آبِ گم ( کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ ۔۔172 صفحہ سے

جائیں گے! انشاءاللہ!

" خیر- اور تو جو کچھہ ہوا سو ہوا، پر میرے فرشتوں کو بھی پتا نہیں تھا کہ تمیزن پر میرے چچا جان قبلہ کسی زمانے میں مہربان رہ چکے ہیں- جوانی قسم! ذرا بھی شک گزرتا تو میں اپنا دل مار کے بیٹھہ رہتا- بزرگوں کی شان میں گستاخی نہ کرتا- یار! جوانی میں یہ حالت تھی کہ نبض پہ اُنگلی رکھو تو ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتی تھی- شکل بھی میری اچھی تھی- طاقت کا یہ حال کہ کسی لڑکی کی کلائی پکڑ لوں تو اُس کا چھڑانے کو جی نہ چاہے- خیر وہ دن ہوّا ہوئے- میں یہ کہہ رہا تھا کہ علاج مرض سے کہیں زیادہ جان لیوا تھا- بعد کو گرمی چھانٹنے کے لیے مجھے دن میں تین دفعہ قدحے کے قدحے ٹھنڈائی اور دھنیے کے عرق اور کتیرا گوند کے پلائے جاتے- اور دو وقتہ پھیکی روٹی، کوتھمیر (ہرادھنیہ) کی بے نمک مرچ کی چٹنی کے ساتھہ کھلائی جاتی- اسی زمانے سے میرا نام بھیّا کوتھمیر پڑگیا- والد صاحب کو اس وقوعے سے بہت صدمہ پہنچا- شکی مزاج آدمی تو تھے ہی- کبھی خبر آتی کہ شہر میں فلاں جگہ ناجائز بچّہ پڑا ملا ہے، تو والد صاحب مجھی کو آگ بھبھوکا نظروں سے دیکھتے- اُنھیں محلے میں کوئی لڑکی تیز تیز قدموں سے جاتی نظر آجائے تو سمجھو کہ ہو نہ ہو میں در پئے آزار ہوں-اُ ن کی صحت تیزی سے گرنے لگی- دشمنوں نے مشہور کر دیا کہ تمیزن نے ایک ہی رات میں داڑھی سفید کر دی- خود اُن کا بھی یہی خیال تھا- اُنھوں نے مجھے ذلیل کرنے کے لیے ریلوائی گارڈ کی جھنڈی سے بھی زیادہ لہولہان رنگ کا تہمد بندھوایا اور ٹہنی کے بجائے نیم کا پورا گدّا___ میرے قد سے بھی بڑا____ مجھے تھما دیا- میں نے شنکرات کے دن اُس سے آٹھہ پتنگیں لوٹیں- لڑکپن بادشاہی کا زمانہ ہوتا ہے- اُس زمانے میں کوئی مجھےحضرت سلیمان کا تخت ہدہد اور ملکہ سبا بھی دے دیتا تو وہ خوشی نہیں ہوتی جو ایک پتنگ لوٹنے سے ہوتی تھی- یار! کسی دن تلے مکھانے تو کھلا دے- مدتّیں ہوئیں- مزہ تک یاد نہیں رہا- ماں بڑے مزے کے بناتی تھی- فقیرا میں نے اپنی ماں کو بڑا دُکھہ دیا-"
خلیفہ اپنی ماں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو گیا -

بزرگون کا قتلِ عام

خلیفہ اپنے موجودہ منصب اور فرائض کے لحاظ سے کچھہ بھی ہو، اُس کا دل ابھی تک گھوڑے میں اٹکا ہوا تھا-

کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی اسپِ مشکی کی


ایک دن وہ دکان کے مینیجر مولانا کرامت حسین سے کہنے لگا کہ " مولانا ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جس بچّے کے چپت اور جس سواری کے چابک نہ مار سکو وہ روزِ قیامت کے دن تلک قابو میں نہیں آنے کی- نادر شاہ بادشاہ تو اسی واسطے ہاتھی کے ہودے سے کود پڑا اور جھونجل میں آ کے قتلِ عام کرنے لگا- ہمارے سارے بزرگ قتلِ عام میں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے- گود کے بچّوں تک کو بلّم سے چھید کر ایک طرف پھینک دیا- ایک مرد زندہ نہیں چھوڑا-"مولانا نے ناک کی نوک پر رکھی ہوئی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے پوچھا "خلیفہ! پچھلے پانچ سو سال میں کوئی لڑائی ایسی نہیں ہوئی جس میں تم اپنے بزرگوں کو چن چن کر نہ مروا چکے ہو- جب قتلِ عام میں تمہارا بیج ہی مارا گیا، جب تمہارے سارے بزرگ ایکو ایک قتل کر دیے گئے تو اگلی نسل کیوںکر پیدا ہوئی؟" بولا " اپ جیسے اللہ لوگ کی دعاؤں سے!"
بزرگوں میں سب سے زیادہ فخر وہ اپنے دادا پر کرتا تھا، جس کی ساری زندگی کا واحد کارنامہ یہ معلوم ہوا تھا کہ پچاسی سال کی عمر میں سوئی میں تاگا پرو لیتا تھا- خلیفہ اس کارنامے سے اس درجہ مطمئن بلکہ مرعوب تھا کہ یہ تک نہیں بتاتا تھا کہ سوئی پرونے کے بعد دادا اس سے کیا کرتا تھا-


کار کی کایا پلٹ

ایک دن رابسن روڈ کے تراہے کے پاس رسالہ افکار کے دفتر کے قریب کار کا بریک ڈاؤن ہوا- اُسی وقت اس میں گدھا گاڑی جوت کر لارنس روڈ لے گئے- اس دفعہ مستری کو بھی رحم آگیا- کہنے لگا " آپ شریف آدمی ہیں- کب تک برباد ہوتے رہیں گے- اوچھی پونجی بیوپاری کو اور منحوس سواری، مالک کو کھا جاتی ہے- کار تلے آ کر آدمی مرتے تو ہم نے بھی سنے تھے-لیکن یہ ڈائن تو اندر

____________________________________

یہ مصرع دراصل گھوڑے سے نہیں، معشوق سے متعلق تھا- ہم نے صرف اتنا تصرّف کیا ہے کہ "زلفِ مشکیں" کے بجائے اسپِ مشکی جر دیا- اس سے غزل کی لچک، بتانِ ہزار شیوہ کی ترفگی اور وزن سے ہماری ناواقفیت ثابت ہوتی ہے-بے شمار اشعار ہماری نظر سے ایسے گزرے ہیں کہ اگر یہ نہ باتایا جائے کہ ممدوح کون ہے تو خیال ادبدا کر گھوڑے کی طرف جاتا ہے، جب کہ وہ معشوق کے بارے میں ہوتے ہیں-
 
بیٹھے آدمی کو کھا گئی! میرا کہنا مانیں- اس کی باڈی کٹوا کر ٹرک کی باڈی فٹ کروا لیں- لکڑی لانے لے جانے کے کام آئے گی- میرے سالے نے باڈی بنانے کا کارخانہ نیا نیا کھولا ہے- آدھے داموں میں آپ کا کام ہو جائے گا- دو سو روپے میں انجن کی reboring میں کر دوں گا- اوروں سے میں پونے سات سو لیتا ہوں- کایا پلٹ کے بعد آپ پہچان نہیں سکیں گے-
اور یہ اُس نے کچھہ غلط نہیں کہا تھا- نئی باڈی فٹ ہونے کے بعد کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ ہے کیا- ملزموں کو حوالات میں لے جانے والی حوالاتی ویگن؟ کتّے پکڑنے والی گاڑی؟ مذبح خانے سے تھلتھلاتی رانیں لانے والا خونی ٹرک؟ اس شکل کی یا اس سے دور پرے کی مشابہت رکھتی ہوئی کوئی شےاُنھون نے آج تک نہیں دیکھی تھی- مستری نے یقین دلایا کہ آپ اسے دو تین مہینے صبح و شام مسلسل دیکھتے رہیں گے تو انی بری معلوم نہیں ہو گی- اس پر مرزا بولے کہ تم بھی کمال کرتے ہو- یہ کوئی بیوی تھوڑی ہے! سابق کار یعنی موجودہ ترل کی پشت پر تازہ پینٹ کی ہوئی ہدایت "چل رے چھکڑے تینوں رب دی آس" پر اُنھوں نے اسی وقت پچارا پھروا دیا- دوسرے فقرے پر بھی اُنھیںاعتراض تھا- اُس میں جگت یار یعنی "بیوپار" کو ہدایت کی گئی تھی کہ تنگ نہ کرے- چودھری کرم دین پینٹر نے سمجھوتے کے لہجے میں کہا کہ جنابِ عالی، اگر آپ کو یہ نام پسند نہیں تو بیشک اپنی طرف کا کوئی دل پسند نام لکھوا لیجیے- اسی طرح اُنھون نے اس رسوائے زمانہ شعر پر بھی سفیدہ پھروا دیا:
مدعی لاکھہ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اس حذف و اصلاح کے بعد بھی جو کچھہ باقی رہ گیا وہ وہ خدا کو منظور ہو تو ہو، اُنھیں قطعاً منظور نہیں تھا-
لیکن بےہنگم باڈی سے قطع نظر، ری بورنگ کے بعد جب وہ چلی گئی تو ساری کوفت دور ہو گئی- اب وہ سٹارٹ ہونے اور چلنے میں ایسی غیر ضروری اور بے محل پھرتی اور نمائشی چستی دکھانے لگی جیسے ریٹائرڈ لوگ ملازمت میں توسیع سے پہلے یا بعض بڈّھے دوسری شادی کے بعد دکھاتے ہیں- باتھہ روم میں جاگنگ کرتے ہوئے جاتے ہیں- زینے پر دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہیں- پہلے دن صبح نو بجے سے شام ککے چھہ بجے تک اس ٹرک نُما کار یا کار نُما ٹرک سے لکڑی کی ڈلیوری ہوتی رہی- کار کی دن بھر کی آمدن یعنی ٤٥ روپے ( جو آج کے ٤٥٠ روپے برابر تھے ) کو پہلے اُنھوں نے ٣٠ دن اور بعد میں ٣٦٥ سے ضرب دیا تو حاصل ضرب ١٦٤٢٥ روپے نکلا- دل نے کہا "جب کہ کار کی کل قیمت ٣٤٨٣ رُپلّی ہے! پگلے! اسے حاصلِ جرب نہ کہو، حاصلِ زندگی کہو" وہ بڑی دیر تک پچھتایا کیے کہ کیسی حماقت کی، اس سے بہت پہلے کار کو ٹرک میں کیوں نہ تبدیل کروا لیا- مگر ہر حماقت کا ایک وقت معیّن ہے- معاً "وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے" اُن کے ذہن میں ایا اور وہ بے ساختہ مسکرا دیے-

میرا بھی تو ہے !

تین چار ہفتے گاڑی لشتم پشتم چلی گو کہ وہ روح کو انشراح بخشنے والا اوسط نہ رہا- تو اس مرتبہ ورکشاپ بھیجنی پڑی-مستری نے پورے ایک مہینے کی گارنٹی دی تھی- البتہ گدھا گاڑی کا کرایہ خود دینا پڑتا تھا- گدھا گاڑی والا روزانہ صبح دریافت کرنے آتا تھا کہ آج کہاں اور کس وقت آؤں- پھر ایک دن ایسا ہوا کہ بشارت نے اُس پر دہ گاہکوں کی خریدی ہوئی سات ہزار روپے کی لکڑی لدوا کر خلیفہ کو ڈلیوری کے لیے روانہ کر دیا- کوئی دہ بجے ہوں گے کہ وہ ہانپتا کانپتا آیا- بار بار انگوچھے سے آنکھیں پونچھہ کر ناک سےسُڑ سُڑ کر رہا تھا-کہنے لگا "سرکار! میں لُٹ گیا- برباد ہو گیا- اللہ مجھے اُٹھا لے" بشارت سمجھہ گئے کہ اس کی دائم المرض بیوی کا انتقال ہو گیا ہے- اُسے تلقین کرنے لگے کہ "مشیّتِ ایزدی میں کس کا دخل ہے، صبر سے کام لو- وہی ہوتا جو ___" لیکن جب اُس نے کہا کہ "کوک کروں تو جگ ہنسے،چپکے لاگے گھاؤ- سرکار میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے-" تو بشارت کا تردّد کچھہ کم ہوا کہ جو شخص انتہائی حزن و غم کے موقعے پر بھی شعر اور محاورے کے ساتھہ گریہ کرےوہ آپ کی ہمدردی نہیں،اپنی زبان دانی کی داد چاہتا ہے- جب خلیفہ انگوچھا منہ پر ڈال کر زور زور سے بکھان کرنے لگا تو اُنھین دفعتاً خیال آیا کہ نقصان اس حرامخور کا نہیں میرا ہوا ہے! کہنے لگے "ابے کچھہ تو بول- اس دفعہ میرا کیا نقصان ہوا ہے؟"
بناوٹی سسکیوں کے درمیان اُس نے "میرا بھی تو ہے" اس طرح کہا جیسے حبیب بینک کے اشتہار میں جب ہر عمر اور ہر صوبے کا آدمی اپنے لہجے میں حبیب بینک کو اپنا چکتا ہے تو ایک بچّہ تتلا کر کہتا ہے "میلا بھی تو ہے" پھر اُس نے ساری روداد بیان کی- گاڑی بہت "اوور لوڈ" تھی- فرسٹ گیئر میں بھی بار بار دم توڑ رہی تھی- سڑک کے موڑ تک وہ جیسے تیسے لونڈوں کے دھکوں اور وظیفوں کے زور سے لے گیا- لیکن چوراہے پر اسپرنگ جواب دینے لگے-اُس نے بوجھہ ہلکا کرنے کے لیے آدھی لکڑی اُتار کر مسجد کی سیڑھیوں کے پاس بڑے قرینے سے چُن دی- اور بقیہ مال کی ڈلیوری دینے ناظم آباد نمبر ٤ چلا گیا- وہان پلاٹ پر کوئی موجود نہیں تھا-ڈلیوری دیے بغیر واپس مسجد آیا تو لکڑی غائب! "سرکا! میں دن دہاڑے لُٹ گیا! برباد ہو گیا!"
 
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھہ نہ کہو

اب انھیں خود اپنی حماقت پر بھی افسوس ہونے لگا کہ ساڑھے تین ہزار کی کھٹارا کار میں دُگنی مالیّت یعنی سات ہزار کا مال بھیجنا کہاں کی دانائی ہے- کاش! چور لکڑی کے بجائے کار لے جاتا- جان چھوٹتی- انھیں یقین تھا کہ خلیفہ عادت سے باز نہیں آیا ہو گا- بھری گاڑی کھڑی کر کے کہیں حجامت بنانے، ختنہ کرنے یا کسی جھیمان سے شادی بیاہ کی بدھائی وصول کرنے چلا گیا ہو گا- بارہا ایسی حرکت کر چکا تھا- جبل گردد، جبلّی نہ گردد ( پہار کا ٹلنا ممکن ہے، عادت کا بدلنا ممکن نہیں) والی کہاوت معاً اُن کی زبان پر آئی- اور یہ بھی یاد آیا کہ یہ کہاوت اپنے حوالے سے اُنھوں نے پہلی مرتبہ ماسٹر فاخر حسین سے سنی تھی- کلاس میں شرارت کرنے پر ماسٹر فاخرحسین نے اُن کو بوزنہ قرار دینے کے بعد اسی فارسی ضرب المثل کی صلیب پر اُلٹا لٹکا دیا تھا- بوزنہ کہنے کا جب اُن پرخاطر خواہ اثر نہیں ہوا تو ماسٹر صاحب نے اُن سے بوزنہ کے معنی پوچھے- پھر باری باری سب لڑکوں سے پوچھے- کسی کو معلوم نہیں تھے- لہذا ساری کلاس کو بنچ پر کھڑا کر کے کہنے لگے- "نالائقو میرا نام ڈبوؤ گے۔۔۔۔ بوزنہ ۔۔۔۔
ب۔۔۔۔و۔۔۔۔۔ز۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ہائے والی ہ ۔۔۔۔۔۔ حلوے اور حرام خور والی ح نہیں- بوزنہ بندر کو کہتے ہیں- سمجھے؟" ہائے! کیسے زمانے اور کیسے اُستاد تھے! لغو سے لغو بات کے بھی لغوی معنی بتاتے تھے-طیش میں بھی تعلیمی تقاضوں کا لحاظ رکھتے تھے- فقط گالی ہی نہیں دیتے تھے، اُس کا املا اور مطلب بھی بتاتے تھے- پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ-
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد بشارت کہنے لگے "اور ہاں! خوب یاد آیا- ایک دفعہ اُنھوں نے اردو کے گھنٹے میں املا لکھوایا- میں نے ایک جملہ کچھہ اس طرح لکھا :

علماء و فضلہ کو ہمارے یہاں سر انکھوں پر بٹھایا جاتا ہے-

ماسٹر فاخر حسین بڑی دیر تلک ہاتھہ سے پیٹ پکڑ کے ہنستے رہے- پھر اسی ہاتھہ سے میرا کان پکڑ کے حکم دیا کہ بلیک بورڈ پر لڑکوں کو لکھہ کر دکھاؤ کے تم نے فاضل کی جمع فضلا کیسے لکھی ہے- میں لکھہ چکا تو پانچ فٹ لمبے پائنٹر کی نوک فضلہ کی ہ پر رکھہ کر فرمایا، برخوردار! آج تمہیں بنچ پر کھڑا نہیں کروں گا- اس واسطے کہ تم لڑکپن ہی میں علماء کی کنہہ تک پہنچ گئے ہو- صاحب! بات کی تہ تک پہنچنے اورحقیقت کو کنہہ کہنا میں نے ماسٹر فاخر حسین ہی سے سیکھا-"

٦

۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور اپنا نکلا آیا
وہ سیدھے بولٹن مارکیٹ پولیس اسٹیشن رپٹ لکھوانے گئے- افسر انچارج نے کہا، یہ تھانا نہیں لگتا- آپ جہاں سکونت رکھتے ہیں اس کے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر درج کرائیے- وہان پہنچے تو جواب ملا کہ جنابِ عالی! جرم کی رپٹ آپ کی جائے سکونت والے تھانے میں بے شک درج کی جاسکتی ہے بشرطیکہ جرم آپ نے کیا ہو- آپ رپٹ جائے واردات کے تھانا متعلقہ میں لکھوائیے- وہاں پہنچے تو کہا گیا کہ جائے واردات دو تھانوں کے سنگم پر واقع ہے- مسجد کی عمارت بےشک ہمارے تھانے میں ہے لیکن اس کی سیڑھیوں کی تلیٹی کا علاقہ ملحقہ تھانے میں لگتا ہے- ملحقہ تھانے تو وہاں کسی کو نہ پایا سوائے ایک شخص کے جس کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا- دائیں ہاتھہ میں کمپاؤنڈ فریکچر تھا اور بائیں آنکھہ سوج کر بند ہو چکی تھی- وہ کہنے لگا کہ میں دفعہ ٣٢٤ کی رپٹ لکھوانے آیا ہوں- دو گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں- اندھیر ہے- سول اسپتال والے کہتے ہیں کہ جب تک تھانے والے ایف ائی آر درج کر کے پرچہ نہ کاٹ دیں ہم تمہارا آپریشن نہیں کر سکتے- مجروح بڑے فاتحانہ انداز سے وہ چھینا ہوا آلئہ ضرب یعنی شام چڑھی لاٹھی پکڑے بیٹھا تھا جس سے اُس کا سر پھاڑا گیا تھا- اُس کے ساتھہ اُس کا چچا تھا جو کسی وکیل دیوانی کا منشی تھا- وہ بھتیجے کو دلاسہ دے رہا تھا کہ ملزم نے لاٹھی اور قانون اپنے ہاتھہ میں لے کر ثانی الذکر اور تمہارے کا سئہ سر کو بیک ضرب توڑا ہے- اس حرام زادے کو ہتھکڑی نہ پہنوادوں تو مجھے نطفئہ بے تحقیق سمجھنا- اُس نے تو خیر سنگین جرم کیا ہے- میں نے تو کئیوں کو بغیر جرم کے جیل کی ہوا کھلوا دی ہے! اُس نے بشارت کو قانونی مشورہ دیا کہ آپ کو دراصل اُس تھانے سے رجوع کرنا چاہیے جس کی حدود میں سرقہ کرنے والے یعنی چور کا مکان مسکونہ واقع ہوا ہے- دیوانی مقدّمات میں اسی طرح نالش داغی جاتی ہے- بشارت اُس سے اُلجھنے لگے- دورانِ بحث معلوم ہوا کہ اس وقت SHO کی دُخترِ نیک اخترکی منگنی کی رسم ہو رہی ہے- بیشتر عملہ وہیں تعینات ہے- ایک ڈیڑھہ گھنٹے بعد آئیں گے- اسسٹنٹ سب انسپکٹر دوپہر سے سڑک پر حفاظتی ڈیوٹی اور اسکول کی لڑکیوں کو جمع کر کے سڑک پر دو رویہ کھڑا کرنے میں لگا ہے، اس لیے کہ پرائم منسٹر ایک دفتر سے دوسرے دفتر جا رہا ہے- ہیڈ کانسٹیبل دَوش پر نکلا ہوا ہے-
 
کوئی دو گھنٹے بعد ایس ایچ او نے ایک وکیل کی کار میں نزولِ اجلال فرمایا- وکیل کا بریف کیس جس پر خاکی زین کا غلاف چڑھا تھا ایک ملزم نما موکل اُٹھائے ہوئے تھا-خود وکیل کے ہاتھہ میں منگنی کی مٹھائی کے ڈبّے تھے جو اُس نے عملے میں تقسیم کیے- ایک ڈبّا بشارت کو بھی دیا- ایس ایچ او کے آتے ہی سارا عملہ نہ جانے کہاں کہاں سے بھاگم بھاگ نکل کر اکٹھا ہو گیا- ایسا لگتا تھا جیسے سب تمام وقت یہیں سر جھکائے اپنے اپنے کام میں جتے ہوئے تھے- ایس ایچ او نے بشارت سے سرسری روداد سن کر کہا، آپ ذرا باہر انتظار کیجیے- اصل رپورٹ کنندہ ڈرائیور ہے- اُس سے استفسار کرنا ہے- گھنٹے بھر تک اُس سے نہ جانے کیا اُلٹی سیدھی تفتیش کرتا رہا- خلیفہ باہر نکلا تو اُس کا صرف منہ ہی لٹکا ہوا نہیں تھا، وہ خود سارا کا سارا لٹکا ہوا نظر آ رہا تھا- اُس کے بعد ایس ایچ او نے بشارت کو اندر بلایا تو اُس کے تیور بالکل بدل؛ے ہوئے تھے- کرسی پر بیتھنے کو بھی نہیں کہا- سوالوں کی بھرمار کر دی- تھوڑی دیر کے لیے تو بشارت کو خیال ہوا کہ شائد اُسے مغالطہ ہوا ہے اور وہ اُنھین ملزم سامجھہ بیٹھا ہے- لیکن جب اُس نے کچھہ ایسے چبھتے ہوئے سوال کیے جو سرف انکم ٹیکس افسر کو کرنے چاہییں تو اُن کا اپنا مغالطہ دور ہو گیا-مثلاً جب آپ نے مسروقہ چوب عمارتی بیچی تو روکڑ بہی میں اندراج کیا یا بالا ہی بالا کیش ڈکار گئے؟ ڈرائیور کو جو تنخواہ دیتے ہیں تو رسید اتنی ہی رقم کی لیتے ہیں یا زیادہ کی؟ گودام سے لکڑی بغیر ڈلیوری آرڈر کے نکلتی ہے! آپ خود بغیر Leamer's Licence کے ٹرک کیسے چلاتے ہیں؟ لکڑی کے تختے جب مبینہ ٹرک میں ناظم آباد لے جانے کے لیے رکھے گئے تھے تو کیا آپ نے حسبِ قانون مجریہ سن اُنیس سو کچھہ پیچھےسرخ جھنڈی لگائی تھی؟ اور ہاں ناظم آباد پر یاد آیا کہ میرا مکان پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں "پلنتھ لیول" تک آ گیا ہے- کتنے فٹ لکڑی درکار ہو گی؟ تخمینہ لگا کر بتائیے- چھہ سو گز کا ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ ہے- آپ کے ہاں جو ریڈیو ہے اُس کا لائسنس آپ نے بنوایا؟ کیا یہ صحیح ہے کہ آپ کی فرم میں آپ کے پچھتر سالہ والد اور دودھہ پیتا بیٹا بھی پارٹنر ہیں؟ لکڑی جب لی مارکیٹ سے ناظم آباد لے جانی تھی تو رنچھوڑلائن کا طواف کرنے کی حاجت کیوں پیش آئی؟ کیا یہ صحیح ہے کہ آپ پنج وقتہ نماز پڑھتے ہیں اور ہار مونیم بجاتے ہیں؟ ( جواب میں بشارت نے وضاحت کی کہ نماز میں پڑھتا ہوں- ہارمونیم والد صاحب بجاتے ہیں- اس جواب پر ایس ایچ او نے دیر تک ہتھکڑی بجائی اور پہلی بار مسکراتے ہوئے بولا ہوں! سنا منشی جی؟ گویا عذر گناہ لذیذ تراز گناہ!) لکڑی مبیّنہ طور پر عین مسجد کے دروازے پر رکھی گئی! تو کیا اس سے نمازیوں کی آزمائش منظور تھی؟ ڈرائیور سے آپ کا سارا ٹبرّ حجامت بنواتا ہے- قورمہ پکواتا ہے- اُس نے آپ کے جونئیر پارٹنر کے ختنے بھی کیے- میری مراد آپ کے نومولود صاحبزادے سے ہے- آپ نے اُس سے گھوڑا تانگہ بھی چلوایا- یہی اپ کے گھوڑے اور والد کا بالترتیب کھریرا اور مالش کرتا تھا- یہ لیبر لاز کی کھلی خلاف ورزی ہے- کیا یہ صحیح ہے کہ کچھہ عرصے پہلے ایک آرا کش کی آنکھہ میں لکڑی کی چھپٹی اچٹ کر پڑنے سے بینائی جاتی رہی تو اپ نے اسپنسر آئی ہاسپٹل سے اُس کی پٹّی کروا کے گھر بھیج دیا؟ کوئی معاوضہ نہیں دیا- اور آپ نے دُگنی قیمت پر لکڑی کیسے بیچی؟ اندھیر ہے- مجھے اپنے مکان کے لیے آدھے داموں مل رہی ہے! کھلے بھاؤ-

تعزیرات وضابطئہ فوجداری سے چھیڑ خانی

جب بشارت ہر سوال کا غیر تسلی بخش جواب دے چکے تو ایس ایچ او نے کہا ، میں اسی وقت معائنہ موقع کروں گا۔ کل اتوار ہے۔ تھانے نہیں آؤں گا۔ سواری ہے ؟ بشارت نے کہا ، ہاں! ہے گی۔ اور اسے گاڑی تک لے آئے۔
“مگر یہ ہے کیا“ ایس ایچ او نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
“اسی میں لکڑی گئی تھی “
“مگر یہ ہے کیا“
اس نے چوری سے بچ جانے والے ان تختوں کو چھو چھو کر دیکھا جو اس میں چنے ہوئے تھے۔ پھر گاڑی کے گرد چکر لگا کر ان کی لمبائی کا تخمینہ لگایا۔ اس کے بعد وہ یک لخت بپھر گیا ۔ کیسی جائے واردات اور کیسا معائنہ موقع۔ الٹے دھر لیے گئے۔ ایس ایچ او بکتا جھکتا واپس تھانے میں لے گیا۔ جیسے ہی وہ اپنے کڈھب سوال سے انہیں چاروں خانے چت کرتا ، ویسے ہی اس کا خوشامدی اسسٹنٹ اپنے سینگوں پر اٹھا کر دوبارہ زمین پر پٹخ دیتا۔ ایک سوال ہو تو۔ پسنجر کار کو کس کی اجازت سے ٹرک میں تبدیل کیا گیا۔ جس گلی سے اس کا گزرتا بیان کیا جاتا ہے وہ تو ون وے ہے! اس کی انشورنس پالیسی تو کبھی کی lapse ہوچکی ۔ وہیل ٹیکس ایک سال سے نہیں بھرا گیا ۔ آپ کے ڈرائیور نے ابھی خود اقبالِ جرم کیا ہے کہ بریک نہ ہونے کے سبب گاڑی گئیر کے ذریعے روکتا ہے۔ اسی وجہ سے چند روز پہلے گارڈن ایسٹ کی جھگیوں کے سامنے ایک مرغی کار کے نیچے آگئی ، جس کا ہرجانہ خلیفہ کے پاس نہیں تھا- جھگی والوں نے رات بھر کار impound کیے رکھی اور مرغی کے بدلے خلیفہ کو یرغمال بنا لیا، ہر چند کہ وہ چینختا رہا کہ قصور کار نہیں- مرغی خود اُڑ کر اُس کےنیچے آئی تھی- طلوعِ آفتاب کے بعد خلیفہ نے بطور تاوان مرغی کے مالک کے ڈیڑھہ دو درجن بیٹوں،بھتیجوں اور دامادوں اور دور نزدیک کے پڑوسیوں کی حجامت بنائی- تب کہیں جا کر گلو خلاصی ہوئی- ایک پڑوسی تو اپنےپانچ سالہ بیٹے کو گوٹے والی ٹوپی پہنا کر لے آیا کہ ذرا اس کے ختنے کر دو- اس مشقّت سے فارغ ہو کر ڈیڑھہ دو بجے آپ کے پاس پہنچا تو اس کا صلہ آپ نے یہ دیا کہ اُس پر الزام لگایا کہ تم کار کے ٹول بکس میں قینچی اور اُسترا رکھے حجامتییں بناتے پھرتے ہو- اور ایک دن کی تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دی- خیر، یہ ایک علاحدہ تفتیش طلب مسئلہ ہے- لیکن یہ بتائیے کہ آپ کی کار چمنی کی طرح دھواں کیوں دیتی ہے؟ سڑک پر ہر کہیں کھڑی ہوجاتی ہے- منشی جی! اماں سُن رہے ہیں منشی جیِ؟ شارعِ عام پر رُکاوٹ پیدا کرنے کی کَے مہینے کی ہے؟ محض؟ یا بامشقّت؟ اور جنابِ والا! اگر یہ صحیح ہے تو اس میں آپ کا پورا خاندان کچرگھان کیوں ٹنگا پھرتا ہے؟ اور منشی جی! ان کو ؟ذرا اوور لوڈنگ کی دِفعہ تو پڑھہ کر سُنا دیجیے-
 
مختصر یہ کہ تعزیراتِ پاکستان اور ضابطئہ فوجداری کی کوئی دِفعہ ایسی نہیں بچی جسے توڑ کر وہ اُس وقت رنگے ہاتھوں نہ پکڑے گئے ہوں- اُن کا ہرفعل کسی نہ کسی دِفعہ کی لپیٹ میں آ رہا تھا- اور اُنھیں ایسا محسوس ہوا جیسے اُن کی ساری زندگی تعزیراتِ پاکستان اور ضابطئہ فوجداری سے چھیڑ خانی میں گزری ہے- پہلے تو اُنھیں اس پر حیرت ہوئی کہ ایس ایچ او کو ان کی تمام قانون شکنیوںکا القا کیسے ہوا- پھر وہ بار بار خلیفہ کو کچّا چبا جانے نظروں سے دیکھنے لگے- جیسے ہی آنکھیں چار ہوتیں خلیفہ جھٹ سے ہاتھہ جوڑ لیتا-
اتنے میں ایس ایچ او نے آنکھہ سے کچھہ اشارہ کیا اورایک کانسٹیبل نے آگے بڑھہ کر کلیفہ کے ہتھکڑی ڈال دی- ہیڈ کانسٹیبل بشارت کے کندھے پر ہاتھہ رکھہ کر اُنھیں دوسرے کمرے میں لے گیا- "پہلے آپ کے ÷کلاف پرچہ کٹے گا- از بسکہ محولہ بالا vehicle خود ناجائز ہے، لہذا بمعہ مال محمولہ،بشمول چوبِ مسروقہ، قابلِ ضبطی ہے- منشی جی! سپرد نامہ تیار کیجیے- شکایت کنندہ سے خود بہت سے ارتکابات ہوےئ ہیں، لہذا۔۔۔۔۔۔"
بشارت کو چکر آنے لگا- وہ اس وقت مال بردار ٹرک محولہ بالا، مالِ محمولہ، چوب مشمولہ اور مسروقہ میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے تھے-

کچھہ احوال حوالات کا

تھانے کی حوالات یا جیل میں، آدمی چار گھنٹے بھی گزار لے تو زندگی اور حضرتِ انسان کے بارے میں اتنا کچھہ سیکھہ لے گا کہ یونیورسٹی میں چالیس برس رہ کر بھی نہیں سکتا- بشارت پر چودہ طبق سے بڑھہ کر بھی کچھہ روشن ہو گیا اور وہ دہل کر رہ گئے- سب سے زیادہ تعجب اُنھیں اس زبان پر ہوا جو تھانوں میں لکھی اور بولی جاتی ہے- رپٹ کنندگان کی حد تک تو بات سمجھہ میں آتی ہے لیکن منشی جی ایک شخص کو ( جس پر نابالغ لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح پڑھوانے کا الزام تھا) عقد بالجبر کنندہ کہہ رہے تھے- عملے کی آپس کی گفتگو سے اُنھیں اندازہ ہو کہ تھانا ہذا نے بنی نوع انسان کو دو حصّوں میں تقسیم کر رکھا ہے- ایک وہ جو سزا یافتہ ہیں- دوسرے وہ جو نہیں ہیں، مگر ہونے چاہییں- مُلک میں اکثریت غیر سزا یافتہ لوگوں کی ہے اور یہی بِنائے فتور و فساد ہے- گفتگو میں جس کسی کا بھی ذکر آیا، وہ کچھہ نہ کچھہ "یافتہ" یا "شدہ" ضرور تھا- "حجرہ مزاج پُرسی" میں جو شخص وقفے وقفے سے چینخیں مار رہا تھا وہ سابق سزایافتہ اور مچلکے شدہ تھا- شارعِ عام پر بوس وکنار کے الزام میں جن دو عورتوں کو گرفتار کیا گیا تھا، اُن میں سے ایک کو اے ایس آئی شادی شدہ اور دوسری کومحض شدہ یعنی گئی گزری بتا رہا تھا- ہیڈ کانسٹیبل جو خود انعام یافتہ تھا، کسی وفات یافتہ کا بیانِ نزعی پڑھہ کر سُنا رہا تھا- ایک پرچے میں کسی غنڈے کے غیر قابو یافتہ چال چلن کی تفصیلات درج تھیں- ایک جگہ آتش زدہ مکان مسکونہ کے علاوہ علاوہ برباد شدہ اسباب اور تباہ شدہ شہرت کے بھی حوالے تھے- اے ایس آئی ایک رپورٹ کنندہ سے دورانِ تفتیش پوچھہ رہا تھا کہ شخص مذکورہ الصّدر کی وفات شدگی کا علم تمہیں کب ہوا- یہاں ہر فعل فارسی میں ہو رہا تھا- مثلاً سمن کی تعمیل بذریعہ چسپاندگی، متوفی کی وجہِ فوتیدگی، عدم استعمالاور زنگ خوردگی کے باعث جملہ رائفل ہائے تھانا ہذا بمعہ کارتوس ہائے پارینہ کی مُرورِ ایّام سے خلاص شدگی اور عملے کی حیرانگی!
اس تھانے میں ہتھیار کی صرف دو قسمیں تھیں- دھار دار اور غیر دھار دار- جس ہتھیارسے گواہ استغاثہ کے سرُین پر نیل پڑے اور کاسئہ سر متورم ہوا، اس کے بارے میں روز نامچے میں مرقوم تھا کہ ڈاکٹری معائنے سے ظاہر ہوتا ھے کہ گواہ مذکور کو بیچ بازار میں غیر دھار دار آلے سےمضروب کیا گیا- مراد اس جوتا تھا رات کے دس بجے "حجرہ مزاج پُرسی" میں ایک شخص سے جوتے کے ذریعے سچ بلوایا جا رہا تھا- معلوم ہوا کہ جوتے کھا کر ناکردہ جرم کا اقبال کرنے والے سُلطانی گواہ کہتے ہیں ۔ وہ شخص بڑی دیر سے زور زور سے چینخے جا رہا تھا، جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہنوز جوتے کھانےئ کو جھوٹ بولنے پر ترجیح دے رہا ہے- جوتے کے اس extra-curricular (بالائے نصاب) استعمال کو پنجابی میں چھترول کہتے ہیں-تھانے میں آمدورفت کچھہ کم ہوئی تو تین کانسٹیبل صبح درج لیے ہوئے زنا بالجبر کے کیس کے ایک عینی گواہ کو آٹھویں دفعہ لے کر بیٹھہ گئے جو اس وقت اس واقعے کو اس طرح بیان کررہا تھا جیسے بچّے اپنے والدین کے دوستوں کو اِترا اِترا کر نرسری رہائم سُناتے ہیں- ہر دفعہ وہ نئی جزئیات سے اس واردات میں اپنی مجرمانہ حسرتوں کا رنگ بھرتا چلا جاتا- یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے- تینوں کانسٹیبل سر جوڑے اس اچھے شعر کی طرح سُن رہے تھے- اور بیچ بیچ میں ملزم کو رشک بھری داد اور داد بھری گالیاں دیتے جاتے- صبح جب بند کمرے میں مستغیثہ کے اظہار لیے جا رہے تھے تو سب کے ____ حتیٰ کہ حوالات میں بند ملزموں کے بھی ____ کان دیوار سے لگے تھے-
یہاں ہر واردات مبیّنہ طور پر ہو رہی تھی- مثلاً "ملزم اپنی جائے رہائش سے نکل کر گواہانِ استغاثہ پر جھپٹا اور اپنے آگے کےک دندان سے مسماتہ نذیراں کے مبیّنہ عاشق مسمّی شیر دل خاں کی ناک بقدر دو انچ بقیہ جسم سے علاحدہ کر دی اور مبیّنہ طور پر ExhibitA یعنی موجودہ ناک کے غائب شدہ حصّے کو نگل گیا- منحرف گواہ مسماتہ نذیراں بنتِ نا معلوم نے پہلے تو اے ایس آئی صاحب کے مواجہ میں ب - س - ص - ت کرنے سے انکار کر دیا لیکن بعد ازاں بلا تخویف، نشانِ انگشت چُپ سے ب - س - ص - تکرنے پر رضامند ہو گئی-" یہ مخفف تھا: "بیان سُن کر صحت تسلیم کی-" نو بجے ایک شام کے اخبار کا جرائم رپورٹر آیا جس کے اخبار کا سرکولیشن کسی طرھ بڑھہ کر نہیں دے رہا تھا- اے ایس آئی سے کہنے لگا "اُستاد! دو ہفتوں سے خالی جا رہا ہوں- یہ تھانا ہے یا گورِ غریباں- تمہارے علاقے کے سبھی غنڈے یا تو تائب ہو گئے ہیں یا پولیس میں بھرتی ہو گئے- چندے یہی حال رہا تو ہم دونوں کے گھروں میں چوہے قلابازیاں کھائیں گے-" اُس نے جواب دیا "جانِ من! بیٹھو تو سہی- آج ایک گلے میں گھنٹی باندھہ دی ہے- ایسا اسکوپ برسوں میں نصیب ہوتا ہے- بغل والے کمرے میں عینی گواہ دسویں دفعہ آموختہ سُنا رہا ہے- تم بھی جا کے سُن لو- اور یار! چار دن سے تو نے میرے تبادلے کے خلاف ایک بھی لیٹر ٹو دی ایڈیٹر نہیں چھپوایا- ہمیں جب نہ ہپوں گے تو تجھے کون ہتھیلی پہ بٹھائے گا؟ اوئے بشیرے! دو چاء سلیمانی- فٹافٹ- لبالب- بلائی (بالائی) ایسی دبا دب ڈلوائیو کہ چاء میں پینسل کھڑی ہو جائے- اور بھائی فیروز دین! اس حجرے
 
والے انقالابیے کو چپکا کرو - سرِ شام ہی سے سالے کے دردیں اُٹھنے لگیں- ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا- چینختے، ڈکراتے گلا بیٹھہ گیا ہے- جنابِ عالی! مرد کے رونے سے زیادہ زلیل چیز دُنیا میں نہیں- سالا خود کو حسن ناصر سے کم نہیں سمجھتا- میں نے پانچ بجے اسے آئس کولڈ بیئر کے چار مگ پل دیے- بہت خوش ہوا- تیسرے مگ کے بعد مجھے،جی ہاںمجھے، "ستونِ دار پہ رکھے چلو سروں کے چراغ" کا مطلب سمجھانے لگا! چوتھا پی چکا تو میں نے ٹوائلٹ جانے کی مناہی کر دی- چنانچہ تین دفعہ کھڑے کھڑے پتلون میں ہی چراغ جلا چکا ہے- جنابِ عالی! ہم تو حکم کے تابع ہیں- ابھی تو لاہور کے شاہی قلعے میں اس کی آرتی اُترے گی- وہ سب کچھہ قبلوا لیتے ہیں- اس سالے کی ٹریجیڈی یہ ہے کہ اس کے پاس قبولنے کو کچھہ ہے نہیں- لہذا زیادہ پِٹے گا-

شاملِ واردات

تازہ واردات کی خبر سُن کر رپورٹر کی باچھیں کِھل گئیں- اس خوشی میں اُس نے ایک سگریٹ اور دو میٹھے پانوں کا آرڈر دے دیا- جیب سے پیپر منٹ اور نوٹ بُک نکالی- بڑی مدّت بعد ایک چٹ پٹی خبر ہاتھہ لگی تھی- اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کیس کا پلاٹ اپنے افسانہ نویس دوست سلطان خاور کو بخش دے گا جو روز "رئیل لائف ڈرامہ" کا تقاضہ کرتا ہے- آبرو ریزی کے اس کیس کی تفصیلات سُننے سے پہلے ہی ذہن میں سُرخیاں سنسانے لگیں- اب کی دفعہ سُرخی میں ہی کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھہ دوں گا- اُس نے دل میں تہیّیہ کیا- "ستّر سالہ بوڑھے نے سات سال کی لڑکی سے منہ کالا کیا-" یہ سُرخی جمانے کی خاطر پچھلے سال اسے لڑکی کی عمر سے دس سال نکال کر بوڑھے کی عمر میں جوڑنے پڑے تھے تاکہ اسی تناسب سے جرم میں سنگینی اور قاری کی دلچسپی میں اضافہ ہو جائے- مرزا عبدالودود بیگ کہتے ہیں کہ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ سیدھے سادے اور سپاٹ لفظ rape کے جتنے بھی مترادفات ہمارے ہاں رائج ہیں، اُن میں ایک بھی ایسا نہیں جس میں خود لذّیت کا عنصر نہ ہو- کوئی سُرخی، کوئی سا فقرہ اُٹھا کر دیکھہ لیجیے، جنسی لذّت کشی کا فشردہ نظر آئے گا- "ملزم نے خوبرو دوشیزہ کا دامنِ عصمت تار تار کر دیا-" "ستّر سالہ بوڑھا رات کی تاریکی میں منہ کالا کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا-" "پینسٹھہ سالہ بوڑھا شب بھر کمسن دوشیزہ کی عصمت سے کھیلتا رہا-" گویا اصل اعتراض پینسٹھہ برس پر ہے، جس میں ملزم کا کوئی قصور نہیں- ( دراصل اس سُرخی میں اخلاقیات، استعجاب، کرید اور حسد کی بحصّئہ مساوی آمیزش ہے- مطلب یہ کہ اخلاقیات صرف٤ /١ )- "چاروں ملزموں نے نو خیز حسینہ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا"- "درندہ صفت ملزم وقفے وقفے سے پستول دکھا کر عصمت پر ڈاکہ ڈالتا رہا- پولیس کے آنے تک دھمکیوں کا سلسلہ برابر جاری رہا-" یہ سُرخیاں اور عبارتیں ہم نے اخبارات سے حرف بحرف نقل کی ہیں- بعض بیانیہ اصطلاحیں اور فقرے کے فقرے، جنھیں ہم نقل کرنے سے بوجوہ قاصر ہیں ، ایسے ہوتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ بیان کرنے والا ١ voyeur خود بنفسِ حریص شاملِ واردات ہونا چاہتا ہے- نتیجہ یہ کہ پرھنے والے کی قانونی ہمدردیاں دوشیزہ کے ساتھ مگر دل ملزم کے ساتھہ ہوتا ہے -


سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا

کوئلے کی اس کان سے مزید نمونے برآمد کرنا چنداں ضروری نہیں کہ ہاتھہ کالے کرنے کے لیے یہی کافی ہیں- مختصراً اتنا عرض کر دیں کہ ذرا کھرچیے تو آپ کو جنسی جرائم سے متعلق کوئی فقرہ لذّت اندوزی سے خالی نہیں ملے گا- ہر لفظ سسکی اور ہر فقرہ چسکی لیتا دکھائی دے گا- انگریزی میں اس اسلوب کی بہترین مثال روسی نژاد مصنف نابوکوف کے ہاں ملتی ہے جو ہر لفظ کے غبارے کو رال میں لتھڑے ہوئے ہونٹوں میں دبا کر آخری لفظ نقطئہ تلذذ تک پُھلا پُھلا کر دیکھتا اور پھر اپنے قاری پر چھوڑتا چلا جاتا ہے-

کتّا کیوں کاٹتا ہے

کافی دیر تک تو بشارت کو یقین نہیں آیا کہ یہ سب سچ ہو سکتا ہے- کراچی ہے کوئی رجواڑہ تو نہیں- اچھی خاصی farce معلوم ہوتی تھی- لیکن جب رات کے نو بج گئے تو معاملہ سچ مچ گمبھیر نطر آنے لگا- اے ایس آئی نے کہا "آج رات اور کل کا دن اور رات آپ کو حوالات میں گزارنے پڑیں گے- کل اتوار پڑ گیا- پرسوں سے پہلے آپ کی ضمانت نہیں ہو سکتی-" اُنھوں نے پوچھا "کس بات کی ضمانت؟" جواب ملا "یہ عدالت بتائے گی-" اُنھیں فون بھی نہیں کرنے دیا- ادھر حوالات کی کوٹھری میں جس کے جنگلے سے پیشاب کی کھراہند بَھک بَھک آرہی تھی، خلیفہ وقفے وقفے سے ہتھکڑی والا ہاتھہ آسمان کی طرف اُٹھاتا اور ہی ہی، ہی ہی کر کے اس طرح روتا کہ ہنسی کا گُمان ہوتا- بشارت کا غصّہ اب ایک اپاہج اور گونگے کا غصّہ تھا- اتنے میں تھانے کے منشی جی چٹائی کی جانماز پر عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر اُن کے پاس آئے- سُوکھہ کر ٹڈا ہو گئے تھے، مگر عینک
________________________________________________________________________________________
١ محض جنسی نظارہ بازی سے لذّت لینے والا-
Peeping Tom
________________________________________________________________________________________
 
تلے آنکھوں میں بلا کی چمک تھی- لہجے میں شفقت اور مٹھاس گُھلی ہوئی- ایک بوتل لیمونیڈ کی اپنے ہاتھہ سے گلاس میں اُنڈیل کر پلائی-اس کے بعد دونوں نےایک دوسرے کو اپنی اپنی ڈبیا سے پان نکال کر کھلایا-
منشی جی نے بڑے نرم اور پُرخلوص لہجے میں کہا کہ ہمارے سرکار (ایس ایچ او) بڑے بھلے آدمی ہیں- شریفوں کے ساتھہ شریف اور بدمعاشوں کے حق میں ہلاکو- یہ میری گارنٹی ہے کہ آپ کا چوری شدہ مال تین دن میں برآمد کرا دیا جائے گا- سرکار انتڑیوں میں سے کھینچ کر نکال لاتے ہیں- علاقے کے ہسٹری شیئر ان کے نام سے تھر تھر کانپتے ہیں- وہ ریڈیو گرام، زیورات اور ساریاں جو اس کمرے میں آپ نے دیکھیں، ان کی بازیابی آج صبح ہی ہوئی ہے- معروضہ یہ ہے کہ حضور کی گاڑی میں جو لکڑی پڑی ہے، وہ سرکار کے پلاٹ پر ڈلوا دیجیے- آپ کی اسی مالیّت کی مسروقہ لکڑی سرکار تین دن میں برآمد کروا دیں گے- گویا آپ کی گرہ سے تو کچھہ نہیں گیا- میں نے ابھی ان سے ذکر نہیں کیا- ممکن ہے سُن کر خفا ہو جائیں- بس یوں ہی آپ کا عندیہ لے رہا ہوں- سرکار کی صاحبزادی کا رشتہ خُدا خُدا کرکے طے ہوا ہے- بٹیا تیس سال کی ہو گئی- بہت نیک اور سُگھڑ ہے- آنکھہ میں خفیف سی کجی ہے- لڑکے والے جہیز میں کار، فرنیچر، ریڈیو گرام اور ویسٹ ١ اوپن پلاٹ پر بنگلہ مانگتے ہیں- کھڑکی کے دروازے عمدہ لکڑی کے ہوں- بَر چوک جائے تو پھر یہ سب کچھہ بھوگنا بھگتنا پڑتا ہے- ورنہ ہمارے سرکار اس قسم کے آدمی نہیں- آج کل بہت پریشان اور چڑچڑے ہو رہے ہیں- یہ تو سب دیکھتے ہیں کہ باؤلا کتّا ہر ایک کو کاٹتا پھرتا ہے- یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی مرضی سے باؤلا تھوڑا ہی ہوا ہے- آپ نے خود دو چار فقروں سے اندازہ کر لیا ہو گا کہ سرکار نے کیسی شگفتہ اور موزوں طبیعت پائی ہے- تین برس پہلے تک شعر کہتے تھے- شام کو تھانے میں شاعروں کا ایسا ازدھام ہوتا تھا کہ بعض اوقات حوالات میں کُرسیاں ڈلوانی پڑتی تھیں- ایک شام بلکہ رات کا ذکر ہے- گھمسان کا مشاعرہ ہو رہا تھا- سرکار ترنّم سے تازہ غزل پڑھہ رہے تھے- سارا عملہ داد دینے میں جُٹا ہوا تھا- مقطعے پر پہنچے تو سنتری زردارخان نے تھری ناٹ تھری رائفل چلا دی- حاضرین سمجھے شاید قبائلی طریقے سے داد رہا ہے- مگر جب وہ واویلا مچانے لگا تومعلوم ہو کہ دورانِ غزل جب مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچا تو ڈکیتی کیس میں ماخوذ ایک ملزم جو حوالات کا جنگلہ بجا بجا کے داد دے
______________________________________________________________
١ ویسٹ اوپن: کراچی میں کیونکہ شام کو ٹھنڈی ہوا سمندر یعنی مغرب کی سمت سے چلتی ہے،
اس لیے مغری رویہ مکانوں کو ترجیح دی جاتی ہے- قیمت بھی زیادہ ہوتی یے-
___
_________________________________________________________________
 
رہا تھا ، بھاگ گیا۔ شاعروں نے اس کا تعاقب کیا۔ مگر اسے تو کیا پکڑ کے لاتے ، خود بھی نہیں لوٹے ۔ اللہ جانے پولیس کانسٹیبلان نے پکڑنے میں تساہل برتی یا ملزم نے “پکڑائی“ نہیں دی مگر سرکار نے ہمت نہیں ہاری۔ راتوں رات اسی نام کے بستہ الف کے اک چھٹے ہوئے بدمعاش کو پکڑ کر حوالات میں بند کردیا۔ کاغذات میں مفرور ملزم کی ولدیت بدل دی مگر اس کے بعد شعر نہیں کہا۔ تین برس سے سرکار کی ترقی اور شعر کی آمد بند ہے۔ عدم صاحب سے یاری ہے۔ پچھلے برس اپنے معصوم بچوں کے حلق پہ چھری پھیر کر حکام بالا کو ڈیڑھ لاکھ کی نذر گزرائی تو “لائن حاضری“ سے چھٹکارا ملا اور اس تھانے میں تعیناتی ہوئی ۔ اب سرکار کوئی ولی اللہ تو ہیں نہیں کہ سلام پھیر کر جا نماز کا کونا الٹ کر دیکھیں تو ڈیڑھ لاکھ کے نوٹ از غیبی دھرے ملیں۔ دودھ تو آخر تھنوں ہی سے نکالنا پڑتا ہے ۔ بھینس دستیاب نہ ہو تو کبھی کبھی چوہیا ہی کو پکڑ دوہنا پڑتا ہے۔
بشارت کو نقصانِ مایہ سے زیادہ اس ذلت آمیز مثال پر غصہ آیا۔ بکری بھی کہہ دیتا تو غنیمت تھا ( گو کہ چھوٹی ہے ذات بکری کی ) لیکن صورتحال کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی ۔ انہوں نے کہا ، میں اپنی رپٹ واپس لیتا ہوں ۔ اے ایس آئی نے جواب دیا کہ دن دہاڑے سرقہ ناقابلِ راضی نامہ جرم ہے یعنی قابل دست ِ اندازی پولیس ہے۔ آپ رپٹ واپس لینے والے کون ہوتے ہیں ؟ اگر آپ نے والیس لینے پر اصرار کیا تو جھوٹی رپٹ درج کرانے پر آپ کا یہیں آن دی سپاٹ چالان کر دوں گا۔ عزت کے لالے پڑ جائیں گے۔ اگر آپ کا وکیل بہت لائق فائق ہوا تو تین مہنے کی ہوگی ۔ ایس ایچ او صاحب پیر کو فیصلہ کریں گے کہ آپ کن کن دفعات کے تحت ماخوذ ہیں۔
انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا ہر فعل ، ان کی ساری زندگی قابل دست اندازی ہی نہیں، قابلِ دست درازی پولیس رہی ہے۔ اور یہ سراسر پولیس کی غفلت کا نتیجہ تھا کہ وہ اب عزت آبرو سے بسر کررہے تھے۔
انہوں نے طیش میں آ کر دھمکی دی کہ مجھے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ یہ غیر قانونی حراست ہے۔ میں ہائی کورٹ میں Habeas Corpus Petition پیش کروں گا۔ اے ایس آئی بولا ، آپ پیٹیشن کیا پیش کریں گے ، ہم خود آپ کو ہتھیلی پہ دھر کے عدالت میں پیش کریں گے۔ دھڑلے سے دس دن کا جسمانی ریمانڈ لیں گے۔ دیکھتے جائیے۔

آپ بیتی لکھنے کی خاطر جیل جانے والے
ای ایس آئی یہ دھمکی دے کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد اس کا باس ایس ایچ او بھی اپنا ڈنڈا بغل میں دبائے اہم عہم عاحم کھانستا کھنکارتا اپنے گھر چلا گیا۔ عین اسی وقت مٹھائی والا وکیل نہ جانے کہاں سے دوبارہ آن ٹپکا۔ رات کے گیارہ بجے بھی اس نے کالا کوٹ اور سفید پتلون پہن رکھی تھی۔ وکیلوں کا مخصوص کلف دار سفید کالر بھی لگائے ہوئے تھا۔ کہنے لگا ، برادر! ہر چند کہ میرا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ، محض انسانی ہمدردی کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ آپ متعدد جرائم میں ملوث کیے جاسکتے ہیں۔ خدانخواستہ ابھی دفعہ ٦١ ضابطئہ فوجداری کے تحت آپ کے ڈرائیور کا اقبالِ جرم قلم بند ہوجائے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ آپ صورت سے بال بچے دار آدمی معلوم ہوتے ہیں آپ لیڈر تو ہیں نہیں جو سیاسی کیریئر بنانے اور سوانح عمری لکھنے کے لالچ میں جیل جائیں۔ پارٹیشن سے پہلے کی بات اور تھی۔ لیڈر باغیانہ تقریر کرکے جیل جاتا تھا تو جناب والا! سارا ملک انتظار میں رہتا تھا کہ دو تین سال بعد چھوٹیں گے تو کوئی تفسیر ، کوئی آپ بیتی ، کوئی تصنیف مکمل کرکے نکلیں گے۔ بد قسمتی سے انگریزوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کو جیل سے قبل از وقت رہا کر دیا تو تفسیر ادھوری رہ گئی۔ بہرحال ، وہ زمانے اور تھے۔ آج کل والا حال نہیں تھا کہ تقریر کرنے سے پہلے ہی دھر لیے گئے اور چھوٹے تو جیل کے دروازے پر کوئی ہار پھول پہنانے والا تک نہیں ۔ نہ چراغے ، نہ گلے والا مضمون ! بخدا ! میں یہ بحث نہیں کر رہا کہ آپ مجھے وکیل کر لیں ، گو کہ میں آپ کو منع بھی نہیں کرسکتا۔ محض آپ کے بھلے کو کہہ رہا ہوں۔ مجھے پریکٹس کرتے پچیس سال ایک مہینہ ہوا۔ میں نے آج تک کوئی قانونی گتھی ایسی نہیں دیکھی جسے نانواں ( روپیہ ) نہ سلجھا سکے ۔ سارے سم سم اسی سے کھلتے ہیں۔ آگے آپ کو اختیار ہے ۔ البتہ اتنا فوڈ فار تھاٹ ( Food for thought ) شب گزاری کے لیے چھوڑے جاتا ہوں کہ اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بجا چاہتے ہیں۔ آپ نے ان آٹھ گھنٹوں میں پولیس کا کیا بگاڑ لیا جو آئیندہ آٹھ گھنٹوں میں بگاڑ لیں گے۔ کل اتوار ہے۔ آپ اسی طرح حوالات میں اکڑوں بیٹھے اپنے کانسٹی ٹیوشنل رائٹس اور ضابطہ فوجداری کے حوالے دیتے رہیں گے۔ عدالت زیادہ سے زیادہ یہی تو تیر مار لے گی کہ آپ کو پیر کے دن رہا کردے گی۔ سو ہم تو جناب والا پیر سے پہلے ہی آپ کو اس چوہے دان کے باہر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آپ زیر حراست ہیں۔ اچھا ۔ بہت رات ہو گئی ۔ شب بخیر ! منشی جی کو میرے گھر کا فون نمبر معلوم ہے ۔
 
صفحہ 188 -191

وکیل کے جانے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل ایک چٹائی، ایلومینیم کا لوٹا اور کھجور کا دستی پنکھا لے آیا اور خلیفہ والی حوالات کی طرف اشارہ کر کے بشارت سے کہنے لگا "دن بھر بیٹھے بیٹھے آپ کی کمر تختہ ہو گئی ہو گی-اب آپ یہ بچھا کر وہاں لیٹ جائیے- مجھے جنگلے میں تالا لگانا ہے- مچھر بے پناہ ہیں- یہ کمبل اوڑھہ لیجیے گا- زیادہ گرمی لگے تو یہ پنکھا ہے- رات کو استنجا آئے تو بے شک وہیں ۔۔۔۔۔ بار ہ بجے کے بعد حوالات کا تالا نہیں کھولا جاسکتا-" اُس نے بتیاں بجھانی شرو ع کردیں-

مگر قاردرہ کچھہ اور کہتا ہے!

بتیاں بجھنے لگیں تو خلیفہ زور زور سے "سرکار! سرکار!" کر کے رونے لگا-حوالات کی دیواروں پر کھٹملوں کی قطاریں رینگنے لگیں- اور چہرے کے گرد خون کے پیاسے مچھروں کا پالہ گردش کرنے لگا- اس مرحلے پر منشی جی دفعتاً پھر نمودار ہو ئے- اور ملباری ہوٹل سے منگوایا ہوا قیمہ،جس میں پڑی ہوئی ہری مرچوں اور ہرے دھنیے کی الگ سے خوشبو آ رہی تھی- اور تنور سے اُترتی نان بچارت کے سامنے رکھی- گرم نان سے اشتہا کو باؤلا کر دینے والی وہ لپٹ آ رہی تھی جو ہزار ہا سال قبل انسان کو آگ دریافت کرنے کے بعد گیہوں سے آئی ہوگی- اسے کھانے سے انکار کرنے کے لیے بشارت نے کچھہ کہنا چاہا تو کہ نہ سکے کہ بھوک سے بُرا حال تھا اور سارا منہ رال سے بھر گیا تھا- ہاتھہ کے ایک لجلجے سے اشارے سے انکار کیا اور ناک دوسری طرف پھیر کر بیٹھہ گئے- اس پر منشی جی بولے، قسم خُدا کی! میں بھی نہیں کھاؤں گا- اس کا عذاب اپ کی گردن پر- تین بجے ایک 'بن' چاء میں ڈبو کے کھایا تھا- بس- ڈاکٹر آنتوں کی ٹی بی بتاتا ہے- مگر پیر الٰہی بخش کالونی والے حکیم شفاءالملک کہنے لگے کہ یہ بیماری زیادہ کھانے سے ہوتی ہے- لو اور سُنو! میں نے کہا، حکیم صاحب! میرا جُثہ جسامت تو دیکھیے- بولے، مگر قاردرہ کچھہ اور کہتا ہے!
یکبارگی منشی جی نے بات کا رُخ موڑا- بشارت کے گُھتنے چُھو کر کہنے لگے، میں آہ کے پیرون کی خاک ہوں- پر دُنیا دیکھی ہے- آپ عزت دار آدمی ہیں- مگر معاملے کی نزاکت کو نہیں سمججھہ رہے ہیں کہ قاردرہ کیا کہہ رہا ہے- میں آپ کے خُسر کا محلّے دار اور ادنٰی نیاز مند رہ چکا ہوں- دیکھیے، عزت کا صدقہ مال ہوتا ہے- لکڑی دی دلا کے رفع دفع کیجیے- کلہم دو تین ہزار کی تو بات ہے- یہ تو دیکھیے آپ ہیں کہاں! پھر یہ غور فرمائیے کہ ساڑھے تین ہزار کی اس لکڑی کے عوض آپ کو ساڑھے تین ہزار کی دوسری لاٹ مل جائے گی-پھر جھگڑا کس بات کا؟ سرکار شیر کے منہ سے شکار ہی نہیں چھینتے، اُس کے دانت بھی اُکھاڑ لاتے ہیں- علاقے میں کہیں کوئی واردات ہو، سرکار کو گویا القا ہو جاتا ہے کہ کس کا کام ہے- بعضے بعضے کو تو محض قیافے پر ہی دھر لیتے ہیں جیسا کہ، معاف کیجیے، حضور کے ساتھہ ہوا- پچھلے سال انھی دنوں کی بات ہے- سرکار نے ایک شخص کو گالی گلوچ سے شارع عام پر رُکاوٹ پیدا کرنے پر گرفتار کیا- بظاہر ذرا سی بات تھی- مگر قاردرہ کچھہ اور کہہ رہا تھا- سب کو تعجب ہوا- مگر دو گھنٹے بعد سرکار نے اس کے گھر سے وہائٹ ہارس وہسکی کی تین سو بوتلیں، دو گھوڑا بوسکی کے تھان ، مسروقہ زیورات، درجنوں ریڈیو گرام اور دنیا بھر کا چوری کا مال بر آمد کر لیا- گھر میں ہر چیز چوری کی تھی- ایک چیز بھی ذاتی نہیں نکلی- سوائے والد کے جس نے کہا کہ میں اس نا خلف کو عاق کرتا ہوں- مگر ہمارے سرکا دل ککے بہت اچھے ہیں- پچھلے سال اسی زمانے میں میری بیٹی کی شادی ہوئی- سارے اخراجات سرکار نے خود برداشت کیے- انھیں میں کا ایک ریڈیو گرام بھی جہیز میں دیا- میں اس کی گارنٹی دیتا ہوں کہ مسروقہ لکڑی اور ٹرک کی رجسٹریشن بک آپ کو تین دن کے اندر اندر دُکان پر ہی ڈلیور ہو جائے گی- میری مان جائیے- ویسے بھی بیٹی کی شادی کے لیے رشوت لینے اور دینے کا شمار نیگ نیوتے میں کرنا چاہیے- آپ سمجھہ رہے ہیں؟

روٹی میری کاٹھہ دی، لاون میری بھکھہ ١

اب پیاز کے سب چھلکے ایک ایک کر کے اُتر چکے تھے- بس آنکھوں میں ہلکی ہلکی سوزش باقی رہ گئی تھی- خواری کا اصل سبب سمجھہ میں آ جائے تو جھنجھلاہٹ جاتی رہتی ہے-پھر انسان کو چپ لگ جاتی ہے- منشی جی اب انھیں اپنے ہی آدمی لگنے لگے-
"منشی جی! یہاں سبھی؟
"حضور! سبھی"
"وکیل صاحب بھی"
"منشی جی! پھر آپ ۔۔۔۔۔۔؟"
"حضور میرے سات بچّے ہیں- بڑا بیٹا انٹر میں ہے- بیوی کو ٹی بی بتائی ہے- دن میں دو تین دفعہ خون ڈالتی ہے- ڈاکٹڑ کہتا ہے مری یا کوئٹہ کے سینی ٹوریم لے جاؤ- تنخواہ اس سال کی ترقّی ______________________________

١ میری روٹی کاٹھہ کی ہے اور بھوک میری لگاون - بابا فرید-
____________________________________________

ملا کر اٹھائیس روپے پانچ آنے بنتی ہے١-" بشارت نے ٹرک میں لدی ہوئی لکڑی ایس ایچ او کو نذر کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی- آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر، بارہ بجے خلیفہ کی ہتھکڑی کُھلی تو وہیں یعنی موری کے منبع و مخرج کے درمیان سجدے میں چلا گیا- شُکرانے کے سجدے سے ابھی پوری طرح نہیں اُٹھاتھا کہ ہاتھہ پھیلا کر ہیڈ کانسٹیبل سے بیڑی مانگ کر پی-ادھر بشارت کو بھی کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت ملی- منشی جی نے مبارک باد دی اور اپنی پیتل کی ڈبیا سے نکال کر دوبارہ پان کی کترن یہ کہہ کر ہیش کی کہ یہ گلوریاں آپ کی بھابی نے صُبح بطورِ خاص بنائی تھیں- ہیڈ کانسٹیبل نے بشارت کو علاحدہ لے جا کر مبارک باد دیتے ہوئے کہا " خوشی کا موقعہ ہے- منشی جی کو پچیس روپے دی دیجیے- گریب عیال دار، ایمان دار آدمی ہے- اور جنابِ عالی! اب ہم سب کا منہ میٹھا کرائیے- ایسے خوشی کے موقعے بار بار تھوڑا ہی آتے ہیں- آپ بے شک گھر پر فون کر لیں- گھر والے پریشان ہوں گے کہ سرکار اب تک کیوں نہیں لوٹے- ایکسیڈنٹ تو نہیں ہو گیا- ڈھنڈیا مچ رہی ہوگی- اسپتالوں کے کیژولٹی وارڈ میں ہر مُردے کی چادر ہٹا ہٹا کے دیکھہ رہے ہوں گے اور مایوس لوٹ رہے گے-" بشارت نے سو روپے جیب سے نکال کر مٹھائی کے لیے دیے- تھڑی دیر بعد ایس ایچ او کے کمرے سے وہی وکیل صاحب مٹھائی کے ویسے ہی چار ڈبّوں کا مینار گود میں اُٹھائے اور ٹھوڑی کی ٹھونگ سے اسے بیلنس کرتے ہوئے نمودار ہوئے- اُنھوں نے بھی بڑی گرم جوشی سے مبارک باد دی اور اُن کی معاملہ فہمی ائر سمجھہ داری کو سراہا- تین ڈبّے عملے میں تقسیم کیے اور چوتھا بشارت کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے، یہ ہماری طرف سے بھابی صاحبہ اور بچّوں کو دے دیجیے گا- ڈبّا حوالے کرنے کے بعد اُنھوں نے اپنا کلف دارکالر اُتار دیا اور سیاہ کوٹ اُتار کر ہاتھہ پر لٹکا لیا-

بھکاری کون؟

وکیل صاحب نے مشورہ دیا کہ لگے ہاتھوں لکڑی ایس ایچ او صاحب کے پلاٹ پر ڈالتے جائیے- نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئیے- ایک رائفل بردار کانسٹیبل خلیفہ کےک پہلو میں بیٹھہ گیا- خلیفہ نے اس دفعہ “ پدر سوختہ“ کہہ کر ایک ہی گالی سے گاڑی سٹارٹ کر دی- کوئی بہت پڑھا لکھا یا معزز آدمی پاس بیٹھا ہو تو وہ گاڑی کو فارسی میں گالی دیتا تھا- گالی دیتے وقت اُس کے
-----------------------------------------------------
1 کانسٹیبل کی تنخواہ اُس زمانے میں سترہ روپے ہوتی تھی- اور ASI کی ستر روپے جو بینک کے چپراسی کی تنخواہ کے برابر تھی -
______________________________________________-

چہرے پر ایسا ایکسپریشن آتا کہ گالی کا مفہوم مصّور ہو کر سامنے آجاتا- تھانے والوں نے ایک گیس کی لالٹین ساتھہ کر دی تاکہ اندھیرے میں پلاٹ پر مال اُتروانے میں آسانی رہے- گاڑی کے پچھلے حصّے میں لکڑی کے تختوں پر لالٹین ہاتھہ میں لیے بشارت بیٹھہ گئے- جھٹکوں سے مینٹل جھڑ جانے کے ڈر سے اُنھوں نے لالٹین ہاتھہ میں اُدھر اُٹھا رکھی تھی- خلیفہ ایسا بن رہا تھا جیسے گاڑی ہمیشہ اتنی ہی آہستہ چلاتا ہے- کانسٹیبل نے جھنجھلاتے ہوئے اُسے دو دفعہ ڈانٹا " ابے ٹرک چلا رہا ہے یا اپنی زوجہ کے جنازے کا جلوس نکال رہا ہے؟" بشارت کی آنکھیں نیند سے بند ہو چلی تھیں، مگر کراچی کی سڑکیں جاگ رہی تھیں- سینما کا آخری شو ابھی ختم ہوا ہی تھا- کاروں کے شیشوں پراوس کے ریلے بہہ رہے تھے اور اُن کی قمیض بھیگ چلی تھی- پیلس سینما کے پاس بجلی کے کھمبے کے نیچے ایک جوان نیم برہنہ پاگل عورتاپنے بچّے کو دودھہ پلا رہی تھی- بچّے کی آنکھیں دُکھنے آئی ہوئی تھیں اور سُوجن اور چیپڑوں سے بالکل بند ہو چکی تھیں- ننگی چھاتیوں پر بچّے نےئ دودھہ ڈال دیا تھا جس پر مکھیوں نے چھاؤنی چھا رکھی تھی- ہر گزرنے والا ان حصّوں کو جو مکھیوں سے بچ رہے تھے نہ صرف غور سے دیکھتا بلکہ مُڑ مُڑ کے ایسی نظروں سے گُھورتا چلا جاتا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا دراصل بھکاری کون ہے- پاس ہی ایلومینیم کے بے دُھلے پیالے میں منہ ڈالے ایک کُتّا اُسے زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کررہا تھا-اس سے ذرا دور ایک سات آٹھہ سال کا لڑکا ابھی تک موتیا کے گجرے بیچ رہا تھا- اُنھوں نے ترس کھا کر ایک گجرا خرید لیا اور کانسٹیبل کو دے دیا- اُس نے اُسے رائفل کی ناٹ پر لپیٹ لیا- بشارت سر جھکائے، خیالات میں گُم، بندر روڈ، عید گاہ، صدر اور نرسری ہوتے ہوئے پی ای سی ایچ ایس پہنچئ تو ایک کا عمل ہو گا- اُنھجوں نے لالٹین گاڑی کے بونٹ پر رکھہ دی اور اُس کی روشنی میں وہ لکڑی جو چوری سے بچ گئی تھی، اپنے ہاتھوں سے تھانے دار کے پلاٹ پر ڈال آئے-

ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

طوطے کی پیش گوئی
ڈھائی بجے رات جب وہ گھر پہنچے تو وہ فیصلہ کر چکے تھے کہ اس آتو میٹک چھکڑے کو اونے پونے ٹھکانے لگا دیں گے- گھر، گھوڑے، گھر والی، سواری اور انگوٹھی کے پتھر کے معاملے میں وہ سعد اور نحس کے قائل تھے- اُنھیں یاد آیا کہ ١٩٥٣ء میں موٹر سائیکل رکشا کے حادثے میں زخمی ہونے کے بعد جب وہ بندر روڈ پر میونسپل کارپوریشن کے سامنے بیٹھنے والے نجومی کے پاس گئے تو اُس نے اپنے سُدھائے ہوئے طوطے سے ایک لفافہ نکلواکر پیش گوئی کی تھی کہ تمہاری قسمت میں ایک بیوی اور تین حج ہیں-تعداد کی ترتیب اس کے برعکس ہوتی تو کیا اچھا ہوتا، اُنھوں نے دل میں کہا: ویسے بھی حج زندگی میں ایک ہی دفعہ فرض ہے- ثواب لوٹنے کے معاملے میں وہ لالچی بالکل نہیں تھے- نجومی نے زائچہ بنا کر اور ہاتھہ کی لکیریں محدّب شیشے سے دیکھہ کر کہا کہ دو تین اور چار پہیّوں والی گاڑیاں تمہارے لیے نحس ثابت ہوں گی- یہ بات وہ زائچے اور محدّب شیشے کے بغیر، صرف اُن کے ہاتھہ اور گردن پر بندھی ہوئی پٹیاں دیکھہ کر بھی کہہ سکتا تھا- بہر حال اب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک ایک یا پانچ پہیّوں کی گاڑیاں ایجاد نہ ہو، انھیں اپنی ٹانگوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا-ایسا لگتا تھا کہ اس گاڑی کو خریدنے کا اصل مقصد لکڑی کو چوروں اور ایس ایچ او تک بحفاظت تمام پہنچانا تھا جو بحمداللہ بغیر رُکاوٹ کے تکمیل کو پہنچ چکا تھا-
 
صفحہ 192-197​

بنگال ٹائیگر گیا، ببّر شیر آگیا
صبح جب اُنھوں نے خلیفہ کو مطلع کیا کہ اب وہ اس کی خدمات سے استفادہ کرنے کے لائق نہیں رہے تو وہ بہت رویا گایا- پہلے تو کہا، میں گاڑی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں؟ پھر کہنے لگا، کہاں جاؤں؟ بعد ازاں اُس نے آقا اور ملازم کے اٹوٹ رشتے اور نمک کھانے کے دُوررس نتائج پر تقریر کی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہے- اور جو بھاری نقصان اُن کو پہنچا ہے، اس کی تلافی وہ اس طرح کرنا چاہے گاکہ سال بھر میں ان کی حجامت کی جو اُجرت بنتی ہے، اس میں سے وہ لکڑی کی رقم مجرا کر لیں- اس پر وہ چینخے کہ خلیفے! تو سمجھتا ہے کہ میں ساڑھے تین ہزار سالانہ کی حجامت بنواتا ہوں؟ خلیفہ نے دوبارہ اپنی غلطی کا خندہ پیشانی سے اعتراف کیا اور ساتھہ ہی گاڑی کو گشتی ہیئر کٹنگ سیلون بنانے کی پُر حماقت تجویز پیش کی جو ا تنی ہی حقارت سے رد کر دی گئی- زچ ہو کر اس نے یہاں تک کہا کہ وہ تمام عمر۔۔۔۔۔ یعنی گاڑی کی یا اس کی اپنی عمرِ طبعی تک، جو بھی پہلے دغا۔۔۔۔۔۔ بالکل مفت ڈرائیوری کرنے کے لیے تیار ہے- گویا جو نقصان پہلے تنخواہ لے کر پہنچاتا تھا۔۔۔۔ لا تنخواہ پہنچائے گا- غرض کہ خلیفہ دیر تک اسی قسم کی تجویزوں سے اُن کے زخموں پر پھٹکری چھڑکتا رہا-
وہ کسی طرح نہ مانے تو خلیفہ نے ہتھیار ڈال دیے،مگر اُسترا اُٹھا لیا- مطلب یہ کہ آخری خواہش یہ ظاہر کی کہ اس قطعِ تعلق کے باوجود، اسے کم از کم حجامت کے لیے آنے کی تو اجازت دی جائے، جو بشارت نے صرف اس شرط پر دی کہ اگر میں آئندہ کوئی سواری----- کسی بھی قسم کی سواری ------- رکھوں تو حرام خور تم نہیں چلاؤ گے-
کچھہ دن بعد خلیفہ یہ خبردینے آیا کہ صاحب جی! یوں میرے دل میں اُچنگ ہوئی کہ ذرا تھانیدار صاحب بہادر کے پلاٹ کی طرف ہوتا چلوں- میں تو دیکھہ کے بھونچکا رہ گیا- کیا دیکھتا ہوں کہ اپنی رشوت میں دی ہوئی لکڑی کے پاس اپنی چوری شدہ لکڑی پڑی ہے! پہلو بہ پہلو! ہمارا مال ایک شیر دوسرے شیر کے منہ میں سے نکال کرڈکار گیا- ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ دھاری دار شیر (Bengal Tiger) چلا گیا اور ببّر شیر آگیا- میرا اعتبار نہیں تو خود جا کے ملاحظہ کر لیجیے- خلیفہ ہنسنے لگا-اُسے اپنی ہی بات پر بے محل، بے اختیار اور مسلسل ہنسنے کی بُری عادت تھی- سانس ٹوٹ جاتا تو ذرا دم لے کر پھر سے ہنسنا شروع کر دیتا- وہ ہنسی الاپتا تھا- دَم لینے کے وقفے میں آنکھہ مار جاتا- سامنے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا- اس وقت وہ اپنی ہنسی کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا اور بالکل کلاؤن معلوم ہو رہا تھا-

ٹرک ہٰذا بکاؤ ہے
گاڑی ایک مہینے تک بیکار کھڑی رہی- کسی نے جھوٹوں بھی دام نہ لگائے- تضحیک وتوہین کے پہلو سے بچنے کی خاطر ہم نے اسے گاڑی کہا ہے- بشارت بے حد حسّاس ہو گئے تھے- کوئی اسے کار کہتا تو اُنھیں خیال ہوتا کہ طنز کر رہا ہے اور ٹرک کہتا تو اس میں توہین کا پہلو نظر آتا- وہ خود Vehecle کہنے لگے تھے- وہ مایوس ہوچلے تھے کہ دفعتاً ایک ایک دن کے وقفے سے اکٹھی تین " آفرز" آگئیں- پڑوس میں سیمنٹ کے ڈپو کے مالک نے اس ترپال کے جو کبھی گاڑی پر چڑھا رہتا تھا، تیرہ روپے لگائے، جب کہ ایک گدھا گاڑی والے نے بارہ روپے کے عوض چاروں پہیّے نکال کر لے جانے کی آفر دی- اُنھوں نے اس جاہل کو بُری طرح لتاڑا کہ یہ بھی ایک ہی رہی- تیرا خیال ہے کہ یہ گاڑی پہیّوں کے بغیر چل سکتی ہے! اُس نے جواب دیا، سائیں! یہ پہیّوں کے ہوتے ہوئے کون سی چل رہی ہے! رقم کے لحاظ سے تیسری آفر سب سے اچھی تھی- یہ ایک ایسے شخص نے دی جوحلیے سے اسمگلر لگتا تھا- اُس نے گاڑی کی نمبر پلیٹ کے دو سو روپے لگائے-
ان اہانت آمیز آفرز کے بعد بشارت نے گاری پر ترپال چڑھا دیا اور توبہ کی کہ آئندہ کبھی کار نہیں خریدیں گے- آگے چل کر مالی حالت اور طبیعت کی چونچالی بحال ہوئی تو اس توبہ میں اتنی سی ترمیم کر لی کہ آئندہ کسی آنجہانی گورے کی گاڑی نہیں خریدیں گے خواہ اُس کی بیوہ میم کتنی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو- مرزا نے مشورہ دیا کہ اگر تمہاری کسی سے دُشمنی ہے تو گاڑی اُسے تحفتہً دے دو- بشارت نے کہا، نذر ہے- چند روز بعد اُنھوں نے ترپال اُتار دیا اور ایک گتّے پر "برائے فروخت" نہایت خوشخط لکھوا کر گاڑی پر ٹانگ دیا- دو تین دن میں گاڑی اور گتّے پر گرد اور آرا مشین سے اُڑتے ہوئے بُرادے کی دبیز تہیں چڑھہ گئیں- مولانا کرامت حسین نے جو اَب فرم کے مینجر کہلاتے تھے، ونڈ اسکرین کی گرد پر انگلی سے "خوش آمدید" اور"ٹرک ہٰذا بکاؤ ہے" لکھہ دیا جو دور سے نظر آتا تھا- روزانہ ظہر کے وضو کے بعد حروف پر گیلی انگلی پھیر کر اُنھیں روشن کر دیتے- نمازِ باجماعت کے بعد مسجد سے آ کر گاڑی پر دَم کرتے- فرماتے تھے، ایسا جلالی وظیفہ پڑھہ رہا ہوں کہ جس چیز پر بھی پھونک ماردی جائے وہ یا تو چالیس دن کے اندر اندر بِک جائے گی، ورنہ وظیفہ پڑھنے والا خود اندھا ہو جائے گا- دن میں تین چار دفعہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہاتھی کی کبھی دو کبھی تین یا چار انگلیاں دائیں بائیں گھماتے- یہ تحقیق کرنے کے لیے کہ بینائی جاتی تو نہیں رہی- وظیفے کے بعد مسجد سے دُکان تک، راستے بھر جلالی پھونک کو اپنے منہ میں بڑی احتیاط سے بھرے رکھتے کہ " لیک" ہو کر غلطی سے کسی اور چیز پر نہ پڑ جائے-

حاجی اورنگ زیب خاں سوداگران و آڑھتیان چوب ہائے عمارتی

پتلا شوربہ اور سُوجی کا حلوہ ابھی مولانا کرامت حسین کے وظیفے کو چالیس دن نہیں ہوئے تھےکہ بشارت ایک اور قضیے میں اُلجھہ گئے، جو کچھہ اس طرح تھا کہ حاجی اورنگ زیب خان، آڑھتیان و سوداگران چوب ہائے عمارتی، پشاوران سے رقم وصول کرنے آدھمکے-اُنھوں نے کوئی ایک سال قبل اعلٰی درجے کی لکڑی پنجاب کے ایک آڑھتی کی معرفت بشارت کو سپلائی کی تھی- یہ داغدار نکلی- جب یہ سال بھر تک نہیں بکی تو بشارت نے گھاٹے سے سات ہزار میں فروخت کر دی- یہ وہی لکڑی تھی، جس کی چوری، بازیابی اور غتربود ہونے کا حال ہم پچھلے صفحات میں بیان کر چکے ہیں- بشارت کا موقف تھا کہ میں نے یہ لکڑی سات ہزار میں گھاٹے سے بیچی ہے- خان صاحب فرماتے تھے کہ آپ کی آدھی لکڑی تو چور لے گئے- آدھی پولیس والوں نے ہتھیا لی- آپ اسے بیچنا کہتے ہیں- اس کے لیے تو پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے-
بشارت کے تخمینے کے مطابق لکڑی کی مالیّت کسی طرح سات ہزار سے زیادہ نہیں تھی- ادھر حاجی اورنگ خان اصولی طور پر ایک پائی بھی چھوڑنےکے لیے تیار نہ تھے، جس کا مطلب یہ تھا کہ بشارت بقیہ رقم یعنی ٣-٩-٢٥٧٣ روپے اپنی گرہ سے بھریں- ( یہ رقم آج کے پندرہ ہزار روپے کے برابر تھی) خان صاحب کہتے تھے کہ آپ نے مال بیچنے میں شیطانی عجلت سے کام لیا- جلدی کا کام شیطان کا- " صیب! یہ لکڑی تھی، بالغ لڑکی تو نہیں جس کی جلد از جلد رُخصتی کرنا کارِثواب ہو-"
ایک مدّت سے اس رقم کے بارے میں خط و کتابت ہو رہی تھی- ایک دن خان صاحب کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ قانونی نوٹس کی رجسٹری کرائی اور پشاور جنرل پوسٹ آفس سے سیدھے گھر آئے- سامان باندھا اور نوٹس سے پہلے خود کراچی پہنچ گئے- نوٹس ان کی آمد کے تین دن بعد ان کی موجودگی میں اس طرح موصول ہوا کہ رجسٹری خود انھوں نے ڈاکیے کے ہاتھہ سے چھین کر کھولی- نوٹس نکال کر پھاڑ دیا اور لفافہ بشارت کو تھما دیا- قیام بھی انہی کے ہاں کیا- اُس زمانے میں دستور تھا کہ آڑھتی یا تھوک بیوپاری آئے تو اُسے گھر پر ہی ٹھہرایا جاتا تھا- یوں بھی بشارت کی خان صاحب سے خوب بنتی تھی- بشارت خان صاحب کے خلوص و مدارات کے گرویدہ اور خان صاحب ان کی لچھے دار باتوں کے دلدادہ-
دن بھر ایک دوسرے کے ساتھی جھائیں جھائیں کرنے کے بعد، شام کو خان صاحب بشارت کے ساتھہ اُن کے گھر چلے جاتے، جہاں اُن کی اس طرح خاطر مدارات ہوتی جیسے دن میں کچھہ ہوا ہی نہیں- گھر والے ان کی خاطر داریاں کرتے کرتے تنگ آچکے تھے- اس کے باوجود خان صاحب شاکی تھے کہ کراچی میں پتلے شوربے کا سالن کھا کھا کے میری نظر کمزور ہوگئی ہے- قدرے لنگڑا کر چلنے لگے تھے- فرماتے تھے، گھٹنوں میں شوربہ اُتر آیا ہےرات کے کھانے کے بعد سُوجی کا حلوہ ضرور طلب کرتے- فرماتے تھے، حلوہ نہ کھاؤں تو بزرگوں کی روحیں خواب میں آ آ کر ڈانٹتی ہیں- اکثر اُن سالم رانوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے جو اُن کے دستر خوان کی زینت ہوا کرتی تھیں- ان کا پیٹ اعلٰی نسل کے بروں (دُنبوں) کا قبرستان تھا، جس کے وہ مجاور تھے- بشارت نے دوپہر کو ان کے لیےفرنٹیئر ہوٹل سے ران اور چپلی کباب منگانے شروع کیے- مرزا نے کئی مرتبہ کہا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ ٣-٩- ٢٥٧٣ روپے دے کر اپنا پنڈ چھڑاؤ- یہ پھر بھی سستا پڑے گا-مگر بشارت کہتے تھے کہ سوال روپے کا نہیں، اصول کا ہے- خان صاحب بھی اسے اپنی انا اور اصول کا مسئلہ بنائے ہوئے تھے-
اولیااللہ جس یکسوئی اور استغراق سے مراقبہ اور خدا کی عبادت کرتے ہیں، خان صاحب اس سے زیادہ یکسوئی اور استغراق غذا پر صَرف کرتے تھے- اکثر فرماتے تھے کہ نماز، نیند، کھانے اور گالی دینے کے دوران کوئی مخل ہوجائے تو اُسے گولی مار دوں گا- کسی اجنبی یا دشمن یا ناقابلِ اعتبار دوست سے ملنے جاتے توگلے میں 38 بور کا ریوالور حمائل کر لیتے- مشہور تھا کہ خانہ کعبہ کے طواف کے دوران بھی ریوالور احرام میں چُھپا رکھا تھا- واللہ اعلم- دس سیر سُوجی روئے دار بطورِ سوغات کراچی لائے تھے- اسی کا حلوہ بنوا بنوا کر کھا رہے تھے- بشارت روز سُوجی کی بوری دیکھتے اور دہل جاتے اس لیے کہ ابھی تو اس کے ختم ہونے میں بہت دیر تھی- خان صاحب فرماتے تھے کہ اگلی دفعہ مردان شوگر ملز سے تازہ گُڑ کی بوری لاؤں گا- سفید چینی کھانے سے خون پتلا پڑ جاتا ہے- ایک دن بشارت نے اندیشہ ہائے قریب سے گھبرا کر باتوں باتوں میں ٹوہ لینا چاہی- پوچھا " خان صاحب! گُڑ سے کیا کیا بناتا ہے؟" سُوجی کے حلوے کا گولہ حلق میں پھنساتے ہوئے بولے "بھابی سے پوچھہ لینا- اس وقت دماغ حاضر نہیں- بات یہ ہے کہ گھاٹے اور جھگڑے سے، اور گُڑ سے------ اور روزے سے بھی------ ہمارے دماغ کو ایک دم گرمی چڑھہ جاتا ہے- ہم صرف رمضان میں ہاتھا پائی کرتا ہے- اس واسطے کہ روزے میں گالی دینا منع ہے-"

ٹانگیں اور پائے خان صاحب کے اپنے دستر خوان اور خاطر مدارات کا کیا کہنا- بشارت کو پشاور میں ان کے ہاں مہمان رہنے کا اتفاق ہوا- ہر کھانے پر بکری یا دُنبے کی مسلّم ران سامنے رکھہ دیتے- ناشتے اور چائے پر البتہ مرغی کی ٹانگ پر اکتفا کرتے- ان کے دستر خوان پر ران اور ٹانگ کے سوا کسی اور حصّے کا گوشت نہیں دیکھا- نہ کبھی سبزی یا مچھلی دیکھی، جس کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ بینگن اور مچھلی کی ٹانگیں نہیں ہوتیں- یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پیرس کے Folies Bergere اور Lido کی کورس گرلز کا Leg Show دیکھہ کر خان صاحب پشتو میں کیا ارشاد فرماتے، لیکن اتنا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ایسی ٹانگوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جنھیں روسٹ کر کے وہ کھا اور کھلا نہ سکیں-
ٹانگ کے گوشت سے رغبت کے باوجود خان صاحب کو کراچی کی بونگ کی نہاری اور سری ہایوں سے سخت چڑ تھی- ایک مرتبہ فرمایا: مجھہ سے تو مواشی کے گندے، گوبر میں بسے ہوئے کھروں کا آبِ جوش نہیں کھایا جاتا- ہمارے فرنٹیئر میں تو کوئی بڈھا کسی کچی عمر کی دوشیزہ سے شادی کر لے تو حکیم اور پڑوسی اُسے ایسا ہی آتش گیر مادّہ کھلاتے ہیں- اس سے وہ انتڑیوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر وفات پا جاتا ہے- سنا ہے ولایت میں تو کھروں سے سالن کے بجائے سریش بناتے ہیں- آپ بھی کمال کرتے ہیں! بکری کے پائے، بھیڑ کے پائے، دُنبے کے پائے، گائے کے پائے، بیل کے پائے، بھینسے کے پائے، میں تو جانوں چارپائی کے پائے آپ محض اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ صاف ہوتے ہیں-

پچھلی صدی کا اسٹیچو خان صاحب وجیہہ اور بھاری بھرکم آدمی تھے- اُن کی لغو بات میں بھی وزن محسوس ہوتا تھا- قد تقریباً ساڑھے چھہ فٹ، جسے کلاہ اور طرّے سے ساڑھے سات فٹ بنا رکھا تھا، مگر آٹھہ فٹ کے لگتے تھے اور یہی سمجھہ کر بات کرتے تھے- صحت اور کاٹھی اتنی اچھی کہ عمر کچھہ بھی ہو سکتی تھی-تن و توش کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہتھے والی کرسی پر جیسے تیسے ٹھس کر بیٹھہ تو جاتے، لیکن جب اُٹھتے تو کرسی بھی ساتھہ اُٹھتی- سنہری مونچھیں اور ہلکی براؤن آنکھیں- بائیں رخسار پر زخم کا ہلالی نشان جو اگر نہ ہوتا تو چہرہ ادھورا دکھائی دیتا- انگشتِ شہادت دوسری پور سے کٹی ہوئی- کسی نابکار کو خبر کرنا ہو یا آسمان کو کسی قضیے میں اپنا گواہ بنانا مقصود ہو(جس کی ضرورت دن میں کئی بار پڑتی تھی) تو یہ نیم انگشتِ انتباہ اُٹھا کر خطاب کرتے- ان کی کٹی انگلی بھی ہماری ثابت انگلی سے بڑی تھی- پاس اور دورکی نظر خاصی کمزور تھی، لیکن عینک لگاتے سے حتی الامکان احتراز کرتے- صرف چیک پر دستخط کرنے اور گالی دینے کے بعد معتوب کے چہرے پر اس کے اثرات دیکھنے کے لیے پاس کی عینک لگا لیتے -
 
صفحہ 198-199

اور اتارنے سے پہلے جلدی جلدی اسی سے دور کی چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتے۔ یہ معلومات ان کی دن بھر کی جغرافیائی ضروریات کے لیے کافی ہوتی تھیں۔ آنکھوں میں شوخی کی ہلکی سی تحریر ۔ کھل کر ہنستے تو چہرہ انار دانہ ہو جاتا۔ چہرے پر ہنسی ختم ہونے کے بعد اس کی اندرونی لہروں سے پیٹ دیر تک ہچکولے کھاتا رہا۔ اصلی زری کی کلاہ پر پگڑی کا ہاتھ بھر اونچا کلف دار طرہ زخمی انگوٹھے کی طرح ہمہ وقت کھڑا ہی رہتا تھا۔ گہرا براؤن ٹرکش کوٹ ، “ تلے “ کا پشاوری چپل جس میں ہمارے دونوں پر آگے پیچھے آجائیں۔ لامتناہی گھیر کی سفید شلوار۔ خان صاحب نہایت بارعب جامہ زیب پچھلی صدی کے آدمی دکھلائی دیتے تھے۔ قصیدے ، کیری کیچور١ اور اسٹیچو ( مجسمہ ) کے لیے یہ ازبس لازم ہے کہ کم از کم ڈیوڑھے ہوں۔ لائف سائز نہ ہوں۔ خان صاحب اپنا اسٹیچو آپ تھے۔
واسکٹ کی جیب میں جو طلائی گھڑی رکھتے تھے اس کی زنجیر دو فٹ لمبی ضرور ہوگی۔ اس لیے کہ واسکٹ کی ایک جیب سے دوسری جیب کا فاصلہ اتنا ہی تھا۔ جتنی دیر میں خان صاحب کی شلوار میں کمر بند ڈلتا، اتنی دیر میں آدمی حیدر آباد ہو کر آ سکتا تھا۔ اعصاب اس حد تک مضبوط تھے کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تھے ہی نہیں۔ معمولی تکلیف اور نا راحتی کا ان کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دھوبی نے ان کی میلی شلوار کے نیفے میں سے پنسل کے ٹکڑے بر آمد کیے۔ پرخور تھے۔ دورانِ طعام ، کلام سے پرہیز کرتے اور پانی نہیں پیتے تھے کہ خواہ مخواہ جگہ گھیرتا ہے۔ دال کو ہندوانہ بدعت اور سبزی کھانے کو مویشیوں کی صریح حق تلفی سمجھتے تھے۔
کڑاہی گوشت کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کڑاہی گوشت کھائیں گے بلکہ کڑاہی بھر کر کھائیں گے۔ خیریت گزری کہ اس زمانے میں بالٹی گوشت کا رواج نہیں تھا ورنہ وہ یقینا بالٹی کو کڑاہی پر ترجیح دیتے۔ تیتر بٹیر کی ہڈیوں ، انگور ، مالٹے اور تربوز کے بیج تھوکنے کو زنانی نزاکتوں میں شمار کرتے تھے۔ اپنے تن توش اور ہیت کذائی ( جسے ہیبتِ غذائی کہنا بہتر ہوگا ) سے خود عاجز تھے۔ گھومنے پھرنے اور چہل قدمی کے شوقین ، مگر اس شرط پر کہ ہر چالیس قدم کے بعد سستانے اور کچھ پیٹ میں ڈالنے کے لیے توقف فرمائیں گے تاکہ تازہ دم ہو کر آگے بڑھیں۔ یعنی اگلے چالیس قدم ۔ مانا کہ خان صاحب میں اتنی پھرتی اور چلت پھرت نہ تھی کہ بڑھ کر دشمن پر حملہ کرسکیں لیکن ہنگامِ قتال اگر وہ اس پر صرف گر پڑتے تو وہ پانی نہ مانگتا۔ ہاتھ پاؤں مارے بغیر وہیں دم گھٹ کے ڈھیر ہوجاتا۔ کراچی اگاہی کے لیے تشریف لاتے تو کارتوسوں کی پیٹی نہیں باندھتے تھے۔ فرماتے تھے اس کے بغیر ہی کام چل جاتا ہے۔ سینے اور پیٹ پر پیٹی کے نشان سے ایک ڈایا گنل ( اریب لکیر ) بن گئی تھی جو دھڑ کو دو مساوی مثلثوں میں آڑا تقسیم کرتی تھی ۔ فرماتے تھے ، جہاں کوہستانی ہوائیں اور بندوق کی آواز نہ آئے وہاں مردوں کو نیند نہیں آتی۔
_____________________________________________
١ caricature : ہم اس کا ترجمہ مسخاکہ کریں گے یعنی مسخ خاکہ

ان کی کٹی ہوئی انگشتِ شہادت کا قصہ یہ ہے کہ ان کا لڑکپن تھا، لڑکوں میں لیمو نیڈ کی گولی والی بوتل کو انگلی سے کھولنے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ خان صاحب نے اس کی گولی پر انگشتِ شہادت رکھ کر دوسرے ہاتھ سے پوری طاقت سے مکا مارا جس سے فی الفور بوتل اور ہڈی ٹوٹ گئی۔ بوتل کی گردن ان کی انگلی میں منگنی کی انگوٹھی کی طرح پھنس کر رہ گئی۔ ہتھوڑے سے توڑنی پڑی۔ انگلی سیپٹک ہوگئی۔ دو ہفتے بعد کٹوانی پڑی۔ کلوروفارم سونگھنے کو وہ مردوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے لہذا بغیر کلورو فارم کے آپریشن کرایا۔ آپریشن سے پہلے کہا کہ میرے منہ پر کس کے ڈھاٹا باندھ دو۔
اپنی دانست میں کوئی بہت عالمانہ نکتہ بیان کرنا ہوتا تو بات میں وزن اور وقار پیدا کرنے کی غرض سے پہلے اپنی ٹھوڑی پر اس طرح ہاتھ پھیرتے گویا وہاں ٹیگور جیسی داڑھی ہے جو منت پذیر شانہ ہے۔ پھر نیم بریدہ انگشتِ شہادت سوئے فلک اٹھاتے اور پڑھنے کی عینک لگا کر جملہ شروع کرتے لیکن گمبھیر اور گنجلک جملے کے ادھ بیچ میں کوئی شوخ بات یا چنچل فقرہ اچانک ذہن میں کوند جاتا تو اسے ادا کرنے سے پہلے آنکھ مارتے اور آنکھ مارنے سے پہلے عینک اتار لیتے تاکہ دیکھنے والوں کو صاف نظر آئے۔
ان کی ہنسی کی تصویر کھینچنا بہت مشکل ہے یوں لگتا تھا جیسے وہ بڑے زور سے ایک لمبا قہقہہ لگانا چاہتے ہیں مگر بوجوہ اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجتا ان کے منھ سے بڑی دیر تک ایسی آواز نکلتی رہتیں جیسے بیٹری خلاص ہونے کے بعد کار کو بار بار سٹارٹ کرنے سے نکلتی ہیں ۔ ہنسنے سے پہلے بالعموم اپنی واسکٹ کے بٹن کھول دیتے تھے ، کہتے تھے پردیس مین روز روز کسے سے بٹن ٹکواؤں۔
شادی ایک ہی کی ۔ یک گیر و محکم گیر کے قائل تھے۔ بیوی نے عاجز آ کر کئی بار ان سے کہا کہ دوسری کر لو تاکہ اوروں کو بھی چانس ملے۔

لنگڑے کاکروچ سے شیخ سعدی تک

آپ چاہیں تو خان صاحب کو ان پڑھ کہہ سکتے ہیں مگر ان گھڑ یا جاہل ہرگز نہیں۔ رچی بسی طبیعت، بلا کی سُوجھ بوجھ اور نظر رکھتے تھے جو فوراً بات کی تہہ تک پہنچ جاتی تھی- صحیح معنوں میں شائستہ حیات تھے کہ انھوں نے انسان اور زندگی کو ہر رنگ میں سہا اور برتا تھا- کتاب کے مسخائینے 1 اور آرٹ کے آرائشی فریم میں نہیں دیکھا تھا- خود زندگی جو کچھ دکھاتی، سکھاتی اور پڑھاتی ہے وہ سیدھا دل پر رقم ہوتا ہے:


نظیر سیکھے سے علمِ رسمی بشرکی ہوتی ہیں چار آنکھیں
پڑھے سے جس کے ہوں لاکھہ آنکھیں وہ علم دل کی کتاب میں ہے

عرفی نے اپنے آپ کو"آموزگار خود" کہا تو کچھہ سوچ سمجھ کر ہی کہا تھا- خان صاحب مدرسئہ حیات کے منتہیوں اور فارغین میں سے تھے-
خان صاحب برسوں چیک پر انگوٹھا لگاتے رہے- لیکن جس دن اُن کا بینک بیلنس ایک لاکھ ہوگیا، اُنھوں نے اردو میں دستخط کرنے سیکھ لیے- فرماتے تھے، انگوٹھا لگا لگاکے سُود خور بینکوں سے اوور ڈرافٹ لینے میں تو کوئی حرج نہیں، پر حلال کی کمائی کی رقم سوچ سمجھ کر نکالنی چاہیے- دستخط کیا تھے، لگتا تھا کوئی لنگڑا کاکروچ دوات میں غسل کر کے کاغذ پر سے گزر گیا ہے- دستخط کے دوران ان کا ہاتھ ایسی توڑا مروڑی سے گزرتا اور ہر چھوٹا بڑا دائرہ بناتے وقت ان کے کھلے ہوئے منہ کی گولائی اس طرح گھٹی بڑھتی کہ ایک ہی دستخط کے بعد ان کے ہاتھ اور دیکھنے والے کی آنکھہ میں باؤٹا آ جاتا! اس زمانے میں خان صاحب کا اکاؤنٹ مسلم کمرشل بینک، چوک یادگار برانچ میں تھا، جہاں اردو میں دستخط کرنے والوں کو اسٹامپ کاغذ پر یہ توہین آمیز indemminty (ضمانت) دینی پڑتی تھی کہ اگران کے اکاؤنٹ جعلی دستخطوں کے سبب کوئی فراڈ ہو جائے تو بینک ذمہ دار نہ ہو گا- بلکہ اگر اس کے نتیجے میں بینک کو کوئی نقصان بالواسطہ یا بلاواسطہ پہنچے تو اُسے بھی وہی بھریں گے- خاں صاحب کو جب اس کا مطلب پشتو میں سمجھایا گیا تو مشتعل ہو گئے- اردو بولنے والے اکاؤنٹنٹ سے کہنے لگے کہ ایسی بیہودہ شرط ماننے والے کے لیے پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے، ہمارا دل بہت خفا ہے۔ بکتے جھکتے بینک کے منیجر مسٹر اے میکلین (جو راقم الحروف کا باس رہ چکا تھا) کے پاس احتجاج کرنے گئے- کہنے لگے کہ میرے دستخط اتنے خراب ہیں کہ کوئی تعلیم یافتہ آدمی بنا ہی نہیں سکتا- جب میں خود اپنے دستخط اتنی مصیبت سے کرتا ہوں تو دوسرا کیسے بنا سکتا ہے؟ آپ کے سٹاف میں دو درجن آدمی تو ہوں گے- سب کے سب شکل سے چور، اُچکّے اور نو سر باز لگتے ہیں۔
------------------------------------------
1 مسخائینہ: مسخ کرنے والا آئینہDistoring Mirror کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے-
----------------------

اگر ان میں سے کوئی میرے دستخط بنا کر دکھا دے تو فوراً ایک ہزار انعام دوں گا-پھر گولی سے اُڑا دوں گا- مسٹر میکلین نے کہا کہ میں بینک کے قوانین نہیں بدل سکتا- گرنڈ لیز بینک میں بھی یہی قاعدہ ہے- ہم نے سارے فارم اسی سے نقل کیے ہیں- نقل کیا، مکھی پہ مکھی ماری ہے- بلکہ اس فارم پر تو پرنٹر کی لا پروائی سے نام بھی گرنڈ لیز بینک ہی کا چَھپا ہے-خان! تم ورنا کیولر کے بجائے انگریزی میں دستخط کرنے سیکھ لو تو اس جھمیلے سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ اپنے حکم میں التجا کا رنگ پیدا کرنے کی غرض سے اُس نے خان صاحب چائے اور پیسٹری سے تواضع کی- بامتثالِ امر، خان صاحب دو مہینے تک انگریزی دستخطوں کی مشقق کرتے رہے- جب بالکل رواں اور پختہ ہو گئے تو چق اُٹھا کر سیدھے مسٹر میکلین کے کمرے میں داخل ہوئےاور روبرو دستخط کر کے دکھائے- وہ اس طرح کہ پہلے ہاتھہ اونچا کر کے چار پانچ دفعہ ہوا میں دستخط کیے اور پھر یکلخت کاغذ قلم پر رکھہ کر فراٹے سے دستخط کر دیے- اس نے ترنت ایک سلپ پر اکاؤنٹنٹ کو حکم دیا کہ ان کی انڈمنٹی منسوخ تصّور کی جائے- میں ان کے انگریزی دستخط کی جو انھوں نے میری موجودگی میں اس کارڈ پر کیے ہیں تصدیق کرتا ہوں-
ہوا صرف اتنا تھا کہ خان صاحب نے ان دو مہینوں میں اپنے اردو دستخط کو دائیں سے بائیں کرنے کے بجائے بائیں سے دائیں کرنے کی مشق و مہارت بہم پہنچائی جس کے دوران نقطے اور مرکز غائب ہو گئے- مسٹر میکلین کے سامنے انھوں نے یہی دستخط بائیں سے دائیں کیے اور تمام عمر اسی انگلش روش پر قائم رہے- چیک اور کاروباری کاغذات پر اسی طرح دستخط کرتے- لیکن اگر کسی دوست یا رشتہ دار کو خط لکھواتے یا کوئی حلف نامہ داخل کرواتے جس میں سچ بولنا ضروری ہو تو آخر میں اردو میں دستخط کرتے- مطلب یہ کہ قلم دائیں سے بائیں چلتا-خان صاحب کو دستخط کرنے کے فن پر اب اتنی قدرت حاصل ہو گئی تھی اگر جاپانی میں دستخط کرنے کے لیے کہا جاتا تو وہ اسی لیٹے ہوئے کاکروچ کو مونچھیں پکڑ کے سر کے بل کھڑا کر دیتے-
خان صاحب کو کبھی بعجلت اتمام حجت کرنا مقصود ہوتا، یا مخالف و مخاطب کو محض بوجھوں مارنا ہوتا تو فرماتے کہ شیخ سعدی نے فرمایا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے تمام زریں و غیر زریں اقوال سے شیخ سعدی کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے- ہمیں یقین ہے کہ شیخ سعدی اگر ان اقوال کو سُن لیتے تو وہ خود بھی دستبردار ہو جاتے-
بات کتنی ہی غیر متعلق اور چھوٹی سی ہو، خان صاحب اس کی پچ میں بڑے سے بڑا نقصان اٹھا کے لیے تیار رہتے تھے۔
 
در گزراور سمجھوتے کو اُنھوں نے ہمیشہ شیوہ مردانگی کے خلاف جانا۔ اکثر فرماتے تھے کہ جو شخص خون خرابہ ہونے سے پہلے ہی سمجھوتہ کر لے، اُس کے لیے پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے- اس خرخشے کے بعد بشارت کو ایک مرتبہ بنّوں میں ان کے آبائی گاؤں میں ٹھہرنے کا اتفّاق ہوا- دیکھا کہ خان صاحب کسی گھمسان کے بحث مباحثے میں جیت جاتے یا کسی خوشگوار واقعے پر بہت خوش ہوتے تو فوراً باہر جا کر گھوڑے پر چڑھہ جاتے اور اپنے کسی دشمن کے گھر کا چکر لگا کر واپس آ جاتے- پھر ملازم سے اپنے سر پر ایک آفتابہ ٹھنڈے پانی کا ڈلواتے کہ غرور اللہ کو پسند نہیں-

خان صاحب نے اپنے حال پر مگر مچھہ کے آنسو بہائے

خان صاحب دن میں دو تین مرتبہ بشارت کو یہ دھمکی ضرور دیتے کہ "ایک پائی بھی نہیں چھوڑوں گا- خواہ مجھے ایک سال تمہارے ہاں مہمان رہنا پڑے-" وقتاً فوقتاً یہ بھی کان میں ڈالتے رہتے کہ قبائلی آدابِ میزبانی کے تقاضے کچھہ اور ہیں- اگر آپ عزیز مہمان سے یہ پوچھ بیٹھیں کہ تم کب جاؤ گے اور اس پر وہ آپ کا خون نہ کر دے تو اس کی شرافت، پختو1 اور ولدیت میں شبہ ہو گا-
صبح سے شام تک دونوں بارہ سنگھے اپنے سینگ پھنسائے پھنکاریں مارتے رہتے - خوش معاملگی کا واسطہ، بیوپار بیوہار کی رِیت رسم، رحم کی اپیل اور ایک دوسرے کو ظلم اور دھاندلی سے باز رکھنے کی وارننگ کے علاوہ کوئی اوچھا ہتھیار نہ تھا جو اس جھگڑے میں بے دریغ استعمال نہ کیا گیا ہو- مثلاً خان صاحب اپنے بے پڑھے لکھے ہونے کا واسطہ دیتے- جواب میں بشارت خود کو دیدہ عبرت نگاہ سے دکھواتے کہ میں شاعر ہوں- بی اے ہوں- فارسی پڑھی ہے اور لکڑی بیچ رہا ہوں! خان صاحب اپنے بزنس میں گھاٹے کا ذکر کرتے تو بشارت کہتے، ارے صاحب یہاں تو سرے سے بزنس ہی نہیں- گرہ کا کھا رہے ہیں- بشارت تو خیر بیوہ میم کے ساتھہ اپنی فرضی مسکینی، کثیرالاولادی اور اور مفلوک الحالی کا ریہرسل کر چکے تھے، لیکن خان صاحب بھی بوقتِ ضرورت اپنے حال پر مگر مچھہ کے آنسو بہا سکتے تھے- ایک دن تو ان کی ایکٹنگ اتنی مکمل تھی کہ سیدھی آنکھہ سے ایک سچ مچ کا آنسو
----------------------
1 پختو: غیرت- آن
-----------------------
سری لنکا کے نقشے کی طرح لٹک رہا تھا- سائز بھی وہی- ایک دفعہ خان صاحب نے اپنی فرضی مظلومیت کا تُرپ پھینکا کہ میرے حصّے کی نصف زمینوں پر چچا نے نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے- بشارت نے اس کو اس طرح کاٹا کہ اپنے پیٹ کے السر پر ہاتھہ رکھہ کر حلفیہ کہا کہ وہ اتنی ہی مدّت سے ضعفِ معدہ میں مبتلا ہیں- غذا نہیں پچتی- پیٹ میں دوا اور ہوا تک نہیں ٹھہرتی- خان صاحب بولے، اوہوہو! پچاس سال سے پیٹ خراب ہے- آپ تو پوتڑوں کے مریض نکلے! ویسے ان چونچوں میں بالعموم بشارت ہی کا پلّہ بھاری رہتا- لیکن ایک دن جب خان صاحب نے نیم آبدیدہ1 ہو کر کہا کہ میرے تو والد بھی فوت ہوچکے ہیں تو بشارت کو اپنے بزرگوار پر بہت غصّہ آیا کہ انھیں بھی اسی وقت جینا تھا-
لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید صرف سچائی ہوتی ہے
خان صاحب کسی طرح رقم چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے- بشارت نے عاجز آ کر یہاں تک کہا کہ کون صحیح ہے، کون غلط، اس کو بھول جائیے- یہ دیکھیے کہ آپ کا ہمارا بیوپار بیوہار آئندہ بھی رہے گا- پھر کبھی کسر نکال لیجیے گا- خدا نخواستہ یہ آخری سَودا تو ہے نہیں- اس پرخان صاحب بولے کہ خان سنگِ مرجان خان نے مجھے نصیحت کی تھی کہ دوست سے ملو تو اس طرح ملو جیسے آخری ملاقات ہے- اب کے بچھڑے پھر نہیں ملیں گے- اور کسی سے سَودا کرو تو یہ سمجھہ کے کرو کہ آخری سَودا ہے- دوبارہ یہ "دلا" نہیں آنے کا! شیخ سعدی کہتے ہیں کہ باؤلے سے باولا کتّا بھی یہ اُمید نہیں رکھہ سکتا کہ جسے اُس نے کاٹا ہے وہ خود کو پھر کٹوانے کے لیے دوبارہ سہ بارہ آئے گا-
ایک دفعہ بشارت کا لہجہ کچھہ تلخ ہو گیا اور اُنھوں نے بار بار" خان صاحب ! خان صاحب " کہہ کر لعن طعن کی تو کہنے لگے، دیکھو صیب! گالی گُفتار کرنی ہے تو مجھے خان صاحب مت کہو- حاجی صاحب کہہ کے گالی دو،تاکہ مجھے اور تمہیں دونوں کو کچھ غیرت تو آئے-
بشارت نے اُن کے گلے میں بانہیں ڈال کر پیشانی چوم لی-

عرب پتی اور کراچی کی پانچ سوغاتیں

ڈوبی ہوئی رقموں کی وصولی کے سلسلے میں کراچی کے پھیروں نے خان صاحب کو ہفت زبان بنا دیا تھا- ہمارا مطلب ہے اردو، فارسی اور گجراتی کے علاوہ چاروں علاقائی زبانوں میں رَوانی سے
----------------------------
1 نیم آبدیدہ اس لیے کہ اُن کی دوسری آنکھہ مسکرا رہی تھی
 
صفحہ 204-205

گالی دے سکتے تھے- حتی الدشنام، اپنے معتوب کے درجات اُسی کی مادری زبان میں بلند کرتے- البتہ کہیں عجزوبیان یا جھول محسوس فرماتے یا مخاطب زیادہ بے حیا ہوتا تو آخر میں اُس کے تابوت میں پشتو کی میخ ایسی ٹھونکتے کہ کئی پُشتوں کے آرپار ہوجاتی- اس میں شک نہیں کہ جیسی کوک شاستر گالیاں ہمارے ہاں رائج ہیں، ان کے سامنے انگریزی اور دیگر زبانوں کی گالیاں پھولوں کی چھڑیاں اور بچّوں کی غاؤں غاؤں معلوم ہوتی ہیں ان سے کچّے دودھہ کی بُو آتی ہے- آرکے نرائن کے ناول انگلینڈ اور امریکہ کے پڑھنے والوں کے لیے جو خاص دلکشی رکھتے ہیں،اس میں ان دیسی گالیوں کو بھی دخل ہے جن کا وہ انگریزی میں لفظی ترجمہ کر کے ڈائیلاگ میں بارودی سُرنگیں بچھاتا چلا جاتا ہے- ہماری گالیوں میں جو ندرتِ بیان، زور آوری، جغرافیائی تصویر کشی اور جنسی آرزو مندی کوٹ کوٹ کر، بلکہ ثابت وسالم بھری ہے اس کا صحیح اندازہ ہمیں 1975 میں دبئی میں ہوا- وہاں کے گلّے داری برادران کا شمار عرب امارت اور مشرقِ وسطی کے ارب پتیوں میں ہوتا تھا- بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ امیر ترین ارب پتیوں میں ہوتا تھا، کیوں کہ ارب پتی تو وہاں سبھی ہوتے ہیں-اسی لیے ہماری تجویز ہے کہ ارب پتی کا املا بدل کر عرب پتی کر دینا چاہیے-عبدالوہاب گلّہ داری اور عبداللطیف گلّہ داری جو عرب ہیں اور جن کی مادری زبان عربی ہے، بہتر تعلیم اور بدتر تربیت کے سلسلے میں کچھہ عرصے کراچی رہ چکے ہیں- ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ وہ کسی سے خفا ہوتے ہیں، یا کسی عرب سے اُن کا جھگڑا ہوتا ہے----- اور کوئی عرب ایسا نہیں ہے جس سے ان کا جھگڑا نہ ہوا ہو----- تو عربی بولتے بولتے اردو میں گالی دینے لگتے ہہیں جو عربی کے مقدّس سیاق و سباق میں اور بھی غلیظ لگتی ہے- وہ پہلے عرب ہیں جو بیک وقت ع، ح، ض، ڈ، ٹھہ اور ڑ صحیح مخرج سے ادا کرتے ہیں- عبداللطیف گلّہ داری کا قول ہے کہ کراچی کی پانچ چیزوں کا کم از کم اس دنیا میں تو جواب نہیں- جڑاؤ زیورات، قوّالی، بریانی، گالی اورعود کا عطر- 1983 ء میں جب ان کا بینک بزنس کا دوالا نکلا تو زیور، قوّالی، بریانی اور عود کا عطر تو دشمنوں کے حصّے میں آ گئے- اب صرف پانچویں چیز پر گزارا ہے- سو اس دولتِ دشنام کو زوال نہیں- جتنی دیتے ہیں لوگ اس کی سات گنی لوٹا دیتے ہیں-
کباب پراٹھے اور وسیع حلقئہ دشمنی
خان صاحب مخلص، مجلسی اور محبتی آدمی تھے- بحث میں کتنی ہی گرما گرمی ہو جائے، دل میں ذرا میل نہیں رکھتے تھے- مذاق مذاق میں دوستوں کو چھیڑنے اور طیش دلانے میں انھیں بڑا مزہ آتا- ناشتے میں تین ترتراتے پراٹھے اور شامی کباب کھاتے اور لسّی کے دو گلاس پینے کے بعد دن بھر غنودگی کے عالم میں نیم باز آنکھوں سے دنیا اور اہلِ دینا کو دیکھتے رہتے- یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آنکھوں کو محض چشم پوشی کے لیے استعمال کرتے اور کٹ حجتی کا جواب جماہی اور ڈکار سے دیتے- ایسے غشی آور ناشتے کے بعد آدمی مراقبہ کر سکتا ہے- البسٹریکٹ پینٹنگ کر سکتا ہے- اسٹریم آف کانشس نیس والا ناول لکھہ سکتا ہے- حکومت کا پنج سالہ منصوبہ بنا سکتا ہے- لیکن دماغی کام نہیں کر سکتا- نہ ڈھنگ سے بحثا بحثی کر سکتا ہے- خان صاحب کو دوسرے دن یہ یاد نہیں رہتا کہ کل کیا کہا تھا- لہٰذا ازسرِ حجت کا آغاز کرتے- گویا اس سے پہلے اس مسئلے پر کبھی بات ہی نہیں ہوئی- فیض کے دلآویز مصرعے میں"اُلفت" کی جگہ حجت جڑ دیں تو ان کے طریقہ واردات پر صادق آتا ہے:

وہ جب ملے تو اُن سے ہر بار کی ہے"حجت" نئے سِرے سے

کسی سے زیادہ دیر خفا یا کبیدہ خاطر نہیں رہ سکتے تھے- شاعری سے تنفّر کے باوجود اکثر یہ بیت پڑھتے، مگر بعض لفظوں کو اتنا کھینچ کر یا سُکیڑ کر پڑھتے کہ مصرع وزن اور بحر سے خارج ہو کر نثر بن جاتا:


انسان کو انسان سے کینہ نہیں اچھا
جس سینے میں کینہ ہو وہ سینہ نہیں اچھا

اور اس پر اضافہ یہ فرماتے ہیں کہ مُسلمان سے کینہ رکھنا اُس پر ظلم ہے- اس سے تو بہتر ہے کہ اُسے قتل کر دیا جائے- یہ بھی فخریہ فرماتے کہ ہم تو آزاد قبائلی آدمی ہیں- اردو تو ہم نے ڈوبی یوئی "رقوماتوں" کی وصولی کے لیے، کراچی کے بیوپاریوں سے لڑائی دنگے کے دوران سیکھہ لی ہے- چنانچہ ان کی ساری Vocabulary (لفظیات) حالتِ امن میں بالکل نکمّی اور ناکارہ ہو جاتی تھی- رانا سانگا کے جسم کی طرح ان کی لڑاکا اردو پر بھی 72 زخموں کے نشان تھے- ان کی اردو کا تجزیہ کرنے سے پتا چلتا تھا کہ کہاں کہاں کے اور کس کس صوبے کے آدمی نے ان کی رقم دبائی ہے اور

کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی

ان کی زبان سے گجراتی، حیدرآبادی اور دلّی کی کرختداری زبان کے ٹھیٹ الفاظ سُن کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے حلقئہ تکراروتصادم کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔
 
لوک لہجہ
خان صاحب کے رابطے اور مچیٹے کی زبان پر تو خیر نادہندوں کی چھاپ تھی، لیکن بولتے اپنے ہی کھرے، کھنکتے پشتون لہجے میں تھے جو کانوں کو بھلا لگتا تھا- اس کے مقابلے میں بشارت کو اپنا لہجہ بالکل سپاٹ اور بے نمک لگا- پشتون اردو لہجے میں ایک تنگ ایجاد اور تند و تیز مہکار ہے جو کسی مکھم اور ذومعنی بات کی روا دار نہیں- یہ کوندتا، للکارتا لہجہ مشکوک سرگوشیوں کا لہجہ نہیں ہو سکتا- اسی طرح پنجابی اردو لہجے میں ایک کشادگی، گرم جوشی اور گھلاوٹ کا احساس ہوتا ہے- اس میں میدانی دریاؤں کا پاٹ دار اور دھیرج اور دل دریا پار کَمک ہے- اور سہج سہج راستہ بنانے کے لیے اپنی لہری کگر کاٹ پر پورا اعتماد- بلوچ لہجے میں ایک ہوک سی، ایک ہمکتی پہاڑی گونج اور دل آویز خشمگیں کیفیت کے علاوہ ایک چوکنّا پن بھی ہے جو سنگلاخ کوہ اور دشتِ بے آب اپنے آزادوں کو بخش دیتے ہیں- سندھی اردو لہجہ، لہراتا لیریکل (Lyrical) لہجہ ہے- ایک للک، ایک مہران موج جو اپنے آپ کو چوم چوم کر آگے بڑھتی ہے- اردو کے علاقائی لہجوں میں وہ لوک ٹھاٹ، مٹھاس اور رَس جَس ہے جِس کا ہمارے گھسے پٹے ٹکسالی اور شہری لہجے میں دور دور شائبہ نہیں ملتا- لوک لہجے کی آمیزش سے جو نیا اردو لہجہ اُبھرا ہے اس میں بڑی توانائی، تازگی، لوچ اور سمائی ہے-

بھرے ہیں یہاں چار سمتوں سے دریا


شہرِ آشوب اور نیاز مندانِ بنّوں

بحث و تکرار کے انٹرول میں خان صاحب پیدل سیر کو نکل جاتے- کوہاٹ اور بنّوں کے دس پندرہ نیاز مند جو سارے دن واسکٹوں میں پستول رکھے، باہر انتظار میں بیٹھے ہوتے، ان کی اردلی میں چلتے- یہ خان صاحب کی حواری اور مصاحب تو تھے ہی، کمانڈوز بھی تھے جو اُن کی کٹی ہوئی انگلی کے نصف اشارے پر اپنی کمر بارود باندھہ کر آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے کے لیے تیار رہتے تھے- خان صاحب نے ان کے لیٹنے بیٹھنے اور تواضع کے لیے باہر تین چار پائیاں اور ایک کابلی سماوار رکھوا دیا تھا- اس میں دن بھر چائے اونٹتی رہتی، جس کے اخراج کے لیے بشارت کو ٹین کی نالی دار چادروں کا ایک عارضی کاکوس (ٹائلٹ) بنوانا پڑا- اس میں وہ استعمال شدہ بلاٹنگ پیپر رکھوادیتے تھے- لوگوں نے کراچی کی کچی روشنائی کی شکایت کی تو اُنھوں نے گزشتہ دن کا ایک اخبار رکھوانا شروع کر دیاجو پر حکومتِ وقت کا طرف دار رہا تھا-اب یہ ٹائلٹ پیپر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا- اس میں کم از کم اخبار کے ساتھہ زیادتی نہیں تھی- دب بھر گپیں، چہلیں اور وزن اُٹھانے کے مقابلے ہوتے رہتے- جوان اپنے روز گار، کھیل کود، مہنگائی، سنیما، کھانے پینے اور نشانہ بازی کی باتیں کرتے- جب کہ ادھیڑ عمر والے زیادہ چینی کی چائے اور فحش لطیفوں سے خود کو ری چارج کرتے رہتے- دونوں کی گرمی سے گھڑی بھر کے لیے گلابی بڑھاپے کی ٹھر دور ہو جاتی تو ٹھرک1 سر پہ چڑھہ کے ایسی دوانی باتیں کرنے لگتے کہ جوان سُن کے شرما جاتے- جس کی مونچھہ میں جتنے زیادہ سفید بال ہوتے، یا کمر جتنی زیادہ خمیدہ ہوتی، اس کا لطیفہ اتنا ہی دورمار اور سہ آتشہ ہوتا- اس پر مرزا نے ایک دفعہ پھبتی کسی

کماں چنداں کہ خم گردد خند کش تیز تر گردد2

خان صاحب کو کبھی کوئی زیادہ ہی لذیذ حکایت سُنانی ہوتی تو کلّے میں گُڑ یا مصری کی ڈلی دبا کر سی سی کرتے ہوئے چائے پیتے جاتے- جھومتے ہوئے فرماتے، یارا جی! سمر قند اور فرغانہ میں اسی طرح پی جاتی ہے-
فرصت کا تمام وقت خان صاحب کراچی اور کراچی والوں کو دیکھنے اور جو کچھہ دیکھتے اس پر لاحول پڑھنے اور پڑھوانے میں گزارتے- فرماتے تھے "کراچی میں سانس لینے کے لیے بھی ذاتی کوشش کرنی پڑتی ہے- قبائلی علاقے کی ہوا ہلکی اور شفاف ہوتی ہے- خود بخود گولی کی طرح اندر داخل ہو جاتی ہے، خصوصاً جاڑے میں- صبح کراچی ریڈیو کہہ رہا تھا کہ ہوا میں رطوبت کا تناسب 90 فی صد ہے- اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی کے دودھہ والے ہوا میں صرف دس فی صد دودھہ ملا کر دودھہ بنا لیتے ہیں- آپ جن موقعوں پر نعرے، شعر اور وظیفے کا ورد کرنے لگتے ہیں وہاں ہم ٹھائیں سے گولی مار دیتے ہیں- میں اتنے دن سے یہاں ہوں، شہر میں ایک آدمی کے ہاتھہ میں بندوق نہیں دیکھی- ہمارے یہاں تو نکاح کے وقت بھی پستول ساتھہ رکھتے ہیں کہ پتا نہیں مہر پر گولی کی نوبت آجائے- بعضی دُلہن کا والد اوررشتے دار ایک دم خبیث، خسیس اور دیوث نکلتاہے- میں تو احتیاطاً چھوٹی مشینگن لے گیا تھا- اس سے میرے ماموں نے 1937ء میں خیسورہ کےنزدیک کاطوری خیل علاقے میں ایک پہاڑی کھوہ کی کمیں گاہ سے تین گورے مار گرائے تھے، جن میں ایک کپتان
--------------------------------

1 ٹھرک: (پنجابی) "معذور ہوس کی آنکھوں میں دم تو ہے" والی منزل- ہوکا- ہُڑک اُٹھنا

2 کمان جتنی زیادہ خمیدہ ہوگی اُس کا تیر اُتنا زیادہ ہی تیز جائے گا-
 
تھا- اُس کی صورت بُل ڈاگ جیسی تھی- اُس خنزیر کے بچّے نے فقیرا ہپی کے بے شمار مرید شہید کیے تھے- ماموں نے اُس کے ناک اور کان کاٹ کر چیل کوؤں کو کھلا دی - دوسرے گورے کی جیب سے جو معمولی سپاہی تھا اُس کی خمیدہ کمر ضعیف ماں اور ایک سال کی بڑی پیاری سی بچّی کے فوٹو نکلے- بچّی کے ہاتھہ میں گُڑیا تھی- فوٹو دیکھہ کر میرا ماموں بہت رویا- لاش کے ہاتھہ پر سے جو سونے کی گھڑی اُس نے اُتار لی تھی وہ واپس باندھہ دی- میّت کو سائے میں کر کے واپس جا رہاتھا کہ چند قدم بعد کچھہ خیال آیا- وہ پلٹا اور اپنی چادر اُتار کر اُس پر ڈال دی-
"تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں ماموں کی مشین گن سے مسلح ہو کر گیا تھا- سوائے بچّوں، قاضی اور نائی کے اورکوئی نہتا نہیں تھا- عین نکاح کے وقت لڑکی والے پسر گئے- کہنے لگے مہر ایک لاکھہ کا ہو گا-اس پر ماموں جھگڑا کرنے لگا-وہ شرعی مہر یعنی پونے تین روپے بھر چاندی پر مُصر تھا، جس کے تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے سکّہ رائج الوقت بنتے تھے- قبیلے کے ایک دانا بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کچھہ لڑکی والے کم کریں، کچھہ لڑکے والے مہر بڑھائیں- دونوں فریق درمیانی اوسط رقم پہ سمجھوتا کر لیں- اس پر ایک دوسرا دانا بولا، سردار! ہوش کرو- تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے اور ایک لاکھہ کے درمیان کوئی اوسط رقم نہیں ہوتی- ایسے میں اوسط تلوار سے نکلتا ہے-"
"راڑزولا بڑھا تو میں نے سہرا ہٹا کر بآوازِ بلند کہا، میں تو پانچ لاکھہ کا مہر باندھوں گا- اس سے کم میں میرے خاندان کی توہین ہوگی- یہ سُن کر ماموں سنّاٹے میں آگیا- میرے کان میں کہنے لگا، کیا تو آج پوست پی کے آیا ہے؟ پانچ لاکھہ میں تو کلکتے کی گوہر جان اور ایک سو ایک رنڈیوں کا ناچ ہو سکتا ہے، میں نے کہا، ماموں! تو بیچ میں مت بول- تو نے زندگی میں بائیں آنکھہ میچ کر، دائیں آنکھہ سے رائفل کی شست باندھہ کر فقط اپنے دشمن کو دیکھا ہے- یا پھر کلدارروپوں پر کوئن وکٹوریہ کا چہرہ دیکھا ہے- تو نے دنیا نہیں دیکھی- نہ تجھے مردوں کی ‘پختو‘ کا کچھہ خیال ہے- اگر مجھے نادہند ہی ہونا ہے تو بڑی رقم ماروں گا- چھوٹی چھوٹی رقم مارنا رذیلوں اور دیوثوں کا کام ہے-"
مجھے آئے ہوئے اتنے دن ہو گئے، کراچی میں ایک بھی دنگا فساد نہیں ہوا-1 کیا یہاں رشتے دار نہیں رہتے؟ کیا یہاں سب ایک دوسرے کو یتیم، لاوارث سمجھہ کے معاف کر دیتے ہیں؟ پرسوں کا واقعہ ہے- میں ایک دوست سے ملنے لانڈھی گیا- بس کنڈیکٹر نے میری ریزگاری نہیں لوٹائی- میں نے اُترتے وقت گالی دی تو سُنی ان سُنی کر گیا- میں نے دل میں کہا، بد نختا میں نے گالی دی ہے۔
------------------------
1 یہ بات پُرانی ہوئی- افسوس! کراچی کو اپنی ہی نظر لگ گئی--------------------------------------------------
نصیحت تو نہیں کی جو یوں ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دی-"
اس لطیفے کے بعد بڑی دیر تک ان کے حلق سے کمزور بیٹری والی کار کو بار بار سٹارٹ کرنے کی آوازیں نکلتی رہیں اور جسم جیلی کی طرح تھلتھلاتا رہا-
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ خان صاحب کو کراچی قطعاً پسند نہیں آیا- فرماتے تھے، کراچی میں اگر کراچی والے نہ ہوں اور سمندر ڈیڑھہ دو میل پرے ہٹ جائے تو ٹرک اور گھڑے دوڑانے کے لیے یہ شہر برا نہیں- کراچی کے کچھہ حصّے انھیں بےحد پسند آئے- یہ کچی بستیوں کے وہ علاقے تھے جو تحصیل کوہاٹ سے مشابہت رکھتے تھے جہاں ایک زمانے میں اُن کی جوانی نے، بقول ان کے، پوری تحصیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا-

اے گُل بتولُز سندم تو بوئے کسے واری

یار زندہ فضیحت باقی

بشارت اور خان صاحب کے مابین حجت وتکرار صرف میں دفتری اوقات میں یعنی نوسے پانچ بجے تک ہوتی، جو ہار جیت کا فیصلہ ہوئے بغیر کل تک لیے ملتوی ہو جاتی، تاکہ تازہ دَم ہو کر لڑ سکیں-

صلح ہے اک مہلتِ سامانِ جنگ
کرتے ہیں بھرنے کو یاں خالی تفنگ

سُنا ہے اگلے وقتوں میں پڑوسنیں اسی طرح لڑتی تھیں- لڑتے لڑتے گلا بیٹھہ جاتا اور شام پڑتے ہی وہ مرد گھر لوٹنے لگتے جو دن بھر معرضِ دشنام میں آیا کیے تو دونوں مکانوں کی سرحد یعنی مشترکہ دیوار پر ایک ہانڈی اُلٹی کر کے رکھہ دی جاتی تھی، جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اندھیرے کے سبب عارضی دشنام بندی ہو گئی ہے- کل پھر ہو گی- بات یہ ہے کہ جب تک فریق کا چہرہ نظر نہ آئے، گالی میں third dimension (ابعادِ ثلاثی) پیدا نہیں ہوتی- جس دکان میں ہمہ وقت جھگڑے اور دنگل کا سماں ہو اور باہر ایک فریق کے دس پندرہ مسٹنڈے حمایتی سماوار کے گرد پڑاؤ ڈالے ہوں، اس کے گاہک بدکیں نہیں تو اور کیا کریں- بقول ہمارے اُستادِ اوّل، مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے، جن کے"ریڈر" سے ہم نے دفاع اور آداب کا پہلا سبق سیکھا:

جب کہ دو موڈیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
 
کوئی گاہک مارے باندھے ٹھہر بھی جاتا تو خان صاحب اس کے سامنے اپنی ڈوبی ہوئی رقم کو اس طرح یاد کرتے کہ وہ حسبِ توفیق خوف زدہ یا آبدیدہ ہو کر بھاگ جاتا-بحثا بحثی کا اثر خان صاحب کی تندرستی پر نہایت خوشگوار ثابت ہوا- ان کی زبان اور اشتہا روز بروز کھلتی جا رہی تھی- وہ کسی طور لکڑی کی قیمت کم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے- اس لیے کہ انھیں‌ گھر میں اتنے ہی کی پڑی تھی- ادھر بشارت بار بار کہتے کہ " اوّل، لکڑی داغی اور کَٹھل تھی- اس پر تیز سے تیز آری کَٹھل ہو گئی- دوم، سیزن بھی نہیں ہوئی تھی- کئی تختوں میں بَل آگیا تھا- کوئی بے داغ نہیں نکلا- سوم، چھچت1 بہت ہوئی- چہارم، جگہ جگہ کیڑا لگا ہوا تھا-"
خان صاحب نے لقمہ دیا " پنجم یہ لکڑی چوری ہو گئی- یہ بھی میرا ہی قصور ہے- ششم یہ کہ ہم نے آپ کو لکڑی دی تھی- لڑکی تو نہیں دی کہ آپ اُس کے جہیز میں ہزار کیڑے نکالنے بیٹھہ جائیں- آپ تو پان کھا کھا کے بالکل زنانیون کی طرح لڑنے لگتے ہیں- بشارت نے " زنانوں" سُنا اور سمجھا- تڑ سے جواب دیا "آپ بھی تو کابلی والا سے کم نہیں-"
"یہ کیا ہوتا ہے صیب؟"
بشارت نے کابلی والا کا مطلب بتایا تو وہ غضب ناک ہو گئے- کہنے لگے "ہمارے قبیلے میں آج تک کسی نے سُود لیا نہ سُود دیا- خنزیر برابر سمجھتے ہیں- جب کہ آپ علانیہ سُود دیتے بھی ہیں اور کھاتے بھی ہیں- آپ کے گھر کا تو شوربہ بھی حرام ہے- اس میں آدھا پانی، آدھی مرچیں اور آدھا سُود ہوتا ہے! اگر آئندہ یہ لفظ منہ سے نکالا تو ٹھیک نہ ہو گا-"
یہ کہہ کر عالمِ غیظ میں میز پر اتنے زور سے مکّا مارا کہ اس پر رکھے ہوئے کپ، چمچے، پن اور تلے ہوئے مٹر ہوا میں ایک ایک بالشت اونچے اُچھلےاور میز پر رکھے ہوئے ٹائم پیس کا الارم بجنے لگا- پھر اُنھوں نے منہ سے تو کچھہ نہیں کہا، ٹرکش کوٹ کی جیب سے بھرا ہوا ریوالور نکال کر میز پر رکھہ دیا- مگر تھوڑی دیر بعد نال کا رُخ پھیر کر اپنی طرف کر لیا- بشارت سہم گئے- ان کی سمجھہ میں نہیں آرہا تھا کہ زہر میں بجھے ہوئے اس تیر کو جو نہ صرف کمان سے نکل چکا تھا، بلکہ مہمانِ عزیز کے سینے میں ترازو ہو چکا تھا، اب کیسے واپس لائیں- خان صاحب نے اسی وقت اپنے ایک کمانڈو کو حکم دیا کہ فوراً جا کر پشاور کا ٹکٹ لاؤ- دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا- بشارت منّت سماجت کرتے رہے- خان صاحب بار بار بپھر کر دفتر سے باہر جاتے مگر اس
---------------------------------
1 چھچت: کاٹ چھانٹ یا لادنے اور اُتارنے سے مال میں کمی واقع ہونا-

------------------------------------------

انداز سے کہ ہر قدم پر

مڑ کے تکتے تھے کہ اب کوئی منا کر لے جائے

بشارت نے چار بجے اُن کے پیر پکڑ لیے تو وہ گھر چلنے کے لیے اس شرط پر رضا مند ہوئے کہ پہلے اپنے ہاتھہ سے مجھے پان کھلاؤ!
لیکن اس کے بعد خان صاحب کے رویّے میں ایک خوشگوار تبدیلی آ گئی- بشارت تو خیر اپنے کہے پر نادم تھے ہی، بلکہ انگریزی محاورے کے مطابق اپنے ہی عرق میں غرق ہوئے جا رہے تھے لیکن خان صاحب بھی اپنے شدید ردّعمل پر کچھہ کم خجل نہ تھے- طرح طرح سے تلافی اور اشک شوئی کی کوشش کرتے- مثلاً بشارت کبھی اداس یا مضمحل نظر آتے یا گھمسان کی بحث میں اچانک ایسے بزدلانہ طریقے سے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتےکہ خان صاحب ڈان کیوٹے کی طرح اکیلے ہوا میں تلوار چلاتے رہ جاتے، تو ایسے موقعے پر وہ ایک ادائے دلنوازی سے کہتے "حضورِ والا! کابلی والا بعد ادائے آداب کے عرض کرتا ہے ہے کہ پان کی طلب ہو رہی ہے۔ پان کھلائیے-" اُنھوں نے اس سے پہلے پان کبھی چکھا بھی نہیں تھا- بشارت ندامت سے زمین میں گڑ جاتے- کبھی قدرے کھسیانے، کبھی mock-serious انداز (استہزائیہ سنجیدگی) سے ہاتھہ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے، کبھی گھٹنے چھوتے- اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ خان صاحب ان کے ہاتھہ چوم کر آنکھوں سے لگا لیتے-


پلنگ زیب خاں


شام کو وہ کھلے صحن میں پلنگ بچھوا کر اس پر مچھر دانی لگواتے- کچھہ دنوں سے کرسی پر بیٹھنا چھوڑ دیا تھا- بشارت سے کہتے تھے کہ تم نے مہمان کی شلوار کے لیے کرسیوں کی کیلوں کو ننگا کر رکھا ہے- اپنے پلنگ سے مؤدب فاصلے پر ملاقاتیوں کے بیٹھنے کے لیے چار چارپائیاں مع مچھر دانی بچھواتے- فرماتے تھے کہ اگر فرنٹیر کے بچھوؤں کے پر لگ جائیں تو کراچی کے مچھر بن جائیں گے- ساری گفتگو اور بحث مباحثے مچھر دانیوں کے اندر بیٹھے بیٹھے ہوتے- البتہ کسی کو دورانِ تقریر جوش
 
آجاتا تو وہ مچھر دانی اس طرح ہٹاتا جیسے دولہا نکاح کے بعد سہرا اُلٹ دیتا ہے-کراچی کی دور دراز بستیوں سے ان کے پٹھان دوست، گرائیں اور معتقدین جوق در جوق ملنے آتے- اُن کی خاطر تواضع اس طرح کرتے گویا یہ سب کچھہ اپنے ہی حجرے میں ہو رہا ہے- رات گئے تک تام چینی کی چیچک زدہ چینکیں اور حقّے گردش میں رہتے- چائے کے رسیا اونٹتی چورا چائے میں مردان کے گڑ کے علاوہ خشخاش کا چورا بھی ڈلواتے- جو بھی آتا خان صاحب کے لیے کچھہ نہ کچھہ نذرضرور لاتا- اخروٹ، چلغوزے، پشاور کے کالے گلاب جامن، شہد کے چھتّے، تلا گنگ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کا سفید تمباکو، قراقلی اور جوان اصیل1 مرغ جنھیں خان صاحب بڑی رغبت سے کھاتے تھے- دن بھر گھر میں درجنوں اصیل مُرغ چھپتے پھرتے-سرخ سیمنٹ کے فرش پر سبز بیٹ اور بھی کَھلتی تھی- (کَھلتی کو زیر کے ساتھہ پڑھیں تب بھی مزہ دے گی) جو مُرغ بے وقت یا زیادہ سے زیادہ اذان دیتا، اُسے خان صاحب سب سے پہلے ذبح کرتے- صبح جب سب مُرغ با جماعت اذان دیتے تو سارے محلّے کو کلغی پہ اُٹھا لیتے- ایک دن ایک مہمند نوجوان غلطی سے مُرغی دے گیا- اُس دن مُرغ آپس میں بڑی خونخواری سے لڑے- یہ پہلا موقعہ تھا کہ مُرغ کسی واضح اور معقول مقصد کی خاطر لڑے، ورنہ روزانہ بے مقصد اور بلاوجہ ایک دوسرے بلکہ تیسرے پر بھی جھپٹتے اور کٹتے مرتے رہتے- کوئی انھیں لڑنے سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیے کہ جب وہ آپس میں نہیں لڑتے تھے تو گھر والوں کو کاٹنے لگتے تھے- اکلوتی مُرغی پر لڑ لڑ کر وہ ایسے لہو لہان ہوئے کہ صبح اذان دینے کے لائق بھی نہ رہے-دڑبے میں چپکے پڑے ملآ کی اذان سُنا کیے-
خان صاحب اتوار کو سارے دن پلنگ پر نیم دراز ہو کر قبائلی تنازعوں اور کوہاٹ کی زمینوں کے فیصلے کرتے- اب وہ اورنگ زیب خان کے بجائے پلنگ زیب خان زیادہ معلوم ہوتے تھے- رات کو البتہ فرش پر سوتے تھےکہ اس سے تکبّر اور کمر کا درد دور ہاتا ہے- ہمارے فرنٹیر میں
--------------------------------------------------
1 اصیل مُرغ: سرخٰ مائل گہرے براؤن رنگ کا مُرغ- بہت لڑاکا اور خونخوار ہوتا ہے- اس کا گوشت بہت مقوی سمجھا جاتا تھا- مولانا عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں کہ "دنیا میں اصیل مُرغ سے زیادہ بہادر کوئی جانور نہیں ہے- مُرغ کی سی بہادری در حقیقت شیر میں بھی نہیں- وہ مر جاتا ہے مگر لڑائی سے منہ نہیں موڑتا-" ان کی تحقیق کے مطابق اس کی نسل عرب سے ہندوستان امپورٹ کی گئے جب کہ "بٹیر بازی کا شوق لکھنؤ میں پنجاب سے آیا-" معلوم ہوتا ہے بٹیر بازی سے متعلق مولانا نے کوئےی ضعیف روایت نقل کر دی- ہم نے تو آج تک اہلِ پنجاب کو بٹیروں کو ایک دوسرے سے لڑوا کر بے رحمی سے زخٌمی یا ہلاک کرواتے نہیں دیکھا- اپنے ہاتھہ سے حلال کر کے کھاتے ہیں-
--------------------------
جارے میں شوقین لوگ پیال(باریک خشک گھاس) پر سوتے ہیں- پیال سے رات بھر جنگلوں اور پہاڑوں کی خوشبو آتی رہتی ہے- جس آدمی کو جنگل کی خوشبو آتی اور بھاتی رہے وہ کبھی کسی کی غلامی اور محکومی قبول نہیں کرے گا-
اُس دن یعنی اتوار کو لنچ کے بعد ظہر کی نمازادا کرتے- اگر کھانا بدمزہ ہو یا مرچیں زیادہ ہوں تو موڈ بگڑ جاتا- نماز قضا کر دیتے- فرماتے کہ دل کا حال جاننے والے کے سامنے مجھہ سے تو جھوٹ نہیں بولا جاتا- کس دل سے بارہ مرتبہ الحمد للہ کہوں؟ کمرے میں محفلِ تکرارو غیبت بدستور گرم رہتی اور وہ تنہا ایک کونے میں جا نماز بچھا کر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے-مگر کان اسی طرف لگے رہتے- دورانِ نماز کوئی شخص آپس میں ایسی بات کہہ دیتا جو خان صاحب کے مزاج یا مؤقف کے خلاف ہوتی تو فوراً---- عین سجدے کی حالت میں ہوں تب بھی----- نیت توڑ کر اُسے پشتو میں گالی دے دیتے اور پھر سے نیت باندھہ کر اور اسی طرف کان لگا کر نماز پڑھنے لگتے-
نماز کے بعد کُرتا اُتار کر اجلاس فرماتے- بیشتر بنیانوں میں بڑے بڑے چھید ہوگئے تھے- فرماتے تھے، کیا کروں، میرے سائز کا بنیان صرف روس سے اسمگل ہو کے آتا ہے- کبھی کبھار لنڈی کوتل میں مل جاتا ہے تو عیش آجاتے ہیں- کوئی کوئی بنیان تو اتنا خوبصورت ہوتا ہے کہ کُرتے کے اوپر پہننے کو جی چاہتا ہے- خان صاحب گہرا سانس لیتے یا ہنسی کا دورہ پڑتا تو چونّی برابر سُوراخ پھیل کر پنگ پانگ کی گیند کے برابر ہوجاتے- ان پھیلتی سُکڑتی جھانکیوں میں سے فربہ بدن گھٹتے بڑھتے پھوڑوں کی طرح اُبلا پڑتا تھا- کیس بھی گرمی ہو، کُرتا اُتارنے کے بعد بھی کلاہ نہیں اُتارتے تھے- فرماتے تھے، جب تک کلاہ سر پر ہے بندہ خود کو ننگا اور بے حیا محسوس نہیں کرتا- انگریز اسی لیے تو عورتوں کو دیکھتے ہی ہیٹ اُتار دیتے ہیں-
ایک رات حاضر ہاشوں کی چارپائی اوور لوڈنگ کے سبب دس بارہ سواریوں سمیت زمیں بوس ہو گئی- پانچ چھہ منٹ تک خوانین مچھر دانی اور بانون کے جال سے خود کو آزاد نہ کرا سکے- اُس کے اندر ہی مچھلیوں کی طرح ایک دوسرے پر اُچھلتے پھدکتے کلبلاتے رہے- چارپائی کا ایک پایہ اور پٹی اور ایک کوہاٹی خان کی کلائی ٹوٹ گئی- جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ کلائی ٹوٹ گئی ہے اس کوہاٹی خان نے شکر ادا کیا کہ خدا نے بڑی خیر کی۔ گھڑی بچ گئی- دوسرے دن اورنگ زیب خان نے اپنے کمرے میں چاندنی بچھوا دی اور اپنے بستر کو گول کر کے گاؤ تکیہ بنا للیا- یہ چاندنی اُن مشاعروں کے لیے مخصوص تھی جو بشارت کے ہاں اتوار کے اتواربڑی پابندی سے ہوتے تھے-خان صاحب بھی دو
 
مشاعروں میں شریک ہوئے- شعر میں ذرا بھی اپچ پیچ ہوتا تو پاس بیٹھنے والے سے دریافت فرماتےکہ یہ کیا کہنا چاہتا ہے؟ وہ سرگوشیوں میں مطلب بیان کردیتا تو بآواز بلند فرماتے، لاحول ولا قوۃ!

پھٹی چاندنی اور اضافت خور

دوسرے مشاعرے کے بعد خان صاحب نے بڑی حیرت سے پوچھا، کیا یہاں ہر دفعہ یہی ہوتا ہے؟ جواب ملا، اور کیا! بولے، خدا کی قسم! اس چاندنی پر اتنا جھوٹ بولا گیا ہے کہ اس پر نماز جائز نہیں! ایسے جھوٹے شاعروں کی میّت کو تو حقّے کے پانی سے غسل دینا چاہیے تاکہ قبر میں کم از کم تین دن تک تو منکر ونکیر نہ آئیں- چاندنی ہر جہاں جہاں شعرائے کرام نے سگریٹ بجھائے تھے وہاں چھوٹے چھوٹے سُوراخ ہو گئے تھے، جنھیں بعد میں فکرِشعر اور دادِ سُخن کے دوران اُنگلی ڈال ڈال کر بڑا کیا گیا تھا- چاندنی کئی جگہ سے پھٹ بھی گئی تھی- خان صاحب نے اس پر نماز کا مسئلہ چھیڑا تو مرزا نے ایک اور ہی فتویٰ دیا- کہنے لگے، دریدہ دامن یوسف پر تو صرف زلیخا ہی نماز پڑھہ سکتی ہے! اس پر خان صاحب بولے کہ زلیخا کے خاوند کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے- خان صاحب کے لیے شاعروں کا اتنا بڑا اجتماع ایک عجوبہ سے کم نہ تھا- کہنے لگے، اگر قبائلی علاقے میں کسی شخص کے گھر کے سامنے ایسے مجمع لگے تو اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں- یا تو اس کے چال چلن پر جرگہ بیٹھا ہے- یا اس کا والد فوت ہو گیا ہے-
کبھی کوئی شعر پسند آجائے، گو کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا، تو "وئی" کہہ کر فرطِ سرور سے آنکھیں بند کر لیتے اور جھومنے لگتے، شاعر وہ شعر مکرر پڑھنے لگتا تو اسے ہاتھہ کے درشت اشارے سے روک دیتےکہ اس سے اک کے لطف میں خلل واقع ہوتا ہے-
ایک دن ایک نوجوان شاعر نے دوسرے سے باز پُرس کی کہ تم نے میری زمین میں غزل کیوں کہی؟ اُس نے کہا ، سودا کی زمین ہے-تمہارے باپ کی نہیں! اُس شاعر پہ یہ الزام بھی لگایا کہ وہ اضافت بہت کھاتا ہے- اس پر دونوں میں کافی تلخ کلامی ہوئی- شروع میں تو خان صاحب کی سمجھہ میں ہی نہ آیا کہ جھگڑا کس بات کا ہے- اگر زرعی زمین کا تنازعہ ہے تو زبانی کیوں لڑ رہے ہیں؟ ہم نے جب ردیف، قافیے اور اضافت کا مطلب سمجھایا تو خان صاحب دنگ رہ گئے- کہنے لگے "لاحول ولا میں تو جاہل آدمی ہوں- میں سمجھا اضافت خور شاید رشوت یا خنزیر کھانے والے کو کہتے ہیں- پھر سوچا نہیں- باپ کو گالی دی ہے، اس پر لڑ رہے ہیں- فرضی زمینوں پر جوتم پیزار پوتے ہم نے آج ہی دیکھی! کیا یہ اپنی اولاد کے لیے یہ ہی زمینیں ترکے میں چھوڑ کے مریں گے کہ برخوردارو! ہم تو چلے- اب تم ان آبائی مربعوں کی چوکیداری کرنا- ان میں قافیوں کی پنیری لگانا اور اضافتوں کا مربّا بنا بنا کے کھانا! پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے-"

نہ ہوئی غالب اگر عمر طبیعی نہ سہی

اُنھیں خوشی کے عالم میں بارہا، گاتے گنگناتے بھی دیکھا- لہراتی، کُٹکری لیتی آواز میں طُبورے کے تار کا سا کھرج کا ایک اچل(قائم) سُر بھی تھا جو کانون کو بھلا معلوم ہوتا تھا- اپنے زمانے میں ٹنگ ٹیگور1 کے رسیا رہ چکے تھے-مطلب یہ کہ اس حد تک موسیقی میں درک ہ بخوبی جانتے تھے کہ خود بھی بے سُرا گاتے ہیں- اکثر فرماتے کہ ہمارے ہاں شرفا میں اچھے گانے کو عیب سمجھا جاتا ہے- میں بگاڑ کے گاتا ہوں- بے نقس گائیکی کو صرف گویّوں، طوائف، میراثی اور لختئی 2 کے کیس میں قابلِ معافی سمجھے جاتے تھے- انھیں بے شمار ٹپّے یاد تھے- مگرایک پشتو گیت ان کا فیورٹ تھا جس کا روزِ اَبرو شبِ ماہتاب میں خون کرتے تھے-اس کا مکھڑا کچھہ اس طرح تھا کہ دیکھہ دلدارا! میں نے تیری محبّت میں رقیب کو ننگی تلوار سے قتل کر ڈالا- کانوں پہ ہاتھہ رکھہ کر "یا قُربان" کے الاپ کے بعد جس والہانہ انداز سے وہ گاتے تھے اس سے تو یہی ٹپکتا تھا کہ موصوف کو جو لذّت قتل میں ملی، وصل میں اُس کا عشرِعشیربھی نہ ملا- اس بول کی ادائیگی میں وہ ایسے پہلوانی جوش اور انھا دھند وارفتگی سے کرتے کہ شلوار میں ہَوا بھر بھر جاتی-
فرماتے تھے کہ دُشمنی اور انتقام کے بغیر مرد کی زندگی بے مقصد، لا حاصل اور مہمل ہو کر رہ جاتی ہے- گویا

زیست مہمل ہے اسے اور بھی مہمل نہ بنا

ایک نہ ایک دُشمن ضرور ہونا چاہیے- اس لیے ہ دُشمن نہ ہوگا تو انتقام کس سے لیں گے؟ پھر برسوں منہ اندھیرے ورزش کرنے، بالٹیوں دودھہ پینےاور تکیے کے نیچے پستول رکھہ کر سونے سے کیا فائدہ؟ سارے آبائی اور قیمتی ہتھیار بے کار ہو جائیں گے- نتیجہ یہ کہ شیر دلیر لوگ با عزّت موت کے بجائے دمے اور قے ودست میں فوت ہونے لگیں گے! عمرِ طبیعی تک تو صرف کوّے، کچھوے، گدھہ
----------------------------------------------------------------
1 ٹنگ ٹگور: (پشتو) راگ رنگ
2 لختئی: ناچنے والے خوبصورت لڑکے
 
گدھے اور وہ جانور پہنچتے ہیں جن کا کھانا شرعاً حرام ہے! خان صاحب یہ بھی فرماتے کہ جب تک آپ کا کوئی بزرگ بے دردی سے قتل نہ ہو، آپ انتقام کی لذّت سے واقف نہیں ہو سکتے- صرف منگتوں، ملّاؤں، زنانوں، میراثیوں، لاولدوں اور شاعروں کو کوئی قتل نہیں کرتا- اگر آپ کا دشمن آپ کو لائقِ قتل نہیں گردانتا تو اس سے زیادہ نے عزّتی کی بات نہیں ہو سکتی-اس پر تو خون ہو جاتے ہیں- ایمان سے! ایسے بے غیرت آدمی کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے- وَپشتو کانڑے پہ اوبو کے نہ ورستیدی (پشتو کا پتھر پانی میں نہیں گھستا-)

گھوڑا، غلیل اور انکسار

"یوں میرا دادا بڑا جلالی تھا- اُس نے چھہ کون کیے- اور چھہ ہی حج کیے- پھر قتل سے توبہ کر لی- کہتا تھا اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں- اب مجھہ سے بار بارحج نہیں ہوتا- وہ پچانوے سال کی عمر میں برضاورغبت فوت ہوا- جب تک آکری دپشمن فوت نہیں ہوگیا، اُس نے خود کو فوت نہیں ہونے دیا- کہتا تھا، میں کسی دُشمن کو اپنے جنازے کو کندھا نہیں دینے دوں گا- نہ میں اپنی زوجہ کا سُہاگ لُٹتے دیکھہ سکتا ہوں- دادا واقعی بڑے ڈیل ڈول اور رعب داب کا آدمی تھا- پیدل بھی چلتا تو یوں لگتا جیسے گھوڑے پر آ رہا ہے- وہ بڑا جہاں دیدہ اور دانا تھا- اس وقت وہ مجھے گھوڑے کے ذکر پر یاد آیا- وہ کہتا تھا کہ سب سے اعلٰی سواری اپنی ٹانگیں ہیں- گھوڑے کی ٹانگون کا استعمال صرف دو صورتوں میں جائز ہے- اوّل، میدانِ جنگ میں دُشمن پر تیز رفتاری سے حملہ کرنے کے لیے- دوم۔ حملہ ناکام ہو تو میدانِ جنگ سے دگنی تیز رفتاری سے بھاگنے کے لیے! مذاق اپنی جگہ، میرا دادا قازقستانی شہسواروں کی طرح تیز دوڑتے ہوئے گھوڑے کی زین کو چھوڑ کر اس کے پیٹ کے گرد چکر لگاتا ہوا دوسری طرف سے دوبارہ زین پر بیٹھہ جاتاتھا! میرے پاس اُس کی تلوار اور مرصّع پیش قبض ہے- ان میں وہی فولاد استعمال ہوا ہے جس سے نادر شاہ کی تلوار ڈھالی گئی تھی- ہمارے خاندان میں سو سال کے عرصے میں، میں پہلا آدمی ہوں جس نے قتل نہیں کیا--- کم از کم اب تک- الحمد للہ میرے تایا نے بھی قتل نہیں کیاتھا- اس لیے کہ وہ جوانی میں ہی قتل کر دیا گیا-"
"خان صاحب گھوروں سے بے پناہ شغف رکھتے تھے- سیاہ گھوڑا اُن کی کمزوری تھی- بنّوں میں پانچ چھہ گھوڑے اصطبل میں بیکار کھڑے کھاتے تھے- سب مشکی- کسی کا تحفتہً دیا ہوا ایک اعلٰی نسل کا سمندِ سیاہ زانو، (بادامی رنگ کا گھوڑا جس کی دم اور زانو سیاہ ہوں) بھی تھا- لیکن اسے صرف زانوں اور دُم کی حد تک پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے- اکثر فرماتے، ہمارے قبیلے میں جس مرد کا نشانہ خطا ہوتا ہو، یا جس کے شجرہ نسب میں صرف مقتولین ہوں، یا جس کو گھورا بار بار زمین پر پٹخ دیتا ہو، اپس سے نکاح جائز نہیں- گھوڑا میں نے ہمیشہ رکھا- اُس زمانے میں بھی بے انتہا تنگی تھی اور مٰن بغیر بریک کی سائیکل پر آتا جاتاتھا، باہر ایک مشکی کھڑا ہنہناتا رہتا تھا-"کسی نے پوچھا "اس میں کون سی تک تھی، خان صاحب؟" فرمایا "اوّل تو اپنے گاوں میں گھوڑے پر ٹنگے ٹنگے پھرنا غرورونخوت کی نشانی سمجھی جاتی تھی- دویم، گھوڑا ضعیف تھا-والد صاحب کی آخری نشانی- مجھے میرے ددا نے پالا- وہ تکبر اور رعونت کے بہت خلاف تھا- کہتا تھا ہمیشہ گردن جھکا کر چلو- یہی کھرے پختونوں کا شیوہ ہے- میری اُٹھتی جوانی، گرم خون تھا- ایک دن میں سینہ تانے، اور گردن کو اتنا اکڑائے کہ صرف آسمان نظر آتا تھا۔ اپس کے سامنے سے گزرا تو اُس نے مجھے روک لیا- میرے چھوٹے بھائی کے پاتھہ سے غلیل چھین کر اُس نے دوشاخے کو میری گدّی میں پیچھے سے پھنسا کر گردن کو اتنا جھکایا کہ مجھے اپنی ایڑی نظر آنے لگی- میں نے عہد کیا کہ آئندہ کبھی گردن اکڑا کے نہیں چلوں گا- پھر غلیل گردن سے علاحدہ کر کے بھائی کو واپس کرنا چاہی تو دادا نے سختی سے منع کر دیا کہنے لگا، اسے سنبھال کے رکھہ لے- کام آئے گی- بڑھاپے میں اسے دوسری طرف سے استعمال کرنا- تھوڑی کے نیچے لگا کر گردن کھڑی کر لینا-"

اہلِ خانہ بدوش
خان صاحب اپنے اہالی موالی کی معیت میں جب کچی آبادیوں اور پٹھان بستیوں کا دورہ کرتے اور راستے میں کوئی بھاری پتھر پڑا نظر آجاتا تو کِھل اُٹھتے- وہیں رک جاتے- جوانوں کو اشارہ کرتے کہ اسے اُٹھا کر دکھاو تو جانیں- اگر کسی سے نہ اُٹھتا تو آستین چڑھا کر آگے بڑھتے اور یا علی1 کہہ کر سر سے اونچا اُٹھا کر دکھاتے- راہ چلتے لوگ اور محلعے کے بچّے تماشہ دیکھنے کھڑے ہو جاتے- کبھی کراچی کی خوش حال اور ساف ستھری بستیوں، مثلاً پی ای سی ایچ ایس، باتھہ آئی لینڈ اور کے ڈی اے ون، سے سواری بادِبہاری گزرتی تو افسوس کرتے کہ خا! یہ کیسی جھاڑو پھری خانہ خراب بستی ہے کہ ایک پتھر پڑا نظر نہیں آتا جسے کوئی مرد بچّہ اُٹھا سکے- میرے بچپن میں گاوں میں جگہ جگہ بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں پڑی ہوتی تھیں جن پر کھڑے ہو کر آپ دُشمن کو گالی دے سکتے تھے- ٹیک لگا کر سستا سکتے تھے- انھی پتھروں پر جاڑے میں بڑے بوڑھے سلیٹی رنگ کا کمبل اس طرح
 
اوڑھہ کے بیٹھتے تھے کہ صرف دو آنکھیں دکھائی دیتی تھیں- دھوپ سینکنے کے بہانے وہ ان آنکھوں سے نوجوانوں کے چال چلن پر نظر رکھتے تھے- ادھر جب کنواری لڑکیاں جن کے سفید بازو اُتھلے پانی کی مچھلیوں کی مانند کسی طرح گرفت میں نہیں آتے، گودر (پنگھٹ) سے اپنے سروں پر گھڑے اُٹھائے گزرتیں تو انھی پتھروں پر بیٹھے گبرو جوان اپنی نظریں اُٹھائے بغیر فقط چال سے بتا دیتے تھے کہ کس کا گھڑا لبا لب بھرا ہے اور کس کا آدھا خالی- اور کون گھونگھٹ میں مسکرا رہی ہے- کوئی لڑکی مہٹی چادر کے نیچے پھنسا پھنسا کُرتا پہن کر یا دانتوں پر اخروٹ کا تازہ دنداسہ لگا کر آتی، تب بھی چال میں فرق آجاتا تھا- جوان لڑکی کی ایڑی میںبھی آنکھیں ہوتی ہیں- وہ چلتی ہے تو اُسے پتا ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھہ رہا ہے- گاوں کے چوخدے پر ملک جہانگیرخان کی بُرجی کے پاس ایک تکونا سا پتھر آدھا زمین میں دھنسا، آدھا دیو کے پنجے کی طرح باہر نکلا تھا- اُس پر ابھی تک اُن گولیوں کلے نشان ہیں جو پچاس سال پہلے عید کے دن میں نے نشانہ بازی کے دوران چلائی تھیں- ایک گولی کا ٹکڑا پتھر سے ٹکرا کر اچٹتا ہوا نصیر گل کی ران میں پیوست ہوگیا- وہ کچی عمر کا خوش شکل لڑکا تھا- لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں- اُس کا باپ کہنے لگا کہ منحوس کے بچّے! میں تیری دونوں جانگوں میں گولی سے ایسا درّہ کھولوں گا کہ ایک لحاف کی روئی سے بھی موسلا دھار خون بند نہیں ہو گا- گاؤں میں کبھی سنّاٹے میں فائر ہوتا تو زمین دیر تک کانپتی رہتی اور دل دہل جاتے- عورتیں اپنے مرد کے لیے خیر کی دعائیں کرتی تھیں کہ خدا خیر سے لوٹائے-
محبّت اور نفرت دونوں کا اظہار خان صاحب"ویٹ لفٹنگ" سے کرتے- مطلب یہ کہ بحث میں ہار جائیں تو حریف کو اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیتے- اور اگر مدّت کے بچھڑے دوست مل جائیں یا ہم جیسے ناقابلِ رشک قدوقامت والے نیازمند سلام کریں تو معانقے کے دوران ہمیں اس طرح ہلاتے اور جھنجھوڑتے جیسے پھل دار درخت کی شاخ کو جھڑجھڑاتے ہیں- پھر فرطِ محبّت سے ہمیں زمین سے ادھر اُٹھا لیتے- ہماری پیشانی کو اپنی liplevel تک لاتے اور چوم کر وہیں ہوا میں نیوٹن کے سیب کی مانند گرنے کے لیے چھوڑ دیتے-
اسی طرح ان کے ایک دلپسند ٹپّے سے جو اکثر گاتے اور گنگناتے تھے یہی ترشح ہوتا تھا کہ محبوب بھی انھیں صرف اسی لیے بھاتا ہے کہ اسے دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر گھڑے کی طرح سر پر رکھا جا سکتا ہے:

راشہ زما ذ ملیگ منگے شہ
چہ و سینہ پہ لار دے سر تہ خیرہ ومہ


مطلب یہ کہ " جاناں آ میرے پہلو کا گھڑا بن جا کہ تجھے سینے کے راستے سے سر پر چڑھا لوں-" گاتے میں کٹی انگلی سے اپنے سینے پر گداز گھڑے کے عمودی سفر کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے سر پہ ہے

محبوب کا وزن کے علاوہ ہیئت کذائی میں بھی گھڑے سے مشابہ ہونا اگرچہ لازمی شرط نہیں، لیکن اضافی کوالیفیکیشن ضرور معلوم ہوتی تھی- گھڑے کو اپنے گرمائے ہوئے پہلو سے جدا کر کے سر پر رکھہ لینے سے غالباً عفتِ نگاہ ونکاح کا یہ پہلو دکھانا مقصود تھا کہ خوبصورت گھڑے کو ہمہ وقت سر پر اُٹھائے پھرنے والااہلِ خانہ بدوش خود کبھی اس کا پانی نہیں پی سکتا- اس دکھیا کی ساری عمر گھڑے کو سر پر بیلنس کرنے اور لونڈوں کی غلیل سے بچانے میں ہی گزرے گی-

آداب عرض!
سچار

سچ بات کہنے میں خان صاحب اتنے ہی بے بس تھے جتےنے ہم آپ چھینک کے معاملے میں- منہ پر آئی ہوئی بات اور ڈکار کو بالکل نہیں روکتے تھے- اگران کی کسی بات سے دوسرا آزردہ یا مشتعل ہو جائے تو انھیں پوری طرح اطمینان ہوجاتا تھا کہ سچ بولا ہے- انھیں سچ اس طرح لگتا تھا جیسے ہُما شُما کو ہچکی یا شاعروں کو تازہ غزل لگتی ہے- اِترا اِترا کر لکھنے والوں کو لِکھار اور کُھل کھیلنے والی کو کھلاڑ کہتے ہیں- بالکل اسی طرح بات بے بات سچ بولنے والے کو سندھی میں "سچار" کہتے ہیں- خان صاحب اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، مثلاً ایک دفعہ خان صاحب سے ان کا تعارف کرایا گیا- چھوٹتے ہی پوچھنے لگے "ایسی مونچھیں رکھہ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟" وہ صاحب برا مان گئے تو کہنے لگے "معاف کرنا! میں جاہل آدمی ہوں- یوں ہی اپنا علم بڑھانے کے لیے پوچھہ لیا
 
Top