محمد وارث

لائبریرین
فہرست


انتساب
دیباچہ
خونی تھوک
انقلاب پسند
جی آیا صاحب
ماہی گیر
تماشا
طاقت کا امتحان
دیوانہ شاعر
چوری

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیباچہ

یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔



امرتسر 5 جنوری 1936ء

سعادت حسن منٹو

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خُونی تُھوک


گاڑی آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔

مسافروں کے گروہ کے گروہ پلیٹ فارم کے سنگین سینے کو روندتے ہوئے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ پھل بیچنے والی گاڑیاں ربڑ ٹائر پہیوں پر خاموشی سے تَیر رہی تھیں۔ بجلی کے سینکڑوں قمقمے اپنی نہ جھپکنے والی آنکھوں سے ایک دوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ برقی پنکھے سرد آہوں کی صورت میں اپنی ہوا پلیٹ فارم کی گدلی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ دور ریل کی پٹری کے پہلو میں ایک لیمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم کی فضا سگریٹ کے تند دھوئیں اور مسافروں کے شور میں لپٹی ہوئی تھی۔

پلیٹ فارم پر ہر ایک شخص اپنی اپنی دھن میں مست تھا۔ تین چار بنچ پر بیٹھے اپنی ہونے والی سیر کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک گھڑی کے نیچے خدا معلوم کن خیالات میں غرق زیرِ لب گنگنا رہا تھا۔ دور کونے میں نیا بیاہا ہوا جوڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا۔ خاوند اپنی بیوی کو کچھ کھانے کیلیے کہہ رہا تھا۔ وہ شرما کر مسکرا دیتی تھی، پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر ایک نوجوان قلیوں کے ساتھ لڑکھڑا کر چل رہا تھا، جو اسکی بہن کا تابوت اٹھائے ہوئے تھے۔ پانچ چھ فوجی گورے ہاتھ میں چھڑیاں لئے اور سیٹی بجاتے ہوئے ریفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل رہے تھے۔ بک سٹال پر چند مسافر اپنا وقت ٹالنے کی خاطر یونہی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے میں مشغول تھے۔ بہت سے قلی سرخ وردیاں پہنے گاڑی کی روشنی کا امید بھری نگاہوں سے انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ روم کے اندر ایک صاحب انگریزی لباس زیب تن کئے سگار کا دھؤاں اڑا کر وقت کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔

"قلیوں کی زندگی گدھوں سے بھی بدتر ہے۔"

"مگر میاں کیا کریں آخر پیٹ کہاں سے پالیں؟"

"ایک قلی دن بھر میں کتنا کما لیتا ہوگا؟"

"یہی آٹھ دس آنے۔۔۔۔۔۔۔۔"

"یعنی صرف جینے کا سہارا۔۔۔۔۔۔اور اگر بال بچے ہوں تو اپنا پیٹ کاٹ کر ان کا منہ بھریں۔ جب ان لوگوں کی تاریک زندگی کا خیال ایک دفعہ بھی میرے دماغ میں آجائے تو پہروں سوچتا رہتا ہوں کہ آیا ان کی مصیبت ہماری نام نہاد تہذیب پر بدنما داغ نہیں ہے؟"

دو دوست پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

خالد اپنے دوست کی گفتگو سن کر قدرے متعجب ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا۔ "کیوں میاں یہ لینن کب سے بنے تم؟۔۔۔۔۔۔تہذیب کس بلا کا نام ہے۔۔۔۔۔۔انسانیت کے سرد لوہے پر جما ہؤا زنگ۔۔۔۔۔۔جانے دو ایسی باتوں کو، جانتے ہو میں پہلے ہی سے اپنے حواس کھوئے بیٹھا ہوں۔"

"خالد، سچ کہہ رہے ہو۔ یہ باتیں واقعی دماغ کو درہم برہم کر دیتی ہیں۔ دو روز ہوئے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ پندرہ مزدور کارخانے میں آگ لگ جانے کی وجہ سے جلے ہوئے کاغذ کے مانند راکھ ہوگئے۔ کارخانہ بیمہ شدہ تھا، مالک کو روپیہ مل گیا۔ مگر پندرہ عورتیں بیوہ بن گئیں اور خدا معلوم کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ کل تین نمبر پلیٹ فارم پر ایک خاکروب کام کرتے کرتے گاڑی تلے آکر مرگیا۔ کسی نے آنسو تک نہ بہایا۔۔۔۔۔۔جب سے یہ واقع دیکھا ہے، طبیعت سخت مغموم ہے۔ یقین جانو، حلق سے روٹی کا لقمہ نیچے نہیں اترتا، جب دیکھو اس خاکروب کی خون میں لتھڑی ہوئی لاش آنکھیں باہر نکالے میری طرف گھور رہی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے اس کے گھر ضرور جانا چاہئے، شاید میں اس کے بچوں کی کچھ مدد کر سکوں۔"

خالد مسکرایا اور اپنے دوست کا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔ "جاؤ۔۔۔۔۔۔پندرہ مزدوروں کی بیکس بیویوں کی بھی مدد کرو، یہ ایک نیک اور مبارک جذبہ ہے مگر اس کے ساتھ ہی شہر سے کچھ فاصلے پر چند ایسے لوگ بھی آباد ہیں، جنھیں ایک وقت کیلیے سوکھی روٹی کا نصف ٹکڑا بھی میسر نہیں۔ گلیوں میں ایسے بچے بھی ہیں جن کے سروں پر کوئی پیار دینے والا نہیں، ایسی سینکڑوں عورتیں موجود ہیں جن کا حسن غربت کے کیچڑ میں گل سڑ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بتاؤ تم کس کس کی مدد کرو گے؟ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں سے کس کس کی مٹھی بھرو گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں ننگے جسموں میں سے کتنوں کی ستر پوشی کرو گے؟"

"آہ، درست کہتے ہو خالد۔۔۔۔درست کہتے ہو، مگر بتاؤ اس تاریک آندھی کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ اپنے ہم جنس افراد کو ذلت کی زندگی بسر کرتے دیکھنا، ننگے سینوں پر چمکتے ہوئے بوٹوں کی ٹھوکریں کھاتے دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت بھیانک خواب ہے۔"

"واقعات کی رفتار کا نتیجہ دیکھنے کا انتظار کرو، یہ لوگ اپنی طاقت کے باوجود اس طوفان کو نہیں روکتے۔ خود اعتمادی نے انہیں برداشت کرنا سکھا دیا ہے۔۔۔۔۔چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر چنگاری کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔۔۔بہرحال تمھیں امید رکھنی چاہئے شاید تمھاری زندگی میں ہی مصائب کے یہ بادل دور ہوجائیں۔"

"میں یہ سہانا وقت دیکھنے کیلیے اپنی زندگی کے بقایا سال نذر کرنے کو تیار ہوں۔"

"کاش یہی خیال باقی لوگوں کے دلوں میں بھی موجود ہوتا۔۔۔۔۔مگر یار گاڑی آج کچھ دیر سے آتی معلوم ہوتی ہے۔ دیکھو نا پٹڑی پر روشنی کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔"

خالد کا ساتھی کسی گہری فکر میں غوطہ زن تھا۔ اسلیے اس نے اپنے دوست کے آخری الفاظ بالکل نہ سنے۔ اور اگر سنے تو کچھ اور خیال کرکے کہنے لگا۔ "واقعی یہ خیال پیدا کرنا چائیے اور اگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"چھوڑو میاں اب اس فلسفے کو۔۔۔۔۔کچھ پتا بھی ہے، گاڑی کب آنے والی ہے؟" خالد نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔

"گاڑی۔۔۔۔۔۔" اور پھر سامنے والی گھڑی کی طرف نگاہ اٹھا کر بولا۔ "نو بج کر پچیس منٹ، بس دس منٹ تک آجائے گی۔۔۔۔۔یعنی دس منٹ کے بعد ہمارا دوست ہمارے پاس ہوگا۔۔۔۔۔۔ذرا خیال تو کرو، میں وحید کی آمد کو اس دردناک گفتگو کی وجہ سے بالکل بھول چکا تھا۔"

یہ کہتے ہوئے خالد کے دوست نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانا شروع کیا۔

پلیٹ فارم پر لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مسافر بڑی سرعت سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ قلی اسباب کے ڈھیروں کے پاس خاموش کھڑے گاڑی کے منتظر تھے کہ جلد اپنے کام سے فارغ ہوکر ایک آنہ حاصل کرسکیں۔ خوانچہ والے دوسرے پلیٹ فارموں سے جمع ہو کر اپنی اپنی اپنی مخصوص صدا بلند کررہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، مختلف انجنوں کی پھپ پھپ، خوانچہ والوں کی صداؤں، مسافروں کی باہم گفتگو کے شور اور قلیوں کی بھدی آوازوں سے معمور تھی۔۔۔۔۔۔برقی پنکھے بدستور سرد آہیں بھر رہے تھے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خُونی تُھوک


(گزشتہ سے پیوستہ)



ریفرشمنٹ روم کے اندر بیٹھے ہوئے مسافر نے جو ابھی تک سگار کو دانتوں میں دبائے کش کھینچ رہا تھا، اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف بڑی بے پروائی کے انداز میں دیکھا، اور بازو کو جھٹکا دے کر مرمریں میز پر سہارا دیتے ہوئے بلند آواز میں بولا۔

"بوائے۔"

ٹھوڑی دیر خادم کا انتظار کرنے کے بعد وہ پھر چیخا۔

"بوائے۔۔۔۔۔۔بوائے۔" اور پھر آہستہ بڑبڑاتے ہوئے۔ "نمک حرام"

"جی آیا حضور۔" دوسرے کمرے میں سے کسی کی آواز آئی، اور ساتھ ہی سپید لباس پہنے ہوئے ایک خادم بھاگ کر اس مسافر کے قریب مودب کھڑا ہوگیا۔

"حضور۔"

"ہم نے تمھیں دو دفعہ آواز دی۔ سوئے رہتے ہو تم لوگ شاید۔"

"حضور میں نے سنا نہیں، ورنہ کیا مجال ہے کہ غلام حاضر نہ ہوتا۔"

غلام کا لفظ سن کر مسافر کا غصہ فرو ہوگیا۔

"دیکھو درجہ اول کے مسافروں سے یہ بے رخی اچھی نہیں، ہم تمھارے بڑے صاحب کے بھی کان کھینچ سکتا ہے، سمجھے؟"

"جی ہاں۔"

"ایجنٹ کے، وہ ہمارا دوست ہے۔۔۔۔۔۔خیر، دیکھو تم ویٹنگ روم میں جاؤ اور ہمارے قلی سے کہو کہ وہ صاحب کا تمام اسباب پلیٹ فارم پر لے جائے۔ گاڑی آنے میں صرف پانچ منٹ باقی ہیں۔"

"بہت اچھا حضور۔"

"اور ہاں، ہمارا بل دوسرے آدمی کے ہاتھ بھجوا دو۔"

"بہت اچھا صاحب"

"دیکھو، بل میں پانچسو پچپن نمبر سگریٹ کے ایک ڈبے کے دام بھی شامل کرلینا۔۔۔۔۔۔پانچسو پچپن نمبر کا ڈبہ خیال رہے۔"

"بل اور ڈبہ گاڑی میں لے کر حاضر ہو جاؤں گا، وقت تھوڑا ہے۔"

"جو مرضی میں آئے کرنا، مگر اب تم جاؤ اور جلدی ہمارے قلی کو اسباب نکالنے کیلیے کہہ دو۔"

مسافر نے یہ کہہ کر ایک انگڑائی لی اور میز پر پڑے ہوئے شراب کے گلاس میں سے آخری گھونٹ ایک ہی جرعے میں ختم کردیئے۔ گیلے ہونٹ ایک بے داغ ریشمی رومال سے صاف کرنے کے بعد وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ دورازے کی طرف بڑھا۔

صاحب کو دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر ایک خادم نے جلدی سے دروازہ کھول دیا، مسافر بڑی رعونت سے ٹہلتا ٹہلتا پلیٹ فارم کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔

دور ریل کی آہنی پٹڑیوں کے درمیان خیرہ کن روشنی کا ایک دھبہ نظر آرہا تھا جو آہستہ آہستہ آس پاس کی تاریکی کو چیرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔

ٹھوڑی دیر کے بعد یہ دھبہ روشنی کی ایک لانبی دھار میں تبدیل ہوگیا اور دفعتاً انجن کی چوندھیا دینے والی روشنی ایک لمحے کیلیے پلیٹ فارم کے قمقموں کو اندھا بناتے ہوئے گل ہو گئی۔ ساتھ ہی کچھ عرصہ کیلیے انجن کے آہنی پہیوں کی بھاری گڑگڑاہٹ تلے پلیٹ فارم کا شور دب کر رہ گیا۔۔۔ایک چیخ کے ساتھ گاڑی سٹیشن کے سنگین چبوترے کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔

پلیٹ فارم کا دبا ہوا شور انجن کی گڑگڑاہٹ سے آزاد ہو کر ایک نئی تازگی سے بلند ہوا۔ مسافروں کی دوڑ دھوپ، بچوں کے رونے کی آواز، قلیوں کی بھاگ دوڑ، اسباب نکالنے کا شور، ٹھیلوں کی کھڑکھڑاہٹ، خوانچہ والوں کی بلند صدائیں، شینٹ کرتے ہوئے انجن کی دلخراش چیخیں اور بھاپ نکلنے کی شاں شاں، پلیٹ فارم کی آہنی چھت تلے فضا میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے تیر رہی تھیں۔

"خالد۔۔۔۔۔۔وحید کو تم نے دیکھا کسی ڈبے میں۔"

"نہیں تو"

"خدا جانے اس گاڑی سے آیا بھی ہے یا نہیں۔"

"تار میں تو اسی گاڑی کا ذکر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ارے، وہ ڈبے میں کون ہے۔۔۔۔وحید۔"

"ہاں، ہاں، وحید۔"

دونوں دوست بھاگتے ہوئے اس ڈبے کی طرف بڑھے جس میں سے وحید اپنا اسباب اتروا رہا تھا۔

ریفرشمنٹ روم والا مسافر تیزی سے فرسٹ کلاس کمپاڑمنٹ کی طرف بڑھا۔ باہر دروازے کے ساتھ لگے ہوئے کاغذ کو ایک نظر دیکھنے کے بعد دروازہ کھول کر ڈبے کے اندر داخل ہوگیا اور پیتل کی سلاخ تھام کر قلی اور اپنے اسباب کا انتظار کرنے لگا۔

قلی اسباب سے لدا ہوا گاڑی کے ڈبوں کی طرف دیکھ دیکھ کر دوڑا چلا آرہا تھا۔ مسافر نے اسے جھلا کر بلند آواز میں پکارا۔

"ابے اندھے، ادھر آ"

قلی نے مسافر کی آواز پہچان کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر بھیڑ میں خود مسافر کو نہ دیکھ سکا، وہ ابھی اسی پریشانی کی حالت میں ہی تھا کہ ایک اور آواز آئی۔

"کیوں۔ نظر نہیں آرہا کیا؟ ادھر، ادھر۔۔۔۔۔ناک کی سیدھ۔"

قلی نے مسافر کو دیکھ لیا اور اسباب لیکر اسکے ڈبے کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔

"صاحب، ایک طرف ہٹ جائیے میں اسباب اندر رکھدوں"

"ہاں رکھو" دروازے کے ساتھ ایک گدے دار نشست پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ "مگر اتنا عرصہ سوئے رہے تھے کیا؟ خانسامے نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ صاحب کا سامان اٹھا کر گاڑی آتے ہی فوراً ڈبے میں رکھ دینا؟"

"مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کس ڈبے میں سوار ہونگے" قلی نے ایک بھاری ٹرنک اٹھا کر بالائی نشست پر رکھتے ہوئے کہا۔

"یہ ڈبہ ہمارا ریزرو کرایا ہوا ہے، باہر چٹ پر نام بھی لکھا ہوا ہے۔"

"آپ نے پہلے یہ کہا ہوتا تو ہرگز یہ دیر نہ ہوتی"۔۔۔۔۔ایک، دو، تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آٹھ۔۔۔اور دس، قلی نے اسباب کی مختلف اشیا گننا شروع کردیں۔

سامان قرینے سے رکھنے کے بعد قلی نے اپنے اطمینان کیلیے ایک بار رکھی ہوئی چیزوں پر نگاہ ڈالی اور ڈبے سے نیچے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔

"صاحب، اپنا سامان پورا کر لیجئے"

مسافر نے بڑی بے پروائی سے اپنی جیب سے ایک نفیس بٹوہ نکالا اور ابھی کھول کر مزدوری ادا کرنے والا ہی تھا کہ اسے کچھ یاد آیا۔

"ہماری چھڑی کہاں ہے؟"

"چھڑی؟۔۔۔۔۔۔۔ چھڑی تو آپ کے پاس ہی تھی۔"

"میرے پاس، بکتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہیں چھوڑ آیا ہوگا تو"

"چھڑی آپ کے پاس تھی۔۔۔۔۔مگر صاحب اس سخت کلامی سے پیش آنا درست نہیں، جب میں نے کوئی خطا ہی نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

قلی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ سن کر مسافر آگ بھبھوکا ہوگیا اور اپنی جگہ سے اٹھکر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر چلانے لگا۔

"سخت کلامی سے پیش آنا درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔کسی نواب کا صاحبزادہ ہے۔۔۔۔۔جتنے کی چھڑی ہے اتنی تو تیری قیمت بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔چھڑی لیکر آتا ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔چور کہیں کا۔"

چور کے لفظ نے قلی کے دل میں ایک طوفان برپا کردیا، اسکے جی میں آئی کہ اس مسافر کو ٹانگ سے پکڑ کر نیچے کھینچ لے اور اسے اس اکڑفوں کا مزا چکھا دے۔ مگر طبیعت پر قابو پا کر خاموش ہوگیا اور نرمی سے کہنے لگا۔

"آپ کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے، چھڑی آپ نے کہیں رکھدی ہوگی، مجھے بتائیے میں وہاں سے پتا لے آؤں۔"

"گویا میں بیوقوف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہہ رہا ہوں، چھڑی لیکر آؤ ورنہ ساری شیخی کرکری کردوں گا۔"

قلی ابھی کچھ جواب دینے ہی لگا تھا کہ اسے چند قدم کے فاصلے پر خانساماں نظر آیا جو ہاتھ میں سگریٹ کا ڈبہ اور چھڑی پکڑے چلا آرہا تھا۔

"چھڑی خانساماں لیکر آرہا ہے اور آپ خواہ مخواہ مجھ پر برس رہے ہیں۔"

"بکو نہیں اب۔۔۔۔۔۔۔کتے کی طرح چلائے جا رہا ہے۔"

یہ سنکر قلی غصے سے بھرا ہوا مسافر کی طرف بڑھا۔ مسافر نے پورے زور سے اسکے بڑھے ہوئے سینے میں نوکیلے بوٹ سے ٹھوکر لگائی۔ ٹھوکر کھاتے ہی قلی چکراتا ہوا سنگین فرش پر گر کر بیہوش ہوگیا۔

قلی کو گرتے دیکھ کر بہت سے لوگ اسکے اردگرد جمع ہوگئیے۔

"بیچارے کو بہت سخت چوٹ آئی ہے۔"

"یہ لوگ بہانہ بھی کیا کرتے ہیں۔"

"منہ سے شاید خون بھی نکل رہا ہے۔"

"معاملہ کیا ہے؟"

"اس آدمی نے اسے بوٹ سے ٹھوکر لگائی ہے۔"

"کہیں مر نہ جائے بیچارہ۔"

"کوئی دوڑ کر پانی کا ایک گلاس تو لائے۔"

"بھئی ایک طرف ہٹ کر کھڑے رہو، ہوا تو آنے دو۔"

قلی کے گرد جمع ہوتے ہوئے لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد خالد اور اسکا دوست بھیڑ چیر کر گرے ہوئے مزدور کے قریب پہنچے۔ خالد نے اسکے سر کو اپنے گھٹنوں پر اٹھا لیا اور اخبار سے ہوا دینا شروع کردی۔ پھر اپنے دوست سے مخاطب ہو کر بولا۔

"مسعود، وحید سے کہہ دو کہ ہم اب اسے گھر پر ہی مل سکیں گے۔۔۔۔اور ہاں ذرا اس ظالم کو تو دیکھنا، کہاں ہے۔۔۔۔گاڑی چلنے والی ہے، کہیں وہ چلا نہ جائے۔"

یہ سنتے ہی لوگ اس مسافر کے ڈبے کے پاس جمع ہوگئے جو کھڑکی کے پاس بیٹھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اخبار پڑھنے کی بے سود کوشش کررہا تھا۔

مسعود اپنے دوست وحید سے رخصت لیکر اس مسافر کی طرف بڑھا اور کھڑکی کے قریب جا کر نہایت شائستگی سے کہا۔

"آپ یہاں اخبار بینی میں مصروف ہیں اور وہ بیچارہ بیہوش پڑا ہے۔"

"پھر میں کیا کروں؟"

"چلئے اور کم از کم اسکی حالت کو ملاحظہ تو کیجیئے۔"

"کمبخت نے میرے سفر کا تمام لطف غارت کردیا ہے۔" اور پھر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے۔ "چلئے صاحب۔۔۔۔۔۔یہ مصیبت بھی دیکھنا تھی۔"

خالد بیہوش قلی کا سر تھامے اسے پانی پلانے کی کوشش کررہا تھا۔ لوگ جھکے ہوئے خالد اور قلی کے چہروں کی طرف بغور دیکھ رہے تھے۔

"خالد، آپ تشریف لے آئے ہیں۔" مسعود نے مسافر کو آگے بڑھنے کو کہا۔

"ہاں، جناب۔۔۔۔۔یہ ہے آپ کے ظلم کا شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ڈاکٹر کو ہی بلوا لیا ہوتا آپ نے؟" مسعود نے مسافر سے کہا۔

مسافر، قلی کے زرد چہرہ اور لوگوں کا گروہ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا اور گھبراتے ہوئے جیب سے اپنا بٹوہ نکالا۔

مسافر ابھی بٹوہ نکال رہا تھا کہ قلی کا جسم متحرک ہوا اور اس نے اپنی آنکھیں کھول کر ہجوم کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا۔

"یہ نوٹ آپ اسے میری طرف سے دے دیجیئے گا۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں گاڑی کا وقت ہوگیا ہے۔" مسافر نے مسعود کے ہاتھ میں دس روپے کا ایک نوٹ پکڑاتے ہوئے انگریزی میں کہا، اور پھر قلی کو ہوش میں آتے دیکھ کر اس سے مخاطب ہوا۔ "ہم نے اس غلطی کی قیمت ادا کردی ہے۔"

قلی یہ سنکر تڑپا، منہ سے خون کی ایک دھار بہہ نکلی، بڑی کوشش سے اس نے یہ چند الفاظ اپنی زخمی چھاتی پر زور دے کر نکالے۔

"میں بھی انگریزی زبان جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس روپے۔۔۔۔۔۔۔ایک انسان کی جان کی قیمت۔۔۔۔۔۔میرے پاس بھی کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

باقی الفاظ اسکے خون بھرے منہ میں بلبلے بن کر رہ گئے، مسافر قلی کی یہ حالت دیکھ کر اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔

"میں زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔"

قلی نے بڑی تکلیف سے مسافر کی طرف رخ پھیرا اور منہ سے خون کے بلبلے نکالتے ہوئے کہا۔

"میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

یہ کہتے ہوئے اس نے مسافر کے منہ پر تھوک دیا، تڑپا اور پلیٹ فارم کی آہنی چھت کی طرف مظلوم نگاہوں سے دیکھتا ہوا خالد کی گود میں سرد ہوگیا۔۔۔۔۔۔مسافر کا منہ خونی تھوک سے رنگا ہوا تھا۔

خالد اور مسعود نے لاش دوسرے آدمیوں کے حوالہ کرکے مسافر کو پکڑ کر پولیس کے سپرد کردیا۔

مسافر کا مقدمہ دو مہینے تک متواتر عدالت میں چلتا رہا۔

آخر فیصلہ سنا دیا گیا، فاضل جج نے ملزم کو معمولی جرمانہ کرنے کے بعد بری کردیا۔ فیصلے میں یہ لکھا تھا کہ قلی کی موت اچانک تلی پھٹ جانے سے واقع ہوئی ہے۔

فیصلہ سناتے وقت خالد اور مسعود بھی موجود تھے۔ ملزم انکی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔

"قانون کا قفل صرف طلائی چابی سے کھل سکتا ہے۔"

"مگر ایسی چابی ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے۔"

خالد اور اسکا دوست باہر برآمدے میں باہم گفتگو کر رہے تھے۔


اشاعتِ اولیں۔ "ساقی"


(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انقلاب پسند


میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہوئے اور ایک ہی ساتھ ایف اے کے امتحان میں شامل ہوکر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔اس سال میں تو پاس ہوگیا مگر سلیم سوئے قسمت سے پھر فیل ہوگیا۔

سلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔۔۔۔۔۔یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟

جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اسکی تمام تر وجہ وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اسکے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے۔

دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام الجھنوں سے آزاد تھا جس نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں مقید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح ہر کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہردلعزیز تھا مگر یکایک اسکے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔۔۔۔۔۔اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔

وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہوئے؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اسکے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے ناآشنا تھا۔ اسنے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ "عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں، ہاں، کیا جی چاہتا ہے" میں نے اسکی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے دلی مدعا کو خود نہ پہچانتے ہوئے الفاظ میں ظاہر نہیں کرسکتا۔

وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کرکے دوسرے ذہن پر منتقل کرسکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مرادف ہے جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہوئی چیر کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔یہ ایک ذہنی عذاب ہے جسکی تفصیل لفظوں میں نہیں آسکتی۔

سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے اور ہوتا بھی کیونکر جب اسکے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کردیے۔۔۔۔۔غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آکر ان خیالات کو جو اسکے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے، سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی تکلیف دہ لمحات میں اسنے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ہے۔ "عباس، یہ خاکی کشتی کسی روز تند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کرسکتا تھا۔

سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردۂ ظہور پر نمودار ہوگا۔۔۔۔۔اسکی نگاہیں ایک عرصے سے دھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں جو اسکی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا، مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔

میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر مجھے اسکی منقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کیلیے کیا کرنا چاہتا ہے جبکہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کردیا گیا تھا۔

میں ایک عرصے سے سلیم کو منقلب ہوتے دیکھ رہا تھا اسکی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔۔۔۔۔کل کا کھلنڈرا لڑکا، میرا ہم جماعت ایک مفکر میں تبدیل ہورہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تبدیلی میرے لئے سخت باعثِ حیرت تھی۔

کچھ عرصے سے سلیم کی طبعیت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا سوچ رہا ہوتا، یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصہ پھیرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انقلاب پسند

(گزشتہ سے پیوستہ)


سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفوں کی بھاری بھر کم تصانیف کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اسکی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں شطرنج، تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا، کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔۔۔۔۔اسکے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔

جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا جنہیں اسنے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھا تھا۔

سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں، میں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اسکے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی بہت خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثے کا واقع ہوا تھا، اس پر اس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہوگی مگر اسکی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔۔۔۔۔جو اسکی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں جنہوں نے سلیم کو قبل از وقت معمر بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔یہ کیا کم تعجب کی بات ہے کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔

سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اسکے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گزروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے اور امراء کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ممکن ہے یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں مگر میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے اسے امنِ عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخون کے پنجرے میں قید کردیا ہے کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں۔

اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے تو کیا انکا فرض نہیں ہے کہ وہ اسکے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟

اگر وہ راہ گزاروں کے ساتھ فلسفۂ حیات پر تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا ہے تو کیا اسکے معنی یہ لئے جائینگے کہ اسکا وجود مجلسی دائرہ کیلیے نقصان دہ ہے؟ کیا زندگی کے حقیقی معانی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟

اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپتا ہے تو کیا یہ عمل ان افراد کو انکے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟

سیلم ہرگز پاگل نہیں ہے مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اسکے افکار نے اسے بیخود ضرور بنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے مگر دے نہیں سکتا۔ ایک کم سن بچے کی طرح وہ تتلا تتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔

وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا تھا مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انقلاب پسند

(گزشتہ سے پیوستہ)



میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں کہ وہ دیوانہ ہے ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اسکے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔

شروع شروع میں جب میں نے اسکے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی، دراصل میں نے اس وقت خیال کیا کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزؤں خیال کیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلم ہوئی۔

اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنہیں میں نے اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور انکی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشاق نہ تھا اسلئے مجھے سلیم کا یہ انتخاب بہت پسند آیا چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چن رکھی تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں، اس تخت کے کیا معانی؟

سلیم،جیسا کہ اسکی عادت تھی، مسکرایا اور کہنے لگا۔ "کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اکتا گئی ہے، اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔"

بات معقول تھی، میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیئے کے غائب پایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی اور مجھے شبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہوگیا ہے۔

سلیم سخت گرم مزاج واقع ہوا ہے۔ اسکے علاوہ اسکے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑچڑا بنا رکھا ہے۔ اسلئے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا جو اسکے دماغی توازن کو درہم برہم کردیں یا جس سے وہ خواہ مخواہ کھج جائے۔

فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انقلاب، تخت کی آمد اور پھر اسکا غائب ہوجانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں نے ان امور کی وجہ دریافت کرتا مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا اور اسکے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا اسلیے میں خاموش رہا۔

ٹھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہوگیا۔۔۔۔اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے تو ہفتے کے بعد وہاں سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اسکے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی، رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگھیٹی پر رکھی ہوئی تصاویر کے زاویے بدلے جارہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رخ تبدیل کئے گئے ہیں، گویا کمرے کی ہر شے سے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔

ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ "سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں، آخر بتاؤ تو سہی یہ تمھارا کوئی نیا فلسفہ ہے؟"

"تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں۔" سلیم نے جواب دیا۔

یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کررہا ہے مگر یہ جواب دیتے وقت اسکا چہرہ اس امر کا شاہد تھا کہ وہ سنجیدہ ہے اور میرے سوال کا جواب وہ انہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا، چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ "مذاق کر رہے ہو یار؟"

"تمھاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند۔" یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔

مجھے یاد ہے کہ اسکے بعد اسنے ایسی گفتگو شروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہارِ خیالات کرنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چھپا لیا کرتا ہے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انقلاب پسند

(گزشتہ سے پیوستہ)


ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ اسکے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ الٹنے کے درپے ہے یا دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بمب پھینک کر دہشت پھیلانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیاء کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کسی حد تک غلط ہو، مگر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسکی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے، جسکے آثار اسکے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔

بادی النظر میں کمرے کی اشیاء کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا نیم دیوانگی کے مرادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔۔۔۔۔۔اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں، سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کردیا۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر از خود رفتہ ہوگیا، اور پاگل خانے کی چار دیواری میں قید کردیا گیا۔

پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اسلیے کہ میں اس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکانداروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اسے سے فوراً مل کر اسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کردوں۔ اسکے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ خبط الحواس ہی نہ ہوگیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا، اسلیے میں نے ہوٹل ہی میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔

کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اسطرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"

آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہوگئیں۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"۔۔۔۔۔۔گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اسکا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔

میں نے ضبط سے کام لیا، اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"سلیم میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کردی ہیں، جانتے بھی ہو، اب تمھیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔"

"پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں عباس، میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔دیوانہ۔۔۔۔۔۔۔خرد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہے کیوں؟"

یہاں تک کہہ کر وہ میری طرف سر تا پا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔

"اس لئے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دکھلا دکھلا کر یہ پوچھتا ہوں کہ اس بڑھتی ہوئی غربت کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے، اسلئے وہ مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جاسکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منور بنایا جا سکتا ہے۔"

"وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہونِ منت ہے۔ وہ جن کا فردوس غرباء کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، وہ جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں، یتیموں کی عریانی، لاوارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہَیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردۂ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔۔۔۔وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنت کے دروازے ہر شخص کیلیے وا ہونگے۔"

"میں پوچھتا ہوں کہ اگر میں آرام میں ہوں تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔۔۔۔۔۔کیا یہی انسانیت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں، اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہوں، اور میرے مزدورں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ انکے بچے مٹی کے ایک کھلونے کیلیے ترستے ہیں۔۔۔۔۔پھر لطف یہ ہے کہ میں مہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے اور وہ لوگ جنکا پسینہ میرے لئے گوہر تیار کرتا ہے، مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود انسے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے ناآشنا ہیں؟"

"میں ان دونوں کو انکے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، مگر کسطرح کروں؟۔۔۔۔۔۔یہ مجھے معلوم نہیں۔"

سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کردیا۔

"میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک وکیل سمجھو، بغیر کسی امید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے، جو بالکل گم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔۔۔۔۔انسانیت ایک منہ ہے اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔۔میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لئے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے، میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں، یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں۔ ذہنی اذیت کے دھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں کہ دوسرے اذہان پر منتقل کرسکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں، خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"

"جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں:۔

"مرمریں محلات کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو، مگر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔"

"تم ہنستے ہو، مگر تمھیں مجھے ضرور سننا ہوگا، میں ایک غوطہ خور ہوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں ڈبو دیا کہ میں کچھ ڈھونڈ کر لاؤں۔۔۔۔۔۔میں ایک بے بہا موتی لایا ہوں، وہ سچائی ہے، اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہوا ہوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے۔ اسلیے کہ وہ مجبور تھیں۔۔۔۔۔اب میں یہی کچھ تمھارے منہ پر قے کردینا چاہتا ہوں کہ تمھیں تصویرِ زندگی کا تاریک پہلو نظر آجائے۔"

"انسانیت ایک دل ہے، ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمھارے بوٹ غریب مزدورں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں، اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو، اگر تمھاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارۂ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اگر تمھارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے، تو یہ تمھارا قصور نہیں۔ ایوانِ معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے کہ اسکی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دبائے ہوئے ہے، ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔"

"جانتے ہو موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ لوگوں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے، انسانی تعزز کی کشتی ہوا و ہوس کی موجوں میں بہا دے۔ جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوانِ تجارت میں کھلے بندوں حسن فروشی پر مجبور کردے۔ غریبوں کا خون چوس چوس کر انہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کردے۔۔۔۔۔۔کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔۔۔۔۔۔۔بھیانک قصابی، تاریک شیطنیت۔"

"آہ، اگر تم صرف وہ دیکھ سکو جسکا میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمھاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔مگر تم۔۔۔۔۔۔۔ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے بلکہ الٹا غریبوں سے چھین کر امراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو، مزدور سے لیکر کاہل کے حوالے کردیتے ہو۔ گوڈری پہنے انسان کا لباس اتار کر حریر پوش کے سپرد کردیتے ہو۔"

"تم غرباء کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمھیں یہ معلوم نہیں کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر و مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔"

یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہوگیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔

تقریر کے دوران میں سحرزدہ آدمی کی طرح چپ چاپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے، بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا، اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے، اسکے خیالات کس قدر حق پر مبنی ہیں اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں اسکی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ پھر بولا۔

"خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں، عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالتِ نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعوٰی یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کررہے ہیں۔۔۔۔۔کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جارہی ہے۔ ہمارے کانوں سے پگھلا ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں اور نہ محسوس کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیا اسکے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کیلیے مجبور نہیں کیا جارہا؟۔۔۔۔۔۔کیا امراء کی نظر فریب عمارتیں مزدورں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔۔۔۔۔۔کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے؟ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، ان تھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟ بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟"

"درست ہے۔" میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

"تو پھر اسکا علاج کرنا تمھارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔مگر آہ، تمھیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں۔"

ٹھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رازدانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ "عباس، عوام سخت تکلیف برداشت کررہے ہیں، بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جارہے ہو؟"

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔

"ٹھہرو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں، کہاں جاؤ گے اب؟" اسے یک لخت کہیں جانے کیلیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔

"مگر میں اکیلا ہی جانا چاہتا ہوں، کسی باغ میں جاؤں گا۔"

میں خاموش ہوگیا اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہوگیا۔ اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کردیا تھا۔ اسلیے اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا ہے۔



( 24 مارچ 1935ء )

اشاعتِ اولیں:۔ "علیگڑھ میگزیں"


(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی آیا صاحب


باروچی خانے کی دھندلی فضا میں بجلی کا ایک اندھا قمقمہ چراغِ گور کی مانند اپنی سرخ روشنی پھیلا رہا تھا۔ دھوئیں سے اٹی ہوئی دیواریں ہیبتناک دیووں کی طرح انگڑائیاں لیتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ چبوترے پر بنی ہوئی انگیٹھیوں میں آگ کی آخری چنگاریاں ابھر ابھر کر اپنی موت کا ماتم کر رہی تھیں۔ ایک برقی چولھے پر رکھی ہوئی کیتلی کا پانی نہ معلوم کس چیز پر خاموش ہنسی ہنس رہا تھا۔ دور کونے میں، پانی کے نل کے پاس ایک چھوٹی عمر کا لڑکا بیٹھا برتن صاف کرنے میں مشغول تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسپکٹر صاحب کا نوکر تھا۔

برتن صاف کرتے وقت یہ لڑکا کچھ گنگنا رہا تھا، یہ الفاظ ایسے تھے جو اسکی زباں سے بغیر کوشش کے نکل رہے تھے۔

"جی آیا صاحب، جی آیا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ابھی صاف ہوجاتے ہیں صاحب۔"

ابھی برتنوں کو راکھ سے صاف کرنے کے بعد انہیں پانی سے دھو کر قرینے سے رکھنا بھی تھا، اور یہ کام جلدی سے نہ ہو سکتا تھا۔ لڑکے کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی جا رہی تھیں۔ سر سخت بھاری ہو رہا تھا مگر کام کئے بغیر آرام، یہ کیونکر ممکن تھا۔

برقی چولھا بدستور ایک شور کے ساتھ نیلے شعلوں کو اپنے حلق سے اگل رہا تھا۔ کیتلی کا پانی اسی انداز میں کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔

دفعتاً لڑکے نے نیند کے ناقابلِ مغلوب حملے کو محسوس کرتے ہوئے اپنے جسم کو ایک جنبش دی اور "جی آیا صاحب، جی آیا صاحب" گنگناتا ہوا پھر کام میں مشغول ہوگیا۔

دیوار گیروں پر چنے ہوئے برتن اس لڑکے کو ایک غیر مختتم ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ پانی کے نل سے روزانہ ایک ہی واقعہ دیکھ قطروں کی صورت میں آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ بجلی کا قمقمہ حیرت سے اس لڑکے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کمرے کی فضا سسکیاں بھرتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔

"قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"

"جی آیا صاحب" لڑکا جو انہی الفاظ کی گردان کر رہا تھا۔ بھاگا ہوا اپنے آقا کے پاس گیا۔

انسپکٹر صاحب نے کمبل سے منہ نکالا، اور لڑکے پر خفا ہوتے ہوئے کہا۔ "بیوقوف کے بچے، آج پھر یہاں صراحی اور گلاس رکھنا بھول گیا ہے۔"

"ابھی لایا صاحب ۔۔۔۔۔۔ ابھی لایا صاحب۔"

کمرے میں صراحی اور گلاس رکھنے کے بعد وہ ابھی برتن صاف کرنے کیلیے بیٹھا ہی تھا کہ پھر اسے کمرے سے آواز آئی۔

"قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"

"جی آیا صاحب" قاسم بھاگتا ہوا اپنے آقا کے پاس گیا۔

"بمبئی کا پانی کس قدر خراب ہے۔ جاؤ پارسی کے ہوٹل سے سوڈا لیکر آؤ۔ بس بھاگے ہوئے جاؤ، سخت پیاس لگ رہی ہے۔"

قاسم بھاگا ہوا گیا اور پارسی کے ہوٹل سے جو گھر سے قریباً نصف میل کے فاصلے پر واقع تھا، سوڈے کی بوتل لے آیا اور اپنے آقا کو گلاس میں ڈال کر دی۔

"اب تم جاؤ، مگر اس وقت تک کیا کر رہے ہو، برتن صاف نہیں ہوئے کیا؟"

"ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔"

"اور ہاں، برتن صاف کرنے کے بعد میرے سیاہ بوٹ کو پالش کر دینا مگر دیکھنا احتیاط رہے، چمڑے پر کوئی خراش نہ آئے، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔"

قاسم کو "ورنہ" کے بعد کا جملہ بخوبی معلوم تھا۔ "بہت اچھا صاحب" کہتے ہوئے وہ باورچی خانہ میں واپس چلا گیا، اور برتن صاف کرنا شروع کر دیے۔

اب نیند اسکی آنکھوں میں سمٹی چلی آرہی تھی۔ پلکیں آپس میں ملی جا رہی تھیں، سر میں سیسہ اتر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خیال کرتے ہوئے کہ صاحب کے بوٹ ابھی پالش کرنے ہیں۔ قاسم نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی، اور وہی راگ الاپنا شروع کردیا۔

"جی آیا صاحب، جی آیا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوٹ ابھی صاف ہوجاتے ہیں صاحب۔"

مگر نیند کا طوفان ہزار بند باندھنے پر بھی نہ رکا۔ اب اسے محسوس ہونے لگا کہ نیند ضرور غلبہ پا کر رہے گی۔ لیکن ابھی برتنوں کو دھو کر انہیں اپنی اپنی جگہ پر رکھنا باقی تھا۔ اس وقت ایک عجیب خیال اسکے دماغ میں آیا۔ "بھاڑ میں جائیں برتن، اور چولھے میں جائیں بوٹ۔۔۔۔کیوں نہ تھوڑی دیر اسی جگہ پر سو جاؤں، اور پھر چند لمحات آرام کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

اس خیال کو باغیانہ تصور کرتے ہوئے قاسم نے ترک کردیا اور برتنوں پر جلدی جلدی راکھ ملنا شروع کردی۔

تھوڑی دیر کے بعد جب نیند پھر غالب آئی تو اسکے جی میں آیا کہ ابلتا ہوا پانی اپنے سر پر انڈیل لے اور اسطرح اس غیر مرئی طاقت سے جو اسکے کام میں حارج ہو رہی تھی، نجات پائے، مگر اتنا حوصلہ نہ پڑا۔

بصد مشکل منہ پر پانی کے چھینٹے مار مار کر اسنے برتنوں کو بالآخر صاف کر ہی لیا۔ یہ کام کرنے کے بعد اسنے اطمینان کا سانس لیا۔ اب وہ آرام سے سو سکتا تھا۔ اور نیند۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نیند، جس کیلیے اسکی آنکھیں اور دماغ شدت سے انتظار کر رہے تھے، اب بالکل نزدیک تھی۔

باروچی خانے کی روشنی گل کرنے کے بعد قاسم نے باہر برآمدے میں اپنا بستر بچھایا اور لیٹ گیا۔ اور اس سے پہلے کہ نیند اسے اپنے آرام دہ بازوؤں میں تھام لے، اسکے کان "بوٹ، بوٹ" کی آوازوں سے گونج اٹھے۔

"بہت اچھا صاحب، ابھی پالش کرتا ہوں" بڑبڑاتا ہوا قاسم بستر سے اٹھا۔ جیسے اسکے آقا نے ابھی بوٹ روغن کرنے کیلیے حکم دیا ہے۔

ابھی قاسم بوٹ کا ایک پیر بھی اچھی طرح پالش کرنے نہ پایا تھا کہ نیند کے غلبے نے اسے وہیں پر سلا دیا۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی آیا صاحب

(گزشتہ سے پیوستہ)



سورج کی خونیں کرنیں اس مکان کے شیشوں سے نمودار ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم کی کتابِ حیات میں ایک اور پُر از مشقت باب کا اضافہ ہوگیا۔

صبح جب انسپکٹر صاحب نے اپنا نوکر باہر برآمدے میں بوٹوں کے پاس سویا ہوا دیکھا تو اسے ٹھوکر مار کر جگاتے ہوئے کہا۔ "یہ سور کی طرح یہاں بیہوش پڑا ہے اور مجھے خیال تھا کہ اس نے بوٹ صاف کر لئے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔نمک حرام۔۔۔۔۔۔۔ابے قاسم۔"

"جی آیا صاحب۔"

قاسم کے منہ سے اتنا ہی نکلا تھا کہ اسنے اپنے ہاتھ میں بوٹ صاف کرنے کا برش دیکھا۔ فوراً ہی اس معاملے کو سمجھتے ہوئے اسنے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔

"میں سو گیا تھا صاحب، مگر۔۔۔۔۔مگر بوٹ ابھی پالش ہو جاتے ہیں صاحب۔۔۔۔۔۔۔"

یہ کہتے ہوئے اس نے جلدی جلدی بوٹ کو برش سے رگڑنا شروع کردیا۔

بوٹ پالش کرنے کے بعد اسنے اپنا بستر تہہ کیا اور اسے اوپر کے کمرے میں رکھنے چلا گیا۔

"قاسم"

"جی آیا صاحب"

قاسم بھاگا ہوا نیچے آیا اور اپنے آقا کے پاس کھڑا ہو گیا۔

"دیکھو، آج ہمارے یہاں مہمان آئینگے۔ اسلئے باورچی خانے کے تمام برتن اچھی طرح صاف کر رکھنا۔۔۔۔۔۔فرش بھی دھلا ہوا ہونا چاہیئے، اسکے علاوہ تمھیں ملاقاتی کمرے کی تصویروں، میزوں اور کرسیوں کو بھی صاف کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔سمجھے، مگر خیال رہے میری میز پر ایک تیز دھار چاقو پڑا ہوا ہے، اسے مت چھیڑنا۔ میں اب دفتر جا رہا ہوں مگر یہ کام دو گھنٹے سے پہلے ہو جانا چاہیئے۔"

"بہت بہتر صاحب"

انسپکٹر صاحب دفتر چلے گئے۔ قاسم باورچی خانہ صاف کرنے میں مشغول ہوگیا۔

ڈیڑھ گھنٹے کی انتھک محنت کے بعد اسنے باورچی خانے کے تمام کام کو ختم کردیا۔ اور ہاتھ پاؤں صاف کرنے کے بعد جھاڑن لیکر ملاقاتی کمرے میں چلا گیا۔

وہ ابھی کرسیوں کو جھاڑن سے صاف کر رہا تھا کہ اسکے تھکے ہوئے دماغ میں ایک تصویر سی کھچ گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ اسکے گرد و پیش برتن ہی برتن پڑے ہیں اور پاس ہی راکھ کا ایک ڈھیر لگ رہا ہے۔ ہوا زوروں پر چل رہی ہے جس سے وہ راکھ اڑ اڑ کر فضا کو خاکستری بنا رہی ہے۔ یکا یک اس ظلمت میں ایک سرخ آفتاب نمودار ہوا جسکی کرنیں خون آشام برچھیوں کی طرح ہر برتن کے سینے میں گھس گئیں۔ زمین خون سے شرابور ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔فضا خوشی کے قہقہوں سے معمور ہوگئی۔

قاسم یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا اور اس وحشتناک خواب سے بیدار ہو کر "جی آیا صاحب، جی آیا صاحب" کہتا ہوا پھر اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔

تھوڑی دیر کے بعد اسکی آنکھوں کے سامنے ایک اور منظر رقص کرنے لگا۔ اب اسکے سامنے چھوٹے چھوٹے لڑکے آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ دفعتاً آندھی چلنا شروع ہوئی، جسکے ساتھ ہی ایک بدنما اور بھیانک دیو نمودار ہوا، جو ان سب لڑکوں کو نگل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم نے خیال کیا کہ وہ دیو اسکے آقا کے ہم شکل تھا۔ گو قد و قامت کے لحاظ سے وہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ اب اس دیو نے زور زور سے ڈکارنا شروع کیا۔۔۔۔۔قاسم سر سے پیر تک لرز گیا۔

ابھی تمام کمرہ صاف کرنا تھا اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ چنانچہ قاسم نے جلدی جلدی کرسیوں پر جھاڑن مارنا شروع کردیا۔ ابھی وہ کرسیوں کا کام ختم کرنے کے بعد میز صاف کرنے جا رہا تھا کہ اسے یکا یک خیال آیا۔ "آج مہمان آ رہے ہیں۔ خدا معلوم کتنے برتن صاف کرنے پڑیں گے اور یہ نیند کمبخت ستا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

یہ سوچتے وقت وہ میز پر رکھی ہوئی چیزوں کو پونچھ رہا تھا کہ اچانک اسے قلمدان کے پاس ایک کھلا ہوا چاقو نظر آیا۔۔۔۔۔وہی چاقو جسکے متعلق اسکے آقا نے کہا تھا کہ بہت تیز ہے۔

چاقو کا دیکھنا تھا کہ اسکی زبان پر یہ لفظ خود بخود جاری ہوگئے۔ "چاقو۔۔۔۔۔۔تیز دھار چاقو۔۔۔۔۔۔یہی تمھاری مصیبت کو ختم کرسکتا ہے۔"

کچھ اور سوچے بغیر قاسم نے تیز دھار چاقو اٹھا اپنی انگلی پر پھیر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ شام کے وقت برتن صاف کرنے کی زحمت سے بہت دور تھا۔ اور نیند۔۔۔۔۔۔۔پیاری، پیاری نیند اب اسے بآسانی نصیب ہوسکتی تھی۔

انگلی سے خون کی سرخ دھار بہہ رہی تھی۔۔۔۔۔سامنے والی دوات کی سرخ روشنائی سے کہیں چمکیلی۔ قاسم اس خون کی دھار کو مسرت بھری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور منہ میں یہ گنگنا رہا تھا۔ "نیند، نیند۔۔۔۔۔۔پیاری نیند۔"

تھوڑی دیر کے بعد وہ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا جو زنان خانے میں بیٹھی سلائی کر رہی تھی۔ اور اپنی زخمی انگلی دکھا کر کہنے لگا۔ "دیکھئے بی بی جی۔۔۔۔۔۔"

"ارے قاسم یہ تو نے کیا کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کمبخت صاحب کے چاقو کو چھیڑا ہوگا تو نے۔"

"بی بی جی۔۔۔۔۔بس میز صاف کر رہا تھا اور اس نے کاٹ کھایا۔" قاسم ہنس پڑا۔

"ابے سور اب ہنستا ہے، ادھر آ، میں اس پر کپڑا باندھ دوں۔ مگر اب بتا تو سہی، آج یہ برتن تیرا باپ صاف کرے گا؟"

قاسم اپنی فتح پر زیرِ لب مسکرا رہا تھا۔

انگلی پر پٹی بندھوا کر قاسم پھر کمرے میں آ گیا اور میز پر پڑے ہوئے خون کے دھبے صاف کرنے کے بعد خوشی خوشی اپنا کام ختم کردیا۔

"اب اس نمک حرام باورچی کو برتن صاف کرنے ہونگے۔۔۔۔۔۔ضرور صاف کرنے ہونگے۔۔۔۔۔کیوں میاں مٹھو۔" قاسم نے انتہائی مسرت میں کھڑکی میں لٹکے ہوئے طوطے سے دریافت کیا۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی آیا صاحب


(گزشتہ سے پیوستہ)


شام کے وقت مہمان آئے اور چلے گئے۔ باورچی خانے میں صاف کرنے والے برتنوں کا ایک طومار سا لگ گیا۔ انسپکٹر صاحب قاسم کی زخمی انگلی دیکھ کر بہت برسے۔ اور جی کھول کر گالیاں دیں، مگر اسے مجبور نہ کر سکے، شاید اسلیئے کہ ایک بار انکی اپنی انگلی میں قلم تراش کی نوک چبھ جانے سے بہت درد محسوس ہوا تھا۔

آقا کی خفگی آنے والی مسرت نے بھلا دی اور قاسم کودتا پھاندتا ہوا اپنے بستر میں جا لیٹا۔ تین چار روز تک وہ برتن صاف کرنے کی زحمت سے بچا رہا، مگر اسکے بعد انگلی کا زخم بھر آیا۔۔۔۔۔۔اب پھر وہی مصیبت نمودار ہوگئی۔

"قاسم، صاحب کی جرابیں اور قمیص دھو ڈالو۔"

"بہت اچھا بی بی جی۔"

"قاسم اس کمرے کا فرش کتنا بدنما ہو رہا ہے۔ پانی لا کر ابھی صاف کرو، دیکھنا کوئی داغ دھبہ باقی نہ رہے۔"

"بہت اچھا صاحب"

"قاسم شیشیے کے گلاس کتنے چکنے ہو رہے ہیں۔ انہیں نمک سے صاف کردو۔"

"جی اچھا صاحب"

"قاسم طوطے کا پنجرہ کس قدر غلیظ ہو رہا ہے، اسے صاف کیوں نہیں کرتے۔"

"ابھی کرتا ہوں بی بی جی"

"قاسم ابھی خاکروب آتا ہے، تم پانی ڈالتے جانا، وہ سیڑھیوں کو دھو ڈالے گا۔"

"بہت اچھا صاحب"

"قاسم ذرا بھاگ کر ایک آنے کا دہی تو لے آنا۔"

"ابھی چلا بی بی جی۔"

پانچ چھ روز اسی قسم کے احکام سننے میں گزر گئے۔ قاسم کام کی زیادتی اور آرام کے قحط سے تنگ آگیا۔ ہر روز اسے نصف شب تک کام کرنا پڑتا اور پھر علی الصباح چار بجے کے قریب بیدار ہو کر ناشتے کیلیے چائے تیار کرنی پڑتی۔ یہ کام قاسم کی عمر کے لڑکے کیلیے بہت زیادہ تھا۔

ایک روز انسپکٹر صاحب کی میز صاف کرتے وقت اسکے ہاتھ خود بخود چاقو کی طرف بڑھے، اور ایک لمحے کے بعد اسکی انگلی سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔انسپکٹر صاحب اور انکی بیوی قاسم کی یہ حرکت دیکھ کر بہت خفا ہوئے۔ چنانچہ سزا کی صورت میں اسے شام کا کھانا نہ دیا گیا، مگر وہ اپنی ایجادہ ترکیب کی خوشی میں مگن تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک وقت روٹی نہ ملی۔ انگلی پر معمولی سا زخم آگیا مگر برتنوں کا انبار صاف کرنے سے نجات مل گئی۔۔۔۔۔۔یہ سودا کچھ برا نہ تھا۔

چند دنوں کے بعد اسکی انگلی کا زخم ٹھیک ہوگیا، اب پھر کام کی وہی بھر مار شروع تھی۔ پندرہ بیس روز گدھوں کی سی مشقت میں گزر گئے۔ اس عرصے میں قاسم نے بارہا ارادہ کیا کہ چاقو سے پھر اپنی انگلی زخمی کرلے۔ مگر اب میز پر سے وہ چاقو اٹھا لیا گیا اور باورچی خانے والی چھری کند تھی۔

ایک روز باورچی بیمار پڑ گیا اب اسے ہر وقت باورچی خانے میں موجود رہنا پڑتا، کبھی مرچیں پیستا، کبھی آٹا گوندھتا، کبھی کوئلوں کو جلا دیتا۔ غرض صبح سے لیکر آدھی رات تک اسکے کانوں میں "ابے قاسم یہ کر، ابے قاسم وہ کر" کی صدا گونجتی رہتی۔

باورچی دو روز تک نہ آیا۔۔۔۔۔۔قاسم کی ننھی جان اور ہمت جواب دے گئی، مگر سوائے کام کے اور چارہ ہی کیا تھا۔

ایک روز اسکے آقا نے اسے الماری صاف کرنے کو کہا۔ جس میں ادویات کی شیشیاں اور مختلف چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ الماری صاف کرتے وقت اسے ڈاڑھی مونڈنے کا ایک بلیڈ نظر آیا۔ بلیڈ کو پکڑتے ہی اس نے اپنی انگلی پر پھیر لیا۔ دھار تھی بہت تیز اور باریک، انگلی میں دور تک چلی گئی، جس سے بہت بڑا زخم بن گیا۔

قاسم نے بہت کوشش کی کہ خون نکلنا بند ہو جائے مگر زخم کا منہ بڑا تھا، وہ نہ تھما۔۔۔۔۔۔۔سیروں خون پانی کی طرح بہہ گیا۔ یہ دیکھ کر قاسم کا رنگ کاغذ کی مانند سپید ہو گیا۔ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا۔

"بی بی جی میری انگلی میں صاحب کا استرا لگ گیا ہے۔"

جب انسپکٹر صاحب کی بیوی نے قاسم کی انگلی کو تیسری مرتبہ زخمی دیکھا، فوراً معاملے کو سمجھ گئی۔ چپ چاپ اٹھی اور کپڑا نکال کر اسکی انگلی پر باندھ دیا اور کہا۔ "قاسم، اب تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے۔"

"وہ کیوں بی بی جی"

"یہ صاحب سے دریافت کرنا"

صاحب کا نام سنتے ہی قاسم کا رنگ اور بھی سپید ہوگیا۔

چار بجے کے قریب انسپکٹر صاحب دفتر سے گھر آئے اور اپنی بیوی سے قاسم کی نئی حرکت سنکر اسے فوراً اپنے پاس بلایا۔

"کیوں میاں، یہ انگلی کو ہر روز زخمی کرنے کے کیا معنی ہیں؟"

قاسم خاموش کھڑا رہا۔

"تم نوکر یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ اندھے ہیں اور ہمیں بار بار دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اپنا بستر بوریا دبا کر ناک کی سیدھ میں یہاں سے بھاگ جاؤ، ہمیں تمھارے جیسے نوکروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔سمجھے۔"

"مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر صاحب"

"صاحب کا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔بھاگ جا یہاں سے، تیری بقایا تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں اور کچھ نہیں سننا چاہتا۔"

قاسم روتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ طوطے کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ طوطے نے بھی خاموشی میں اس سے کچھ کہا اور اپنا بستر لیکر وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ مگر دفعتاً کچھ خیال آیا اور بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا اور درد انگیز آواز میں اتنا کہکر "سلام بی بی جی۔۔۔۔۔۔میں ہمیشہ کیلیے آپ سے رخصت ہو رہا ہوں" وہاں سے رخصت ہوگیا۔



خیراتی ہسپتال میں ایک نوخیز لڑکا درد کی شدت سے لوہے کے پلنگ پر کروٹیں بدل رہا ہے۔ پاس ہی دو ڈاکٹر بیٹھے ہیں۔

ان میں سے ایک ڈاکٹر اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔ "زخم خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔"

"بہت بہتر۔"

یہ کہتے ہوئے دوسرے ڈاکٹر نے اپنی نوٹ بُک میں اس مریض کا نام درج کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ایک چوبی تختے پر جو چارپائی کے سرہانے لٹکا ہوا تھا، مندرجہ ذیل الفاظ لکھے تھے۔

نام: محمد قاسم ولد عبدالرحمٰن (مرحوم)

عمر: دس سال



(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ماہی گیر


(فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات)


سمندر رو رہا تھا۔

مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔

ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔

ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اسکی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آرہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔

جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محوِ خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھر تھرا رہا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خیالات میں مستغرق گھٹنوں کے بل بیٹھی گنگنا رہی تھی۔

یکایک وہ لہروں کا شور سنکر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی آنیوالے خطرے سے آگاہ، سیاہ چٹانوں، تند ہواؤں اور نصف شب کی تاریکی کو مخاطب کرکے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پیشانی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہیں ٹاٹ کے ایک کونے میں بیٹھ کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور میں یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔

"اے خدا۔۔۔۔۔اے بیکسوں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عمیق گڑھے پر پاؤں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کُشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت میں رکھیو۔۔۔۔۔۔۔آہ، اگر یہ صرف نوجوان ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے۔"

یہ کہکر خدا معلوم اسے کیا خیال آیا کہ وہ سر سے پیر تک کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔ "بڑے ہو کر انکا بھی یہی شغل ہوگا، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ غربت، غربت۔"

یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خیالات میں غرق ہوگئی۔ دفعتاً وہ اس اندھیرے خواب سے بیدار ہوئی اور اسکے دماغ میں ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتیں اور امراء کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئیں۔ ان عمارتوں کی دلفریب راحتوں اور امراء کی تعیش پرستیوں کا خیال آتے ہی اسکے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلیجے پر کسی غیر مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تاریکی میں آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔

اسکی یہ حرکت خیالات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حیران تھی کہ لوگ امیر اور غریب کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کیلیے اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چیز جو اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھیل کر سمندر کی گود سے مچھلیاں چھین کر لاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ مارکیٹ کا مالک بغیر محنت کئے ہر روز سینکڑوں روپے پیدا کر لیتا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجیب سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گیر اور نفع ہو مارکیٹ کے مالک کو۔ رات بھر اسکا خاوند اپنا خون پسینہ ایک کردے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند میں چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز میں کہنے لگی۔

"مجھ کم عقل کو بھلا کیا معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "اے خدا میں گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ایسا خیال کرنا کفر ہے۔"

یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آکر بیٹھ گئی اور انکے معصوم چہروں کی طرف دیکھکر بے اختیار رونا شروع کردیا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ماہی گیر

(گزشتہ سے پیوستہ)


باہر آسمان پر کالے بادل مہیب ڈائنوں کی صورت میں اپنے سیاہ بال پریشان کئے چکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کبھی اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سیاہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تاریکی چھا جاتی۔ سمندر کی سیمیں لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتیں اور کشتیوں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اس اچانک تبدیلی کو دیکھ کر آنکھیں جھپکنا شروع کر دیتیں۔

ماہی گیر کی بیوی نے اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھا مگر صبح کا ایک سانس بھی بیدار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔

وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خیال میں مستغرق رہی۔ جو اس بارش میں سمندر کی تند موجوں کے مقابلے میں لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اسکی عافیت کیلیے دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہیں اندھیرے میں ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف اٹھیں، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے لرز رہی تھی۔

اس جھونپڑی میں روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دباؤ تلے دوہری ہو رہی تھی۔

"آہ، خدا معلوم بیچاری بیوہ کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماہی گیر کی بیوی زیرِ لب بڑبڑائی اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔

وہ شکستہ جھونپڑی ایک بیوہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمیت روٹی کے قحط میں موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصیبت کی چچلتی ہوئی دھوپ میں اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔

ماہی گیر کی بیوی کے دل میں ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش کے بچاؤ کیلیے سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی لالٹین روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تیز ہواؤں کی چیخ پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ کانپی اور خیال کیا کہ شاید اسکی اچھی ہمسائی گہری نیند سو رہی ہے۔

اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھر خاموشی تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسیدہ لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جیسے اس بے جان چیز نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا اور کھل گیا۔

ماہی گیر کی بیوی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندھی لالٹین سے روشن کر دیا، جس میں لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت میں سیاہ زمین کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا میں ایک مہیب خوف سانس لے رہا تھا۔

ماہی گیر کی بیوی اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی میں سمٹا ہوا تھا سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں میں گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختیار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور دردناک آواز میں کہنے لگی۔

"آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہیں، ماں کی محبت، گیت، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یعنی قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ میرے خدا۔"

اسکے سامنے پھوس کے بستر پر بیوہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اسکے پہلو میں دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سینے میں ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اسکی پتھرائی ہوئی آنکھیں جھونپڑی کی خستہ چھت کو چیر کر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں، جیسے انہیں کچھ پیغام دینا ہے۔

ماہی گیر کی بیوی اس وحشت خیز منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اسکی نمناک آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی، اور اسنے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چیز اٹھا کر اپنی چادر میں لپیٹ لی اور اس دار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی میں چلی آئی۔

چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اسنے اپنی جھولی کو میلے بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بیوہ سے چھینی ہوئی چیز کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ماہی گیر

(گزشتہ سے پیوستہ)


مطلع سمندر کے افق پر سپید ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی شعاعیں تاریکی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ماہی گیر کی بیوی بیٹھی اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھیڑ رہی تھی۔ ان غیر مربوط الفاظ کے ساتھ کن سُری لہریں اپنی مغموم تانیں چھیڑ رہی تھیں۔

"آہ میں نے بہت برا کیا۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔۔۔۔یہ بھی عجیب ہے کہ میں اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کیا واپس چھوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف کردے۔"

وہ اسی قسم کے خیالات میں غلطاں و پیچاں بیٹھی ہوئی تھی کہ ہوا کے زور سے دروازہ ہلا۔ یہ دیکھر اسکا کلیجہ دھک سے رہ گیا، وہ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر وہیں متفکر بیٹھ گئی۔

"ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔اسے ان بچوں کیلیے کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اکیلے آدمی کو سات پیٹ پالنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شور کیا ہے؟"

یہ آواز چیختی ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔

"اسکے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہیں ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ پھر اپنے اندرونی غم میں ڈوب گئی۔ اب اسکے کانوں میں ہواؤں اور لہروں کا شور مفقود ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے میں خیالات کے تصادم کا کیا کم شور تھا۔

آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی میں گھسے ہوئے سنگریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوؤں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گیر کی بیوی کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔

دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلی شعاعیں جھونپڑی میں تیرتی ہوئی داخل ہوئیں، ساتھ ہی ماہی گیر کاندھوں پر ایک بڑا سا جال ڈالے دہلیز پر نمودار ہوا۔

اسکے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکین پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ آنکھیں شب بیداری کی وجہ سے اندھر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جسم سردی اور غیر معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔

"نسیم کے ابا، تم ہو۔" ماہی گیر کی بیوی چونک اٹھی اور عاشقانہ بیتابی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لیا۔

"ہاں میں ہوں پیاری"

یہ کہتے ہوئے ماہی گیر کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بیوی کی محبت نے اسکے دل سے رات کی کلفت کا خیال محو کر دیا۔

"موسم کیسا تھا؟" بیوی نے محبت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔

"تُند"

"مچھلیاں ہاتھ آئیں؟"

"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔"

یہ سنکر اسکی بیوی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گیر نے اسے مغموم دیکھا اور مسکرا کر بولا۔

"تو میرے پہلو میں ہے۔۔۔۔۔۔میرا دل خوش ہے۔"

"ہوا تو بہت تیز ہوگی؟"

"بہت تیز، معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا کہ تمام شیطان مل کر اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ جال ٹوٹ گیا۔ رسیاں کٹ گئیں اور کشتی کا منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔" پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔ "مگر تم شب بھر کیا کرتی رہی ہو پیاری؟"

بیوی کسی چیز کا خیال کرکے کانپی اور لرزاں آواز میں جواب دیا۔ "میں۔۔۔۔۔۔آہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔سیتی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھیں، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔"

"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور ہاں، ہماری ہمسایہ بیوہ مر گئی ہے۔" بیوی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

ماہی گیر نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اسلیے کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اسنے آہ بھری اور صرف اتنا کہا۔ "بیچاری سدھار گئی ہے۔"

"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو لاش کے پہلو میں لیٹے ہوئے ہیں۔"

یہ سنکر ماہی گیر کا جسم زور سے کانپا اور اسکی صورت سنجیدہ و متفکر ہوگئی۔ ایک کونے میں اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھیگ رہی تھی، پھینک کر سر کھجلایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا۔

"پانچ بچے تھے، اب سات ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس سے پیشتر ہی اس تُند موسم میں ہمیں دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اب مگر خیر۔۔۔۔یہ میرا قصور نہیں۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔"

وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں میں دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اسکی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہیں، ماں کیوں چھین لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پیش کر سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔

"شاید ایسی چیزوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔" اور پھر اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بولا۔ "پیاری جاؤ انہیں یہاں لے آؤ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہونگے اگر وہ صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بیدار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت بے قرار ہوگی، جاؤ انھیں ابھی لیکر آؤ۔"

یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہو کر اسکے گھٹنوں پر چڑھنا سیکھ جائینگے۔ خدا ان اجنبیوں کو جھونپڑی میں دیکھ کر بہت خوش ہوگا اور انھیں زیادہ کھانے کو عطا کرے گا۔

"تمھیں فکر نہیں کرنی چاہیئے پیاری۔۔۔۔۔۔۔میں زیادہ محنت سے کام کروں گا۔" اور پھر اپنی بیوی کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہنے لگا۔ "مگر تم سوچ کیا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیمی چال سے نہیں چلنا چاہئے تمھیں۔"

ماہی گیر کی بیوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔

"وہ تو یہ ہیں۔"

دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔



(یکم فروری 1935ء)


(ختم شد)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تماشا


دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھیلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں وقتاً فوقتاً کسی آنیوالے خونی حادثہ کا پیغام لا رہی تھیں۔ سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہولناک سماں پیش کر رہی تھی۔ وہ بازار جو صبح سے کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہجوم سے پر ہوا کرتے تھے اب کسی نہ معلوم خوف کی وجہ سے سُونے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔شہر کی فضا پر ایک پر اسرار خاموشی مسلط تھی۔ بھیانک خوف راج کر رہا تھا۔

خالد گھر کی خاموش و پر سکون فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔

"ابا، آپ مجھے سکول کیوں نہیں جانے دیتے؟"

"بیٹا، آج سکول میں چھٹی ہے۔"

"ماسٹر صاحب نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو کل کہہ رہے تھے کہ جو لڑکا آج سکول کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ دکھائے گا، اسے سخت سزا دی جائیگی۔"

"وہ اطلاع دینی بھول گئے ہونگے۔"

"آپ کے دفتر میں بھی چھٹی ہے۔"

"ہاں ہمارا دفتر بھی آج بند ہے۔"

"چلو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔۔آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔"

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تین چار طیارے چیختے ہوئے انکے سر پر سے گزر گئے۔ خالد انکو دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا، وہ تین چار روز سے ان طیاروں کی پرواز کو بغور دیکھ رہا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ جہاز سارا دن دھوپ میں کیوں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ انکی روزانہ نقل و حرکت سے تنگ آ کر بولا۔

"ابا، مجھے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ انکے چلانے والوں سے کہدیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزرا کریں۔"

"خوف۔۔۔۔۔کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے خالد۔"

"ابا، یہ جہاز بہت خوفناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے یہ کسی نہ کسی روز ہمارے گھر پر گولہ پھینک دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کل صبح ماما امی جان سے کہہ رہی تھی کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔۔۔۔۔۔۔وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے دی تھی۔"

خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معمولی جسارت پر ہنسا۔ "ماما تو پاگل ہے، میں اس سے دریافت کرونگا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اطمینان رکھو، وہ ایسی بات ہر گز نہیں کرینگے۔"

اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا تا کہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پھینکیں تو اسکا نشانہ خطا نہ جائے اور وہ پوری طرح انتقام لے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔

اسی عرصہ میں جبکہ ایک ننھا سا بچہ اپنے انتقام لینے کی فکر میں ڈوبا ہوا طرح طرح کے منصوبے باندھ رہا تھا، گھر کے دوسرے حصے میں خالد کا باپ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہ آئندہ گھر میں اس قسم کی کوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔

ماما اور بیوی کو اسی قسم کی مزید ہدایات دیکر وہ ابھی بڑے دروازے سے باہر جا رہا تھا کہ خادم ایک دہشتناک خبر لایا کہ شہر کے لوگ بادشاہ کے منع کرنے پر بھی شام کے قریب ایک عام جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ کوئی نہ کوئی واقع ضرور پیش آ کر رہے گا۔

خالد کا باپ یہ خبر سنکر بہت خوفزدہ ہوا، اب اسے یقین ہو گیا کہ فضا کا غیر معمولی سکون، طیاروں کی پرواز، بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت، لوگوں کے چہروں پر اداسی کا عالم اور خوفناک آندھیوں کی آمد کسی خوفناک حادثہ کی پیش خیمہ تھے۔

وہ حادثہ کس نوعیت کا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خالد کے باپ کی طرح کسی کو بھی معلوم نہ تھا مگر پھر بھی سارا شہر کسی نامعلوم خوف میں لپٹا ہوا تھا۔

باہر جانے کے خیال کو ملتوی کر کے خالد کا باپ ابھی کپڑے تبدیل کرنے بھی نہ پایا تھا کہ طیاروں کا شور بلند ہوا وہ سہم گیا۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے سینکڑوں انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔

خالد طیاروں کا شور و غل سنکر اپنی ہوائی بندوق سنبھالتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا اور انہیں غور سے دیکھنے لگا تا کہ وہ جس وقت گولہ پھینکنے لگیں تو وہ اپنی بندوق کی مدد سے انہیں نیچے گرا دے۔ اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہنی ارادہ و استقلال کے آثار نمایاں تھے جو کم حقیقت بندوق کا کھلونا ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھ کہ وہ آج اس چیز کو جو اسے عرصے سے خوفزدہ کر رہی تھی، مٹانے پر تلا ہوا ہے۔

خالد کے دیکھتے دیکھتے ایک جہاز سے کچھ چیز گری جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مشابہ تھی۔ گرتے ہی یہ ٹکڑے ہوا میں پتنگوں کی طرح اڑنے لگے، ان میں سے چند خالد کے مکان کی بالائی چھت پر بھی گرے۔

خالد بھاگا ہوا اوپر گیا اور وہ کاغذ اٹھا لایا۔

"ابا جی، ماما سچ مچ جھوٹ بک رہی تھی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کی بجائے یہ کاغذ پھینکے ہیں۔"

خالد کے باپ نے وہ کاغذ لیکر پڑھنا شروع کیا تو رنگ زرد ہو گیا، ہونیوالے حادثے کی تصویر اب اسے عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ اس اشتہار میں صاف لکھا تھا کہ بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر اسکی مرضی کے خلاف کوئی جلسہ کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار خود رعایا ہوگی۔


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تماشا

(گزشتہ سے پیوستہ)


اپنے والد کو اشتہار پڑھنے کے بعد اس قدر حیران و پریشان دیکھ کر خالد نے گھبراتے ہوئے کہا۔ "اس کاغذ میں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ ہمارے گھر پر گولے پھینکیں گے؟"

"خالد اس وقت تم جاؤ، جاؤ اپنی بندوق کے ساتھ کھیلو۔"

"مگر اس پر لکھا کیا ہے۔"

"لکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا ہوگا۔" خالد کے باپ نے گفتگو کو مزید طول دینے کے خوف سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔

"تماشا ہوگا، پھر تو ہم بھی چلیں گے نا۔"

"کیا کہا۔"

"کیا اس تماشے میں آپ مجھے نہ لے چلیں گے؟"

"لے چلیں گے، اب جاؤ جا کر کھیلو۔"

"کہاں کھیلوں؟ بازار میں آپ جانے نہیں دیتے، ماما مجھ سے کھیلتی نہیں، میرا ہم جماعت طفیل بھی تو آج کل یہاں نہیں آتا، اب میں کھیلوں تو کس سے کھیلوں؟۔۔۔۔۔۔۔شام کے وقت تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے نا؟"

کسی جواب کا انتظار کئے بغیر خالد کمرے سے باہر چلا گیا اور مختلف کمروں میں آوارہ پھرتا ہوا اپنے والد کی نشستگاہ میں پہنچا، جس کی کھڑکیاں بازار کی طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکی کے قریب بیٹھ کر وہ بازار کی طرف جھانکنے لگا۔

کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں دکانیں تو بند ہیں مگر آمد و رفت جاری ہے۔ لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لئے جا رہے تھے۔ وہ سخت حیران تھا کہ دو تین روز سے دکانیں کیوں بند رہتی ہیں، اس مسئلہ کے حل کے لئے اس نے اپنے ننھے دماغ پر بہتیرا زور دیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

بہت غور و فکر کرنے کے بعد اس نے یہ سوچا کہ لوگوں نے اس تماشا دیکھنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تھے، دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ اب اس نے خیال کیا کہ وہ کوئی نہایت ہی دلچسپ تماشا ہوگا جس کیلیئے تمام بازار بند ہیں۔ اس خیال نے خالد کو سخت بے چین کر دیا اور وہ اس وقت کا نہایت بیقراری سے انتظار کرنے لگا جب اس کا ابا اسے تماشا دکھلانے کو لے چلے۔

وقت گزرتا گیا، وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی۔

سہ پہر کا وقت تھا، خالد اسکا باپ اور والدہ صحن میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے، ہوا سسکیاں بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔

تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا، زبان سے بمشکل اسقدر کہہ سکا۔ "۔۔۔۔۔۔گولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

خالد کی ماں فرطِ خوف سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی، گولی کا نام سنتے ہی اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خود اسکی چھاتی سے گولی اتر رہی ہے۔

خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا۔ "ابا جی چلیں، تماشا تو شروع ہو گیا ہے۔"

"کونسا تماشا؟" خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔

"وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح بانٹ رہے تھے، کھیل شروع ہو گیا ہے، تبھی تو اتنے پٹاخوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔"

"ابھی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو، خدا کیلیئے اب جاؤ، ماما کے پاس جا کر کھیلو۔"

خالد یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف گیا مگر وہاں ماما کو نہ پا کر اپنے والد کی نشستگاہ میں چلا گیا اور کھڑکی سے بازار کی طرف دیکھنے لگا۔

بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا، دور فاصلے سے کتوں کی دردناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں، چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں انسان کی دردناک آواز بھی شامل ہو گئی۔

خالد کسی کو کراہتے سنکر بہت حیران ہوا، ابھی وہ اس آواز کی جستجو کیلیئے کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا، جو چیختا چلاتا بھاگتا چلا آ رہا تھا۔

خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا، اسکی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا جس سے فواروں خون نکل رہا تھا۔

یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوفزدہ ہوا، بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ "ابا، ابا، بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے، اسکی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔"

یہ سنتے ہی خالد کا باپ کھڑکی کی طرف گیا اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا بازار میں اوندھے منہ پڑا ہے۔

بادشاہ کے خوف سے اسے جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس لڑکے کو سڑک پر سے اٹھا کر سامنے والی دکان کے پٹڑے پر لٹا دے۔ بے ساز و برگ افراد کو اٹھانے کیلیئے حکومت کے اربابِ حل و عقد نے آہنی گاڑیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ مگر اس معصوم بچے کی نعش جو انہی کے تیغِ ستم کا شکار تھی، وہ ننھا پودا جو انہی کے ہاتھوں مسلا گیا تھا، وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے انہی کی عطا کردہ بادِ سموم سے جھلس گئی تھی، کسی کے دل کی راحت جو انہی کے جور و استبداد نے چھین لی تھی، اب انہی کی تیار کردہ سڑک پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔ موت بھیانک ہے مگر ظلم اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک ہے۔

"ابا اس لڑکے کو کسی نے پیٹا ہے؟"

خالد کا باپ اثبات میں سر ہلاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔

جب خالد اکیلا کمرے میں رہ گیا تو سوچنے لگا کہ اس لڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی جبکہ ایک دفعہ اسے قلم تراش کی نوک چبھنے سے تمام رات نیند نہ آئی تھی اور اسکا باپ اور ماں تمام رات اسکے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ زخم خود اسکی پنڈلی میں ہے اور اس میں شدت کا درد ہے۔۔۔۔۔۔یکلخت وہ رونے لگا۔

اسکے رونے کی آواز سنکر اسکی والدہ دوڑی دوڑی آئی اور اسے گود میں لے کر پوچھنے لگی۔ "میرے بچے رو کیوں رہے ہو؟"

"امی اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟"

"شرارت کی ہوگی اس نے۔"

خالد کی والدہ اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داستان سن چکی تھی۔

"مگر سکول میں تو شرارت کرنے پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں، لہو تو نہیں نکالتے۔" خالد نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا۔

"چھڑی زور سے لگ گئی ہوگی۔"

"تو پھر کیا اس لڑکے کا والد سکول میں جا کر اس استاد پر خفا نہ ہوگا جس نے اسکے لڑکے کو اس قدر مارا ہے۔ ایک روز ماسٹر صاحب نے میرے کان کھینچ کر سرخ کر دیئے تھے تو ابا جی نے ہیڈ ماسٹر کے پاس جا کر شکایت کی تھی نا۔"

"اس لڑکے کا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔"

"اللہ میاں سے بھی بڑا؟"

"نہیں ان سے چھوٹا ہے۔"

"تو پھر وہ اللہ میاں کے پاس شکایت کرے گا۔"

"خالد اب دیر ہو گئی ہے، چلو سوئیں۔"

"اللہ میاں میں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس لڑکے کو پیٹا ہے اچھی طرح سزا دے اور اس چھڑی کو چھین لے جسکے استعمال سے خون نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پہاڑے یاد نہیں کئے، اسلئے مجھے بھی ڈر ہے کہ کہیں وہی چھڑی میرے استاد کے ہاتھ نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم نے میری باتیں نہ مانیں تو پھر میں بھی تم سے نہ بولوں گا۔"

سوتے وقت خالد دل میں دعا مانگ رہا تھا۔



(ختم شد)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
طاقت کا امتحان



"کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔"

"مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کونسی چیز ایسی قابلِ دید تھی جسکی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟"

"ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہو گیا۔"

"مثلاً۔"

"مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔"

"یہ آجکل بچے بھی کر سکتے ہیں۔"

"چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔"

"میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔"

"مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمھیں بھی ماننا پڑے گا۔"

"بھلے آدمی یہ کونسا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔"

"کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟"

"اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔"

"بالکل غلط۔"

"وہ کیوں؟"

"غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہو سکتی۔ طاقت کے لئے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور۔۔۔۔۔۔۔کسیی باتیں کر رہے ہو۔"

"غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بلکہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کہو تو اسے ثابت کر دوں؟"

یہ گفتگو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

"میں اسے ہر گز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح۔۔۔۔۔۔قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کمبخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقتور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔"

"چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے انکی طاقت۔ سناؤ آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟"

"تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔"

سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفتگوؤں سے تنگ آ کر برابر اپنی ٹک ٹک کئے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں انکے منہ سے آزاد ہو کر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔ دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سالہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے نا امید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتشدان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفتگو سنکر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

"باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمھارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔"

"پھر وہی بحث۔"

"تم بتاؤ تو سہی"

"پانچ چھ من کے قریب ہوگا۔"

"یہ وزن تو تمھاری نظر میں کافی ہے نا؟"

"یعنی تمھارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمھارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔۔۔۔۔۔گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اسکے ساتھ۔"

"یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو انکے نزدیک معمولی کام ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر تمھیں کیا پتہ ہو سکتا ہے۔ کہو تو، تمھارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھاؤں۔"

"اگر تمھارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔"

"تمھاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔"

دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاکدان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیئے۔ کمرے کی تمام اشیاء کسی گہری فکر میں غرق ہو گئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشتناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہگزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر انکا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گِل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پاؤں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

کچھ دکاندار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا کرنے طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکانداروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کر دیں۔

ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو انکی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
طاقت کا امتحان


(گزشتہ سے پیوستہ)



دُور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

نانبائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اسکے پیٹ میں نوکدار خنجروں کا کام کیا۔

مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اسکے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز "مزدور" کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

"دو تین دن سے روٹی بمشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بھیک؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں خدا کارساز ہے۔"

اسنے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چنانچہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

"مزدور۔"

یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

"جی حضور۔"

"دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟"

مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اسکی آنکھوں کی وہ چمک جو "مزدور" کا لفظ سنکر پیدا ہوئی تھی، غائب ہو گئی۔

وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لئے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

"جو حضور فرمائیں۔"

"یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لو گے؟" ان دو لڑکوں میں سے اسنے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔

"بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟" دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔

"کہاں تک جانا ہوگا حضور۔"

"بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔"

"وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دیدیجئے۔"

"تین آنے۔"

"جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔"

"دو آنے مناسب ہے بھئی۔"

دو آنے۔۔۔۔۔۔۔آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لئے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہو گیا۔ اسنے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اسکی کمر پر تھی۔

گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سنکر طاقت عود کر آئی۔

گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لئے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

"آئیے۔" مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیئے، وہ بہت مسرور تھے۔

"چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھاؤ، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔"

مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اسکے کاندھوں پر سوار ہے۔

"کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمھارا کل والا سینڈو؟"

"کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔"

"تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔"

"مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقتور نہیں ہیں۔"

"ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انھیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔"

"واقعی درست ہے۔"

لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اسکی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اسکا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔

مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کیلیئے بھوک کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔

دھماکے کی آواز سنکر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

"چلو آؤ چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔"

"میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔لالچ۔"

یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔

سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلیفون کا چونگا ہاتھ میں لئے غالباً گندم کا بھاؤ طے کرنیوالا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلیفون کا سلسلۂ گفتگو منقطع کر لیا۔

"کمبخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے۔"

تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عملِ جراحی کیلیئے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اسکی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔۔۔۔۔۔۔ان آنسوؤں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہ معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔


(5 جنوری 1935ء)

اشاعتِ اول۔ ہفتہ وار "خلق"

اشاعتِ ثانی۔ "عالمگیر"



(ختم شد)

۔
 
Top