہی ایسا کیا ہوگا۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ میری باتوں سے اگر آپ کو تکلیف ہوئی ہو۔ تو میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
میرے نزدیک دیگر مذہبی گروہوں کی طرح احمدیت بھی خرافات کا پلندہ ہے۔ مثلا آج کے دور میں کوئی کرشنا کا اوتار، مسیحِ موعود یا امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا تو اس کو سب سے پہلے پاگل خانے بھجوا دیا جائے گا۔میں نہ تو ان کے نبی کو مانتا ہوں، نہ ہی کبھی ایمان لانے کا کوئی ارادہ ہے۔ آپ بھی ان سے اسی طرح صد ہزار بار اختلاف رکھیں، ان کو ذاتی حد تک صد ہزار بار کافر یا غیر مسلم سمجھیں۔ ان کے مذہبی عقائد پر کھل کر علمی تنقید کریں۔ پر ان سے احمدی، مسلمان اور پاکستانی ہونے کا آئینی حق نہ چھینئے۔ اگر وہ خود اپنی مرضی سے قادیانی ہیں، اورر خود کو مسلمان اور پاکستانی سمجھتے ہیں تو انہیں اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ آپ اپنے عقیدے پر خوش رہو بھئی، انہیں ان کے عقیدے پر خوش رہنے دو۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ:
1۔ آئین میں انہیں غیر مسلم قرار دیا جانا بے وقوفی ہے۔ آئین کا اس سے کوئی سر و کار نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ احمدی جماعت کے خلاف سرکاری اور عوامی سطح پر نفرت پائی جاتی ہے۔
3۔ لوگ ہر برائی کا ذمہ دار یہودیوں کی طرح احمدیوں کو ٹھہراتے ہیں۔
4۔ ان کو تشدد اور اذیت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
5۔ ملا کی طرف سے عوام میں ہر وقت ان کے خلاف خوف پھیلایا جاتا ہے۔
6۔ ان کے خلاف سازشی نظریے زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ مثلا پرویز مشرف قادیانی ہے، الطاف حسین قادیانی ہے، قادیانی یہودیوں کے ایجنٹ ہیں، قادیانی پاکستان کو قادیانی اکثریتی ملک بنانا چاہتے ہیں، وغیرہ وغیرہ
7- ان کو اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کی پیروی کی آزادی نہیں ہے۔ بالفرض ایسی ہی پابندی مغرب میں کوئی ملک بقیہ مسلمانوں پر لگائے؟
 

عاطف بٹ

محفلین
میرے بھائی اس طرح اصل واقعات کو گول کرکے سوالات کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرنا کہ نہ تو کوئی اصل واقعہ کو جان پائے اور تاثر یہ ملے کہ جیسے کوئی بہت بڑی خبر دی جارہی ہے۔ تاثر تو آپ یہ دینا چاہ رہے ہیں کہ جماعت اس قتل میں آفیشلی ملوث ہے جس سے ایک عام پڑھنے والے پر ایک اور تاثر یہ پڑتا ہے جیسے جماعت کے کوئی بہت اہم راز لیک ہونے کو تھے جو جماعت نے کسی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن آپ کی اپنی تحقیق اب تک اس بارے میں سامنے نہیں آئی کہ ایسا کون سا راز جماعت کا تھا جس پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ قتل کیا گیا؟ ظاہر ہے کہ آپ اپنی تحقیق کو پیش کرہی نہیں سکتے کہ کسی کے حلق سے بھی یہ بات نہیں اترے گی کہ جماعت نے ایک شخص کے قتل جیسا بڑا فیصلہ کیا اور جب وجہ کی کھوج لگائی جائے تو بچگانہ وجوہات پیش کی جائیںِ۔

میرے بھائی موبائل ریکارڈز کی آپ بات کررہے ہیں جو جماعت کے عہدیداروں کے ریکارڈز آپ کے پاس ہیں تو وہ پیش کرکے کیوں کیس آگے نہیں بڑھایا جارہا؟ اگر موبائل ریکارڈز ایسے ہی ٹھوس ثبوت پیش کررہے ہیں اور جن کے خلاف پیش کررہے ہیں وہ واقعی جماعت میں اعلی عہدیداروں پر ہیں جیسا کہ آپ تاثر دے رہے ہیں تو ان کے خلاف کاروائی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اگر ایسے ہی ؟ٹھوس ثبوت ہیں تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب پر تشدد کرکے کیوں اپنی مرضی کا بیان لینے کی کوشش کی گئی؟ وہ ٹھوس ثبوت کافی نہیں تھے کیا؟ اور اس قتل پر اتنے سوالات اٹھا دینا اور ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکر ہی گول کرجانا کیا ظاہر کرتا ہے؟ اور جب ان کا ذکر کیا جائے بلکہ آپ کی طرح صرف زبانی کلامی نہیں اور نہ ہی امت اور آرگ جیسی سورسز پر بلکہ اخبارات کے حوالے ساتھ لگا کر ان کی طرف توجہ دلائی گئی تو یہ بچگانہ جواب کہ جناب میں نے تو احمد یوسف کے قتل پر تفصیلی بات ہی نہیں کی اس لئے ذکر نہیں کیا!!! بھائی اتنے سارے سوالات اٹھا دیئے ایک سوال ماسٹر عبدالقدوس پر بھی اٹھا دیتے؟ لیکن کیسے اٹھاتے آپ نے تو سارے زبانی کلامی سوال اٹھا دیئے ہیں ایسے سوالات تو آپ کو جماعت مخالف ویب سائٹس پر کثرت سے مل جائیں گے بلکہ وہ آپ سے زیادہ سوالات اٹھاتے ہیں ان سے بھی آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔ جس سائٹ کے مواد پر آپ کی تمام تحقیق کا مدار ہے اس کے ہوم پیج پر ہی جماعت کے ایک انتہائی مخالفت اے کے شیخ کا لنک ہے۔ جس کے بعد کسی کا یہ گمان کرنا کہ اس سائٹ پر جماعت کے بارے میں غیر جانبدارانہ مواد ہوگا اس پر آپ ہی یقین کرسکتے ہیں۔
جماعت کے کون سے بیوروکریٹس اعلی عہدوں پر ہیں؟ اگر مان لیں کہ بالفرض دو تین ہیں بھی تو آپ تو یہ تاثر دے رہے ہیں جیسے تمام حکومت ان کے اشاروں پر ناچتی ہے ادھر انہوں نے اشارہ کیا اور سب لائن میں لگ گئے!!! سر جی اگر آپ نے عوام پر کوئی تاثر ہی ڈالنا ہے تو کوئی مضبوط بات کیا کریں۔ آگے آپ نے خود ہی ذکر کردیا کہ اگر ہماری اتنی ہی طاقت ہوتی تو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کے معاملے میں استعمال نہ کرتے؟ "اعلیٰ عہدوں پر آپ کے بےشمار لوگ ۔۔۔ " کیا کہنے ایساتاثر دیا جارہا ہے جیسے اعلی عہدوں پر ہم ہی ہم ہیں باقی سب تو اقلیت میں ہیں!!! شائد آپ کا اشارہ اس مستند خبر کی طرف ہے!!!



بھائی ایسی لفاظی تو مولویوں کا شیوہ ہے۔ اب ایسی ہی لفاظی کرنی تھی تو پہلے ہی بتادیتے میں خواہ مخواہ آپ سے امید لگا بیٹھا۔ یہاں بھی وہی گھسے پٹے



آپ اس سے یہ سمجھیں کہ رانا صاحب اپنے بچپن سے ایسے سوالات سنتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی ان کا سلسلہ جاری رہے گا لہذا رانا صاحب بےچارے کس کس فضولی کا جواب دیں۔ فضول میں آپ کے ساتھ اتنا وقت ضائع کیا کہ شائد کچھ ٹھوس انداز میں گفتگو ہوگی لیکن وہی الفاظ کی جنگ جس کے آپ سے بھی بڑے ماہرین پہلے گزر چکے ہیں ایک ضیا دور کی مثال اسی لئے دی تھی۔ جب بات "قادیانت" کی ہورہی ہو اور ایک دم سے ایسے سوالات دھڑادھڑ کرنا شروع کردیئے جائیں تو سوال کرنے والا جواب اسی لئے چھوڑ دیتا ہے کہ اب اس کونٹیکسٹ میں لوگ خود ہی جواب اخذ کرلیں گے۔ چند سوالات جن سے آپ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
سانحہ اوجھڑی کیمپ کے اصل ذمہ داران کون ہیں؟ (جنرل ضیا)
اسرائیل کے جہاز ربوہ میں کیا کرنے آتے ہیں؟ (علامہ بنوری)
بتایا جائے کہ لیاقت علی خان کو کس نے قتل کیا؟
اسرائیل میں قادیانی مشن کیوں ہیں؟
اعلی حکومتی عہدوں پر کتنے قادیانی ہیں؟
مرزا صاحب کے پوتے عبدالرحمان پر قادیانیوں نے کیوں تشدد کیا؟
وغیرہ وغیرہ

مزید سوالات کے لئے آپ اوپر کی علی خان صاحب کی پوسٹ سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ سے کافی کچھ بہتر کارکردگی لگتی ہے ان کی بیان کرنے کے حوالے سے ورنہ تو کوئی فرق نہیں جیسے وہاں الفاظ ویسے یہاں۔

بہت افسوس ہوا عاطف صاحب کہ آپ کے ساتھ اتنا وقت ضائع ہوا لیکن میرے اور محفلین کے حصے میں کیا آیا؟ صرف اور صرف الفاظ۔ آپ کے لئے تو یہ وقت کا زیاں معمولی بات ہے کہ آپ کا کام ہی یہ ہے میڈیا کے بندے ہونے کے ناطے لیکن بھائی میرے لئے اتنے وقت کا زیاں بھی بہت افسوس کا موجب ہورہا ہے۔

آخر میں ایک گزارش کروں گا کہ آپ نے اس کیس پر کام کیا ہے یا کررہے ہیں تو براہ مہربانی ان تمام ذمہ داروں کو جن کے خلاف ٹھوس ثبوت آپ کے پاس ہیں موبائل کالز کا ریکاڈ وغیرہ ان کو ضرور کٹہرے میں لائیے گا ورنہ کم از کم اتنا تو کریں کہ آپ تو میڈیا کے بندے ہیں تمام بڑے اخبارات کو بھی اس کیس کی تفصیل جاری کیجئے گا تاکہ "قادیانیوں" کا کوئی تو "سچا" جھوٹ عوام کے سامنے آئے ورنہ عوام اب عبدالرحمان جیسے ڈراموں سے کہیں تنگ نہ آجائیں۔ اور ہاں اگر کوئی اخبار اس ہوشربا اسٹوری کو شائع کرنے سے انکار کرے تو اس اخبار کا پول بھی کھولئے گا کہ اس اخبار نے یہ ٹھوس تحقیقات کو کوئی لفٹ نہیں کرائی خاص طور پر ان اخبارات کو جنہوں نے ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی اسٹوری شائع کی کہ بھائی اصل حقائق یہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ نیک کام ضرور کریں گے۔
رانا صاحب، یہ مراسلہ تو آپ نے جان چھڑانے اور خانہ پُری کے لئے لکھا ہے۔ آپ امت اور آرگ کا رونا رو رہے ہیں اور میں نے جو باتیں کی ہیں ان کی طرف آپ نے کوئی دھیان نہیں دیا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اگر یہ محض لفاظی ہے تو آپ ثابت کردیجئے کہ جماعت کے فلاں بندے کا پُراسرار قتل فلاں وقت میں فلاں غیرقادیانی شخص یا جماعت نے کیا یا کروایا تھا۔
جن اخبارات کا حوالہ آپ نے دیا تھا ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ تینوں اخبارات بائیں جانب رجحان کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ڈان معتبر اخبار سمجھا جانے کے باوجود بائیں بازو کا حامی ہے۔ ٹریبیون کو تو آپ قادیانیوں کا 'امت' ہی سمجھ لیں۔ ڈیلی ٹائمز کے مالکانہ حقوق کن کے پاس ہیں اور وہ کن خیالات کے حامل ہیں یہ بھی سب جانتے ہیں۔ (اب یہ اعتراض بھی آپ کو بچگانہ لگیں گے)
نجمہ بی بی کے نام سے آپ کے خلیفہء خامس اور آئی جی پنجاب کو خط میں تو نہیں لکھتا رہا ناں میرے بھائی۔ ان خطوط میں واضح طور پر ایک ایک فون نمبر کے ساتھ اس سے متعلق صورتحال بیان کی گئی ہے۔ اس کی تحقیق و تفتیش کیوں نہیں کرواتے آپ لوگ تاکہ آپ کی جماعت کی جان چھوٹ جائے۔ نجمہ بی بی کوئی غیرقادیانی تو نہیں ہے جس کی باتوں پر آپ کو شک ہو!
بار بار 'آفیشلی' کا لفظ استعمال کررہے ہیں آپ حالانکہ میں نے یہ لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا کیونکہ میں اس کے مطلب اور استعمال سے واقف ہوں۔
اگر واقعی بیوروکریسی میں آپ کے صرف دو تین آدمی ہیں تو ذرا ان کے نام بتا دیجئے پلیز۔
کمال کی بات ہے کہ جو سوالات آپ بچپن سے سن رہے ہیں ان کے جوابات آج بھی آپ کے پاس نہیں ہیں اور آپ اس کے باوجود خود کو حق پر سمجھتے ہیں۔
میرا آپ کے لئے بہت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اور کچھ نہیں تو اپنی جماعت کی تاریخ پڑھ لیجئے، آپ کو بہت کچھ پتا چل جائے گا۔ مصری صاحب والے معاملے پر آپ کی باتوں سے یہ پول کھل گیا کہ آپ تو اپنی جماعت کے بارے میں ہی کچھ نہیں جانتے کسی اور کے بارے میں کیا بات کریں گے۔
میں آپ کے پہلے مراسلے سے سمجھا تھا کہ شاید آپ تلاشِ حق کے لئے نکلے ہیں مگر اب پتا چلا کہ آپ ایک فضول بحث چھیڑ کر لوگوں کو دھیان بٹانا چاہ رہے ہیں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
قادر صاحب، اس شخص کی حقیقت میں جانتا ہوں کہ میں گزشتہ ایک عشرے سے اس سے واقف ہوں۔ اس کا مرزا کے خاندان سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ایک بہت بڑا فراڈیا اور سازشی آدمی ہے اور اس کا یوں سامنے آنا بھی مجھے کسی سازش کا ہی حصہ لگتا ہے۔
شکریہ
 
رانا صاحب، یہ مراسلہ تو آپ نے جان چھڑانے اور خانہ پُری کے لئے لکھا ہے۔ آپ امت اور آرگ کا رونا رو رہے ہیں اور میں نے جو باتیں کی ہیں ان کی طرف آپ نے کوئی دھیان نہیں دیا، وجہ صاف ظاہر ہے کہ آپ کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اگر یہ محض لفاظی ہے تو آپ ثابت کردیجئے کہ جماعت کے فلاں بندے کا پُراسرار قتل فلاں وقت میں فلاں غیرقادیانی شخص یا جماعت نے کیا یا کروایا تھا۔
جن اخبارات کا حوالہ آپ نے دیا تھا ان کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ تینوں اخبارات بائیں جانب رجحان کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ڈان معتبر اخبار سمجھا جانے کے باوجود بائیں بازو کا حامی ہے۔ ٹریبیون کو تو آپ قادیانیوں کا 'امت' ہی سمجھ لیں۔ ڈیلی ٹائمز کے مالکانہ حقوق کن کے پاس ہیں اور وہ کن خیالات کے حامل ہیں یہ بھی سب جانتے ہیں۔ (اب یہ اعتراض بھی آپ کو بچگانہ لگیں گے)
نجمہ بی بی کے نام سے آپ کے خلیفہء خامس اور آئی جی پنجاب کو خط میں تو نہیں لکھتا رہا ناں میرے بھائی۔ ان خطوط میں واضح طور پر ایک ایک فون نمبر کے ساتھ اس سے متعلق صورتحال بیان کی گئی ہے۔ اس کی تحقیق و تفتیش کیوں نہیں کرواتے آپ لوگ تاکہ آپ کی جماعت کی جان چھوٹ جائے۔ نجمہ بی بی کوئی غیرقادیانی تو نہیں ہے جس کی باتوں پر آپ کو شک ہو!
بار بار 'آفیشلی' کا لفظ استعمال کررہے ہیں آپ حالانکہ میں نے یہ لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا کیونکہ میں اس کے مطلب اور استعمال سے واقف ہوں۔
اگر واقعی بیوروکریسی میں آپ کے صرف دو تین آدمی ہیں تو ذرا ان کے نام بتا دیجئے پلیز۔
کمال کی بات ہے کہ جو سوالات آپ بچپن سے سن رہے ہیں ان کے جوابات آج بھی آپ کے پاس نہیں ہیں اور آپ اس کے باوجود خود کو حق پر سمجھتے ہیں۔
میرا آپ کے لئے بہت مخلصانہ مشورہ ہے کہ اور کچھ نہیں تو اپنی جماعت کی تاریخ پڑھ لیجئے، آپ کو بہت کچھ پتا چل جائے گا۔ مصری صاحب والے معاملے پر آپ کی باتوں سے یہ پول کھل گیا کہ آپ تو اپنی جماعت کے بارے میں ہی کچھ نہیں جانتے کسی اور کے بارے میں کیا بات کریں گے۔
میں آپ کے پہلے مراسلے سے سمجھا تھا کہ شاید آپ تلاشِ حق کے لئے نکلے ہیں مگر اب پتا چلا کہ آپ ایک فضول بحث چھیڑ کر لوگوں کو دھیان بٹانا چاہ رہے ہیں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے، آمین۔
ایک دفعہ میں نے ٹریبیون کی قادیانیوں کے متعلق ڈاکیو منٹری دیکھی تھی اس کے بعد احساس ہوا کہ یہ اخبار کن نظریات کا حامی ہے
 
Top