اسکین دستیاب آثار الصنادید (اسکین صفحات: حصہ دوم)

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۲
نمانا اور اپنے بیٹے اور اپنے چالیس رفیقون کے ساتھ لڑ کر مارا گیا۔ غالب ہے کہ جب خانخانان سن ۲۰ جلوس جہانگیری مطابق ۱۰۳۴ ہجری موافق ۱۶۲۴ عیسوی کے چھوٹا جب اوسنے یہ مقبرہ بنایا۔ یہ مقبرہ بالکل چینی کاری کا ہے اور ایسی خوشرنگ اور خوبصورت چینی کاری اور رنگ آمیزی کی ہوئی ہے کہ دیکھنے سے علاقہ رکھتی ہے۔ برج اس مقبرے کا بالکل نیلے رنگ کا ہے اور اسی سبب سے نیلے برج کے نام سے مشہور ہے۔
چونسٹھ کھنبہ
متصل درگاہ حضرت نظام الدین کے یہ مقبرہ میرزا عزیز کوکلتاش خان بیٹے خان اعظم اتکہ خان کا ہے۔ جبکہ ۱۰۳۴ ہجری مطابق ۱۶۲۴ عیسوی کے احمد آباد گجرات میں جہانگیر کے عہد مین انکا انتقال ہوا تب اونکی لاش کو یہان لا کر دفن کیا اور یہ مقبرہ اونکی قبر پر بنا۔ یہ مقبرہ درحقیقت نئی طرح کا ہے کہ اپنا نظیر نہین رکھتا۔ سر سے پانؤن تک سنگ مرمر کا ہے۔ اس عمارت مین چونسٹھ ستون سنگ مرمر کے لگے ہوئے ہین۔ اس سبب سے اسکو چونسٹھ کھنبہ کہتے ہین۔ اسکی محرابون کا لداؤ اور ستونون کی قطع اور سنگ مرمر کی نمایش بہت ہی اچھی معلوم ہوتی ہے۔
مقبرہ خانخانان
یہ مقبرہ بارہ پلہ اور ہمایون کے مقبرے کے پاس عبد الرحیم خان خانخانان بن بیرم خان خانخانان کا ہے۔ ۱۰۳۶ ہجری مطابق ۱۶۲۶ عیسوی کے بہتر ۷۲ برس کی عمر مین انکا انتقال ہوا اور اسی مقبری مین دفن ہوئے۔ خان سپہ سالار کو – انکے مرنیکے تاریخ ہے یہ مقبرہ تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۳
کسی زمانے میں بہت خوب بنا ہوا تھا۔ سارا برج سنگ مرمر کا اور مقبرہ سنگ سرخ کا سنگ مرمر کی پچی کاری کا تھا۔ آصف الدولہ کے عہد میں اس مقبرے کا تمام پتھر اوکھڑ کر بِکا۔ افسوس ہے کہ یہ ایسی عمدہ عمارت یون خراب ہو گئی۔ اب یہ مقبرہ نرا چونے کا بھنڈ اور بالکل لُنڈ مُنڈ رہ گیا ہے۔ یہ خانخانان اکبر اور جہانگیری عہد کے بڑے نامی امیرون مین سے ہین۔ انکو سنسکرت مین بڑا دخل تھا اور شعر بھی خوب کہتے تھے۔
مقبرہ سید عابد
سید عابد نواب خان دوران خان کے رفیقون مین تھے۔ کسی لڑائی مین مارے گئے۔ جب یہ مقبرہ تخمیناً ۱۰۳۶ ہجری مطابق ۱۶۲۶ عیسوی کے بنا لال بنگلہ جو مکان مشہور ہے اوسیکے پاس یہ مقبرہ ہے۔ ساخت اسکی بالکل چونے اور اینٹ کی ہے اور کہین کہین چینی کاری کا بھی کام ہے۔ یہ مکان بھی اچھا بنا ہوا ہے۔ اسکے صحن مین حوض تھا۔ چارون طرف نہرین تھین مگر اب خراب ہو گئین ہین۔ دروازہ بھی اسکا خوش قطع بنا ہوا ہے اور اوسپر ایک سہ دری معقول ہے۔
خاص محل
پُرانے قلعہ کے پاس ایک محل تھا۔ شاہجہان کے وقت کا ۱۰۴۲ ہجری مطابق ۱۶۳۲ عیسوی کے زین خان کے بیٹے نے جنکا خاص محل خطاب تھا یہ محل بنایا تھا، اب یہ محل بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ دروازہ باقی ہے۔
مقبرہ شیخ عبد الحق محدث
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۴
حوض شمسی کے کنارے شیخ عبد الحق محدث کا یہ مقبرہ ہے جو اکبر اور جہانگیری عہد کے بڑے نامی عالموں مین سے ہیں۔ ۱۰۵۲ ہجری مطابق ۱۶۴۲ عیسوی کے انکا انتقال ہوا اور اوسی زمانے مین یہ مقبرہ بنا۔ مقبرے کے اندر قبر کے سرہانے ایک دیوار پر انکا سارا حال لکھ رکھا ہے۔ یہ مقبرہ نرے چونے پتھر کا ہے مگر تالاب کے کنارے پر واقع ہونے سے البتہ ایک سیر کی جگہ ہے۔
مسجد جہان نما یا مسجد جامع
یہ مسجد اقصی اور یہ معبد اعلیٰ ازک شاہجہان آباد سے ہزار گز کے فاصلے پر غرب کیطرف ایک چھوٹی سی پہاڑی پر واقع ہے کہ وہ پہاڑی اوسمین بالک چھپ گئی ہے اور شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ نے اس مسجد کو بنایا ہے کہ لطافت اور نزاکت اور خوبی اور خوشنمائی اسکی بیان سے باہر ہے۔ آدمی کی طاقت نہیں کہ اوسکا بیان کر سکے۔ ایسی خوش قطع اور خوشنما مسجد روے زمین پر نہین۔ سر سے پانؤن تک ایک رنگ کے سنگ سرخ کی ہے اور اندر سے اجارے تک سنگ مرمر کی اور جابجا سنگ سرخ مین سنگ مرمر کی دھاریان اور سنگ موسی کی پچی کاری کی ہوئی ہے۔ برج اسکے تمام سنگ مرمر کے ہین اور اوسمین سنگ موسی کی دھاریان بنی ہوئین ہین۔ ایسے مہندس بے بدل نے یہ مسجد بنائی ہے کہ کوئی در و دیوار طاق و محراب مرغولہ و کنگورہ تناسب سے خالی نہین۔ دسوین شوال ۱۰۶۰ ہجری
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۵
موافق ۱۶۵۰ عیسوی مطابق سال بست و چہارم جلوس مین اس مسجد کی بنیاد باہتمام سعد اللہ خان دیوان اعلی اور فاضل خان خانسامان کے پڑنی شروع ہوئی اور ہر روز پانچہزار راج مزدور بیلدار سنگ تراش کام کرتے تھے باوجود اس اہتمام کے چھ برس میں دس لاکھ روپیہ خرچ ہو کر یہ مسجد تمام ہوئی۔ اس مسجد کے تین گنبد ہین نہایت خوشنما نوے گز کی طول اور بیس ۲۰ گز کے عرض مین اندر کو سات محرابین ہین اور باہر صحن کی طرف گیارہ در۔ ایک در تو بہت بلند ہے اور پانچ پانچ در ادھر اودھر ہین۔ بڑے در تو یا ہادی بطور طغرا اور باقی درون پر کتبہ نام نامی شاہجہان اور تاریخ تعمیر اور زر مصارف سنگ موسی کی پچی کاری سے کھدا ہوا ہے۔ ان درون کے دونون طرف مینار ہین نہایت بلند اور بغایت خوشنما اور اوسمین زینے بنے ہوئے ہین کہ اوس راستے سے مینار کے اوپر چلے جاتے ہین۔ مینارون کے اوپر بارہ دری کی برجیان سنگ مرمر کی نہایت دلکشا دل ربا بنی ہوئین ہین۔ ان مینارون پر چڑھنے سے شہر کی عجب کیفیت معلوم ہوتی ہے اور درختون کی رونق اور مکانون کی خوشنمائی سے ایک عالم دکھائی دیتا ہے۔ شمالی منارہ بسبب بجلی کے گر پڑا تھا اور اوس عمارت اور صحن کا فرش بھی کہ وہ تمام سنگ سرخ کا ہے جابجا سے بگڑ گیا تھا ۔ سرکار انگریزی نے ۱۲۳۳ ہجری
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۶
مطابق ۱۸۱۷ عیسوی کے معین الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ کے عہد مین اس مینار کو بنوا دیا اور فرش بھی درست کروا دیا۔ کثرت نمازیون کی ماشاء اللہ اس مسجد مین مورد ملخ سے زیادہ ہوتی ہے اور امام کی آواز تکبیر سب نمازیون کو نہین پہنونچ سکتی، اسواسطے شاہزادہ میرزا سلیم ابن معین الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ نے ۱۲۴۵ ہجری مطابق ۱۸۲۹ عیسوی کے بڑے در کے بیچ مین ایک مکبر سنگ باسی کا بہت خوشنما بنوا دیا ہے کہ مکبرہ اوس بکر پر کھڑے ہو کر آواز اللہ اکبر اور ربنا لک الحمد سب کے کان کا آویزہ کرتا ہے۔ اس مسجد میں تمام فرش سنگ مرمر کا ہے اور اوسمین سنگ موسی کی پچیکاری سے مصلے بنا دیے ہین۔ ممبر اس مسجد کا سنگ مرمر کا ہے اور ایسا خوش قطع بنا ہوا ہے کہ جسکا بیان ممکن نہین۔ جانب شمال کے دالان ہین۔ کچھ تبرکات جناب خاتم الانبیا علیہ الصلوۃ والسلام کے رکھے ہین او روہ مقام درگاہ آثار شریف کہلاتا ہے۔ صحن مسجد کا نہایت دلکشا اور بغایت فرحت بخش ہے۔ ایک سو چھتیس گز کے عرض و طول سے اور اوسکے بیچون بیچ مین حوض ہے۔ فرحت بخش روح افزا دلکش اور دلربا پندرہ گز سے بارہ گرز کا نرا سنگ مرمر کا اور اوسکے بیچ مین فوارہ لگا ہوا ہے اور جمعہ اور عیدین اور الوداع کو چھوٹا کرتا ہے۔ اوس حوض کے غربی گوشے پر محمد تحسین خان محلی بادشاہی نے ۱۱۸۰ ہجری مطابق ۱۷۶۶ عیسوی مین یہ بات بیان کر کر کہ مین نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب مین اس جگہ بیٹھے دیکھا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۷
ایک چھوٹا سا کٹہرہ پتھر کا لگا ہوا ہے۔ اس مسجد کے صحن کے چارون طرف ایوا نہائے خوشنما اور والا نہائے فرحت افزا اور حجر ہاے دلکش اور مکانات فرحت بخش بنے ہوئے ہین اور چارون کونون پر چار برج ہین۔ بارہ دری کے بہت دلچسپ کہ اوس سے ایک عجب رونق اور بہار حاصل ہو گئی ہے۔ جنوبی اور شرقی دالان کے سامنے دائرہ ہندی وقت نماز جاننے کو بنا ہوا ہے۔ اس مسجد کے تین دروازے بہت عالی ہین۔ تینون دروازون مین برنجی کِواڑ چڑھے ہوئے ہین۔
دروازہ جنوبی مسجد جامع
جنوبی دروازہ اس مسجد کا چتلی قبر کے بازار کی طرف بہت خوشنما بنا ہوا ہے۔ دروازے پر رہنے کے لائق حجرے بے ہوئے ہین۔ اس دروازے کی تینتیس سیڑھیان ہین۔ ان سیڑھیون پر تیسرے پہر کو مجمع عام ہوتا ہے اور بساطی اپنی اپنی دوکانین لگاتے ہین اور طرح بطرح کی چیزین بیچتے ہین اور فالودے والا اپنی دوکان لگاتا ہے اور شربت قند اور فالودہ رنگین بیچتا ہے۔ کبابی ہر ہر طرح کے کباب بناتے ہین کہ اوسکی بو پر عاشق برشتہ جان حسرت لیجاتے ہین۔ عجب عجب طرح کے جانور اور اصیل اصیل مرغ بکتے ہین اور جوانان فرشتہ صورت ایام نوروز مین انڈے لڑاتے ہین کہ آسمان بھی اونکی جفاکاری اور نیرنگی پر رشک کھاتا ہے۔ یاران ہم عمر اور جوانان ہم سیرت ہاتھ مین ہاتھ دیے ہوئے سیر و تماشا کرتے پھرتے ہین۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۸
دروازہ شمالی مسجد جامع
دروازہ شمالی اس مسجد کا پائے والون کے بازار کی طرف واقع ہے۔ یہ دروازہ بھی بہت خوبصورت ہے اور اسپر بھی حجری رہنے کے لائق بنے ہوئے ہین اور اسطرف اونتالیس سیڑھیان ہین۔ اگرچہ اسطرف بھی کبابی بیٹھتے ہین اور سودے والے دوکانین لگاتے ہین لیکن بڑا تماشا اسطرف مداریون اور قصہ خوانون کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خوان مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستان امیر ہمزہ کہتا ہے۔ کسی طرف قصہ حاتم طائی اور کہین داستان بوستان خیال ہوتی ہے اور صدہا آدمی اوسکے سننے کو جمع ہوتے ہین۔ ایک طرف مداری تماشا کرتا ہے اور بھانمتی کا کھیل ہوتا ہے اور بوڑھے کو جوان اور جوان کو بوڑھا بناتا ہے۔
دروازہ شرقی مسجد جامع
شرقی دروازہ اس مسجد عالی کا خاص بازار کیطرف ہے۔ یہ بہت بڑا دروازہ ہے۔ اوسپر مکانات بھی بہت بنے ہوئے ہین۔ اس دروازے کے آگے پینتیس سیڑھیان ہین۔ ان سیڑھیون پر ہر روز گذری ہوتی ہے۔ یہ گذری بھی شاہجہان آباد مین گویا ہر روز کا میلہ ہے۔ ہزار طرح طرح کے کپڑے الگنیون پر ڈالتے ہین اور عجب عجب خوشنمائی سے در و دیوار پر باغ سا کھلا معلوم ہوتا ہے۔ جوانان عشق سرشت طرح طرح کے جانور پنجرون مین لیے ہوئے سیر کرتے پھرتے ہین اور اونکی
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۶۹
اچھی اچھی آوازین سناتے ہین ایک طرف کبوتر والے کبوتر بیچتے ہیں اور ایک طرف گھوڑے والے گھوڑے لیے کھڑے ہین۔ خریدار جوق در جوق پرے پھرتے ہین اور ایک ایک چیز نقد دل کے بدلے مول لیتے ہین۔
دار الشفا اور دار البقا
اس مسجد کے گرد بہت چوڑا بازار چھوڑ بازار چھوڑ کر شرقی دونون کونون کی طرف دو حوض بڑے بڑے بنائے تھے اب وہ حوض بند ہو گئے ہین اور اون پر مکانات بن گئے ہین اور غربی دونون کونون مین سے شمال کیطرف دار الشفا تھی اور بادشاہ کیطرف سے حکیم مقرر تھے اور بیمارون کو دوا ملتی تھی۔ اب وہ کارخانہ نہین رہا۔ بادشاہزادون نے اسپر مکان بنا لیے ہین اور رہتے ہین اور جنوب کیطرف دار البقا یعنی مدرسہ ہے۔ یہ مدرسہ بھی بالکل ویران ہو گیا تھا اور اکثر مکان گر پڑے تھے۔ مولوی محمد صدر الدین خان بہادر صدر الصدور شاہجہان آباد نے اس مدرسے کو بادشاہ سے لیکر آباد کیا ہے اور اکثر مکانات شکستہ کی مرمت کی ہے اور بہت مستعد مستعد طالب علم بسائے ہین۔ یہ دونون مکان بھی شاہجہانی ہین اور جامع مسجد کے ساتھ تخمناً ۱۰۶۰ ہجری مطابق ۱۶۵۰ عیسوی مین بننے شروع ہوئے۔
بیگم کا باغ یا صاحب آباد
یہ باغ شہر شاہجہان آباد کے اندر چاندنی چوک کے پاس واقع ہے۔ اس باغ کو ملکہ جہان آرا بیگم بنت شاہجہان بادشاہ نے ۱۰۶۰ ہجری مطابق ۱۶۵۰ عیسوی کے بنایا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۰
کسی زمانے مین یہ باغ بہت نفیس تھا اور مکانات لطیف بنے ہوئے تھے اور جابجا نہرین جاری تھین مگر اب بہت خراب ہو گیا ہے۔ طول اس باغ کا نو سو ستر ۹۷۰ گز کا ہے اور عرض دو سو چالیس ۲۴۰ گز کا۔
مسجد فتحپوری
شہر شاہجہان آباد مین اردو بازار اور چاندنی چوک سے آگے بڑھکر یہ مسجد ہے۔ نواب فتحپوری بیگم زوجہ شاہجہان کی بنائی ہوئی ہے۔ یہ مسجد بھی ۱۰۶۰ ہجری مطابق ۱۶۵۰ عیسوی کے بنی ہے۔ طول اس مسجد کا پینتالیس گز کا ہے اور عرض بائیس گز کا اور سر سے پانؤں تک سنگ سرخ کی ہے۔ گنبد کے دونون طرف تین تین در کے ایوان در ایوان ہین۔ فرش سنگ مرمر کا ہے۔ دونون کونون پر دو مینار ہین۔ پینتیس پینتیس گز اونچے مگر اب اونکی برجیان ٹوٹ گئی ہین۔ اسکے آگے ایک چبوترہ ہے سنگ سرخ کا پینتالیس گز کا لنبا اور پینتیس گز کا چوڑا۔ اوس چبوترے کے آگے سنگ سرخ کا حوض ہے سولہ گز سے چودہ گز کا اور اوسکے آگے صحن ہے سو گز سے سو گز کا ۔ صحن کے گرد اونھتر حجرے طالب علمون کے رہنے کے لیے بنے ہوئے ہین۔
مسجد اکبر آبادی
شہر شاہجہان آباد کے فیض بازار مین یہ مسجد واقع ہے۔ نواب اعزاز النسا بیگم عرف اکبر آبادی بیگم زوجہ شاہجہان بادشاہ نے ۱۰۶۰ ہجری مطابق ۱۶۵۰ عیسوی کے
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۱
یہ مسجد بنائی۔ اس مسجد کے تین برج اور سات در ہین۔ مسجد کی عمارت تریسٹھ گز لنبی اور سترہ گز چوڑی نری سنگ سرخ کی ہے۔ اوسکا پیش طاق نرا سنگ مرمر کا نہایت پر چین کار ہے۔ اوسکے آگے ایک چبوترہ ہے سنگ سرخ کا کٹہرے دار تریسٹھ گز کا لنبا اور ستاون گز کا چوڑا اور ساڑھے تین گز کا اونچا۔ اوسکے آگے سنگ سرخ کا ایک حوض ہے۔ مسجد کا صحن ایک سو چون گز لنبا اور ایک سو چار گز چوڑا ہے اور اوسکے گرد طالب علمون کے رہنے کے لیے حجرے بنے ہوئے ہین۔ مسجد کے دروازے پر کتبہ سنگ موسی کی پچی کاری سے کھدا ہوا ہے۔
مسجد سر ہندی
یہ مسجد لاہوری دروازے کے باہر اب تک موجود ہے۔ اگرچہ صحن مسجد کا اکثر خندق کے دمدمے مین آ گیا ہے لیکن مسجد کا دالان بدستور موجود ہے۔ اس مسجد کو سر ہندی بیگم نے جو شاہجہان کی بیوی تھین ۱۰۶۰ ہجری مطابق ۱۶۵۰ عیسوی کے بنایا تھا۔ یہ مسجد سر سے پانؤن تک سنگ سرخ کی ہے مگر اکثر جگہون سے بسبب کہنہ ہونے کے شکستہ ہو گئی ہے۔
باغ شالا مار
یہ باغ لاہوری دروازے کے باہر شہر پناہ سے چھ میل شاہجہان بادشاہ کا بنایا ہوا جبکہ بادشاہ شہر پناہ کے بنانے سے فارغ ہوا تب تخمیناً ۱۰۶۴ ہجری مطابق ۱۶۵۳ عیسوی کے یہ باغ بنانا شروع کیا۔ اس باغ میں بہت خوبصورتی
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۲
سے نہرین اور حوض اور مکانات بنے ہوئے ہین اور عجب عجب طرح کے درخت اس باغ مین تھے۔ اب بھی تین چار درخت انبہ کے ایسے باقی ہین کہ اوس ضائقہ کا انبہ اور کہین نہین ہے۔ یہ نام اس باغ کا خود شاہجہان کا رکھا ہوا ہے۔ یعنی خانہ عیش و عشرت کیونکہ ہندی زبان مین شالہ کے معنی کھڑکی ہین اور مار کے معنی عیش اور خوشی کے۔
باغ روشن آرا
یہ باغ سبزی منڈی مین واقع ہے اور شاہجہانی باغات مین سے ہے۔ روشن آرا بیگم شاہجہان کی بیٹی نے یہ باغ بنایا ہے اور تیرھوین سال جلوس عالمگیر مین انکا انتقال ہوا اور اسی باغ مین دفن ہوئین۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باغ تخمیناً ۱۰۶۴ ہجری مطابق ۱۶۵۳ عیسوی کے یعنی اوس زمانے مین جبکہ شاہجہان نے شہر آباد کر کر سب بیگمات اور امرا کو باغات اور مکانات بنانے کا حکم دیا بنا ہے۔ یہ باغ بھی بہت خوب ہے۔ اسکے بیچ مین مقبرہ ہے اور نہرین ہین اور نہر کے پانی سے بھری جاتی ہین۔ اب بھی یہ باغ آباد و سرسبز ہے۔
باغ سر ہندی
سبزی منڈی کے پاس یہ باغ ہے کہ اسکو سر ہندی بیگم زوجہ شاہجہان بادشاہ نے ۱۰۶۴ ہجری مطابق ۱۶۵۳ عیسوی کے بنایا تھا۔ یہ باغ بھی کسی زمانے مین بہت آراستہ ہو گا مگر اب بالکل خراب ہے۔ کچھ کچھ مکانات اسکے بنے ہوئے باقی رہ گئے ہین۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۳
اور سرہندی بیگم کی قبر اسی باغ مین ہے۔
موتی مسجد
اس مسجد کو اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ نے سن ۲ جلوسی مطابق ۱۰۷۰ ہجری موافق ۱۶۵۹ عیسوی کے قلعہ شاہجہان مین متصل باغ حیات بخش بنایا ہے۔ مسجد سر سے پانؤن تک سنگ مرمر کی ہے۔ فرش اس کا اور در و دیوار محراب و مرغول اور چھت اور منڈیر سب کے سب سنگ مرمر کی ہین اور پھر اوسپر وہ منبت کاری کی ہوئی ہے اور یسے گل بوٹے بیل پتے بنائے ہین کہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہین۔ حقیقت مین ایسی منبت کاری تمام قلعہ مین کسی مکان پر نہین۔ اس مسجد کے تین در ہین۔ بہت خوشنما اور چھوٹے چھوٹے دو مینار ہین اور تین گنبد ہین۔ سنہرے اور اسی سبب سے بعضے لوگ اسکو سنہری مسجد بھی کہتے ہین۔ اس مسجد کے صحن مین ایک حوض ہے بہت چھوٹا۔ بھادون مین سے اس حوض مین پانی آتا ہے اور اوبل کر ہر وقت بہتا ہے۔ اس مسجد کے جانب شمال کو ایک حجرہ بنا ہوا ہے واسطے عبادت اور وظیفہ وظائف کے۔ اوسمین بھی ایک مختصر کم عمق بہت نفیس حوض ہے اور اوس کے گرد آئینہ بندی کی ہوئی ہے۔ اس مسجد کی تیاری مین ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپئے خرچ ہوئے ہین۔
محجر جہان آرا بیگم
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۴
حضرت نظام الدین کی درگاہ کے صحن مین یہ محجھر ہے نرا سنگ مرمر کا چارون طرف سنگ مرمر کی جالیان ہین۔ اس محجر کو جہان آرا بیگم بنت شاہجہان بادشاہ نے ۱۰۹۲ ہجری مطابق ۱۶۸۱ عیسوی کے اپنے جیتے جی بنایا تھا اور اوسی سال وہ مری اور یہان دفن ہوئی۔ مشہور ہے کہ اوسنے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرا تین کرور روپے کا اسباب جو ہے وہ سب یہان کے خادمون کو دیدینا مگر اوسکے مرنے کے بعد عالمگیر نے ایک کرور روپے کا اسباب دیا اور کہا کہ تہائی سے زیادہ مین وصیت نہین ہوتی۔ اس محجر مین جہان آرا بیگم نے خود اپنا کہا ہوا شعر اور تھوڑی سے عبارت ایک پتھر پر کھدوا کر لگا دی ہے۔​
مقبرہ سر نالہ​
درگاہ روشن چراغ دہلی کے پاس نالے کے سرے پر یہ ایک مقبرہ ہے۔ اس مقبرے کے ستون اور فرش سب سنگ سرخ کے ہین اور اور بھی اکثر جگہ سنگ سرخ لگا ہوا ہے۔ کچھ نہین معلوم ہوا کہ یہ مقبرہ کسکا ہے اور کب بنا لیکن طرز عمارت سے معلوم ہوتا ہے کہ سترھوین صدی سے بھی وریکا ہے یعنی تخمیناً ۱۱۰۰ ہجری مطابق ۱۶۸۸ عیسوی سے ہی وریکا بنا ہوا ہے۔​
درگاہ حضرت سید حسن رسول نما​
حضرت سید حسن رسول نما سید عثمان نارنولی کی اولاد مین ہین جہان اب​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۵
آپ کا مزار ہے وہ پہلے گلابی باغ مشہور تھا۔ یہان آپ رہتے تھے۔ ۱۱۰۳ ہجری مطابق ۱۶۹۱ عیسوی کے آپ کا انتقال ہوا اور اسی مقام پر دفن ہوئے۔ چنانچہ تاریخ آپ کے وفات کی باہر کے دالان پر کندہ ہے۔​
تاریخ​
حسن رسول نما با رسول باقی شد​
۱۱۰۳ھ​
۱۱۶۳ ہجری مطابق ۱۷۴۸ عیسوی کے حاجی محمد طاہر نے اس درگاہ کے پاس ایک مسجد بنائی اور محمد سعید کا بنایا ہوا ایک حوض یہان موجود ہے۔ ۱۲۳۴ ہجری مطابق ۱۸۱۸ عیسوی کے میر محمد شفیع نے جو آپ کی اولاد مین سے ہین نواب امیر خان والی ٹونک سے روپیہ لیکر اس مقام پر ایک چار دیواری پختہ بطور فصیل کے بنائی ہے اور اوسکے دو دروازے بہت معقول بنائے ہین۔​
جھرنہ​
قطب صاحب کے نواح مین حوض شمسی کے پاس یہ مکان ہے۔ اس مقام پر ایک دیوار بندکی بہت قدیمی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حوض شمسی جب بنا تو اوسکے پانی کا زور روکنے کو یہ دیوار بنی۔ اس دیوار مین پانی نکلنے کا رستہ بھی تھا کہ جب پانی کا زور ہوتا تھا تو اوسمین سے نکل کر اور نو لکھے نالے مین ہو کر تغلق آباد اور عادل آباد کے نیچے بہ جاتا تھا۔قریب ۱۱۱۲ ہجری مطابق ۱۷۰۰ عیسوی کے نواب غازی الدین خان فیروز جنگ نے اوس دیوار کے​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۶
آگے دالان بنایا اور اوسکے آگے پچیس فٹ مربع کا حوض ہے۔ اس دالان مین شمسی حوض کے پانی سے چادر چھوٹتی تھی اور چھت مین سے بھی فوارے چھوٹتے تھے اور پانی مین پانی بھر کر آگے کی نہر مین ہو کر بہتا تھا۔ اب وہ چادر اور فوارے بند ہو گئے ہین الا حوض مین پانی آنے کا راستہ باقی ہے۔ اکبر شاہ ثانی نے اسکے جنوب اور شمال کو کچھ مکانات سنگین بنائے تھے اور اب بہادر شاہ نے بیچ مین سنگین بارہ دری بنائی ہے۔ سانون بھادون کے مہینے مین ہر سال بڑی دھوم سے میلہ ہوتا ہے۔ آٹھ آٹھ روز لوگ جمع رہتے ہین اور بدھ سے جمعے تک تین دن تو بہت ہجوم ہوتا ہے اور عین میلے کا دن جمعرات ہوتی ہے۔ لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی سے کم اس میلے مین جمع نہین ہوتا ہے۔ کل خرچ میلے کا ڈھائی تین لاکھ روپے سے کم نہین ہوتا۔ پھول والے اور اور حرفہ والے اس مقام مین پنکھا بناتے ہین اور حضرت قطب صاحب کی درگاہ مین لیجا کر چڑھاتے ہین۔ اسی سبب سے اس میلے کا نام پھول والون کا میلہ ہے۔ میلے کے دنون مین اس مقام پر بڑا تماشا ہوتا ہے۔ سیکڑون آدمی اس حوض مین نہاتے ہین اور دالانون کی چھت اور دیوارون کی منڈیر اور درختون کے تہنون پر سے حوض مین کودتے ہین اور پھسلنے پتھر پر سے جو اٹھارہ فٹ لنبا ہے اور ساڑھے سات فٹ چوڑا ہے پھسلتے ہین اور انبُون کے درختون مین جو امریان کہلاتی ہین رسہ ڈالکر جھولتے ہین۔ افسوس ہے کہ اس میلے کے بابت ضلع دہلی کی عدالتون مین تعطیل نہین ہوتی۔​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۷
مسجد اورنگ آبادی​
شہر شاجہان آباد مین پنجابی کرے کے اندر یہ مسجد ہے۔ اس مسجد کو نواب اورنگ آبادی بیگم اورنگ زیب عالمگیر کی بیوی نے تخمیناً ۱۱۱۴ ہجری مطابق ۱۷۰۳ عیسوی کے بنایا ہے۔ یہ مسجد بھی سر سے پانؤن تک سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے اور اوسکے صحن مین ایک حوض ہے جسمین نہر کا پانی آتا ہے۔ صحن اس مسجد کا بہت وسیع تھا لیکن اکثر لوگون نے اپنے گھرون مین ملا لیا ہے۔ اب اس مقام پر پنجابی سوداگر رہتے ہین اور اسی سبب سے پنجابی کٹرہ مشہور ہو گیا ہے۔​
مقبرہ زیب النسا بیگم​
شہر شاہجہان آباد کے کابلی دروازے کے باہر یہ مقبرہ ہے۔ نواب زیب النسا بیگم بنت عالمگیر کا ان بیگم کا انتقال جو بڑی بیٹی عالمگیر کی تھین ۱۱۱۴ ہجری مطابق ۱۷۰۳ عیسوی کے ہوا اور عالمگیر کے عہد مین یہ مقبرہ اور مسجد بنی۔ انکی قبر کے سرہانے کتبہ لگا ہوا ہے۔​
موتی مسجد​
قطب صاحب کی درگاہ کے پاس ایک دیوار بیچ یہ مسجد ہے۔ نرے سنگ مرمر کی۔ فرش بھی سنگ مرمر کا ہے اور اوسمین سنگ موسی کی دھاریان لگائی ہیں۔ اس مسجد کے تین در اور تین گنبد ہین اور مسجد کے صحن کے کونون پر دو مینار سنگ مرمر کے ہین۔ قریب ۱۱۲۱ ہجری مطابق ۱۷۰۹ عیسوی کے شاہ عالم بہادر شاہ نے​
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۸
یہ مسجد بنائی تھی۔ شاہ عالم کے وقت مین اس مسجد کا بیچ کا گنبد بھونچال سے گر پڑا تھا اور اوسی زمانہ شاہ عالم مین اسکی مرمت ہو گئی تھی۔
زینت المساجد
شہر شاہجہان آباد مین دریا کے کنارے یہ مسجد ہے۔ زینت النسا بیگم بنت عالمگیر بادشاہ کی۔ اوسنے قریب ۱۱۲۲ ہجری مطابق ۱۷۱۰ عیسوی کے یہ مسجد اور اپنے دفن ہونے کو محجر بنایا۔ یہ مسجد سر سے پانؤن تک سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہے۔ اور تینون برج سنگ مرمر کے ہین اور اوسمین سنگ موسی کی دھاریان بنائی ہین۔ دو منارے اس مسجد کے بہت بلند ہین اور دور دور سے دکھائی دیتے ہین۔ اس مسجد کے سات در ہین۔ ایک بڑا اور باقی چھوٹے اور اسکے صحن مین ایک حوض ہے جسمین کنوئین سے پانی آتا تھا۔ اب وہ کنوان بند ہو گیا ہے۔ شمال کی جانت اس مسجد کے ایک محجر ہے سنگ مرمر کا اور دوسرا محجر سنگ باسی کا ۔ اندر کے محجر مین زینت النسا بیگم کی قبر ہے اور اوسکے سرہانے پتھر پر کتبہ لگا ہوا ہے۔
مقبرہ غازی الدین خان
اجمیری دروازے کے باہر میر شہاب الدین المخاطب بہ غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ پدر نظام الملک آصف جاہ کا یہ مقبرہ ہے جو عالمگیری عہد کے بڑے نامی امیرون مین سے ہین۔ یہ مقبرہ اونھون نے اپنے جیتے جی آپ بنوایا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۷۹
جبکہ ۱۱۲۲ ہجری مطابق ۱۷۱۰ عیسوی کے سال چہارم جلوس شاہ عالم بہادر شاہ مین بمقام احمد آباد انکا انتقال ہوا تو اونکی نعش کو یہاں لا کر اونھین کے بنائے ہوئے مقبرے مین دفن کیا۔ یہ مقبرہ سارا سنگ سرخ کا ہے ار اسکا دروازہ نہایت خوبصورت ہے۔ مقبرے مین ایک صحن وسیع ہے۔ اوسکے جنوب اور شمال کو حجرے متعدد دو گہے اور دالان بنے ہوئے ہین اور جانب شرق دروازہ ہے ترپولیہ کے طور پر اور جانب ٖغرب نری سنگ سرخ کی مسجد ہے اور مسجد کے دونون پہلو مین کچھ صحن چھوڑ کر دالان ہین۔ جنوبی دالان کے پاس ایک محجر ہے سنگ باسی کا۔ اوس محجر مین ایک اور محجر ہے سنگ مرمر کا جالی دار اور بہت نفیس جالیان کُھدی ہوئی ہین اوس محجر مین۔ نواب غازی الدین خان اور اون کی اولاد کی قبرین ہین۔ مدت تک اس مدرسے مین سرکار انگریزی کی طرف سے مدرسہ رہا اور اسی سبب سے مدرسے کے نام سے مشہور ہو گیا۔ اعتماد الدولہ نواب فضل علی خان لکھنؤ والے نے اس مدرسے کے خرچ کے واسطے ایک لاکھ ستر ہزار ۱۷۰۰۰۰ روپے دیے تھے چنانچہ سرکار کی طرف سے یہ کتبہ اون کے نام کا ایک دیوار پر کھودوا کر لگا دیا ہے۔
محجر شاہ عالم بہادر شاہ
قطب صاحب کی درگاہ کے پاس موتی مسجد سے ملا ہوا یہ محجر ہے جبکہ ۱۱۲۴ ہجری مطابق ۱۷۱۲ عیسوی کے شاہ عالم بہادر شاہ کا انتقال ہوا
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۰
تو اس محجر مین رکھے گئے۔ بعد اسکے جبکہ سلطان عالی گوہر شاہ عالم بادشاہ کا ۱۲۲۱ ہجری مطابق ۱۸۰۶ عیسوی کے انتقال ہوا تو وہ بھی اسی محجر مین رکھے گئے۔ بعد اسکے جبکہ محمد اکبر بادشاہ ثانی کا ۱۲۵۳ ہجری مطابق ۱۸۳۷ عیسوی مین انتقال ہوا تو وہ بھی اسی محجر میں دفن ہوئے۔ اگرچہ تاریخ وفات اونکی قبر کے سرھانے کندہ نہین ہے مگر راقم آثم نے اون کے مرنے کی یہ تاریخ کہی تھی۔
تاریخ
چون برفت از جہان شہ اکبر
شد سیہ آسمان زد و دجگر
پای شادی شکست و احمد گفت
سال تاریخ او غم اکبر
۱۲۵۳
برج اندرون احاطہ مقبرہ ہمایون
ہمایون کے مقبرے مین یہ ایک چھوٹا سا برج ہے سنگ سرخ کا اور کہین کہین اوسمین سنگ مرمر بھی لگا ہوا ہے اور اوسمین سنگ مرمر کے تعویذ کی دو قبرین ہین۔ اگرچہ نہین معلوم کہ یہ کسکا برج ہے مگر اوسمین کچھ شک نہین کہ ہمایون کے مقبرے کے بہت بعد کا بلکہ حال کا بنا ہوا ہے اور ہم اسکو تخمیناً ۱۱۳۱ ہجری مطابق ۱۷۱۸ عیسوی کا بنا ہوا جانتے ہین۔
سُنہری مسجد کوتوالی
شہر شاہجہان آباد مین کوتوالی چبوترے کے پاس یہ مسجد ہے۔ اس مسجد کو نواب روشن الدولہ ظفر خان نے محمد شاہ کے عہد مین ۱۱۳۴ ہجری مطابق
 

شمشاد

لائبریرین
عنوان : آثار الصنادید
مصنف : سر سید احمد خان
صفحہ ۸۱
۱۷۲۱ عیسوی کے بنایا ہے۔ یہ مسجد بھی بہت خوش قطع ہے۔ اگرچہ چونے اور اینٹ سے بنی ہوئی ہے لیکن اسکے برج اور کلسیان سب سُنہری ہین۔ اس مسجد کے برج شکستہ ہو گئے تھے اسواسطے روشن الدولہ کی دوسری مسجد کے برج اسپر چڑھا دیے ہین۔ اس مسجد کی پیشانی پر چند اشعار کندہ ہین۔
مسجد و مدرسہ شرف الدولہ
شہر شاہجہان آباد مین دریبے کے بازار مین یہ مسجد ہے اور اوسکے پاس مدرسہ ہے۔ اس مسجد اور مدرسے کو نواب شرف الدولہ بہادر نے محمد شاہ بادشاہ کے عہد مین ۱۱۳۵ ہجری مطابق ۱۷۲۲ عیسوی کے بنایا ہے۔ یہ مسجد اگرچہ چونے اور اینٹ کی بنی ہوئی ہے مگر اوسکے تینون برج سنگ مرمر کے ہین۔ مگر سنگ مرمر بھی ایسا زرد ہے کہ پیتل کا شبہ جاتا ہے۔ اس مسجد کی پیشانی پر ایک کتبہ لگا ہوا ہے۔
جنتر منتر
جنتر کے معنی آلے کے ہین اور یہان مراد آلات رصد سے ہے اور منتر ایک لفظ مہمل ہے جو زبان کے محاورے مین اصلی لفظ کے ساتھ بولتے ہین جیسے کھانا وانا، غرض کہ یہ رصد خانہ ہے جسکو راجہ سوائی جی سنگہ والی جے پور نے محمد شاہ بادشاہ کے حکم بموجب ۷ جلوسی مطابق ۱۱۳۷ ہجری موافق ۱۷۲۴ عیسوی کے بنایا اور حساب کی صحت کے لیے اسیطرح کا رصد خانہ سوائے
 
Top