فراز آئی بینک Eye Bank احمد فراز

میم الف

محفلین
میں تو اِس کربِ نظارا سے تڑپ اُٹھا ہوں
کتنے ایسے ہیں جنھیں حسرتِ بینائی ہے
جن کی قسمت میں کبھی دولتِ دیدار نہیں
جن کی قسمت میں تماشا‘ نہ تماشائی ہے

جو ترستے ہیں کہ کرنوں کو برستا دیکھیں
جو یہ کہتے ہیں کہ منزل نہیں‘ رستا دیکھیں
اُن سے کہہ دو کہ وہ آئیں‘ مری آنکھیں لے لیں

اِس سے پہلے کہ مرا جسم فنا ہو جائے
اِس سے پہلے کہ یہ خاکسترِ جاں بھی نہ رہے
اِس سے پہلے کہ کوئی حشر بپا ہو جائے

خواب ہونے سے بچا لے کوئی میری آنکھیں
اپنے چہرے پہ لگا لے کوئی میری آنکھیں

کون سہہ پائے گا لیکن مری آنکھوں کے عذاب
کس کو یہ حوصلہ ہو گا کہ ہمیشہ دیکھے
اپنی پلکوں کی صلیبوں سے اترتے ہوئے خواب

جن کی کرچوں کی چبھن روح میں بس جاتی ہے
زندگی‘ زندگی بھر کے لیے کرلاتی ہے

 
Top