آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے!!!!!

سیما علی

لائبریرین

آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے​

آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے


یہ اُس آتش بیان کا تذکرہ ہے جو دنیا کو بازیچۂ اطفال خیال کرتا تھا۔ اسے اپنا فارسی کلام بہت پسند تھا، لیکن جو مقبولیت اور شہرتِ دوام اسے حاصل ہوئی، وہ اردو شاعری کی بدولت ہوئی۔ اسے برصغیر کا عظیم شاعر تسلیم کیا گیا۔ آج ہر خاص و عام اسے مرزا غالب کے نام سے جانتا ہے۔
مرزا اسد اللہ خان کا وطن آگرہ تھا، وہی آگرہ جو ایک اعجوبہ و نادرِ زمانہ عمارت تاج محل کے لیے بھی دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے۔ دلّی میں پرورش پائی۔ کم سنی ہی میں شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا۔ غالب کا ابتدائی کلام فارسی زبان و تراکیب اور ان کی مشکل پسندی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آیا مگر غالب نے اپنے اس اندازِ بیان کو نہ چھوڑا۔
ناقدین کے مطابق انھوں‌ نے مسلسل تنقید کے بعد اپنے کلام کو کچھ تبدیلی کے ساتھ ضرور پیش کیا، لیکن ان کی مخالفت کم نہ ہوسکی۔ غالب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

ادھر دلّی کے حالات ابتر اور خود غالب کی زندگی کی مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ معاش کی فکر اور تنگ دستی سے پریشان تھے۔ تبھی غالب کی شاعری میں ایک جدّت بھی پیدا ہوئی۔ مگر ان کی شاعری کا رنگ نرالا ہی رہا۔ غالب نے اپنی شاعری میں روایتی موضوعات کو بھی نہایت پُرلطف اور الگ ہی ڈھب سے باندھا اور ایسے مقبول ہوئے کہ آج تک ان کا سحر برقرار ہے۔ مرزا غالب نے سنجیدہ اور گہرے مضامین کو نہایت بے تکلفی سے اپنے اشعار میں‌ باندھا ہے اور یہی ان کی وجہِ انفرادیت ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب کے اشعار کی خوبی یہ ہے کہ ہر بار قاری ایک نئے معنٰی اور نئے مفہوم سے آشنا ہوتا ہے۔
اردو زبان کے اس
عظیم شاعر کا زمانہ وہ تھا جب مغل حکومت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہندوستان میں ابتری اور انتشار تھا۔ عہدِ طفلی میں غالب اپنے والد سے محروم ہوگئے اور بھائی بھی نہ رہے۔ پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔ کم عمری میں‌ ان کی شادی نواب الٰہی بخش کی بیٹی سے ہوگئی تھی۔ شادی ہوئی تو خدا نے متعدد بار اولاد دی جو بچپن میں ہی مٹی کا رزق بن گئی۔ اس پر غالب کی شراب نوشی اور مالی خستگی نے بڑا غضب ڈھایا۔
غالب غزل گو شاعر، قصیدہ نگار اور اچھے نثر نگار تھے۔ خطوط نویسی میں ان کا جواب نہیں۔ انھوں‌ نے خط کو مکالمہ بنا دیا تھا۔ ان کے دواوین 1841ء، 1847ء، 1861ء، 1862ء اور 1863ء میں شائع ہوئے۔ مشکل پسندی کا زمانہ ختم ہوا تو غالب نے سلاست، روانی اور نہایت خوب صورتی سے اپنے خیالات کو غزل میں پیش کرکے اس وقت کے شعرا میں‌ نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے کلام میں‌ فلسفیانہ انداز، عشق اور تصوف کے موضوعات کا نہایت لطیف اظہار ملتا ہے۔

فارسی کی تراکیب اور مشکل الفاظ کے استعمال کو چھوڑ کر جب غالب نے اردو شاعری پر توجہ دی تو ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت عروج پر تھی جس نے انھیں‌ مقبولیت دی۔
انھیں مغل دربار تک رسائی حاصل ہوئی تو وہ نجم الدّولہ، دبیرُ الملک، مرزا نوشہ اور نظام جنگ جیسے خطاب اور القاب سے نوازے گئے۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا راز صرف ان کے کلام میں حسن اور بیان کی خوبی ہی نہیں بلکہ انھوں نے زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے اشعار میں‌ سمویا اور اسی لیے ممتاز ہوئے۔ غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔
غالب بحیثیت نثار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس میں انھوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘
مرزا غالب سے کئی لطائف اور تذکرے منسوب ہیں لیکن ہم یہاں وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے غالب کی دردمندی اور انسان دوستی عیاں ہوتی ہے۔
"غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔
خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔
"تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔
سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔
جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”
دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔
چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔
دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

"مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔” واضح ہو کہ یہ واقعہ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔

اپنے ایک خط میں‌‌ غالب نے اپنی مکان سے متعلق پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگرد منشی ہر گوپال المعروف مرزا تفتہ سے منسوب ہے۔ انھیں لکھے گئے غالب کے ایک ایسے ہی خط سے چند سطور ہم یہاں نقل کررہے ہیں‌۔ اس میں اسد اللہ خان غالب نے اپنے مستقر کی تبدیلی سے متعلق مرزا تفتہ کو اپنی تکلیف اور پریشانی سے آگاہ کیا تھا۔ لکھتے ہیں،

"مالک نے مکان بیچ ڈالا۔ جس نے لیا ہے اس نے مجھ سے پیام بلکہ ابرام کیا کہ مکان خالی کر دو۔ مکان کہیں ملے تو میں اوٹھوں (اٹھوں) بیدرد نے مجھ کو عاجز کیا اور مدد لگا دی۔ وہ صحن بالا خانے کا جس کا دو گز کا عرض اور دس گز کا طول، اس میں پاڑ بندھ گئی۔ رات کو وہیں سویا۔

گرمی کی شدت پاڑ کا قرب، گمان یہ گزرتا تھا کہ یہ کٹکڑ ہے اور صبح کو مجھ کو پھانسی ملے گی۔ تین راتیں اسی طرح گزریں۔ دو شنبہ 9 جولائی کو دوپہر کے وقت ایک مکان ہاتہ (ہاتھ) آ گیا، وہاں جا رہا، جان بچ گئی۔ یہ مکان بہ نسبت اس مکان کے بہشت ہے اور یہ خوبی کہ محلّہ وہی بلی ماروں کا۔
اگرچہ ہے یوں کہ میں اگر اور محلّہ میں‌ بھی
جا رہتا تو قاصدانِ ڈاک وہاں پہنچتے، یعنی اب اکثر خطوط لال کنویں کے پتے سے آتے ہیں اور بے تکلف یہیں پہنچتے ہیں۔ بہرحال تم وہی دلّی بلی ماروں کا محلّہ لکھ کر خط بھیجا کرو۔
دو مسودے تمہارے اور ایک مسودہ بے صبر کا یہ تین کاغذ درپیش ہیں۔ دو ایک دن میں بعد اصلاح ارسال کیے جائیں گے۔ خاطر عاطر جمع رہے۔

صبح جمعہ
28 جولائی 1860ء

حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے بھی اس عظیم شاعر کی شخصیت اور اپنے احباب کے لیے ان کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں‌ لکھا ہے:

غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔
15 فروری 1869ء کو مرزا غالب ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے، مگر ان کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی ہوتا رہے گا۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے​

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور​


 

سیما علی

لائبریرین
یہ لڑی دیکھ کر یقین جانیے اپیا دل خوش ہو گیا ۔
سوچ ہی رہی تھی کہ کچھ اشعار شامل کروں ۔۔
بہت شکریہ بٹیا ہمیں پتہ آپ بہت خوش ہوں گی جب ہم شئیر کررہے تھے تو آپ ہمارے خیال میں تھیں کیسی ہیں بہت مصروف ہوگئی ہیں گھر میں سب کیسے ہیں ؟ اللہ آپ سب کو اپنی امان میں رکھے آمین ❤️
 

مومن فرحین

لائبریرین
اپنی پسند کے کچھ اشعار یہاں شامل کر رہی ہوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاے کیوں

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

گھر میں کیا تھا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے

بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار
جو مری کوتاہیِٔ قسمت سے مژگاں ہو گئیں

بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂِ چاک گریباں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گئیں

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
 

مومن فرحین

لائبریرین
بہت شکریہ بٹیا ہمیں پتہ آپ بہت خوش ہوں گی جب ہم شئیر کررہے تھے تو آپ ہمارے خیال میں تھیں کیسی ہیں بہت مصروف ہوگئی ہیں گھر میں سب کیسے ہیں ؟ اللہ آپ سب کو اپنی امان میں رکھے آمین ❤️

ہاں اپیا اگر مصروف نہ ہوتی تو آپ کے ساتھ مل کر یہ کام کرتی ۔
اللّه کا شکر ہے ٹھیک ہوں ۔
مصروفیت تو ۔۔۔۔ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہاں اپیا اگر مصروف نہ ہوتی تو آپ کے ساتھ مل کر یہ کام کرتی ۔
اللّه کا شکر ہے ٹھیک ہوں ۔
مصروفیت تو ۔۔۔۔ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔۔۔
اللہ اپنی امان میں رکھے !
ہر مشکل میں آسانیاں عطا فرمائے آمین ❤️
 

سیما علی

لائبریرین
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رک گیا روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
 

سیما علی

لائبریرین
ہماری بے حد پسندیدہ غزل
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

تھیں بنات النعش گردون دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی، گو، نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر وہاں ہو گئیں

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں

ہم موجد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اس بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
 

سیما علی

لائبریرین
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

نے مژدۂ وصال نہ نظّارۂ جمال
مدّت ہوئی کہ آشتئ چشم و گوش ہے

مے نے کِیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق یاں اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے

دیدار بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست
بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے! جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنّتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز@ نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
 
Top