محمد امین

لائبریرین
انسانی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے شہر کی سڑک۔ لہراتی بل کھاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔ مگر اس سڑک کی موجودہ شکل کے نیچے، کہیں نیچے اس کا ماضی دفن ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں کولتار ڈال ڈال کر اسے پختہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے یا کبھی کسی تشریف لانے والے صدر یا وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے۔ تہہ در تہہ کولتار بچھ بچھ کر اس سڑک کی وہ شکل ہوجاتی ہے جو آپ ہم دیکھتے ہیں۔ اور ضروری نہیں وہ شکل اچھی بھی ہو!!​
زندگی کی اس سڑک میں کتنے ہی مقام آتے ہیں۔۔ کتنی ہی تہیں چڑھ جاتی ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
مزید پڑھیے:​
 

غازی عثمان

محفلین
اس فاصلاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے پر زمین شاید کوئی خاص دلچسپ نہ لگے لیکن ہمارے لئے معاملہ کچھ اور ہے۔ ذرا اس نکتے کو دوبارہ توجہ سے دیکھیں، یہ یہاں ہے، یہ ہمارا گھر ہے، یہ ہم ہیں۔ اس کے اوپر، تمام محبوب ، تمام شناسا ،وہ تمام لوگ جن کا ہم کبھی نے سنا اورتاریخ کے ہر ایک انسان نے اپنی زندگی گزاری۔ ہماری خوشیوں اور غموں کا مجموعہ، ہزاروں پراعتماد مذاہب، نظریات اور اصولِ اقتصادیات، تاریخ ِ بنی نوع انسانی کا ہر شکاری اور کسان، ہربہادر اور بزدل، ہر تہذیب کا خالق اور اسے فناء کرنے والا، ہر بادشاہ اور فقیر، محبت میں گرفتارہر جواں جوڑا، ہر ماں اور باپ، ہر پرامید بچہ، ہر موجد اور سیاح، اخلاقیات کا ہر مبلغ، ہر بددیانت سیاست دان، ہر سپر اسٹار، ہر رہبر ِاعلیٰ، ہر صوفی اور گناہ گار یہیں رہتا تھا، تیغِ آفتاب میں معلق دھول کے ایک ذرے پر

مزید پڑھنے کے لئے کلک کریں میری سوچ
 

غازی عثمان

محفلین
ان خطرات کے باوجود ہائےپیشیا نے اپنا اسکول جاری رکھامگر سن چار سو پندرہ میں اسکول جاتے ہوئے اسے اسکندریہ کے راہب سیرل کے جنونی پیروکاری نے گھیر لیا۔ اسے اس کی سواری سے کھینچ کر اتارا گیا، اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے گئے، اور تیز دھار سیپیوں سے اس کا گوشت اس کی ہڈیوں سے اتارا کر اس کی لاش کو جلادیا گیا ۔ہائےپیشیا کو مصر میں بھلا دیاگیا اور سیرل کو صوفی بنادیا گیا۔ ہائے پیشیا کے موت کے ایک سال کے اندر اسکندریہ کے عظیم کتب خانے کو بھی تباہ کردیا گیا اور آج چند بوسیدہ ٹکڑوں کے سواء اس کا کوئی نشان باقی نہیں۔

کتب خانہ اسکندریہ سے ایک سبق میری سوچ
 

فخرنوید

محفلین
کرپشن خود بولتی ہےکرپشن کرپشن
اکتوبر کی 31 تاریخ سال 2011 میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں ایک صوبائی ادارے کی کرپشن کا احوال پیش کیا تھا۔ اب اسی کی کڑی میں ایک اور ایسے ترقیاتی ادارے کی کرپشن کی آواز آپ تک پہنچانے کی جسارت کر رہا ہوں۔

ایکسپریس نیوز 4 جنوری 2012 کے ایڈیشن میں وزارت ہاوسنگ و تعمیرات کے ادارے پاک پی ڈبلیو ڈی کے بارے ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے۔ جس میں ٹھیکیدار وں نے پاک پی ڈبلیو ڈی کے خلاف 40 فی صد فنڈ کے کرپشن کی نظر ہونے کا اقرار کیا ہے۔
اس سے پہلے پبلک ہیلتھ کے ادارے کے بارے میں مضمون لکھا تھا جس کی تفصیل کچھ اس طرح تھی۔
ٹیکس ،منظم کرپشن اور غیر معیاری ترقیاتی منصوبہ جات



مزید تفصیل برائے مضمون:کرپشن خود بولتی ہےکرپشن کرپشن
 

غازی عثمان

محفلین
یہ سوال کہ جنت میں جانے کہ لئے ایمان اعمال سے زیادہ اہم کیوں ہیں آندریاس سے میرے مقالمے سے کئی روز قبل ہی سے میرے دما غ میں کلبلارہا تھا۔چوبیس دسمبر کی شام میں لیلیٰ کی جانب سے دی گئی ایک کرسمس ضیافت مدعو تھا، لیلیٰ دراصل ایک ریٹائرڈ نفسیاتی معالج برائے اطفال ، اور ایک دوست کی دوست ہے۔باوجود ریٹائرمنٹ لیلیٰ اب بھی بچوں خصوصا تارکینِ وطن بچوں کے لئے مفت کام کرتی ہے اور ہر سال کرسمس سے ایک دن قبل ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کرتی ہے جس میں بچے اور ان کے والدین شریک ہوتے ہیں۔اس سال کی ضیافت میں لیلیٰ نے مجھے بھی مدعو کیا بنیادی طور پر تو ہاتھ بٹانے کے لئے لیکن اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ یوں تواس ضیافت میں ہر رنگ ،نسل اور مذہب کے لوگ موجود تھے لیکن کھانا خصوصی طور پر حلال رکھا گیا تھا تاکہ تمام لوگ کھا سکیں۔کھانے کے بعد لیلیٰ ایک بوری نما بڑاسا تھیلا اٹھالائی اور تمام بچوں کو تحفے دیے ، یہ تمام تحفے نئے تھے اور میرے خیال میں ان کی مجموعی مالیت کم از کم دو ہزار کراوَن تو ہوگی ہی۔ان تحفوں کووصول کرنے والے بچوں کی خوشی دیدنی تھی، خوشی میں اچھلتے یہ بچے اپنے اپنے تحفے ایک دوسرے کو دیکھا رہے بلا تفریقِ رنگ و نسل ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں بچوں کی اس خوشی ، انکا جوش اور انکی مسکراہٹیں دیکھ ہم تمام بالغان بھی مسرور تھے۔
مزید- آخر لیلی جہنم میں کیوں جائے گی۔ میری سوچ
 

محمد امین

لائبریرین
انسانی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے شہر کی سڑک۔ لہراتی بل کھاتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں۔ مگر اس سڑک کی موجودہ شکل کے نیچے، کہیں نیچے اس کا ماضی دفن ہوتا ہے۔ مختلف وقتوں کولتار ڈال ڈال کر اسے پختہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ کہیں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنے کے لیے یا کبھی کسی تشریف لانے والے صدر یا وزیرِ اعظم کے استقبال کے لیے۔ تہہ در تہہ کولتار بچھ بچھ کر اس سڑک کی وہ شکل ہوجاتی ہے جو آپ ہم دیکھتے ہیں۔ اور ضروری نہیں وہ شکل اچھی بھی ہو!!​
زندگی کی اس سڑک میں کتنے ہی مقام آتے ہیں۔۔ کتنی ہی تہیں چڑھ جاتی ہیں، ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔​
مزید پڑھیے:بچپن: یادِ ماضی!!!



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے تجربات آپ کو ماضی کے جھروکوں میں سے سنہری پل ہی دکھاتے ہیں، تلخیوں اور خامیوں کو ایسے چھان دیتے ہیں جیسے کسی پردے سے چھن کر آنے والی سورج کی روشنی! نہ نگاہوں کو خیرہ کرے، نہ آپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارا کریں۔ ٹھنڈی، خوشگوار، سنہری دھوپ۔ جس کی کرنوں میں حدت بھی گوارا بلکہ مطلوبہ حد تک موجود۔ اور جب یہ دھوپ ختم ہوجائے تو اس کی تمنا اور تشنگی باقی۔ جیسے صحرا کے بھٹکے ہوئے پیاسے کو دو گھونٹ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پورا مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
بچپن: یادِ ماضی 2۔۔
 

غازی عثمان

محفلین
میرے بلاگ پر نئی تحریر، کیا ناممکن واقعی ناممکن ہے؟مشہور نظری طبعیات دان میشیوکاکو کی زیرمطالعہ کتاب"ناممکنات کی سائنس"کے پیش لفظ سے ایک اقتباس، ضرور پڑھیں تاکہ انتہائی محنت سے کیئے گئے ترجمے کی محنت وصول ہوجائے۔

http://ghaziusman.blogspot.com/2012/02/blog-post.html
 

یوسف-2

محفلین
پیغام قرآن و حدیث ٹرسٹ کا قیام
قرآن و حدیث کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کے اس فریضہ کو مزید منظم انداز میں جاری و ساری رکھنے کے لئے ہم ”پیغام قرآن و حدیث ٹرسٹ“ کا قیام عمل میں لارہے ہیں جس کے لئے ہمیں علوم القرآن والحدیث، ادب و صحافت (اردو، انگریزی، سندھی)، آئی ٹی، پرنٹنگ، مارکیٹنگ، سرکولیشن، اشتہارات اور قانونی مشاورت سمیت مختلف شعبوں کے ماہرین کی خدمات کی ضرورت ہے۔
مزید تفصیلات یہان پڑھئے۔۔۔
 

غازی عثمان

محفلین
زمین پر ہزاروں اقسام کی حیاتیات موجود ہے آخر زندگی میں اتنا تنوع کیوں ہے؟ یہ سوال انتہائی قدیم ہے اور شاید ہم سے پہلے آنے والی تقریبا چالیس ہزار نسلیں اس کے بارے میں الگ الگ نظریات رکھتیں تھیں،۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جو اس سوال کا حقیقت پر مبنی جواب ہزاروں ثبوتوں کے ساتھ جان سکی ہے، تو آئیے آپ بھی جانئے۔۔۔

http://ghaziusman.blogspot.com/2012/02/blog-post_29.html
 
Top