آبِ گم ۔۔۔۔غنودیم غنودیم

احسان بھائی! منور حسین بھی رخصت ہو گئے۔ انتقال سے پہلے۔۔۔"
"کس کے انتقال سے پہلے؟" میاں احسان الٰہی نے اپنی بےنور آنکھوں سے چھت کے پنکھے کو تکتے اور اپنے فالج زدہ ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اٹھا کر اپنے دل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ انھیں رہ رہ کر این جائنا کے درد شبہ ہورہا تھا۔ یہ جنوری 1986 کا ذکر ہے۔ مجھے اپنا مدعا بیان کرنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی۔ میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحب فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن "کوما" میں رہے۔ جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔
اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کرسکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ ، دو سو دس پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے جو بہتر سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڑ بیٹھک لگاتا ، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔ 1990ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی ، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کردیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آجاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے ۔ کہتے تھے "اس سے دل قوی اور بڑھاپا پسپا ہوتا ہے ۔ ساٹھ پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر میں نہ چڑھاہوں۔" ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا لیکن چنیوٹی کنا ، سندھی بریانی ، برنس روڈ کی ترتراتی تافتان ، کوئٹہ کے سجی کباب ، بادام کی حیدر آبادی لوازمات ، ملتان کے انور رٹول۔۔۔۔مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خودکشی کے نسخے کے جملہ اجزا ۔۔۔۔نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوںکو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے ، لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔ تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہین گے ، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے ! ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاو فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے ۔ ہر مسئلے پر ۔۔۔۔خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے بشرطیکہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں تو تکف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ 1980 میں آپ کو معلوم ہے یورپ کی سیاحت پر گیا تھا۔ کئی دن بریانی نہیں ملی چناچہ ویانا میں ہرنیا کا آپریشن کرانا پڑا۔ آپ میرے چٹورپن اور بدپرہیزی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ غالب کو دیکھیے ۔ ساری عمر ناقدری اور عسرت و تنگ دستی کا رونا روتے رہے ، خصوصا آخری دنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں ان کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمایئے:صاحب کو سات بادام کا شیرہ ، قند کے شربت کے ساتھ ۔ دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی۔ تین شامی کباب۔ چھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شرابَ خانہ ساز اور سری قدر عرق شیر۔ بھائی میرے ! یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ، سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے۔ لیکن مجھے تو مرض الموت کے بغیر بھی اتنی کیلوریز میسر نہیں ۔ اور ہاں ، شراب کے ضمن میں بادہ پر تگالی کے بجائے خانہ ساز کی شراب توجہ طلب ہے۔ علادہ ازیں ، صرف پانچ روپے بھر شراب غالباّ اس لیے پیتے تھے کہ اگر اس کی مقدار بڑھا دیتے تو پھر اتنا ہی عرقِ شیر بھی زہر مار کرنا پڑتا۔ بھائی میرے ، میں تو دودھ کی آئس کریم صبر وشکرسے کھاتا ہوں ۔ کبھی تولہ ماشہ کی قید نہیں لگائی۔"
 
ڈاکٹروں سے ایکس رے اور مرض کی تشخیص کرانے کے بعد اکثر بایو کیمسٹری سے خود اپناعلاج کرتے۔ ایسی قوتِ ارادی کے مالک اور ایسے بقراط مریض پر ڈاکٹر کو بھی غصہ نہیں آتا، ترس اور پیار آتا ہے۔ حلقہ یاراں میں جب وہ خوش گفتاری پر آتے تو ڈمپل ان کے رخسار ہی میں نہیں ، فقروں میں بھی پڑتا تھا۔ بالآ خر ان کی بدپرہیزی اور لاجواب کردینے والی منطق کا نیتجہ شدید فالج کی شکل میں رونما ہوا۔
میں ڈرائنگ روم اور برآمدے سے ہوتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچا تو دیکھا کہ ان کے میوزک روم میں ( جس میں نو دس لاوڈ اسپیکر اس خوبی سے لگائے گئے تھے کہ ایک بھی نظر نہیں آتا تھا) تالا پڑا ہے۔ ان کی ذاتی لائبریری جس کی سیکڑوں کتابوں کی قیمتی جلدیں انھوں نے نظام دکن کے شاہی جلد ساز سے بطور خاص بنوائی تھیں ، چار سال سے بند پڑی تھی۔ اسی لائبریری میں انھوں نے میرا تعارف نیاز فتح پوری ، مولانا محمد ایوب د ہلوی، محمد حسن عسکری اور سلیم احمد سے کرایا تھا۔ اور یہیں سے انھوں نے ایک دفعہ آدھ گھنٹے تک مجھے فون پر استاد بندو خان کی سارنگی سنوائی تھی کہ وہ اپنے ہر شوق اور لطف میں دوستوں کو شریک کرکے خوشی دوبالا کرنے کے مرز سے واقف تھے۔
فون پر سارنگی سنوانے کا قصہ یہ ہے کہ ان کے والد مرحوم حاجی محمد یعقوب صاحب اپنے گھر میں تاش، پرائی عورتوں کے فوٹو( مراد ایکٹرسوں سے تھی ) اور پاندان رکھنے کے تو خلاف تھےہی ، گانے کی محفل کے بھی روادار نہ تھے۔ "بیٹا جی! موسیقی حرام تو ہے ہی منحوس بھی ہوتی ہے۔ جس گھر میں ایک دفعہ طبلہ یا گھنگھرو بج گئے ، اس گھر کے سامنے ایک نہ ایک دن دِوالے اور قرقی کا ڈھول بجنا لازمی ہے۔ وہ گھر اجڑے ہی اجڑے ۔ اسے میری وصیت جانو۔ " وصیت کے احترام میں میاں احسان الٰہی اس مترنم نحوست کا اہتمام عاجز کے گھر کرواتے تھے۔ لیکن الحمد للہ مرحوم کی پیچشن گوئی کے مطابق ہمارے گھر کے سامنے کبھی قرقی کا ڈھول نہیں بجا۔ کسی کے گھر بھی نہیں بجا جب کہ اس عرصے میں ہم نے ( کرائے کے ) نو گھر تبدیل کیے۔ میاں احسان الٰہی اپنے گھر میں موسیقی صرف تین صورتوں میں جائز و مباح سمجھتے تھے۔ اول ، گانے والی زندہ حالت میں نہ ہو۔ مطلب یہ کہ اس کے گانے کا صرف ریکارڈ یا ٹیپ ہو۔ دوم ، ان کے گھر میں گانے والا بالکل تنہا گائے ۔ یعنی نہ طبلے کی سنگت ہو اور نہ ان کے علادہ کوئی اور سننے والا موجود ہو۔ نیز یہ اندیشہ نہ ہو کہ گانے کے بول سمجھ آجائیں گے۔ یعنی راگنی پکی ہو۔ سوم ، گانے والے کو داد کے سواکچھ اور نہ دینا پڑے۔ مطلب یہ کہ گانے والا فی سبیل اللہ گلوکاری کرے۔ مرزا کہتے ہیں کہ ان پاکیزہ شرائط و قیود کے ساتھ جو شے ظہور میں آئے گی وہ والد مرحوم کی وصیت تو ہوسکتی ہے ،موسیقی ہرگز نہیں۔
 
میاں احسان الٰہی اس کمرے کے وسط میں ایک اونچے اسپتالی بیڈ پر نئی ریشمی دلائی اوڑھے نیم غنودگی کے عالم میں لیٹے تھے۔ دائیں دیوار پر عالم جوانی کی دو تصویریں ٹنگی تھیں۔ ایک میں وہ مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کھڑے تھے دوسری میں وہ بندوق کا بٹ (کندہ ) مردہ نیل گائے کی تھوتھنی پر رکھے کھڑے مسکرارہے تھے۔ دونوں تصویروں کے نیچے ان کی نئی ان ویلڈ چیئر ( معذروں کی کرسی رواں ) رکھی تھی۔ ان کے سرھانے ایک اونچے اسٹول پر وہ قیمتی دوائیں سجی تھیں جن کے ناکارہ و بے اثر ہونے کا وہ نیم زندہ اشتہار تھے۔ اس وقت تو ان کے حافظے کا قائل ہونا پڑااس لیے کہ انھوں نے میری تواضع کے لیئے فریسکو سے میری پسندیدہ گرم جلیبیاں اور ناظم آباد کے ملا حلوائی کے گلاب جامن منگوائے تھے۔ دائیں طرف دیوار سے لگے ساگوان کے کنگ سائز بیڈ پر تکیے نہیں تھے۔ ان کی بیگم کے انتقال کو دو مہینے ہوئے تھے۔ دروازے کے سامنے والی کھڑکی کے کارنس پر ایک چھوٹا سا کیسٹ پلئیر اور ان مشاعروں کے ٹیپ رکھے تھے جو گزشتہ پینتیس برسوں میں اس لان پر ہوئے تھے جس کے لیے گھاس ڈھاکا سے ، گلاب اور پام کے درخت پنڈی اور سری لنکا سے منگوئے تھے ۔ فالج کے پیش نظر پنکھا ، ایئر کنڈیشنر ، کھڑکیاں ، بری خبروں کی اطلاع ، بچوں کا داخلہ ۔۔۔۔سب بند تھے۔ مجھے خیال گزرا کہ ان کی سماعت بھی متاثر ہو چلی ہے۔ میں نے ذرا اونچی آواز میں دہرایا۔
" ہمارے یار جانی منور حسین مر گئے۔ "
"ہاں ، مجھے کسی نے بتایا تھا۔ " انھوں نے بڑی لکنت سے کچھ کہا جس کا مطلب میں نے یہی سمجھا۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ میری بات پہ وہ اپنی توجہ بیس پچیس سیکنڈ سے زیادہ فوکس نہیں کر پارہے تھے اور حاضر دماغی کے اس مختصر سے کوندے میں اپنا مدعا بیان کر نے میں مجھے خاصی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔
وہ بات یہ تھی کہ اٹھائیس سال کراچی میں رہنے کے بعد میں نے جنوری 1979ء میں لندن جانے کے لیے رختِ سفر باندھا تو پہلے اپنے دونوں دوستوں (جن کے نام رسمی خانہ پری کی خاطر میاں احسان الٰہی اور منور حسین فرض کرلیجیے۔ نام میں کیا رکھاہے۔ دوست کو کسی بھی نام سے پکاریں ، گلوں ہی کی خوشبو آئے گی ) کی تین باتیں اور یادیں انھیں کی زبانی ٹیپ پر محفوظ کیں۔ مفصل نوٹ بھی لیے۔ ان یاداشتوں پر مبنی و مشتمل دس خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسبِ عادت پال میں لگا دیے کہ ڈیڑھ دو سال بعد نکال کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی یا نرے سوختنی ہیں۔ میاں احسان الٰہی اور منور حسین سے دوبارہ ان کی اشاعت کی اجازت چاہی جو انھوں نے بخوشی اور غیر مشروط طور پر دے دی۔ میں نے صاف کرنے کے لیے مسودہ نکال کر دیکھا تو ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ سب کچھ کسی اور نے لکھا ہے۔ یہ بھی بالکل عیاں تھا کہ یہ دو کتابوں کا مواد ہے۔ میں ایک مسودے سے دو کتابیں برآمد کرنے کا جتن کر رہا تھا کہ منور حسین کا ایک مختصر سا خط موصول ہوا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ مجھے تو ذاتی طور پر کوئی تامل یا اعتراض نہیں، لیکن ممکن ہے اس کی اشاعت میرے اعزہ و اقربا کو اچھی نہ لگے۔ لٰہذا ان باتوں اور یادوں کو میرے نام سے منسوب نہ کیا جائے ۔قبل اس کے کہ میں کراچی جا کر ان سے اس موضوع پر مفصل گفتگو کروں، دو تین مہینے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
میری روداد سن کر میاں احسان الہی نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہاکہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ آپ جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ پھر کہنے لگے ، بہت دن ہوگئے ۔ اب پاکستان آ بھی جایے۔ ہمارے بعد آئے تو کیا آئے ۔ بینائی بالکل جاتی رہی۔ کبھی کبھی مجھے آپ کا چہرہ یاد نہیں آتا۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ سینتس سال میں، میں نے انھیں دوسری بار روتے دیکھا۔
 
اب میں عجیب پس و پیش میں مبتلا ہو گیا۔ دونوں کی یادیں اور باتیں ایک دوسرے میں کچھ اس طرح گتھی اور گندھی ہوئی تھیں کہ ان جڑواں سیامی تحریروں کو بے ضرر عملِ جراحی سے علیحدہ کرنا میرے بس کا کام نہ تھا۔ اور نہ یہ ممکن تھا کہ ایک کے نام ، مقام اور شناختی کوائف کا تو انکشاف کردوں اور دوسرے کی تلبیس لباس کرکے افسانوی لبادہ پہنادوں۔ان حالات میں میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ سارے مسودے کو یک قلم مسترد کرکے نہ صرف نام اور مقام بدل دوں، بلکہ اول تا آخر سب کچھ fictionalise کردوں، جس کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اور میں نے یہی کیا۔
چناچہ "آبِ گم" کے پانچ کہانی نما خاکوں میں آپ جو کچھ ملاحظہ فرمائیں گے، اس کا ان دوستوں کے واقعاتِ زندگی یا ان کے احباب ، بزرگوں اور لواحقین سے قطعا کوئی تعلق یا مماثلت نہیں ہے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ فکشن کو فکشن ہی سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر کوئی واقعہ سچ یا کردار "اصلی" نظر آئے تو اسے محض سوء اتفاق تصور فرمائیے۔ تمام تر واقعات و کردار فرضی ہیں۔ البتہ جن مشاہیر کا ذکر جہاں کہیں "بہ بدی" یا بربنائے تنقیص آیا ہے ، اسے جھوٹ نہ سمجھا جائے۔ اتنا ضرور ہے کہ میں نے حتی الا مکان منور حسین اور میاں احسان الہی کے مخصوص پیرایہ بیان اور انداز گفتگو کی لٹک ۔۔۔۔۔۔اور کہیں کہیں آپس کی نوک جھونک کے دوران شرارِ جستہ و فقرہ برجستہ ۔۔۔۔۔کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
یوں بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ فکشن ہے یا سچی واردات یا ان دونوں کا ملغوبہ جسے آج کل Fact + Fiction) Faction) کہا جاتا ہے۔ ایک چینی دانا کا قول ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی سیاہ ہے یا سفید۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔
اس پس منظر کا ذکر و وضاحت مجھ پر اس لیے بھی واجب ہے کہ اس کتاب کا اصل محور ، محرک اور باعثِ تصنیف ہر دو یارانِ رفتہ کی صحبت اور مطائبات تھے جو میری زندگی کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ صحبتِ یاراں میں ہر لمحے کو ایک جشن سمجھ کر گزار تے ۔ اس قرض اور نعمتَ عظمی کا اخفا بددیانتی ہوگی۔
جس اکھڑی اکھڑی گفتگو کا اوپر ذکر آیا ہے، اس کے کچھ ہی دن بعد میاں احسان الہی بھی اپنے رب سے جا ملے اور دیس سونا کر گئے۔ اور اب میں ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی زیرِ زرپرستی گیارہ سال لندن میں گزارنے کے بعد وطن کو مراجعت کی تیاری کررہاہوں۔ ان کا گلہ اور خدشہ صحیح ثابت ہو۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ذاتی ، ادبی ، پیشہ ورانہ ، سیاسی اور قومی اعتبار سے اس عشرہ رائگاں میں زیاں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ سب کچھ کھو کر بھی کچھ نہ پایا۔ البتہ ملکوں ملکوں گھومنے اور وطن سے دور رہنے کا ایک بین فائدہ یہ دیکھا کہ وطن اور اہل وطن سے محبت نہ صرف بڑھ جاتی ہے بلکہ بے طلب اور غیر مشروط بھی ہوجاتی ہے:

سفر کردم بہر شہری دویدم
بہ لطف و حسن تو کس را ندیدم​
نقصان یہ کہ ہر خبر اور افواہ جو ادھر سے آتی ہے ، دل دہلانے اور خون جلانے والی ہوتی ہے۔ پاکستان کی افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔ یہ عمل دس گیارہ سال تک جاری رہے تو حساس آدمی کی کیفیت سیسموگراف کی سی ہو جاتی ہے جس کا کام ہی زلزلوں کے جھٹکے ریکارڈ کرنا اور ہمہ وقت لرزتے رہنا ہے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے ہماری سیاست کا قوام ہی آتش فشاں لاوے سے اٹھتا ہے:

دن رات اک زلزلہ تعمیر میں میری​

لیڈر خود غرض، علما مصلحت بیں ، عوام خوف زدہ اور راضی برضائے حاکم، دانش ور خوشامدی اور ادارے کھوکھلے ہو جائیں (رہے ہم جیسے لوگ جو تجارت سے وابستہ ہیں تو: کامل اس فرقہ تجار سے نکلا نہ کوئی ) تو جمہوریت آہستہ آہستہ آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے۔ پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غضب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالیے: ڈکٹیٹر خود نہیں آتا، لایا اور بلایا جاتا ہے۔ اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے۔ پھر وہ روایتی اونٹ کی طرح بدوؤں کو خیمے سے نکال باہر کرتا ہے۔ باہر نکالے جانے کے بعد کھسیانے بدؤ ایک دوسرے کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ پھر ایک نایاب بلکہ عنقا شے کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ غبی اور تابع دار اونٹ تلاش کرکے اسے دعوت دینے کے منصوے بنانے لگتے ہیں تاکہ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اپنے خیمے میں رہ سکیں اور آقائے سابق الانعام یعنی پچھلے اونٹ پر تبرا بھیج سکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہو سکتاہ اس معنی میں کہ وہ خلوصِ دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح ٹوٹ کر وہ محبت کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تنِ تنہا کرسکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ نیز اسی کی ذاتِ واحد خلاصہ کائنات اور بلا شرکتِ غیرے سر چشمہ ہدایت ہے، لہذا اس کا ہر فرمان بمنزلہ صحیفہ سماوی ہے:

آتے ہی غیب سے یہ فرامیں خیال میں​

اس میں شک نہیں کہ اس کے پاس ان مسائل ( Non-issues) اور فرضی قضیوں کا نہایت اطمینان بخش حل ہوتا ہے جو وہ خود اپنی جودتِ طبع سے کھڑے کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اخباری معمے( کراس ورڈ) بنانے والوں کی طرح پہلے وہ بہت سے حل اکھٹے کر لیتا ہے اور پھر اپنے ذہنِ معما ساز کی مدد سے ان سے آڑے ترچھے مسائل گھڑتا چلاجاتاہے۔
رائے کی قطعیت اور اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ یہ کہ وہ بندگانِ خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ سب پتھر کے عہد کے وحشی ہوں اور وہ انھیں ظلمت سے نکال کر اپنے دورِ ناخدائی میں لانے اور بن مانس سے آدمی اور آدمی سے انسان بنانے پر مامور من اللہ ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے خطاب کرتا رہتا ہے مگر قدِ آدم حروف میں اس پر لکھا ہوا نوشتہ اسے نظر نہیں آتا۔ مطلق العنانیت کی جڑیں دراصل مطلق الانانیت سے پیوست ہوتی ہےں۔ چنانچہ اوامر و نواہی کا انحصار اس کی جنبشِ ابرو پر ہوتا ہے۔ انصاف کی خود ساختہ ترازو کے اونچے اونچے پلڑوں کو، اپنی تلوار کا پاسنگ، کبھی اس پلڑے اور کبھی اس پلڑے میں ڈال کر برابر کر دیتا ہے:

ہر کہ آمد عدالتِ نو ساخت​
 
ایسی سرکارِ دولت مدار کو مابدولت مدار کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ نقلِ کفر ، کفر نہ باشد، مرزا عبدالودود بیگ تو ( جو ابتدا میں ہر حکومت کی زور شور سے حمایت اور آخر میں اتنی ہی شد و مد سے مخالفت کرتے ہیں ) ایک زمانے اپنے کان پکڑتے ہوئے یہاں تک کہتے تھے کہ اللہ معاف کرے میں تو جب اعوذ با للہ من الشیطان الرجیم کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے رجیم سے یہی regime مراد ہے! نعوذ باللہ۔ ثم نعوذ باللہ۔
پھر جیسے جیسے امورِ سلطنت پر وفورِ تمکنت اور ہوسِ حمکرانی غالب آتی ہے ۔ آمر اپنےذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینوں کو وطن کا غدار اور دین سے منحرف قرار دیتا ہے۔ اور جو اس کے دستِ آہن پوش پر بیعت میں عجلت سے کام نہیں لیتے ان پر اللہ کی زمین کا رزق، اس کی چھاؤں اور چاندنی حرام کر دینے کی بشارت دیتا ہے۔ ادیبوں اور تلامیذ الرحمن کو شاہی مطبخ کی بریانی کھلا کر یہ بتلاتا ہے کہ لکھنے والے کے کیا فرائض ہیں اور نمک حرامی کسے کہتے ہیں ۔ وہ یہ جانتا ہے کہ ادب اور صحافت میں ضمیر فروش سے بھی زیادہ مفیدِ مطلب ایک اور قبیلہ ہوتا ہے جسے مافی الضمیر فروش کہنا چاہیے۔ اس سے وہ تصدیق کراتا ہے کہ میرے عہد میں اظہار و ابلاغ پر کوئی قدغن نہیں، مطلب یہ کہ جس کا جی چاہے جس زمین اور جس بحر میں قصیدہ کہے۔ قطعاّ کوئی روک ٹوک نہیں۔ بلکہ وزن ، بحر اور عقل سے خارج ہو تب بھی ہم حارج نہیں ہوں گے۔ بامتشالِ امر قصائدِ نو کے انبار لگ جاتے ہیں:

روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ

جیسے اور دور گزر جاتے ہیں، یہ دور بھی گزر گیا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے خوف زدہ اور چڑھتے سورج کی پرستش کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی سجدے میں پڑے رہے کہ نہ جانے پھر کب اور کدھر سے نکل آئے۔ کبھی کسی نے کولی بھر کے زبردستی کھڑا کرنا چاہا بھی تو معلوم ہوا کہ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ جوڑ بند سب اکڑ کر رہ گئے ہیں۔ اور اب وہ اپنے تمام معمولات اور فرائضِ منصبی حالتِ سجود میں ادا کرنے کے عادی و خوگر ہوگئے ہیں۔ یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔
ارجنٹائن ہو یا الجزائر، ترکی ہو یا بنگلہ دیش یا عراق و مصر و شام، اس دور میں تیسری دنیا کے تقریباّ ہر ملک میں یہی ڈراما کھیلا جارہا ہے ۔۔۔ سیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ۔ متذکرہ صدر دس تحریریں جو اپنی ساخت، ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے مونتاژ، اور پھیلاو کے لحاظ سے ناول سے زیادہ قریب ہیں، اسی دورِ ضیاع کا تلخاب ہیں۔
ان میں سے صرف پانچ اس کتاب میں شامل ہیں۔ کہتے ہیں کسی نے امینول جوزف سائیز سے پوچھا کہ آپ نے انقلابِ فرانس میں کون سا شاندار کارنامہ انجام دیا تو اس نے جو سہ لفظی جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا (J'ai Vecu“ (I survived“ یعنی میں اپنے آپ کو بچا لے گیا۔ لیکن مجھے معلوم نہیں میں خود کو اپنے آپ سے بھی بچا پایا کہ نہیں۔ وطن اور احباب سے گیارہ سال دوری اور مہجوری کا جو اثر طبیعت پر مرتب ہوتا ہے اس کی پرچھائیاں آپ کو جہاں تہاں ان تحریروں میں نظر آئیں گی۔ یوں لندن بہت دلچسپ جگہ ہے اور اس کے علاوہ بظاہر اور کوئی خرابی نظر آتی کہ غلط جگہ واقع ہوا ہے۔ تھوڑی سی بے آرامی ضرور ہے، مثلاّ مطلع ہمہ وقت ابر و کہر آلود رہتا ہے۔ صبح اور شام میں تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے لوگ A.M اور P.M. بتانے والی ڈائل کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔ موسم ایسا جیسے کسی کے دل میں بغض بھرا ہو۔ گھر اتنے چھوٹے اور گرم کہ محسوس ہوتا ہے کمرہ اوڑھے پڑے ہیں۔ پھر بقول ملک الشعرا فلپ لارکن یہ کیسی مجبوری کہ

"Nowhere to go but indoors"​

روشن پہلو یہ کہ شائستگی ، رواداری اور بردباری میں انگریزوں کا جواب نہیں۔ مذہب ، سیاست اور سیکس پر کسی اور کیسی بھی محفل میں گفتگو کرنا خلافِ تہذیب اور انتہائی معیوب سمجھتے ہیں۔۔۔۔ سوائے پب(شراب خانہ)‌اور بار کے! گھمبیر اور نازک مسائل پر صرف نشے کی حالت میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ بے حد خوش اطوار اور ہمدرد۔ کار والے اتنے خوش اخلاق کہ اکلوتے پیدل چلنے والے کو راستہ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی راہ کھوٹی کرکے سارا ٹریفک روک دیتے ہیں۔ مرزا عبدالودود بیگ کہ سدا کے جذباتی ٹھہرے، سرِ راہے اپنی اس توقیرسے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ بے تحاشا جی چاہتا ہے زبیرا لائن پر ہی کھڑے ہو کر پہلے سب کو جھک جھک کر فرداّ فرداّ کورنش بجا لائیں، پھر سڑک کراس کریں۔ مختصراّ یہ کہ کنجِ قفس میں اچھی گزرتی ہے:

قفس میں کوئی اذیت نہیں مجھے، صیاد!
بس ایک حشر بپا بال و پر میں رہتا ہے
 
کوئی لکھنے والا اپنے لوگوں ، ہم عصر ادیبوں، ملکی ماحول و مسائل، لوک روایت اور کلچر سے کٹ کر کبھی کوئی زندہ اور تجربے کہ دہکتی کٹھالی سے مکلا ہوا فن پارہ تخلیق نہیں کرسکتا۔ برطانیہ میں رہنے والے ایشائیوں میں سو میں سے ننانوے اب خوبصورت درختوں کے نام نہیں بتا سکتے جو ان کے مکانوں کے سامنے جانے کب سے کھڑے ہیں۔ (رہا سواں آدمی، سو اس نے درختوں کو کبھی نوٹس ہی نہیں کیا) نہ ان رنگ برنگے پرندوں کے نام جو منھ اندھیرے اور شام ڈھلے ان چہچہاتے ہیں۔ اور نہ اس گرل فرینڈ کے بالوں کا شیڈ بتا سکتے ہیں جس کے رات بھر بڑی روانی سے غلط انگریزی بولی۔۔۔ گولڈن آبرن، کاپر آبرن، ایش بلانڈ ، چیسٹ نٹ براؤن، ہیزل براؤن ، برگنڈی براؤن۔۔۔۔؟ کچھ معلوم نہیں۔ ان کی خیرہ نگاہیں تو“جو کچھ بھی ہو خدا کی قسم لاجواد ہو“ کے فلمی مقام پر آ کر ٹھہرجاتی ہیں۔ غیر ملک کی زندگی اور معاشرے کا مشاہدہ اور اس کے مسائل کی تفہیم اور گرفت اتنی سرسری اور سطحی ہوتی ہے کہ کبھی میوزیم، آرٹ گیلری، تھیٹر، نائٹ کلب، سوہو کی شب تاب گلیوں کے طواف، ایسٹ اینڈ میں ذلت آمیز “مکنگ“ یا چیئرنگ کراس پر گاہک کی منتظر شب زادیوں کی عنایاتِ عاجلہ سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ بہت تیر مارا تو برطانیہ شہریت حاصل کرکے وہ رہی سہی عزت بھی گنوا دی جو ٹورسٹ یا مہمان مزدور کی حیثیت سے حاصل تھی، یا بیک وقت برٹش پاسپورٹ اور “اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام“ لینے کی غرض سے کسی انگریز عورت سے شادی کرلی اور اپنے حسابوں سارے انگلستان کی ازار بندی رشتے سے مشکیں کس دیں۔ نک سک اور نسلی اعتبار سے انگریزوں کا “اسٹاک“ بہت اچھا ہے۔ قد کاٹھ، رنگ روپ اور تیکھے ترشے نقوش کے لحاظ سے ان کا شمار خوب صورتوں میں ہوتا ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ بدصورت انگریز عورت rarity (نایاب) ہے۔ بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اسی عورت سے شادی کرتا ہے! لیکن انگریز عورت کو حبالہ نکاح میں لانے سے نہ تو انگلستاں فتح ہوتا ہے ، نہ سمجھ میں آتا ہے۔
 
بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، خود عورت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ چناچہ جلا وطن ادیب (خواہ اس نے بہتر تنخواہ اور بدتر سلوک کی خاطر خود کو ملک بدر کیا ہو یا ذاتی اور سیاسی مجبوری کے تحت آسودہ حال جلا وطنی اختیار کی ہو) ہر پھر کر اسی چھوڑی ہوئی منزل اور گزرری ہوئی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے جسے مرورِ ایام، غربت اور فاصلے نے اب آؤٹ آف فوکس کرکے گلیمرائز بھی کردیاہے۔ جلاوطن وہائٹ روسی ادیب اس کی بہترین مثال ہیں۔ لندن میں مقیم یا آباد اردو ادیبوں کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہوا:

کوئی ان کی بزم جمال سے کب اٹھا، خوشی سے کہاں اٹھا
جو کبھی اٹھا بھی اٹھائے سے تو اسی طرف نگراں اٹھا​
لندن میں اس راندہ زرگاہ پر کیا گزری اور کیسے کیسے باب ہائے خرد افروز وا ہوئے، یہ ایک الگ داستان ہے جس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جو: صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ اسے ان شاءاللہ جلد ایک علیحدہ کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ “زرگزشت“ کی اشاعت کے بعد ارادہ تھا کہ کوچہ سود خواراں میں اپنی خواری کی داستان، آخری باب میں باب میں جہاں ختم ہوئی ہے، وہیں سے دوسری جلد کا آغاز کروں گا۔ لیکن درمیان میں لندن، ایک اور بینک، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور “آب گم“ آپڑے۔ کچھ اندیشہ ہائے دور دراز بھی ستانے لگے۔ مثلاّ یہی کہ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں کہ بینکینگ کیریر تو محض کیموفلاژ اور بہانہ تھا۔ دراصل یکم جنوری 1950ء یعنی ملازمت کے روزِ اول ہی سے میری نیت میں فتور تھا۔ محض مزاح نگاری اور خود نوشت کے لیے سوانح اکھٹے کرنے کی غرض سے فقیر اس حرام پیشے سے وابستہ ہوا( وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حرام پیسے کی صرف ایک ہی شکل ہوا کرتی تھی۔۔۔ سود!) دوسری حوصلہ شکن الجھن جو “زرگزشت“ حصہ دوم کی تصنیف میں مانع ہوئی، یہ تھی کہ یہ اردو فکشن کا سنہری دور ہے۔ آج کل اردو میں بہترین فکشن لکھی جارہی ہے۔۔۔۔خود نوشت اور سفر ناموں کی شکل میں! افسانے اور ناول ان کی گرد کو نہیں پہنچتے ۔ افسوس، میرے یہاں سوانح کا اتنا فقدان ہے کہ تادمِ تحریر، زندگی کا سب سے اہم واقعہ میری پیدائش ہے( بچپن کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ یہ تھا کہ بڑا ہوگیا) اور غالباّ آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ اس پر میں کوئی تین ایکٹ کا سنسنی خیز ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ تیسرا سبب خامہ خودبین و خودآرا کو روکے رکھنے کا یہ کہ اس اثنا میں لارڈ کونٹن کے تاثرات نظر سے گزرے۔ وہ ٹرینٹی کالج، آکسفورڈ کا پریسیڈنٹ اور بورڈ آف برٹش لائبریری کا چیرمین ہے۔ علمی و ادبی حلقوں میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ اس کے ذاتی کتب خانے میں بیس ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں خود نوشت سوانح عمری کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا۔ مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں! عاجز اس کی ذہانت پر ہفتوں عش عش کرتا رہا کہ اس کی خود نوشت سوانح نو عمری زرگزشت پڑھے بغیر وہ زیرک اس نتیجے پر کیسے پہنچ گیا۔ ابھی اگلی ظرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔
اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں۔ ان کا اصل مرض ناسٹل جیا ہے-------- زمانی اور مکانی، انفرادی اور اجتماعی۔جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہوجائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ بڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں ----- بالخصوص بھری جوانی میں ------ ہوسکتا ہے۔ اگر افیم یا ہیروئن دستیاب نہ ہو تو پھر اسے یادِ ماضی اور فینٹسی میں، جو تھکے ہاروں کی آخری پناہگاہ ہے، ایک گونہ سرخوشی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کچھ حوصلہ اور جفا کش لوگ اپنے زورِ بازو سے اپنا مستقبل بناتے ہیں، اسی طرح وہ زورِ تخیل سے اپنا ماضی آپ بنا لیتا ہے۔ پھر اندر ہی اندر کہیں ابھرتی ، گم ہوتی سوت ندیوں اور کہیں کاریزوں کی صورت، خیال بگولوں میں بوئی ہوئی کھیتی کو سینچتا رہتا ہے اور کہیں اچانک کسی چٹان سے چشمہ آبِ زندگانی بن کے پھوٹ نکلتا ہے۔
کبھی کبھی قومیں بھی اپنے اوپر ماضی کو مسلط کر لیتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے۔ جو قوم جتنی پسماندہ، درماندہ اور پست حوصلہ ہو، اس کو اپنا ماض، معکوس اقلیدسی تناسب (inverse geometrical ratio) میں اتنا ہی درخشاں اور دہرائے جانے کے لائق نظر آتا ہے۔ ہر آزمائش اور ادبار و ابتلا کی گھڑی میں وہ اپنے ماضی کی جانب راجع ہوتی ہے۔ اور ماضی بھی وہ نہیں کہ جو واقعتا تھا، بلکہ وہ جو اس نے اپنی خواہش اور پسند کے مطابق ازسرِنو گھڑ کر آراستہ پیراستہ کیا ہے------ماضی تمنائی۔ اس پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح ان کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے ۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 
ناسٹل جیا اسی لمحہ منجمد کی داستان ہے۔
شکست خوردہ انا اپنے لیے کہاں کہاں اور کیسی کیسی پناہیں تراشتی ہے، یہ اپنے اپنے ذوق، ظرف، تابِ ہزیمت اور طاقتِ فرار پر منحصر ہے۔۔۔ تصوف، تقشف، مراقبہ، شراب، مزاح، سیکس، ہیروئن، ویلیم، ماضی تمنائی، فینٹسی( خوابِ نیم روز)۔۔۔۔۔جس کو جو نشہ راس آجائے۔ آرنلڈ نے ہار جانے والے مگر نہ ماننے والے، دھیان دھول میں لت پت مشرق کی ہار سہار کے بارے میں لکھا تھا:

The East bow'd low before the blast
In patient, deep disdain
She let the legions thunder past
And plunged in thought again
اس اس مغرور مراقبے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ خواب آور اور گہرا نشہ جو انسان کو حاضر و موجود سے بے نیاز کر دیتا ہے، خود اپنے لہو میں کسی خواب یا خیال کے فشار و آمیزش سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بے خودی میسر آجائے تو پھر سب گوارا، سب کچھ پذیرا۔

ہزار آشفتگی مجموعہ یک خواب ہو جائے​
صاحب مراہ الخیال سے روایت ہے کہ جب کفر و برہنگی کے الزام میں سرمد کو پابجولاں شہادت گاہ لے جایا گیا تو وہ تیغ بکف جلاد کو دیکھ کر مسکرا دیا۔اور گویا ہوا “فدائے تو شوم!بیا بیا کہ تو بہر صورت می آئی من ترا خوب می شناسی“ پھر یہ شعر پڑھا اور سر تلوار کے نیچے رکھ کر ابدی نیند سو گیا۔

شورے شد و از خوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقیست شبِ فتنہ غنودیم​
قدیم زمانے میں چین میں دستور تھا کہ جس شخص کا مذاق اڑانا مقصود ہوتا، اس کی ناک پر سفیدی پوت دیتے تھے۔ پھر وہ دکھیا کتنی بھی گھمبیر بات کہتا، کلاؤن ہی لگتا تھا۔ کم و بیش یہی حشر مزاح نگار کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی فولس کیپ اتار کر پھینک بھی دے تو لوگ اسے جھاڑ پونچھ کر دوبارہ پہنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ کوچہ سود خواراں میں سر پر دستار رہی یا نہیں ، تاہم آپ اس کتاب کا موضوع ، مزاج اور ذائقہ مختلف پائیں گے۔ موضوع اور تجربہ خود اپنا پیرایہ اور لہجہ متعّین کرتے چلے جاتے ہیں۔ اقبال خدا کے حضور مسلمانوں کا شکوہ اپنے استاد فصیح الملک داغ دہلوی کی نخرے چونچلے کرتی زبان میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ رسوا کی امراؤ جان ادا اور طوائفوں سے متعلق منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی جنّاتی زبان میں کرکے انہیں (طوائفوں کو) بالجبر سنایا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صفحہ سن کر کان پکڑ لیں اور اپنے دھندے سے تائب ہو جائیں۔ وہ تو وہ، خود ہم اپنے طرزِ نگارش و معاش سے توبہ کر لیں کہ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ بہر کیف، اس بار موضوع ، مواد اور مشاہدات سب قدرے مختلف تھے۔ سو وہی لکھا جو دیکھا۔ قلندر ہرچہ گوید دیدہ گوید۔
قصّہ گو قلندر کو اپنی عیاری یا راست گفتاری کا کتنا ہی زعم ہو، اور اس نے اپنا سر کتنا ہی باریک کیوں نہ ترشوا رکھا ہو، بافنگانِ حڑف و حکایت کی پرانی عادت ہے کہ کہانی کا تانا بانا بنتے بنتے اچانک اس کا رنگ ، رخ اور ذائقہ بدل دیتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ پھر وہ نہیں رہتا کہ جو تھا۔ سو کچھ ایسی ہی واردات اس نامہ سیاہ راقمِ سطور کے ساتھ ہوئی۔ وَ اَنّہ ھو اَ ضحکَ وَ ابکی٢
چنگ را گیرید از ستم کہ کار از دست رفت
نغمہ ام خوں گشت و از رگہائے ساز آید بروں
٣
یہ نہ ادّعا ہے، نہ اعتذار، فقط گزارشِ احوال واقعی ہے۔
بحمد للہ! میں اپنی طبعی اور ادبی عمر کی جس منزل میں ہوں وہاں انسان تحسین اور تنقیض دونوں سے اس درجہ مستغنی ہو جاتا ہے کہ ناکردہ خطاؤں تک کا اعتراف کرنے میں حجاب محسوس نہیں کرتا؟ چنانچہ اب مجھے “کسے کہ خنداں نہ شد از قبیلہ مانیست“ پر اصرار کے باوجود یہ اقرارکرنے میں خجالت محسوس نہیں ہوتی کہ میں طبعاُ، اصولاُ اور عادتاُ یاس پسند اور بہت جلد شکست مان لینے والا آدمی ہوں۔ قنوطیت غالباُ مزاح نگاروں کا مقدّر ہے۔ مزاح نگاری کے باوا آدم ڈین سوفٹ پر دیوانگی کے دورے پڑتے تھے اور اس کی یاس پسندی کا یہ عالم تھا کہ اپنی پیدائش کو ایک المیہ سمجھتا تھا۔ چنانچہ اپنی سالگرہ کے دن بڑے التزام سے سیاہ ماتمی لباس پہنتا اور فاقہ کرتا تھا۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
٢- اور یہ کہ وہی ہنستاتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ قرآن مجید- ٢٧ قال فماخطبکم - النجم ٥٣
٣۔ میرے ہاتھ سے ساز لے لو کہ میرا کام تمام ہوچکا۔ میرا نغمہ خون ہو کر ساز کے تاروں سے نہ نکلا ہے۔
 
مارک ٹوین پر بھی اخیر عمر میں کلبیت طاری ہو گئی تھی۔ مرزا کہتے ہیں کہ ان مشاہیر محتشم سے تمہاری مماثلت بس اسی حد تک ہے۔ بہرحال، قبل از وقت مایوس ہو جانے میں ایک فائدہ یہ دیکھا کہ ناکامی اور صدمے کا ڈنک اور ڈر پہلے ہی نکل جاتا ہے۔ بعض نامور پہلوانوں کے گھرانوں میں یہ رواج ہے کہ ہونہار لڑکے کے بزرگ اس کے کان بچپن میں ہی توڑ دیتے ہیں، تاکہ آگے چل کر کوئی ناہنجار پہلوان توڑنے کی کوشش کرے تو ذرا تکلیف نہ ہو۔ مزاح کو میں دفاعی میکے نزم سمجھتا ہوں۔ یہ تلوار نہیں، اس شخص کا زرہ بکتر ہے جو شدید زخمی ہونے کے بعد اسے پہن لیتا ہے۔ زین بدھ ازم میں ہنسی کو گیان کا زینہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اونچ نیچ کا سچا گیان اس سمے پیدا ہوتا ہے جب کھبے پر چڑھنے کے بعد کوئی نیچے سے سیڑھی ہٹالے۔ مگر ایک کہاوت یہ بھی سنی کہ بندر پیڑ کی پھننگ پر سے زمین پر گر پڑے تب بھی بندر ہی رہتا ہے۔
“حویلی“ کی کہانی ایک متروکہ ڈھنڈورا حویلی اور اس کے مغلوب الغضب مالک کے گرد گھومتی ہے۔ “اسکول ماسٹر کا خواب“ ایک دکھی گھوڑے، حجام اور منشی سے متعلق ہے۔ “شہر دو قصہ“ ایک چھوٹے سے کمرے اور اس میں پچھتر سال گزار دینے والے سنکی آدمی کی کہانی ہے “دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ“ میں ایک قدیم قصباتی اسکول اور اس کے ایک ٹیچر اور بانی کے کیری کیچور١ پیش کیے گئے ہیں۔ اور “کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ“ ایک کھٹارا کار، ناخواندہ پٹھان آڑھتی اور شیخی خورے اور لپاڑی ڈرائیور کا حکایتی طرز میں ایک طویل خاکہ ہے۔ ان میں جو کردار مرکزی ، ثانوی یا محض ضمنی حیثیت سے ابھرتے ہیں ، وہ سب کے سب اصطلاحا بہت “عام“ اور سماجی رتبے کے لحاظ سے بالکل “معمولی“ ہیں۔ اسی لیے خاص التفات اور تامّل چاہتے ہیں۔ میں نے زندگی کو ایسے ہی لوگوں کے حوالے سے دیکھا، سمجھا ، پرکھا اور چاہا ہے۔ اسے اپنی بد نصیبی ہی کہنا چاہیے کہ جن “بڑے“ اور “کامیاب“ لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، انہیں بحیثیت انسان بالکل ادھورا، گرہ دار اور یک رخا پایا۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جس کثیر تعداد میں قادرِ مطلق نے عاب آدمی بنائے ہیں، اسے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بنانے میں اسے خاص لطف آتا ہے، وگرنہ اتنے سارے کیوں بناتا۔ اور قرن با قرن سے کیوں بناتا چلا جاتا۔ جب ہمیں بھی یہ اتنے ہی اچھے اور پیارے لگنے لگیں تو جاننا چاہیے کہ ہم نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس ایسے ہی عام انسانوں کا تذکرہ
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
1- کیری کیچور؛ مسخاکے ( مسخ خاکے )
 
ہے- ان کی الف لیلٰی ایک ہزار ایک راتوں میں بھی ختم نہیں ہو سکتی کہ
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ
ممکن ہے بعض طبائع پر جزئیات کی کثرت اور ُ ُ پلاٹ “ کا فقداں گراں گزرے- میں نے پہلے کسی اور ضمن میں عرض کیا ہے کہ پلاٹ تو فلموں، ڈراموں، ناولوں اور سازشوں میں ہوتا ہے- ہمیں تو روزمرہ کی زندگی میں دُور دُور اس کا نشان نہیں ملا- رہی جزئیات نگاری اور باریک بینی تو اس میں فی نفسہ کوئی عیب نہیں- اور نہ خوبی-جزئیات اگر محض خوردہ گیری پر مبنی نہیں، اور سچی اور جان دار ہیں تو اپنی کہانی اپنی زبانی کہتی چلی جاتی ہیں- انھیں توڑ مروڑ کر افسانوی سانچے میں ڈھالنے یا کسی آدرشی شکنجے میں کسنے کی ضرورت نہیں- ککول، چخیف اور کلاڈسیمون زندگی کی چھوٹی چھوٹی جزئیات اپنے کینوس پر بظاہر بڑی لاپروائی سے بکھیرتے چلے جاتے ہیں- پروست نے ایک پورا ناول ایک ڈنر پارٹی کی تفصیل بیان کرنے میں لکھہ دیا جو یادوں کے total recall ( مکمل بازآفرینی ) کی بہترین مثال ہے-١ انگریزی کے عظیم ترین (بغیر پلاٹ کے ) ناول Ulysses کی کہانی١٦ جون ١٩١٦ء کو صبح آٹھ بجے شروع ہو کر اسی دن ختم ہو جاتی ہے- یوجین اونیل کے ڈرامے Long Day's Journey Into Night کی بھی کچھہ ایسی ہی کیفیت ہے- ان شاہکاروں کا حوالہ دینے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر میری کچھہ بات نہیں بنی تو یہ تکنیک کا قصور نہیں، سراسر میری کم سوادی اور بے ہنری ہے پیڑ گنتا رہ گیا، جنگل کا سماں نہ دکھلا سکا- آبشار نیاگرا کی ہیبت اور بلندی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے نیچے کھڑے ہو کر اوپر دیکھنا ضروری ہے- میں جتنی بار اوپر دیکھتا ہوں، کلاہِ پِندار قدموں پر آن پڑتی ہے-
یہاں ایک ادبی بدعت اور بد مذاقی کی وضاحت اور معذرت ضروری سمجھتا ہوں- فارسی مصرعوں اور اشعار کے معنی فٹ نوٹ یا قوسین میں دینے کی دو وجہیں ہیں- اولاً، نئی نسل کے پڑھنے والوں کو ان کے معنی معلوم نہیں- دوم، خود مجھے بھی معلوم نہیں تھے- تفصیل اس اجمالِ پُر ملال کی یہ کہ عاجز نے باقاعدہ فارسی صرف چار دن چوتھی جماعت میں پڑھی تھی اور آمد نامہ کی گردان سے اس قدر

_____________________________

١ ہم نے ُ ُ یادوں کی برات “ کا قصداً ذکر نہیں کیا- اس لیے کہ اس میں دولہا براتیوں کے کاندھے پر سوار انھیں چھوہاروں سے مارتا اپنی شہنائی آپ بجاتا جاتا ہے- آرسی مصحف کے دوران آئینے میں اپنی ہی صورت دیکھہ کر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتا ہے- دلہن کا چہرہ اسے نظر ہی نہیں آتا- اس کے بعض کرداروں کے نام اور کارنامے آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہیں-
 
دہشت زدہ ہوا کہ ڈرائنگ لےلی- ہر چند کہ اس میں گردان نہیں تھی، لیکن مقاماتِ آہ و فغاں کہییں زیادہ نکلے- اس میں میٹرک تک میری مہارت صراحی اور طوطا بنانے سے آگے نہ بڑھ پائی- اور میں ہر دو اشیا ڈرائنگ میں اسپیشلائز کرنے سے پہلے بھی بالکل ویسے ہی بنا سکتا تھا- ڈرائنگ ماسٹر کہتا تھا کہ تم اپنا نام اتنی محبّت اور محنت سے لکھتے ہو اور تمہاری lettering ( حرف کشی ) اتنی خوبصورت ہے کہ تمھیں فیل کرنے کو جی نہیں چاہتا-اگر تم اسکیچ کے نیچے یہ نہ لکھو کہ یہ انگور کی بیل ہے تو تمھیں سو میں سے سو نمبر ملیں-
تین کرم فرما ایسے ہیں جو بخوبی جانتے ہیں کہ میں فارسی سے نابلد ہوں- چنانچہ وہ اپنے خطوط اور گفتگو میں صرف فارسی اشعار سے میری چاند ماری کرتے ہیں- دس بارہ برس تو میں ستائشی حیرت، دوستانہ درگزر اور مؤدبانہ نا فہمی کے عالم میں یہ ساب جھیلتا رہا- پھر اوسان درست ہوئے تو یہ وتیرہ اختیار کیا کہ اپنے جن احباب کے بارے میں مجھے بخوبی علم تھا کہ فارسی میں ان کی دست گاہ میرے برابر (یعنی صفر ) ہے، انھیں ان اشعار سے ڈھیر کرنے لگا- اس عمل سے میری توقیر اور رعبِ فارسی دانی مں دس گنا اضافہ ہوااور لطفِ صحبت ومراسلت میں اسی قدر کمی واقع ہو گئی- اس کتاب میں فارسی کے جو اشعار یا مصرعے جہاں تہاں نظر آئیں وہ ان ہی تین کرم فارماؤں کے بے طلب عطایا میں سے ہیں- یہ ہیں درویش بے ریا وریش برادرم منظور الٰہی بخش ( مصنّف دّردل کشا اور سلسلئہ روز وشب ) جو پر سشِ حال کے لیے بصرفِ کثیر لاہور سے لندن انٹرنیشنل کال بھی کریں تو پہلے علالت وعیادت سے متعلق فارسی اشعار سناتے ہیں- پھر میری فرمائش پر ان کا اردو ترجمہ و تشریح- اتنے مں وقت ختم ہو جاتا ہے اور آپریٹر لائن کاٹ دیتا ہے- دوسرے دن وہ مجھےمحبّت، معذرت اور فارسی اشعار سے لبریز خط لکھتے ہیں کہ معاف کیجیے ، آپ کا آپریشن کس چیز کا ہوا تھا اور اب طبیعت کیسی ہے- جب سے سنا ہے بہت تردد ہے- وقت ضائع کرنے پر سعدی نے کیا خوب کہا ہے____ مگر بیدل نے اسی مضمون کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا واہ واہ!
دوسرے کرم فرما ہیں ڈاکٹر ضیاءالدین شکیب کہ جب بھی برٹش لائبریری جاتے ہیں،بک اسٹال سے ایک خوب صورت اور سمجھہ میں آنے والا تصویری پوسٹ کارڈ خریدتے ہیں- پھر اس پر فیضی، بیدل یا طالب آملی کے شعر سے پانی پھیر کر مجھے پوسٹ کر دیتے ہیں- اور تیسرے ہیں حبیب لبیب و صاحبِ طرز ادیب محّبی مختار مسعود جو عاجز کے وسیع و عمیق علمی خلا کو پُر کرنے میں رُبع صدی سے جٹے ہوئے ہیں- اپنے دل پسند موضوعات پر گھنٹوں ہمارے آگے بین بجاتے ہیں اور مجبوراً
 
خود ہی جھومتے رہتے ہیں- کئی بار ان سے پوچھا، حضورِوالا! آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں؟ مگر وہ کسرِ نفسی سے کام لیتے ہیں- خود ذرا کریڈٹ نہیں لیتے- بس آسمان کی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کر دیتے ہیں- اور اسی انگلی سے اپنا کان پکڑ کر اگر بیٹھے ہوں تو اٹھہ کھڑے ہوتے ہیں اور کھڑے ہوں تو بیٹھہ جاتے ہیں- انکسار واستغفار کے مخلوط اظہار کے لیے یہ ان کی ادائے خاص ہے، جس کے دوست و دشمن سب قتیل ہیں-
فارسی اشعار کے جو معنی آپ حواشی میں ملاحظہ فرمائیں گے، وہ ان ہی کرم فرماؤں سے پوچھہ کر لکھہ دیے ہیں تاکہ سند رہے اور بھول جاؤں تو دوبارہ ان سے رجوع نہ کرنا پڑے- خصوصاً مختار مسعود صاحب سے کہ جب سے وہ آر- سی- ڈی کے سلسلے میں ترکی کے سرکاری پھیرے لگا آئے ہیں اور مزارِپیر رومی کے گردونواح میں درویشوں کا والہانہ رقص بچشمِ حیراں دیکھہ آئے ہیں، فارسی اشعار کا مطلب ہمیں ترکی کے حوالے سے سمجھانے لگے ہیں- یوں تو ہم اپنے ایک اور دیرینہ کرم فرما، پروفیسر قاضی عبدالقدوس ایم اے، بی ٹی سے بھی رجوع کر سکتے ہیں- لیکن وہ آسان شعر کو بھی اپنے علم کے زور اور وفور سے ناقابلِ فہم بنا دیتے ہیں-

آساں زِ توجّہ تو مشکل
مشکل زِ تجاہل تو آساں
سچ تو یہ ہے کہ فارسی شعر کی مار آج کل کے قاری سے سہی نہیں جاتی- بالخصوس اس وقت جب وہ بے محل بھی ہو- مولانا ابوالکلام آزاد تو نثر کا آرائشی فریم صرف اپنے پسندیدہ فارسی اشعار ٹانگنے کے لیے استعتمال کرتے ہیں- ان کے اشعار بے محل نہیں ہوتے ملحقہ نثر بے محل ہوتی ہے - وہ اپنی نثر کا تمام ریشمی کوکون (کویا ) اپنے گاڑھے گاڑھے لعابِ ذہن سے فارسی کے گرد بُنتے ہیں- لیکن یاد رہے کہ ریشم حاصل کرنے کا زمانہ قدیم سے ایک ہی طریقہ چلا آتا ہے_ کوئے کو ریشم کے زندہ کیڑے سمیت کھولتے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے- جب تک کہ وہ مر نہ جائے، ریشم ہاتھہ نہیں لگتا-
مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں- وہ نہ ہوں تو

_____________________________________________

١معذرت کے ساتھہ ُُُ ُ آسان“ اور ُ ُ مشکل“ کی ترتیب اُلٹی کر دی ہے-
تحریف کے بعد مطلب یہ کہ تیری توجّہ سے تو آسان بات بھی مشکل بن جاتی ہے اور تجھ سے رجوع نہی کرین تو مشکل بات بھی آسان ہو جاتی ہے-
 
غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں- وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھہ میں نہ آئے تو دُگنا مزہ دیتا ہے- خدا ان تین عالموں کے درمیان اس فقیر پُر تقصیر کو سلامت بے کرامت رکھے- جب سے میری صحت خراب ہوئی ہے، ان کی طرف سے متردد رہتا ہوں، کس کے گھر جائے گا سیلابِ رواں میرے بعد-
ایک دفعہ میں نے منظور الٰہی صاحب سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی دونوں کتابوں میں فارسی کے نہایت خوب صورت اشعار نقل کیے ہیں- لیکن میری طرح، قارئین کی نئی نسل بھی فارسی سے نابلد ہے- یوں ہی شدبد اور اٹکل سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو مطلب فوت ہو جاتا ہے-اگر اگلے ایڈیشن میں بریکٹ میں ان کا مطلب اردو میں بیان کر دیں تو سمجھنے میں آسانی ہو گی -
سوچ میں پڑ گئے- پھر آنکھیں بند کر کے، بند ہونٹوں سے اپنے دل آویز انداز میں مسکرائے- فرمایا، مگر بھائی صاحب! پھر مقصد فوت ہو جائے گا-
اس پر مرزا کہنے لگے ُ ُ تم نے اس کتاب میں جو ڈھیر سارے انگریزی الفاظ بے دھڑنگ ( مرزا بے درنگ کا یہی تلفّظ کرتے ہیں جو اُن کے منہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے ) استعمال کیے ہیں، ان پر بھی یہی فقرہ چست کیا جا سکتا ہے- انگریز تو دوسری زبانوں کے الفاظ خاص خاص موقعوں پر دانستہ اور مصلحتاً استعمال کرتے ہیں- مثلاً ان کے کھانے پھیکے سیٹھے اور بد مزہ ہوتے ہیں، لہٰذا اعلٰی ریستورانوں میں ان کے نام ہمیشہ فرنچ میں دیے جاتے ہیں-فرنچ آج بھی شائستگی اور سوفسٹی کیشن کی زبان تصوّر کی جاتی ہے- لہٰذا انگریزوں کو کوئی آرٹسٹک یا نا شائستہ بات کہنی ہو تو جھٹ فرنچ فقرے کا گھونگھٹ نکال لیتے ہیں- تمھیں تو معلوم ہو گا کہ سیمسول پیپس ( ١٧٠٣-١٦٣٣) نے اپنی شہرہ آفاق ڈائری (جس میں اس نے اپنی آوارگیوں اور شبینہ فتوحات کا حاصل بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے) شارٹ ہینڈ میں لکھی تھی تاکہ اس کے ملازم نہ پڑھ سکیں- جہاں کوئی ایسا نازک مقام آتا جسے انگریز اپنی روایتی کسرِ بیانی سے (understatement) کام لیتے ہوئے، naughty کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، تو وہ اس واردات کا اندراج فرنچ میں کرتا تھا- لیکن جہاں بات اتنی ناگفتنی ہو____جو کہ اکثر ہوتی تھی ___ کہ فرنچ زبان بھی سُلگ اٹھے تو اس رات کی بات کو بلا کم وکاست ہسپانوی زبان میں قلم بند کرتا تھا- گویا یہ ہوئی لسانی درجہ بندی باعتبارِ مدارجِ بوالہوسی-اب ذرا علوم کی طرف نگاہ کیجیے- انگریزوں نے درختوں اور پودوں کے نام اور بیشتر قانونی اصطلاحیں جوں کی
 
لا طینی سے مستعار لی ہیں- دانائی کی باتیں وہ بالعموم یونانی زبان میں الٹے واوین کے اندر نقل کرتے ہیں تاکہ کوئی انگریز نہ سمجھھ پائے-اوپیرا کے پکے گانوں کے لیے اٹالین ارر فلسفے کی ادق اصطلاحات کے لیے جرمن زبان کو ترجیح دے کر ناقابلِ فہم کو نا قابلِ برداشت بنا دیتے ہیں-“
اس طولانی تمہید کے بعد فرمایا ُ ُ لیکن ہم انگریزی کے الفاظ صرف ان موقعوں پر استعمال کرتے ہیں جہاں ہمیں یقین ہو کہ اس مفہوم کو اردو میں کہیں بہتر طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے-“
اس بر وقت تنبیہ کے با وجود آپ کو انگریزی کے الفاظ جا بجا نظر آئیں گے- سبب یہ کہ یا تو مجھے ان کے اردو مترادفات معلوم نہیں- یا وہ کسی رواں دواں مکالمے کی بنت میں پیوست ہیں-بصورتِ دیگر، بہت مانوس اور عام فہم ہونےکے علاوہ اتنے غلط تلفظ کے ساتھ بولے جاتے ہیں کہ اب انھیں اردو ہی سمجھنا چاہیے- کوئی انگریز انھیں پہچاننے یا اپنانے کے لیے تیار نہ ہو گا-
ُُُ ُاسکول ماسٹڑ کا خواب“ اور ُ ُ دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ“ پر محب و مشفقِ دیرینہ محمد عبدالجمیل صاحب نے بکمالِ لطف وتوجہ نظر ثانی کی اور اپنے مفید مشوروں سے نوازا- جیسے نفاست پسند اور منکسرمزاج وہ خود تھے ویسے ہی دھیمے ان کے اعتراضات تھے جو انھوں نے میرے مسودے کے حاشیے پر اتنی ہلکی پینسل سے نوٹ کیے تھے کہ انگلی بھی پھیر دیں تو مٹ جائیں کچھ ایسی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی جن کی اصلاح پر خامہ ہذیاں رقم کسی طور آمادہ نہ ہوتا تھا- مثلا میں نے ایک ترش مکالمے کے دوران گجراتی سیٹھ سے کہلوایا تھا ُ ُ ہم اس سالے لنگڑے گھوڑے کو لے کے کیا کریں گا؟“جمیل بھائی کی لکھنوی شائستگی اس کی متحمل نہ ہوئی- تادیبا پورا جملہ تو نہیں کاٹا، صرف سالے کو قلم زد کر کے اس کے اوپر برادر نسبتی لکھا پھر فرمایا کہ ُ ُ حضرت ، یہ ہک دک کیا ہوتا ہے؟ ہکا بکا لکھیے- ہمارے یہاں ہک دک نہیں بولا جاتا-“ عرض کیا ُ ُ ہکا بکا میں صرف پھٹی پھٹی آنکھیں اور کھلا ہوا منھ نظر آتا ہے، جب کہ ہک دک میں ایسا لگتا جیسے دل بھی دھک سے رہ گیا ہو-“ فرمایا ُ ُ تو پھر سیدھے سبھاؤ دھک دھک کرنے لگا کیوں نہیں لکھتے؟ اور ہاں! مجھے حیرت ہے کہ ایک جگہ آپ نے لوطی لکھا ہےذلتِ قلم ہی کہوں گا- معاف کیجیے! یہ لفظ آپ کے قلم کو زیب نہیں دیتا-“
پوچھا ُ ُ تو پھر آپ کے ہاں لوطی کو کیا کہتے ہیں؟“
فرمایا ُ ُ کچھ نہیں کہتے“
میں زور سے ہنس دیا تو چونکے- دوسرے پہلو پر خیال گیا تو خود بھی دیر تک ہنستے رہے-
رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگے ُ ُ ایسا ہی ہے تو اس کی جگہ ‘بدتمیز‘ لکھ دیجیے- تہذیب کا تقاضہ یہی ہے-“ یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا- اس لیے کہ میں نے یہ لفظ (بدتمیز) دوسرے ابواب میں تین چار جگہ ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کیا تھا جو صرف لغوی معنی میں بدتمیزی کے مرتکب ہوئے تھے- اس نئے مہذب مفہوم کے ساتھ تو وہ مجھ پر بہتان طرازی اور ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ چلا سکتے تھے-
کچھ دیر بعد کلف لگے کرتے کی آستین الٹ کر مسودے کی ورق گردانی کرتے ہوئے بولے ُ ُ دواب خانہ، سنگوٹیاں، آر اور جوجھنا شرفائے لکھنو نہیں بولتے-“ عرض کیا ُ ُ میں نے اسی لیے لکھے ہیں-“ پھڑک اٹھے- کہنے لگے ُ ُ بہت دیر بعد آپ نے ایک سمجھ داری کی بات کہی-“ پھر اس خوشی میں سگریٹ سے سگریٹ سلگاتے ہوئے بولے ُ ُ مگر مشتاق صاحب، یہ بوک کیا ہوتا ہے؟ ہم نے نہیں سنا-“ عرض کیا ُ ُ جوان اور مست بکرا جس سے نسل کشی کے سلسلے میں رجوع کیا جاتا ہے- اس کی داڑھی ہے اور جسم سے سخت بدبو آتی ہے-گوشت بھی بساندہ اور ریشے دار-“ فرمایا ُُ ُ واللہ! ہم نے یہ لفظ ہی نہیں ایسا بکرا بھی نہیں دیکھا- لفظ، مفہوم اور اس کے گوشت تینوں سے کراہت آتی ہے- مقی ہے- آپ اس کی جگہ کوئی اور کم بدبودار جانور استعمال نہییں کر سکتے؟ کراچی میں کون اس لفظ کو سمجھے گا -“ عرض کیا ُ ُ وہی جو مقی (قے آور) کو سمجھے گا - آپ توغالب کے حافظ ہیں- آپ کو تو یہ لفظ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی ضد کا غالب نے عجیب سیاق وسباق میں ذکر کیا ہے- علائی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ تم خصی بکروں کے گوشت کے قلیے اڑا رہے ہوگے- لیکن بخدا میں تمھارے پلاؤ قلیے پر رشک نہیں کرتا- خدا کرے تمھیں بیکانیر کی مصری کا ٹکڑا میسر نہ آیا ہو- جب یہ تصور کرتا ہوں کہ میر جان صاھب اس مصری ٹکڑے کو چبا رہے ہوں گے تو رشک سے اپنا کلیجہ چبانے لگتا ہوں- تحقیق طلب امر یہ ہے کہ اس مصری کی ڈلی سے دراصل غالب کی کیا مراد تھی- محض مصری ؟ سو وہ تو اعلٰی سے اعلٰی قسم کی، دلی میں منوں دستیاب تھی- حیرت ہے محقیقین و شارحین کی طبعِ بدگماں ادھر نہیں گئی، حالاں کہ غالب نے مصری کے تلازمے عشق عاشقی کے ضمن میں ایک دوسرے خط میں بھی استعمال کیا ہے-“
فرمایا ُ ُ جا چھوڑ دیا حافظِ دیوان سمجھ کر- لیکن حضرت، یہ روہڑ کس زبان کا لفظ ہے؟ کریہہ الصورت- بالکل گنوارو لگتا ہے- کیا راجھستانی ہے؟“ عرض کیا ُ ُ خود ہمیں بھی یہی شبہ ہوا تھا- لہذا ہم نے ماجد بھائی سے پوچھا-
 
ُ ُ کون ماجد بھائی؟“
ُ ُ ماجد علی صاحب- سابق سی ایس پی- لندن منتقل ہو گئے ہیں- چھوٹے بڑے، اپنے بیگانے، باس اور ما تحت__سب انھیں ماجد بھائی کہتے ہیں،سوائے ان کی بیگم، زہرا نگاہ کے- وہ انھیں ماجد چچا کہتی ہیں- ان سے رجع کیا تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ لحاف کی پرانی روئی کو، جسے غریب غربا ہاتھوں سے توم کے دوبارہ استعمال کرتے ہیں، رُوہڑ کہتے ہیں-
یوں تو وہ عاجز کے لیے پیرومرشد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کا فرمایا ہوا ہمیشہ مستند ہی ہوتا ہے،تاہم میں نے مزید تشفی کے لیے پوچھا ُ ُ کیا بداؤں میں بھی بولا جاتا ہے؟“ چہرے پر ایک بنا ؤٹی اور لہجے میں خفیف سی مصنوعی لکنت پیدا کرتے ہوئے، جو بحثا بحثی میں عصائے موسوی کا کام کرتی ہے، بولے ُ ُ ُ دیکھیے، ذاتی بے تکلفی اپنی جگہ، علمی مباحث اپنی جگہ، بدایوں کو بداؤں کہنے کا حق صرف بدایوں والوں کو پہنچتا ہے- مثلا یوں سمجھیے کہ کل کلاں کو آپ مجھے ماجد بھائی کی بجائے ماجد چچا کہنے لگیں تو لندن پولیس پولی گیمی (تعددِ ازواج ) میں دھر لے گی- آپ کا تو مزید کچھ نہیں بگڑے گا- بہر کیف رُوہڑ صحیح ہے- بداؤن میں تو پھیری والے گھر گھر صدا لگا کے رُوہڑ خریدتے تھے اوے اس کے بدلے ریوڑیاں دیتے تھے جنھیں اندھے آپس میں بانٹ لیتے تھے-“ علمی تحقیق وتدقیق کا جذبہ اب مجھے اس مقام پر لے آیا تھا جہاں مزید سوال کرنا گویا اپنی دستارِ فضیلت سے سے خود فٹ بال کھیلنے کے مترادف تھا- ماجد بھائی کی بذلہ سنجی کے آگے اچھے اچھے نہیں ٹھر پاتے- راویِ غیبت بیاں کہتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے باس (وزیر) کے دفتر کے سامنے کچھھ دور پر لوگ عزتِ مآب کے خلاف ُ ُ ایوب خان کا چمچہ! ایوب خانکا چمچہ!“ کے نعرے لاگا رہے تھے- وزیر موصوف نے ماجد بھائی سے پوچھا ُ ُ یہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟؛ انھوں نے جواب دیا ُ ُ سر، کٹلری کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں -“
جمیل صاحب اس طویل تشریح اور معتبر سند سے کچھ پسیجے- ناک سے سگریٹ کا دھواں خارج کرتے ہوئے بولے ُ ُ اگر آپ کو صاف روئی سے الرجی ہے تو رُوہڑ بھی چلے گا- لیکن ایک بات ہے- متروکات کو آپ بہت ُ فیسی نیٹ ‘ کرتے ہیں- خیر، مجھے تو اچھے لگتے ہیں - کس واسطے کہ مجھے انٹیک جمع کرنے کا شوق ہے- لیکن ممکن ہے کہ پڑھنے والوں کو اتنے اچھے نہ لگیں-بریکٹ میں معنی لکھ دیجیے گا -“
عرض کیا ُ ُ مرزا اکثر طعنہ دیتے ہیں کہ تم ان معدودے چند لوگوں میں سےہو، جنھوں نے متروکہ جائداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا- وجہ یہ کہ چلتے وقت تم اپنے ساتھ متروکات کا دفینہ کھود کر، سموچا ڈھو کر پاکستان لے آئے! تفنن بر طرف، اگر ان میں سے ایک لفظ، جی ہاں، صرف ایک لفظ بھی دوبارہ رائج ہو گیا تو سمجھوں گا کہ عمر بھر کی محنت سوارت ہوئی-“
بولے ُ ُ پھر وہی!“
افسوس، جمیل صاحب صرف دو ابواب دیکھ پائے تھے کہ ان کا بلاوا آ گیا- اب ایسا نکتہ داں، نکتہ سنج، نکتہ شناس کہاں سے لاؤں جس کا اعتراض بھی نکتہ پروری، استعداد آفرینی اور دل آسائی سے خالی نہ تھا-
آخر میں اپنی شریک (سوانح) حیات ادریس فاطمہ کا شکریہ بھی لازم ہے کہ انھوں نے اپنےتبسم سقم شناس سے بہت سی خامیوں کی نشان دہی کی- تاہم بے شمار سخن ہائے سوختنی اور غلطی ہائے مضامین بوجوہ باقی رہ گئی ہوں گی- وہ سارا مسودہ دیکھ چکیں تو میں نے کہا ُ ُ راجھستانی لہجہ اور محاورہ کسی طرح میرا پیچھا نہیں چھوڑتے- بہت دھوتا ہوں پر چنری کے رنگ چھٹائے نہیں چھوٹتے-
Out, damned spot! I say!
حیرت ہے اس دفعہ تم نے زبان کی ایک بھی غلطی نہیں نکالی!“
کہنے لگیں ُ ُ پڑھائی ختم ہوتے ہی علی گڑھ سے اس گھر ___ گڑھی میں آ گئی- تینتالیس برس ہو گئے - اب مجھے کچھ یاد نہیں کہ میری زبان کیا تھی اور تمھاری بولی کیا- اب تو جو سنتی ہوں سبھی درست معلوم ہوتا ہے-“
ایک دوسرے کی چھاپ، تِلک سب چھین کر اپنا لینے کے اور دریائے سندھ اور راوی کا پانی پینے کے بعد تو یہی کچھ ہونا تھا- اور جو کچھ ہوا بہت خوب ہوا- فالحمدللہ ربِ العالمین-
 
Top