فیض آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی۔۔۔ فیض احمد فیض

عمراعظم

محفلین
آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی ’بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِاِمروز میں شیرنئی فردا بھر دے

وہ جنہیں تابِ گراںباریء اِیّام نہیں
’ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے

جن کی آنکھوں کو ’رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
’ان کی راتوں میں کوئی شمع منّور کر دے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
’ان کی نظروں پہ کوئی راہ ’اجاگر کر دے

جن کا دیں پیرویء کِذب و ریا ہے ’ان کو
ہمتِ کفر ملے،’جرّاتِ تحقیق ملے

جِن کے سر ’منتظرِ تیغِ جفا ہیں ’ان کو
دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سرِنہاں،جانِ تپاں ہے جس کو
آج اقرار کریں اور تپش مِٹ جائے

حرفِ حق دِل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اِظہار کریں اور خلش مِٹ جائے


فیض احمد فیض
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِاِمروز میں شیرنئی شیرینئی فردا بھر دے

وہ جنہیں تابِ گراںباریء گراں باریِ اِیّام اَیَّام نہیں

فیض احمد فیض
 

فاتح

لائبریرین
فیض کی خوبصورت نظم شاملِ محفل کرنے پر شکریہ۔۔۔
اس نظم کا عنوان ہے "دعا" اور یہ اس نظم کے بند یوں تحریر کیے گئے ہیں:
دعا
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی​
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں​
ہم جنھیں سوزِ محبت کے سوا​
کوئی بُت کوئی خُدا یاد نہیں​
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی​
زہرِ امروز میں شیرینئ فردا بھر دے​
وہ جنہیں تابِ گراں بارئ ایام نہیں​
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے​
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں​
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے​
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں​
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے​
جن کا دیں پیروئ کذب و ریا ہے ان کو​
ہمتِ کفر ملے ، جراتِ تحقیق ملے​
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو​
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے​
عشق کا سرّ ِنہاں جان تپاں ہے جس سے​
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے​
حرف ِحق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح​
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے​
فیض احمد فیض​
 
Top