اقتباسات آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے

کچھ دیر فرض کیجیے!

آئیے کچھ دیر کے لیے فرض کر لیں کہ پاکستان کی ہر گلی میں لائبریری قائم ہے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ کرایہ دے کر بھی لائبریری سے کتابیں لینے پر تیار ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اور گھر کی عورتیں بھی اس شوق میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہر محلے میں بُک سٹال کھُل گئے ہیں بلکہ جنرل سٹور، بیکری اور کولڈ ڈرنک کی دکانوں پر بھی کچھ نہ کچھ کتابیں ضرور رکھی جاتی ہیں کیونکہ سب سے زیادہ بِکنے والی چیز ہی کتاب ہے۔ یہ شوق صرف اُن لوگوں تک محدود نہیں، جو پڑھ سکتے ہیں۔،جو پڑھنا نہیں جانتے ،وہ بھی کتابیں خریدتے ہیں۔ کسی پڑھے لکھے کے پاس لے جاتے ہیں اور فرمایش کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ چنانچہ آپ کسی رکشے میں بیٹھیں تو رکشہ والے کی گدی کے پیچھے اوزاروں کے علاوہ کوئی کتاب ضرور ہو گی۔ بس میں جائیے تو ڈرائیور نے ڈیش بورڈ میں ایک آدھ کتاب رکھ چھوڑی ہو گی۔ ورکشاپوں میں گریس لگی ہوئی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں جسے موقع ملتا ہے وہ شروع ہو جاتا ہے۔ پڑھنے والے اتنے ہیں تو لکھنے والے کیوں کم ہوں۔ شاید ہر گلی میں دو تین ایسے لوگ مل جائیں گے جو کتاب لکھے بیٹھے ہیں۔ پبلشر کی تلاش میں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی پبلشرز نمودار ہو گئے ہیں، بڑے شہروں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ کتاب ایک منفعت بخش کاروبار بن گئی ہے ،لیکن اس پر چند بڑے ناموں کی اجارہ داری نہیں ۔ کوئی بھی شخص کتاب لکھ کر، چھاپ کر، بیچ کر یا کرایہ پر دے کر اپنے اور گھر والوں کے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں ایسا پاکستان ممکن ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سوال کا جواب اثبات میں اور دوسرے کا نفی میں دیں۔ (اکثر لوگوں نے مجھ سے یہی کہا ہے کہ وہ ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں ،مگر اُن کے خیال میں یہ ممکن نہیں) لیکن میں نے جو نقشہ کھینچا گیا وہ ہمارا مستقبل نہیں بلکہ ماضی ہے۔ پاکستان بننے کے دس گیارہ برس بعد ہی یہ ماحول قائم ہو گیا تھا اور تقریباً 1981ء تک رہا۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے اُنہیں یاد ہو گا (اور یہ اُن کی مہربانی ہے کہ اِس کی یادیں بھی نئی نسل تک منتقل نہیں کی ہیں)۔ بدنصیبی ہے کہ جس قوم کا آغاز اس شان کے ساتھ ہوا ،آج اس کی یہ حالت ہے کہ کتابیں چھپنے، پڑھنے، بیچنے اور خریدنے کا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ کتابوں کی دکانیں صرف چند بازاروں تک محدود ہیں۔ پڑھنے والے اب بھی کتابوں پر بڑی رقومات صرف کرتے ہیں ،لیکن یہ شوق صرف چند لوگوں تک رہ گیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور دردمند لوگ عموماً یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ معاشرے میں کتب بینی کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ سکولوں میں کسی بھی وقت بستوں کی تلاشی لے لی جاتی تھی، جس طالب علم کے بستے سے درسی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نکلتی اُسے سزا ملتی۔ کتاب عموماً ضبط کر کے سکول کی لائبریری میں داخل کر دی جاتی تھی، مگر کبھی کبھی اساتذہ بچوں کو عبرت دلانے کے لیے کتاب پھاڑ کر پْرزے پْرزے بھی کر دیتے تھے (یہ منظر میں نے اپنے سکول کے زمانے میں خود کئی بار دیکھا)۔ چنانچہ بچے کئی دفعہ کتابیں قمیص کے نیچے یا جرابوں میں اُڑس کر چُھپا لیتے۔ سکول میں بدمعاش طالب علم کا تصور یہی تھا کہ اس کے پاس سے کتابیں برآمد ہوں گی۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہمارے سکولوں نے مسلسل تیس برس تک یہی روش اپنائے رکھی۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، اکیڈمیوں اور ادبی انجمنوں کی رائے میں بھی پوری قوم جو کتابیں پڑھ رہی تھی وہ غلط کر رہی تھی۔ ہمارے پروفیسروں، دانشوروں اور نقادوں کے نزدیک ادب اور ثقافت کے پیمانے کچھ اور تھے (جن کا تذکرہ کرنے کی شاید یہاں کوئی ضرورت نہیں)۔ انہی کی سوچ سے وہ جذباتی رویے فروغ پا رہے تھے جن کے تحت اسکولوں اور گھروں میں کتابیں پڑھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ وہ ماحول کیوں ختم ہو گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسے واپس لانا بیحد ضروری ہے ورنہ ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں ایمانداری کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کون صحیح تھا: قوم یا دانشور؟ قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اسرار احمد ناوری تھے۔ جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انھی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ء میں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک سٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔
(ابن ِصفی کی تحریروں کے انتخاب اور تجزیے پر مشتمل کتاب رانا پیلس کے پیش لفظ سے اقتباس)
 

جاسمن

لائبریرین
آپ نے اچھی شئرنگ کی ہے۔
میں نے اپنے بچوں کے علاوہ اپنے طلباء کو بھی کتابوں کا رسیا بنانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔
میں اپنی ہر نئی کلاس کو پہلے دن تعارف کے بعد اپنے ادارے کی لائبریری میں لے جاتی تھی۔ سارے سیکشن دکھاتی۔ کیٹلاگز اور کتاب ایشو کرانے کا طریقہ بتاتی۔ کسی مشکل میں اپنے پاس آنے کا کہتی۔ پھر اپنے مضمون کی کتابیں دکھاتی اور اپنے نوٹس بنانے کی ترغیب دیتی۔ اگر کسی وجہ سے انہیں کتاب لینے میں مشکل کا سامنا ہوتا تو اپنے نام پر کتابیں ایشو کرا دیتی۔
جب بھی ہمارا ٹرپ جاتاہے طالبات کو پبلک لائبریری کا وزٹ ضرور کراتی ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ۔

غالباً زونی نے ایک لڑی شروع کی تھی جس میں یہ بات بہت تفصیل سے زیرِ بحث لائی گئی تھی کہ ہمارے ہاں لوگوں نے کتابوں سے کیوں منہ موڑ لیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تین بنیادی وجوہات:

1- آج کل لوگوں کی تعلیم اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ متن سے مفاہیم تک آسانی سے رسائی پا سکیں۔
2- تفریح بذریعہ ملٹی میڈیا (ٹی وی، ویڈیو، کمپیوٹر) زیادہ سہل ہے۔ اور ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔
3- کتابوں کی بڑھی ہوئی قیمت اور محدود وسائل میں ہماری ترجیحات۔
 

محمداحمد

لائبریرین
books1_zps86c64524.png
 

جاسمن

لائبریرین
محمد احمد! بہت اچھی بات کی ہے۔جزا ک اللہ!
ہم ابھی پچھلے ویک اینڈ پہ مُلتان گئے۔ اپنے بچوں کو نئی جگہیں دکھانے اور مختلف تجربات کرانے کا مجھے بہت شوق ہے۔ میں اپنے بچوں کو ریلوے سٹیشن کی سیر کرانے لے گئی۔ گھومتے گھماتے ہمیں کتابوں کا سٹال نظر آیا تو اب بچے اور ماں سب ہی رہ نہیں سکے اور اندر چلے گئے۔ کافی کتابیں خریدیں۔ ایک نئی بات پتہ چلی کہ ایک سو روپے میں ممبر بن جائیں تو ایک سال تک پانچ ہزار کی کتابوں پرپچپن فی صد رعائت ملے گی۔ بقول اُن کے ایسا ہر شہر کے سٹیشن پہ ہے۔ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر کے ریلوے سٹیشن کے سٹال پہ جا کر ممبر شپ لیں گے۔ میری دوست نے ملتان میں یہ ممبر شپ لی ہوئی ہے۔ اُس کی نوکری بھی وہیں ریلوے میں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمد احمد! بہت اچھی بات کی ہے۔جزا ک اللہ!
ہم ابھی پچھلے ویک اینڈ پہ مُلتان گئے۔ اپنے بچوں کو نئی جگہیں دکھانے اور مختلف تجربات کرانے کا مجھے بہت شوق ہے۔ میں اپنے بچوں کو ریلوے سٹیشن کی سیر کرانے لے گئی۔ گھومتے گھماتے ہمیں کتابوں کا سٹال نظر آیا تو اب بچے اور ماں سب ہی رہ نہیں سکے اور اندر چلے گئے۔ کافی کتابیں خریدیں۔ ایک نئی بات پتہ چلی کہ ایک سو روپے میں ممبر بن جائیں تو ایک سال تک پانچ ہزار کی کتابوں پرپچپن فی صد رعائت ملے گی۔ بقول اُن کے ایسا ہر شہر کے سٹیشن پہ ہے۔ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے شہر کے ریلوے سٹیشن کے سٹال پہ جا کر ممبر شپ لیں گے۔ میری دوست نے ملتان میں یہ ممبر شپ لی ہوئی ہے۔ اُس کی نوکری بھی وہیں ریلوے میں ہے۔

واہ ۔۔۔۔!

خوب ہے یہ بات۔ بچوں کی عادتیں خوب خراب کی ہیں آپ نے۔ :)

پہلے کبھی ریلوے اسٹیشنز پر جانا ہوتا تو میں کتابوں کے اسٹال پر ضرور رکتا تھا ۔ البتہ وہاں سے کتاب کبھی نہیں لی۔ اب تو ریلوے بھی ختم ہو گئی (تقریباً) اور وہاں جانا بھی۔

میرے پاس ایک لائبریری کی ممبرشپ تھی ۔ یہ ایک نجی لائبریری تھی۔ کبھی کبھی وہاں سے بھی کتابیں لا کر پڑھتا تھا لیکن وہاں صرف معروف کتابیں (ڈائجسٹ میں چھپنے والا ادب یا کچھ اور مشہور کتابیں) ہی ملتی تھیں۔ اب وہ لائبریری بھی بند ہو گئی ہے۔ جانا بھی کم ہو گیا تھا کہ مصروفیات بڑھ گئی تھیں۔

اب تو کافی عرصے سے فرصت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سو دو چار کتابیں اب بھی گھر پر رکھیں ہیں جن سے انصاف کر نا ہے۔ کل مرتضیٰ برلاس کا شعری مجموعہ "تیشہء کرب" تو ایک ہی نشست میں پڑھ لیا ۔ (شاعری پڑھنے میں کم وقت لگتا ہے)۔ اب دو افسانوں کی کتابیں، ایک اور کتاب رکھی ہوئی ہے جنہیں پڑھنا باقی ہے۔
 

زیک

مسافر
ہر گلی کا تو نہیں پتا مگر میرے گھر سے 15 منٹ سے کم ڈرائیو پر دو پبلک لائبریریاں ہیں اور اس سے بھی قریب تیسری بن رہی ہے جہاں پیدل بھی جا سکتے ہیں
 

جاسمن

لائبریرین
ھمارے شہر میں بھی بہت اچھی اور بڑی پبلک لائبریری ہے۔ اُس میں میری ممبر شپ اُ س وقت کی ہے جب میں کالج کے پہلے سال میں تھی۔ اب میرے بچے بھی ممبر ہیں۔ اُس میں بچوں اور خواتین کا ایک علیحدہ سیکشن ہے۔ ہم تقریباََ ہر ہفتہ جاتے ہیں۔بچوں کی آؤٹنگ بھی ہو جاتی ہے اور وہ رسالے بھی پڑھ لیتے ہیں،ساتھ ہی کتابیں ایشو کروالیتے ہیں۔ الحمداللہ
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
جاسمن آپکی باتیں تو کسی خواب جیسی لگ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔میر ی بد قسمتی ہے کہ ہمارے یہاں پبلک لائیبریری کا تو کوئی تصور ہی نہیں
گُل بکاؤلی! ( میرے خیال میں) ہر شہر میں بلدیہ کی بھی لائبریری ہوتی ہے۔اپنے گھر کے کسی مرد کی وہاں ممبر شپ ہو تو اُن سے کتابیں منگوائی جا سکتی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میری ممبر شپ اپنے علاقے کی بلدیہ کی لائبریری کی بھی تھی۔ اپنے کالج کی اور پبلک لائبریری کی بھی اور ایک کتابوں کی دکان سے اپنے جیب خرچ سے ایک کتاب خریدتی اور ایک کتاب عاریتاََ پڑھنے کے لئے لےجاتی تھی۔اِس کے علاوہ کچھ اداروں کی ممبر شپ تھی جو مفت یا کم قیمت پہ کتابیں بک پوسٹ کیا کرتے تھے۔ کراچی کا ایک ادارہ تھا ( شاید اب بھی ہو) صدیقی ٹرسٹ۔ مجھے ایک طویل عرصے تک مفت کتابیں
آتی رہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ھمارے شہر میں بھی بہت اچھی اور بڑی پبلک لائبریری ہے۔ اُس میں میری ممبر شپ اُ س وقت کی ہے جب میں کالج کے پہلے سال میں تھی۔ اب میرے بچے بھی ممبر ہیں۔ اُس میں بچوں اور خواتین کا ایک علیحدہ سیکشن ہے۔ ہم تقریباََ ہر ہفتہ جاتے ہیں۔بچوں کی آؤٹنگ بھی ہو جاتی ہے اور وہ رسالے بھی پڑھ لیتے ہیں،ساتھ ہی کتابیں ایشو کروالیتے ہیں۔ الحمداللہ
آپ سنٹرل لائبریری کی بات کر رہی ہیں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں نے بھی باہر باہر سے بہت عرصہ دیکھی ہے یہ لائبریری۔۔۔ بلکہ ابھی تک گزرتے آتے جاتے دیکھتا رہتا ہوں۔ بڑے سیانے کہتے ہیں کہ لائبریری کے باہر سے گزرنے پر بھی علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن مجھے تو کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ :)
 

تلمیذ

لائبریرین
قوم کے منتخب کیے ہوئے ادب کے سب سے بڑے نمایندہ اسرار احمد ناوری تھے۔ جنہیں عموماً قلمی نام ابن صفی سے پہچانا جاتا ہے۔ انھی نے چند دوستوں کے ساتھ اِس تہذیبی انقلاب کا آغاز کیا تھا۔ تعلیمی اداروں اور دانشوروں کی طرف سے کتابوں کے خلاف جو طوفان اُٹھایا گیا، یہ اُس کے خلاف چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جب تک وہ زندہ رہے، پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کم نہ ہوا۔ اسی دوران ریڈیو نے مقبولیت حاصل کی، فلموں کا سنہرا دَور شروع ہوا، ٹیلی وژن آیا اور بلیک اینڈ وہائٹ سے رنگین ہو گیا۔ لوگوں نے اِن تمام دلچسپیوں میں حصہ لیا مگر کتابوں سے منہ نہ موڑا۔ 1980ء میں ابن صفی فوت ہوئے۔ چند ہی برس بعد وہ لائبریریاں اور بُک سٹال اچانک غائب ہوگئے جو گلی گلی کُھلے ہوئے تھے۔
(ابن ِصفی کی تحریروں کے انتخاب اور تجزیے پر مشتمل کتاب رانا پیلس کے پیش لفظ سے اقتباس)

نئی پود کی کتاب سے عدم دلچسپی کے اسباب سے متعلق یہ دھاگہ غالبآجناب @ راشد اشرف, کی نظرسے نہیں گذرا ، اس لئے اس بارے میں ان کے زریں خیالات جاننے کے لئے انہیں ٹیگ کررہا ہوں۔ امید رکھتا ہوں کہ وہ ضرور کچھ تحریر کریں گے۔

محمداحمد,
نیرنگ خیال,
فلک شیر,
جاسمن,
 

حسینی

محفلین
نہایت خوبصورت تحریر۔
یقینا جو قومیں کتابوں سے دور رہتی ہیں پھر وہ ترقی کی دوڑ سے بھی دور رہتی ہیں۔۔۔ ہمارے ملک کی بلکہ عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مطالعہ کا شوق کم سے کمتر ہوتا جا رہا ہے۔
میں جب شام میں تھا تو وہاں دیکھا کہ "مکتبۃ الاسد" کے نام سے دمشق میں اک بڑی لائبریری ہے۔۔۔ جس میں آپ کو عرب دنیا میں چھپنے والی ہر عربی کتاب مل جائے گی۔
لوگ (مرد وزن) صبح سے شام تک تحقیقات میں اور اپنے تھیسز وغیرہ لکھنے میں مصروف ہیں۔۔ یہ بھی دیکھا کہ دوسرے عرب ممالک سے بھی لوگ اس لائبریری سے استفادہ کرنے آتے ہیں۔
البتہ وہاں آنے والے لوگ بہت زیادہ نہیں تھے۔۔۔ اور اک مخصوص طبقے کے لوگ جیسے یونیورسٹی ٹیچرز اور ایم فل یا پی ایچ ڈی کے اسٹوڈنٹس تھے۔
 

تجمل حسین

محفلین
ہر شہر میں لائبریری ہونے کے باوجود بھی کتب بینی کے شوقین حضرات خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ کیونکہ اکثر گورنمنٹ لائبریریوں کے اوقات کار سرکاری ہوتے ہیں۔ وہی وقت کام کا ہوتا ہے اور اسی وقت لائبریری کھلی ہوتی ہے۔ ادھر کام سے چھٹی اور ادھر لائبریری بند۔ :)
جس طرح باقی ہر کام کے لیے ڈبل شفٹ ہوتی ہے اسی طرح لائبریری سٹاف کی بھی ڈبل شفٹ کرکے لائبریری کا وقت رات 9، 10 بجے تک ہونا چاہئے۔ اور خاص طور پر اتوار اور جمعہ کے دن لائبریری کا کھلنا ضروری ہے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ لوگ پھر بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔
تجمل بھائی! عزیز امین بھائی کا کیا حال ہے؟
 

تجمل حسین

محفلین
میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ لوگ پھر بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔
لیکن کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں جو فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن اپنی 14 گھنٹے کی ڈیوٹی کی وجہ سے نہیں اٹھا پاتے۔
تجمل بھائی! عزیز امین بھائی کا کیا حال ہے؟
الحمدللہ۔ ٹھیک ہیں۔ آپ کو یاد کرتے ہیں۔ وی سی ایچ فورم پر ہوتے ہیں ۔
 
Top