اسکین دستیاب آثار الصنادید (اسکین صفحات: حصہ دوم)

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۲
شاہجہان آباد کا صاحب ممدوح نے اس کوٹھی کو 1260 ہجری مطابق 1844 عیسوی کے بنانا شروع کیا۔ یہ کوٹھی نہایت نفیس و لطیف ہے اور یہ شعر اسی پر صادق آتا ہے۔​
اگر فردوس بر روے زمین ست​
ہمین ست و ہمین ست و ہمین ست​
باؤلی درگاہ حضرت قطب صاحب​
قطب صاحب کی درگاہ کے پاس مسجد کے آگے ندیم الدولہ خلیفۃ الملک حافظ محمد داؤد خان بہادر مستقیم جنگ نے 1260 ہجری مطابق 1844 عیسوی کے یہ باؤلی بنانی شروع کی اور 1263 ہجری مطابق 1846 عیسوی کے یہ باؤلی بن چُکی۔ باؤلی بھی بہت خوبصورت بنی ہے۔ نرے چونے اور سنگ خارا سے بنی ہوئی ہے۔ قریب چودہ 14000 ہزار روپے کے سواے قیمت پتھر کے اس باؤلی کے بنے مین خرچ ہوئے ہین۔​
آہنی پُل ہینڈن​
غازی آباد کے پاس ہینڈن ایک ندی ہے۔ اوسپر سرکار انگریزی نے 1263 ہجری مطابق 1846 عیسوی کے آہنی پُل باندھا ہے۔ یہ پُل نہایت عجیب ہے۔ لوہے کی کمانیون پر عجب خوبصورتی سے لٹھے لٹکائے ہین اور اوسپر راستہ بنایا ہے۔ ایسی ترکیب ان کمانیون کی رکھی ہے کہ جب کوئی وزنی چیز آتی ہے تو بوجھ سہارنے کو کمانی جُھک جاتی ہے۔ ہر چیز کے چلنے سے یہ پُل لچکتا ہے اور کمانیان بوجھ بٹا لیتی ہین۔ اس نواح مین اس قسم کا​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۳
پُل عجائب روزگار سے ہے۔​
لال ڈگی​
شہر شاہجہان آباد مین قلعہ کے نیچے خاص بازار کے سامنے بموجب حکم لارڈ الن برا بہادر کے 1263 ہجری مطابق 1846 عیسوی کے یہ حوض تیار ہوا ہے۔ اس حوض کو سر سے پانؤن تک سنگ سرخ کا بنایا ہے اور چارون کونون پر چار برج کٹہرے درا بہت خوشنمائی سے بنائے ہین۔ دونون طرف عرض مین سیڑھیان بنی ہوئی ہین۔ نہر کے پانی سے یہ حوض ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ طول اسکا پانسو 500 فٹ اور عرض ڈیڑھ سو 150 فٹ ہے ۔ اس حوض کے بنے سے اکثر کنوئین میٹھے ہو گئے ہین۔ اس سبب سے لوگون کو بہت آسایش ہے۔​
پُل جدید نکمبود​
نکمبود کے گھاٹ کلکتہ دروازے کے سامنے اور سلیم گڈھ کے برابر 1268 ہجری مطابق 1852 عیسوی کے سرکار انگریزی نے دریا پر پُل بنایا ہے۔ اگرچہ یہ پُل چونے اور اینٹ کا ہے لیکن ایسی خوشنمائی اور مضبوطی سے بنایا ہے اور ایسے خوش قطع اور بڑے دَر لادے ہین کہ آدمی ششدر رہجاتا ہے۔ اسکے بنے سے دریا کو اور بھی رونق ہو گئی ہے ۔ اور نکمبود کے گھاٹ اس پُل سے بہت خوش معلوم ہوتے ہین۔ برسات کے دنون مین صدھا آدمی سیر و تماشا دیکھنے کو جاتے ہین اور ہر روز میلہ رہتا ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۴
خاتمہ​
اردو زبان کے بیان مین​
1) ہندؤن کے ران مین تو یہان ہندی بھاشا بولنے چالنے لکھنے پڑھنے مین آتی تھی۔ 587 ہجری مطابق 1191 عیسوی موافق سمت 1248 بکرماجیت کے جب مسلمانون کی سلطنت نے یہان قیام پکڑا تو بادشاہی دفتر فارسی ہو گیا مگر زبان رعایا کی وہی بھاشا رہی۔ سن 894 ہجری مطابق 1488 عیسوی تک بجزبادشاہی دفتر کے رعایا مین فارسی کا رواج نہین ہوا۔ اسکے چند روز بعد سلطان سکندر لودھی کے عہد مین سب سے پہلے ہندؤن مین سے کائستون نے جو ہمیشہ سے امورات ملکی اور ترتیب دفتر مین مداخلت رکھتے تھے فارسی لکھنا پڑھنا شروع کیا پھر رفتہ رفتہ اور قومون نے بھی شروع کر لیا اور فارسی لکھنے پڑھنے کا ہندؤن مین بھی رواج ہو گیا۔​
2) اگرچہ بابر اور جہانگیر کے عہد تک ہندی بھاشا مین کچھ تغیر و تبدل نہین ہوئی تھی، مسلمان اپنی گفتگو فارسی زبان مین اور ہندو اپنی گفتگو بھاشامین کیا کرتے تھے۔ پر جب بھی امیر خسرو نے خلجی بادشاہون ہی کے زمانے سے یعنی حضرت مسیح سے تیرھوین صدی مین فارسی زبان مین بھاشا کے لفظ ملانے شروع کیے تھے اور کچھ پہیلیان اور مکریان اور نسبتین ایسی زبان مین کہین تھین جسمین اکثر الفاظ بھاشا کے تھے، غالب ہے کہ رفتہ رفتہ بھاشا مین جب ہی​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۵
2) سے ملاپ شروع ہوا ہو مگر ایسا نتھا جسکو جدا زبان کہا جائے جبکہ شاہجہان بادشاہ نے 1058 ہجری مطابق 1648 عیسوی کے شہر شاہجہان آباد آباد کیا اور ہر ملک کے لوگون کا مجمع ہوا۔ اوس زمانے مین فارسی زبان اور ہندی بھاشا بہت مل گئی اور بعضی فارسی لفظون مین بسبب کثرت استعمال کے تغیر و تبدیل ہو گئی۔ غرضکہ لشکر بادشاہی اور اردو معلی مین ان دونون زبانون کی ترکیب سے نئی زبان پیدا ہو گئی اور اسی سبب سے زبان کا اردو نام ہوا۔ پھر کثرت استعمال سے لفظ زبان کا محذوف ہو کر اس زبان کو اردو کہنے لگے۔ رفتہ رفتہ اس زبان کی تہذیب اور آراستگی ہوتی گئی۔ یہان تک کہ تخمیناً 1100 ہجری مطابق 1688 عیسوی کے یعنی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد مین شعر کہنا شروع ہوا۔ اگرچہ مشہور ہے کہ سب سے پہلے اس زبان مین ولی نے شعر کہا مگر خود ولی کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ اوس سے پہلے بھی کسی نے اس زبان مین شعر کہا ہے۔ کیونکہ اوسکے شعرون مین اور شاعرون کی زبان پر طنز نکلتی ہے مگر اوس زمانے کے شعر بہت پھیکے اور نہایت سُست بندش کے تھے پھر دن بدن اِسکو ترقی ہوتی گئی یہان تک کہ میر اور سودا نے اوسکو کمال پر پہنچا دیا۔​
3) میر کی زبان ایسی صاف اور شستہ ہے اور اوسکے شعرون مین ایسے اچھے محاورات بے تکلف بندھے ہین کہ آجتک سب اوسکی تعریف کرتے ہین۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۶
1) سودا کی زبان بھی اگرچہ بہت خوب ہے اور مضامین کی تیزی میر پر غالب ہے مگر میر کی زبان کو اوسکی زبان نہین پہونچتی۔​
2) اردو نثر لکھنے والون مین میر امن جسنے باغ بہار لکھا سب پر فوق لے گیا حقیقت مین نظم لکھنے مین جیسا کمال میر کو ہے نثر لکھنے مین ویسا ہی کمال میر امن کو ہے۔​
3) عربی زبان کا اردو مین ترجمہ سب سے پہلے مولوی عبدالقادر صاحب اور مولوی رفیع الدین صاحب نے کیا۔ مولوی عبدالقادر صاحب کا اردو ترجمہ کلام اللہ کا اردو لغات کے لیے ایک بڑی سند ہے اور مولوی رفیع الدین صاحب کا ترجمہ تراکیب نحوی کے لیے ایک بہت عمہد دستاویز ہے۔​
4) اردو زبان کے شعرون کا بھی طریقہ فارسی شعرون کے قاعدے پر یون ہی آن پڑا ہے کہ گویا جوان مرد خوبصورت لڑکی کی تعریف مین شعر کہتا ہے۔​
5) ہندی بھاشا مین دستور تھا کہ عورت کی زبان سے مرد کی نسبت شوقیہ شعر ہوتے تھے۔ بعضی بعضی دفعہ اردو زبان مین اسیطرح پر بھی شعر کہا جاتا ہے اور اوسکو ریختی بولتے ہین۔ غالب ہے کہ تخمیناً 1220 ہجری مطابق 1805 عیسوی کے انشاء اللہ خان نے اسکو رواج دیا۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۷
1) فارسی شعرون کی جو بحرین اور اقسام ہین وہ سب اردو شعرون مین مروج ہین۔ الا مکری اور پہیلی کہنے کا وزن بھی اور ہے۔ زبان بھی ایسی ہے جسمین اکثر بھاشا ملی ہوئی ہو۔​
2) نسبتین جو مشہور ہین فقرے ہوئے ہین کہ اون مین دو باتین یا زائد چیزین جسمین کچھ باعتبار ظاہر کے مناسبت نہین معلوم ہوتی ہے بیان کیجاتین ہین اور مخاطب سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسی ایک بات جامع بیان کرے جو سب مین پائی جائے۔​
3) پہیلی مین کسی چیز کے اوصاف اور خصائص اور پتے بیان کیے جاتے ہین اور مخاطب سے پوچھا جاا ہے کہ وہ چیز کیا ہے۔ بڑی خوبی پہیلی کی یہ ہے کہ اوسمین اوس چیز کا نام بھی آ جائے جسکے اوصاف اور خصائص بیان کیے گئے ہین پھر اوسپر بھی مخاطب نہ سمجھے۔​
4) مکرمی مین عورت کی زبان سے ذومعنی بات بیان کی جاتی ہے کہ جنمین ایک سے معشوق مراد ہوتا ہے اور دوسری سے اور کچھ قائل اوسکا جب چاہے معشوق کی بات سے مکر جائے۔​
پہیلیان​
بالا تھا تو سبکو بھایا​
بڑا ہوا کچھ کام نہ آیا​
مین لے دیا اسکا ناؤن​
بوجھے تو بوجھ نہین چھوڑ دے گاؤن​
دیا یعنی چراغ​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۱۰۸
فارسی بولی آئی نا​
ترکی بولی پائی نا​
ہندی کہتے عارسی آوے​
مُنھ دیکھون جو اسے بتاوے​
آئینہ​
مُکرمی​
آپ ہلے اور موکو ہلاوے​
واکا ہلنا موکو بھاوے​
ہل ہلا کے بیا نسنکھا​
ای سکھی ساجن نا سکھی پنکھا​
پنکھا​
نسبتین​
گوشت کیون نہ کھایا​
ڈوم کیون نہ گایا​
گلا نہ تھا​
انار کھایا کیون نہین​
وزیر رکھا کیون نہین​
دانا نہ تھا​
سموسہ کیون نہ کھایا​
جوتہ کیون نہ پہنا​
تلا نہ تھا​
ریختی​
اچھا جو خفا ہمسے ہو تم سے صنم اچھا​
لو مین بھی نہ بولون گی خدا کی قسم اچھا​
شعر اردو​
عشق کرتے ہین اوس پری رو سے​
میر صاحب بھی کیا دیوانے ہین​
میر اوس نیم باز آنکھون مین​
ساری مستی شراب کیسی ہے​
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے​
اوسکی زلفون مین سب اسیر ہوئے​
تمت بالخیر​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
اسکین صفحات : حصہ دوم – کتبہ ھا
صفحہ ۲

کتبہ لوہے کی لاٹھ کا

K1.jpg



ترجمہ​

اُس شخص نے کہ جسنے یہ خبر سنی کہ میرے دشمن اچھی سپاہ اور رفیقون کے ساتھ مجھسے لڑائی اور مورچہ بندی کی تیاری کرتے ہین ایک آلہ شہرت کا کھدوایا جسطرح کہ اُسکی تلوار کے زخم اعضائے دشمنون پر جو شخص کہ مالک سات سلطنت کا تھا اُسنے دریائے سندھ سے عبور کر کر سندھیون قوم دہلی کا زکو دبا لیا اُسکی​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
اسکین صفحات : حصہ دوم – کتبہ ھا
صفحہ ۳


باقاعدہ فوج اور اُسکی گھاتین جو بطرف جنوب اُس دریا کے تھین اس زمانے مین بھی پاکیزگی کے ساتھ یا وہین۔


جسطرح کہ شیر ایک شکار چھوڑ کر دوسرا شکار پکڑتا ہے اسیطرح اُسنے اس دنیا کو چھوڑ کر اُس عالم پر قبضہ کیا یعنی مر گیا مگر اُسکی نام آوری ابتک ہے زمین پربسبب اُسکے پہلے کامون کی شہرت کے اگرچہ وہ اب مر گیا ہے لیکن اُسکے ہتیار کرنے کی طاقت جو دشمنون کا تباہ کرنے والا تھا اب تک عالم مین باقی ہے۔


اُس شخص نے کہ جس نے بوسیلہ اپنی تلوار کے مدت تک زمین کی بادشاہت کی اور اُسنے اپنے من سورج اور چاند کی خاصیتین اکٹھی کی تھین اور اُسکے چہرے کی کوبصورتی مثل پورے چاند کے تھی اُسی راجہ دھاوا کا جسنے اپنا سر جھکایا پاؤن وشنون مین اور لگایا اپنا دل اُسی وشنون پر تھا یہ اونچا ہتیار یعنے لاٹھ وشنون کے نام پر جو قابل پرستش کے ہے بنایا ہوا دھاوا کا۔


******************************
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
اسکین صفحات : حصہ دوم – کتبہ ھا
صفحہ ۴


کتبہ لاٹھ اشوکا یا فیروز شاہ


۶۰سمت ۱۲۲۰بیساکھ سدی پندرس ساکھمنبری کا راجہ سری مان یعنی بہمہ صفت موصوف انیل دیو کا بیٹا سری مان بعنی بہمہ صفت موصوف بیلدیو۔

k2.jpg



جانب غرب​
k3.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
اسکین صفحات : حصہ دوم – کتبہ ھا
صفحہ ۱۳


k18.jpg



اے بیسل راج دیو اپکی چلنے کے سامان مین دشمنون کی عورتون کی آنکھ مین پانی ہوتا ہے اور دشمنون کے دانتونمین کھانس ہوتی ہے اور بڑی سی بڑی شاعری آپکی تعریف کرنیوالی ہوتی ہے اور رستہ ایسا ہوتا ہے کہ جس سے گنہگار لوگ بھی بہشت کو چڑھ جائین اور دشمنون کے دل خالی ہوتے ہین۔


اے بلدیو دشمنونکی عورتون کے دل کہ جو کھیلنے کی جگہ کی ماجائی ہین اُنمین آپکا رہنا ہو اور تمھارے دلمین اُنکا رہنا ٹھیک نہین اور دشمنون کے دلونمین تمھاری دہشت ہو اور آپ کو تو دشمنون کی دہشت ہی نہین کسواسطے کہ پرشوتم کہ جسنے سمندر کو متھ کر لچھمین نکالی اُسکی گود مین آپ کیا نہین سوئے ہو۔


ساکھمنیریکا راجہ دیوتا دنیا مین سب سے اونچا ہے کیسا کہ جسنے بندھیا چل سے ہمادری تلک تیرتھ جابرا کرنے مین فتح کیا پھر کیسا کہ اونچی گردن کرنیوالون کو مارنے والا اور نیچی گردن والون سے خوشی اور جسنے بے دھرمون کو مار کر آریاورت کو بامعنی کر دیا۔


یہ ساکھمنیری راجہ سریمان بلدیو اپنی اولاد سے کہتا ہے کہ اب ہمنے ہماچل اور بِندہ کے بیچ کی زمین خراج دینے والی کر لی اور باقی کی اپنا کرنے مین تمھارا دل ارادے سے مت ہو کیسا ہے وہ راجہ کہ جو اچھے اخلاق والے ہین اُنکا سردار ہے۔

*********************************
 
Top