محب علوی
مدیر
احسان بھائی! منور حسین بھی رخصت ہو گئے۔ انتقال سے پہلے۔۔۔"
"کس کے انتقال سے پہلے؟" میاں احسان الٰہی نے اپنی بےنور آنکھوں سے چھت کے پنکھے کو تکتے اور اپنے فالج زدہ ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اٹھا کر اپنے دل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ انھیں رہ رہ کر این جائنا کے درد شبہ ہورہا تھا۔ یہ جنوری 1986 کا ذکر ہے۔ مجھے اپنا مدعا بیان کرنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی۔ میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن "کوما" میں رہے۔ جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔
اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ ، دو سو دس پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے جو بہتر سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڑ بیٹھک لگاتا ، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔ 1990ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی ، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کردیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آجاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے ۔ کہتے تھے "اس سے دل قوی اور بڑھاپا پسپا ہوتا ہے ۔ ساٹھ پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر میں نہ چڑھاہوں۔" ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا لیکن چنیوٹی کنا ، سندھی بریانی ، برنس روڈ کی ترتراتی تافتان ، کوئٹہ کے سجی کباب ، بادام کی حیدر آبادی لوازمات ، ملتان کے انور رٹول۔۔۔۔مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خودکشی کے نسخے کے جملہ اجزا ۔۔۔۔نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوںکو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے ، لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔ تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہین گے ، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے ! ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاو فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے ۔ ہر مسئلے پر ۔۔۔۔خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے بشرطیکہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں تو تکف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ 1980 میں آپ کو معلوم ہے یورپ کی سیاحت پر گیا تھا۔ کئی دن بریانی نہیں ملی چناچہ ویانا میں ہرنیا کا آپریشن کرانا پڑا۔ آپ میرے چٹورپن اور بدپرہیزی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ غالب کو دیکھیے ۔ ساری عمر ناقدری اور عسرت و تنگ دستی کا رونا روتے رہے ، خصوصا آخری دنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں ان کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمایئے:صاحب کو سات بادام کا شیرہ ، قند کے شربت کے ساتھ ۔ دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی۔ تین شامی کباب۔ چھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شرابَ خانہ ساز اور سری قدر عرق شیر۔ بھائی میرے ! یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے۔ لیکن مجھے تو مرض الموت کے بغیر بھی اتنی کیلوریز میسر نہیں ۔ اور ہاں ، شراب کے ضمن میں بادہ پر تگالی کے بجائے خانہ ساز کی شراب توجہ طلب ہے۔ علادہ ازیں ، صرف پانچ روپے بھر شراب غالباّ اس لیے پیتے تھے کہ اگر اس کی مقدار بڑھا دیتے تو پھر اتنا ہی عرقِ شیر بھی زہر مار کرنا پڑتا۔ بھائی میرے ، میں تو دودھ کی آئس کریم صبر وشکرسے کھاتا ہوں ۔ کبھی تولہ ماشہ کی قید نہیں لگائی۔"
"کس کے انتقال سے پہلے؟" میاں احسان الٰہی نے اپنی بےنور آنکھوں سے چھت کے پنکھے کو تکتے اور اپنے فالج زدہ ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اٹھا کر اپنے دل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ انھیں رہ رہ کر این جائنا کے درد شبہ ہورہا تھا۔ یہ جنوری 1986 کا ذکر ہے۔ مجھے اپنا مدعا بیان کرنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی۔ میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن "کوما" میں رہے۔ جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔
اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ ، دو سو دس پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے جو بہتر سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڑ بیٹھک لگاتا ، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔ 1990ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی ، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کردیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آجاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے ۔ کہتے تھے "اس سے دل قوی اور بڑھاپا پسپا ہوتا ہے ۔ ساٹھ پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر میں نہ چڑھاہوں۔" ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا لیکن چنیوٹی کنا ، سندھی بریانی ، برنس روڈ کی ترتراتی تافتان ، کوئٹہ کے سجی کباب ، بادام کی حیدر آبادی لوازمات ، ملتان کے انور رٹول۔۔۔۔مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خودکشی کے نسخے کے جملہ اجزا ۔۔۔۔نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوںکو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے ، لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔ تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہین گے ، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے ! ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاو فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے ۔ ہر مسئلے پر ۔۔۔۔خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے بشرطیکہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں تو تکف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ 1980 میں آپ کو معلوم ہے یورپ کی سیاحت پر گیا تھا۔ کئی دن بریانی نہیں ملی چناچہ ویانا میں ہرنیا کا آپریشن کرانا پڑا۔ آپ میرے چٹورپن اور بدپرہیزی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ غالب کو دیکھیے ۔ ساری عمر ناقدری اور عسرت و تنگ دستی کا رونا روتے رہے ، خصوصا آخری دنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں ان کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمایئے:صاحب کو سات بادام کا شیرہ ، قند کے شربت کے ساتھ ۔ دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی۔ تین شامی کباب۔ چھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شرابَ خانہ ساز اور سری قدر عرق شیر۔ بھائی میرے ! یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے۔ لیکن مجھے تو مرض الموت کے بغیر بھی اتنی کیلوریز میسر نہیں ۔ اور ہاں ، شراب کے ضمن میں بادہ پر تگالی کے بجائے خانہ ساز کی شراب توجہ طلب ہے۔ علادہ ازیں ، صرف پانچ روپے بھر شراب غالباّ اس لیے پیتے تھے کہ اگر اس کی مقدار بڑھا دیتے تو پھر اتنا ہی عرقِ شیر بھی زہر مار کرنا پڑتا۔ بھائی میرے ، میں تو دودھ کی آئس کریم صبر وشکرسے کھاتا ہوں ۔ کبھی تولہ ماشہ کی قید نہیں لگائی۔"