آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا - برائے اصلاح تنقید تبصرہ

آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا
میری یادوں کے گلستان میں اک پهول سجا

یوں میرا نام لے دل میں کئی نغمات جگیں
تو مجھے یاد کی وادی سے کبهی ایسے بلا

تو جو افگار محبت ہے تو کیا غم ہے اے دل
یہ تو انعام وفا ہے اسے سینے پہ سجا

آ میری ذات سے تو ذات کا سودا کر لے
میں تیرے دل میں بسوں تو میرے لفظوں میں سما
 

حنیف خالد

محفلین
آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا
میری یادوں کے گلستان میں اک پهول سجا

یوں میرا نام لے دل میں کئی نغمات جگیں
تو مجھے یاد کی وادی سے کبهی ایسے بلا

تو جو افگار محبت ہے تو کیا غم ہے اے دل
یہ تو انعام وفا ہے اسے سینے پہ سجا

آ میری ذات سے تو ذات کا سودا کر لے
میں تیرے دل میں بسوں تو میرے لفظوں میں سما

میری یادوں کے گلستان میں اک پهول سجا
میرے ناقص رائے یہ ہے کہ یہاں ’ن‘ کے بجائے ’ں‘ آ جائے تو وزن مکمل ہو جاتا ہے۔ اور ’ میں ایک پھول‘ کے بجائے اگر ’میں کوئی پھول‘ کر لیا جائے تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یوں میرا نام لے دل میں کئی نغمات جگیں
تو مجھے یاد کی وادی سے کبهی ایسے بلا
یہاں بھی ’میرا ‘ کو ’مرا‘ کر لیا جائے۔

آ میری ذات سے تو ذات کا سودا کر لے
میں تیرے دل میں بسوں تو میرے لفظوں میں سما
یہاں بھی ’مری‘ کر لیا جائے۔
اساتذہ اپنی رائے دیں ۔۔
 

شوکت پرویز

محفلین
میری یادوں کے گلستان میں اک پهول سجا
میرے ناقص رائے یہ ہے کہ یہاں ’ن‘ کے بجائے ’ں‘ آ جائے تو وزن مکمل ہو جاتا ہے۔ اور ’ میں ایک پھول‘ کے بجائے اگر ’میں کوئی پھول‘ کر لیا جائے تو وزن کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
گلستاں کرنے سے وزن سے خارج ہو جائے گا۔۔:) ؛ ہاں! "گلستاں" اور "میں کوئی پھول"، دونوں تبدیلی کریں تب مصرعہ وزن میں رہے گا،
لیکن سارہ صاحبہ کا موجودہ مصرعہ بھی وزن میں ہے۔

یوں میرا نام لے دل میں کئی نغمات جگیں
تو مجھے یاد کی وادی سے کبهی ایسے بلا
یہاں بھی ’میرا ‘ کو ’مرا‘ کر لیا جائے۔
آپ کی بات درست ہے :)


آ میری ذات سے تو ذات کا سودا کر لے
میں تیرے دل میں بسوں تو میرے لفظوں میں سما
یہاں بھی ’مری‘ کر لیا جائے۔
آپ کی یہ بات بھی درست ہے :)؛ ساتھ ہی دوسرے مصرع کے "تیرے، میرے" کو بھی "تِرے، مِرے" کر لِیا جائے :)

سارہ بشارت گیلانی صاحبہ
 

شوکت پرویز

محفلین
سارہ بشارت گیلانی صاحبہ !
بہت زبردست اشعار ہیں، داد قبول کیجئے۔۔۔
-----
تو جو افگار محبت ہے تو کیا غم ہے اے دل
یہاں اے کی "ے" کا گرنا مستحسن نہیں، اس دوبارہ دیکھیں۔۔۔
(یہاں غم اور اے کے درمیان کا "ہے" نکال دینے سے یہ سقم بآسانی دور ہو سکتا ہے :) )
-----
اس غزل کے قافیے تو ویسے ہی بہت آسان ہیں، انہیں دہرانے سے پرہیز کریں، ویسے بھی یہ صرف چار اشعار ہیں، اور ان میں بھی "بلا" اور "سجا" دو بار دہرائے گئے ہیں جو کہ بھلے نہیں لگتے، انہیں بآسانی بدلا جا سکتا ہے۔ :)
 
بھئی ہمیں تو سارے ہی اشعار خوب لگے۔ بس ایک سوال پوچھنا تھا کہ کیا گلستان میں بھی پھول "سجائے" جاتے ہیں؟ ہمیں جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ گلستان میں پھول کھلائے جاتے ہیں، کیاریوں میں پھول لگائے جاتے ہیں جبکہ گلدان میں یا بالوں میں پھول سجائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں جبکہ راہوں میں پھول بچھائے جاتے ہیں۔ گو کہ اس میں تھوڑی بہت رد و بدل کی گنجائش ہے اور اس سے ہٹ کر مثالیں مل جائیں گی۔ :) :) :)
 

شوکت پرویز

محفلین
بھئی ہمیں تو سارے ہی اشعار خوب لگے۔ بس ایک سوال پوچھنا تھا کہ کیا گلستان میں بھی پھول "سجائے" جاتے ہیں؟ ہمیں جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ گلستان میں پھول کھلائے جاتے ہیں، کیاریوں میں پھول لگائے جاتے ہیں جبکہ گلدان میں یا بالوں میں پھول سجائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں جبکہ راہوں میں پھول بچھائے جاتے ہیں۔ گو کہ اس میں تھوڑی بہت رد و بدل کی گنجائش ہے اور اس سے ہٹ کر مثالیں مل جائیں گی۔ :) :) :)
جی سعود بھائی !
میں بھی (پہلے شعر میں) گلستان میں پھول "کِھلانے" کو کہنے والا تھا، اس سے قافیہ کے دہرانے کا عیب بھی دور ہو جاتا۔
لیکن پھر مطلع میں قافیہ "بلا" اور "کِھلا" ہو جاتے، اور "لا" مشترک ہونے کی بنا پر یہ ایک اور مسئلہ ہو جاتا۔۔۔
اس لئے میں نے یہ سارہ صاحبہ پر ہی چھوڑ دیا کہ وہ خود اسے بدلیں۔ :)
 
اگر پہلا شعر یوں کر لیا جائے تو؟
آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا۔۔۔ (جبکہ مجھے تو یہ مصرع بھی غزل کی کلی روانی میں کھٹکتا محسوس ہو رہا ہے)
اور مرے کاکلِ خم دار میں اک پھول سجا
اس طرح بلانے کا مقصد بھی پورا ہوتا جائے گا!

اور دوسرا شعر
تو مرا نام لے اس طرح کہ نغمے گونجیں
تو مجھے یادوں کی وادی سے کبھی ایسے بلا۔۔۔۔ (اس مصرع میں بھی وہ مزا نہیں آ رہا اب بھی)

تیسرا شعر!
یہ تو انعامِ وفا ہے اسے سینے سے لگا!
بہتر ہوا کچھ!

شعرِ چہارم بہت رواں ہے۔
البتہ!
میں ترے دل میں بسوں، تو مرے سینے میں سما۔
اس طرح دونوں باتیں مادی ہو جاتی ہیں ۔۔ حسن اپنی جگہ!
 

یونس عارف

محفلین
اگر پہلا شعر یوں کر لیا جائے تو؟
آج تاروں کی حسیں سیج تلے مجھ کو بلا۔۔۔ (جبکہ مجھے تو یہ مصرع بھی غزل کی کلی روانی میں کھٹکتا محسوس ہو رہا ہے)
اور مرے کاکلِ خم دار میں اک پھول سجا
اس طرح بلانے کا مقصد بھی پورا ہوتا جائے گا!

اور دوسرا شعر
تو مرا نام لے اس طرح کہ نغمے گونجیں
تو مجھے یادوں کی وادی سے کبھی ایسے بلا۔۔۔ ۔ (اس مصرع میں بھی وہ مزا نہیں آ رہا اب بھی)

تیسرا شعر!
یہ تو انعامِ وفا ہے اسے سینے سے لگا!
بہتر ہوا کچھ!

شعرِ چہارم بہت رواں ہے۔
البتہ!
میں ترے دل میں بسوں، تو مرے سینے میں سما۔
اس طرح دونوں باتیں مادی ہو جاتی ہیں ۔۔ حسن اپنی جگہ!


آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے
 

الف عین

لائبریرین
واہ سارا، اچھی غزل ہے۔
سبھی لوگوں کے مشورے درست ہیں۔ بہر حال میں صرف دو باتیں کہوں گا۔
ایک تو وہی، ’گلستان‘ عام طور پر ’ں‘ کے ساتھ گلستاں نظم کیا جاتا ہے، ویسے غلط نہیں۔ اس لحاظ اے اسے بدلنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد چاہے ’کوئی‘ کا اضافہ کرو، یا کسی اور ’فعو‘ کا۔ لیکن کھلا والی غلطی تب بھی رہتی ہے۔ یہاں شبستاں بھی آ سکتا ہے، لیکن اس صورت میں بھی ’دیپ جلا‘ بہتر ہوتا ہے، بہر حال دوسرا مصرع خود ہی تبدیل کرو تو بہتر ہے۔
دوسری بات۔ اس میں جو روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ اس غزل میں ’تو‘ کے تخاطب کی وجہ سے بھی ہے۔ شاید یہ تم سے تبدیل کرنے سے بہتر ہو۔ اس سورت میں قوافی بلاؤ، سجاؤ وغیرہ ہوں گے۔ غور کر کے دیکھو۔
 
محترمہ پروین شاکر سے بڑی شاعرہ ہیں۔ :)

اھم اھم۔۔ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ایک شعر گیلانی صاحبہ کا ایسا ہے کہ بس۔ ملاحظہ فرمائیں:
وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے
واہ وا! کیا ہی پرلطف ہے۔ ویسے واقعی پروین شاکر صاحبہ سے آگے نکلنے کے بہت کچھ آثار ہیں موصوفہ میں۔
 
اھم اھم۔۔ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ایک شعر گیلانی صاحبہ کا ایسا ہے کہ بس۔ ملاحظہ فرمائیں:
وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے​

واہ وا! کیا ہی پرلطف ہے۔ ویسے واقعی پروین شاکر صاحبہ سے آگے نکلنے کے بہت کچھ آثار ہیں موصوفہ میں۔

تو آپ یہ موتی اس دھاگے میں پرو دیجیے نا۔
 
Top