آبِ گم ۔۔۔۔۔۔کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ

جائیں گے! انشاءاللہ!

" خیر- اور تو جو کچھہ ہوا سو ہوا، پر میرے فرشتوں کو بھی پتا نہیں تھا کہ تمیزن پر میرے چچا جان قبلہ کسی زمانے میں مہربان رہ چکے ہیں- جوانی قسم! ذرا بھی شک گزرتا تو میں اپنا دل مار کے بیٹھہ رہتا- بزرگوں کی شان میں گستاخی نہ کرتا- یار! جوانی میں یہ حالیت تھی کہ نبض پہ اُنگلی رکھو تو ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتی تھی- شکل بھی میری اچھی تھی- طاقت کا یہ حال کہ کسی لڑکی کی کلائی پکڑ لوں تو اُس کا چھڑانے کو جی نہ چاہے- خیر وہ دن ہوّا ہوئے- میں یہ کہہ رہا تھا کہ علاج مرض سے کہیں زیادہ جان لیوا تھا- بعد کو گرمی چھانٹنے کے لیے مجھے دن میں تین دفعہ قدحے کے قدحے ٹھنڈائی اور دھنیے کے عرق اور کتیرا گوند کے پلائے جاتے- اور دو وقتہ پھیکی روٹی، کوتھمیر (ہرادھنیہ) کی بے نمک مرچ کی چٹنی کے ساتھہ کھلائی جاتی- اسی زمانے سے میرا نام بھیّا کوتھمیر پڑگیا- والد صاحب کو اس وقوعے سے بہت صدمہ پہنچا- شکی مزاج آدمی تو تھے ہی- کبھی خبر آتی کہ شہر میں فلاں جگہ ناجائز بچّہ پڑا ملا ہے، تو والد صاحب مجھی کو آگ بھبھوکا نظروں سے دیکھتے- اُنھیں محلے میں کوئی لڑکی تیز تیز قدموں سے جاتی نظر آجائے تو سمجھو کہ ہو نہ ہو میں در پئے آزار ہوں-اُ ن کی صحت تیزی سے گرنے لگی- دشمنوں نے مشہور کر دیا کہ تمیزن نے ایک ہی رات میں داڑھی سفید کر دی- خود اُن کا بھی یہی خیال تھا- اُنھوں نے مجھے ذلیل کرنے کے لیے ریلوائی گارڈ کی جھنڈی سے بھی زیادہ لہولہان رنگ کا تہمد بندھوایا اور ٹہنی کے بجائے نیم کا پورا گدّا___ میرے قد سے بھی بڑا____ مجھے تھما دیا- میں نے شنکرات کے دن اُس سے آٹھہ پتنگیں لوٹیں- لڑکپن بادشاہی کا زمانہ ہوتا ہے- اُس زمانے میں کوئی مجھےحضرت سلیمان کا تخت ہدہد اور ملکہ سبا بھی دے دیتا تو وہ خوشی نہیں ہوتی جو ایک پتنگ لوٹنے سے ہوتی تھی- یار! کسی دن تلے مکھانے تو کھلا دے- مدتّیں ہوئیں- مزہ تک یاد نہیں رہا- ماں بڑے مزے کے بناتی تھی- فقیرا میں نے اپنی ماں کو بڑا دُکھہ دیا-"
خلیفہ اپنی ماں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گیا -

بزرگون کا قتلِ عام

خلیفہ اپنے موجودہ منصب اور فرائض کے لحاظ سے کچھہ بھی ہو، اُس کا دل ابھی تک گھوڑے میں اٹکا ہوا تھا-

کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی اسپِ مشکی کی


ایک دن وہ دکان کے مینیجر مولانا کرامت حسین سے کہنے لگا کہ " مولانا ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جس بچّے کے چپت اور جس سواری کے چابک نہ مار سکو وہ روزِ قیامت کے دن تلک قابو میں نہیں آنے کی- نادر شاہ بادشاہ تو اسی واسطے ہاتھی کے ہودے سے کود پڑا اور جھونجل میں آ کے قتلِ عام کرنے لگا- ہمارے سارے بزرگ قتلِ عام میں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے- گود کے بچّوں تک کو بلّم سے چھید کر ایک طرف پھینک دیا- ایک مرد زندہ نہیں چھوڑا-"مولانا نے ناک کی نوک پر رکھی ہوئی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے پوچھا "خلیفہ! پچھلے پانچ سو سال میں کوئی لڑائی ایسی نہیں ہوئی جس میں تم اپنے بزرگوں کو چن چن کر نہ مروا چکے ہو- جب قتلِ عام میں تمہارا بیج ہی مارا گیا، جب تمہارے سارے بزرگ ایکو ایک قتل کر دیے گئے تو اگلی نسل کیوںکر پیدا ہوئی؟" بولا " اپ جیسے اللہ لوگ کی دعاؤں سے!"
بزرگوں میں سب سے زیادہ فخر وہ اپنے دادا پر کرتا تھا، جس کی ساری زندگی کا واحد کارنامہ یہ معلوم ہوا تھا کہ پچاسی سال کی عمر میں سوئی میں تاگا پرو لیتا تھا- خلیفہ اس کارنامے سے اس درجہ مطمئن بلکہ مرعوب تھا کہ یہ تک نہیں بتاتا تھا کہ سوئی پرونے کے بعد دادا اس سے کیا کرتا تھا-

٥

کار کی کایا پلٹ

ایک دن رابسن روڈ کے تراہے کے پاس رسالہ افکار کے دفتر کے قریب کار کا بریک ڈاؤن ہوا- اُسی وقت اس میں گدھا گاڑی جوت کر لارنس روڈ لے گئے- اس دفعہ مستری کو بھی رحم آگیا- کہنے لگا " آپ شریف آدمی ہیں- کب تک برباد ہوتے رہیں گے- اوچھی پونجی بیوپاری کو اور منحوس سواری، مالک کو کھا جاتی ہے- کار تلے آ کر آدمی مرتے تو ہم نے بھی سنے تھے-لیکن یہ ڈائن تو اندر

____________________________________

یہ مصرع دراصل گھوڑے سے نہیں، معشوق سے متعلق تھا- ہم نے صرف اتنا تصرّف کیا ہے کہ "زلفِ مشکیں" کے بجائے اسپِ مشکی جر دیا- اس سے غزل کی لچک، بتانِ ہزار شیوہ کی ترفگی اور وزن سے ہماری ناواقفیت ثابت ہوتی ہے-بے شمار اشعار ہماری نظر سے ایسے گزرے ہیں کہ اگر یہ نہ باتایا جائے کہ ممدوح کون ہے تو خیال ادبدا کر گھوڑے کی طرف جاتا ہے، جب کہ وہ معشوق کے بارے میں ہوتے ہیں-
 
Top