آئیے ایسے غازیوں کو سلام کرتے ہیں

از علی معین نوازش
17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں-
بشکریہ:روزنامہ جنگ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہم شرمندہ ہیں!
ہم شرمندہ ہیں!
ہم شرمندہ ہیں!

جو قوم اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہے، وہ کسی کام کی نہیں رہتی۔
ہم خود کو بہت بڑا حب الوطن کہتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں،
ہم تو صرف گفتار کے غازی ہے کردار کے نہیں مگر سپاہی مقبول حسین جیسے لوگ تو عملی انسان ہیں، یہ ہیں اقبال کے شاہین، قائد کے جوان۔
ہم تو کرگس کی مثال ہیں۔
افسوس صد افسوس
 

سید زبیر

محفلین
محترم حسیب نذیر گل صاحب ! بہت شکریہ ، ایسے غازیان وطن کی یاد دلا کر ،اللہ تبارک تعالیٰ ان کی قربانیوں کا اجر عظیم دے اور آپ کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا الفاظ ہوں کہ میں یہاں چھاپ دوں۔ کیا حروف چن کر جملے بناؤں جو اس جذبہ حب الوطنی کا اک حصہ ہی بیان کر دے۔ کیسے الفاظ ڈھونڈوں جو اس محبت میں اٹھائے ہوئے دکھوں پر مرہم کا کام کر سکیں۔ شاعر میں نہیں۔ ادیب میں نہیں۔ بس پڑھ سکتا ہوں۔ کرب کو محسوس کر سکتا ہوں مگر الفاظ کے محل کھڑے نہیں کر سکتا۔ تم یہ کہتے ہو کہ ہمیں یہ ہیرو یاد نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جس جذبے نے انہیں ہیرو بنایا ہے وہ یاد ہے کسی کو؟کوئی مجھے آج کے سپہ سالاروں میں اس جذبہ کی یقین دہانی کرا سکتا ہے؟ کوئی مجھے کسی پاکستانی میں یہ محبت کا بہتا دریا دکھا سکتا ہے؟ سیاسی ٹھگوں کی تو میں بات ہی نہیں کرتا۔ اب تو یہاں پاکستانی کوئی نہیں۔ سرائیکی، پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ سب ہیں یہاں۔ خیر موضوع سے نہیں ہٹنا۔ اور مذکور موضوع پر میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اللہ ہی جزا دے تو دے میں تو اس قرض کو دعاؤں میں چکانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔
 
کیا الفاظ ہوں کہ میں یہاں چھاپ دوں۔ کیا حروف چن کر جملے بناؤں جو اس جذبہ حب الوطنی کا اک حصہ ہی بیان کر دے۔ کیسے الفاظ ڈھونڈوں جو اس محبت میں اٹھائے ہوئے دکھوں پر مرہم کا کام کر سکیں۔ شاعر میں نہیں۔ ادیب میں نہیں۔ بس پڑھ سکتا ہوں۔ کرب کو محسوس کر سکتا ہوں مگر الفاظ کے محل کھڑے نہیں کر سکتا۔ تم یہ کہتے ہو کہ ہمیں یہ ہیرو یاد نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جس جذبے نے انہیں ہیرو بنایا ہے وہ یاد ہے کسی کو؟کوئی مجھے آج کے سپہ سالاروں میں اس جذبہ کی یقین دہانی کرا سکتا ہے؟ کوئی مجھے کسی پاکستانی میں یہ محبت کا بہتا دریا دکھا سکتا ہے؟ سیاسی ٹھگوں کی تو میں بات ہی نہیں کرتا۔ اب تو یہاں پاکستانی کوئی نہیں۔ سرائیکی، پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ سب ہیں یہاں۔ خیر موضوع سے نہیں ہٹنا۔ اور مذکور موضوع پر میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اللہ ہی جزا دے تو دے میں تو اس قرض کو دعاؤں میں چکانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔
زبردست جناب
 
کیا الفاظ ہوں کہ میں یہاں چھاپ دوں۔ کیا حروف چن کر جملے بناؤں جو اس جذبہ حب الوطنی کا اک حصہ ہی بیان کر دے۔ کیسے الفاظ ڈھونڈوں جو اس محبت میں اٹھائے ہوئے دکھوں پر مرہم کا کام کر سکیں۔ شاعر میں نہیں۔ ادیب میں نہیں۔ بس پڑھ سکتا ہوں۔ کرب کو محسوس کر سکتا ہوں مگر الفاظ کے محل کھڑے نہیں کر سکتا۔ تم یہ کہتے ہو کہ ہمیں یہ ہیرو یاد نہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جس جذبے نے انہیں ہیرو بنایا ہے وہ یاد ہے کسی کو؟کوئی مجھے آج کے سپہ سالاروں میں اس جذبہ کی یقین دہانی کرا سکتا ہے؟ کوئی مجھے کسی پاکستانی میں یہ محبت کا بہتا دریا دکھا سکتا ہے؟ سیاسی ٹھگوں کی تو میں بات ہی نہیں کرتا۔ اب تو یہاں پاکستانی کوئی نہیں۔ سرائیکی، پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ سب ہیں یہاں۔ خیر موضوع سے نہیں ہٹنا۔ اور مذکور موضوع پر میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اللہ ہی جزا دے تو دے میں تو اس قرض کو دعاؤں میں چکانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔
ایک سو دس فیصد متفق۔محترم بھائی
 

باباجی

محفلین
اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے

بالکل صحیح کہا
یہ غیرت مند ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں
انہیں پیدا ہوتے ہی معلوم ہوتا ہے اپنی منزل کا
 

سید زبیر

محفلین
بے شک ۔ ۔ ۔ میں ۱۹۶۵ میں پانچویں جماعت میں تھا ۔ ۔ ریڈیو پر اس کا لطف ہی کچھ اور تھا ۔۔۔ مگر اتنے پر اثر کلمات ہیں کہ آج بھی احساس دلاتے ہیں
 
انٹرنیٹ پر سرچ کرتے ہوئے ایک آرٹیکل پڑھا
بلاشبہ سپاہی مقبول حسین ایسے سپوت روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آج پاکستان کا پرچم دنیا کی بہترین اقوام کی صف میں انہی سپوتوں کے دم قدم سے لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سپاہی مقبول حسین نے آزاد کشمیر رجمنٹ میں 16 ستمبر 1960 میں شمولیت اختیار کی۔ اُنہیں 30 مئی 1961 کو 21سیکٹر سگنل کمپنی میں آپریٹر ریڈیو اسسٹنٹ کے طور پر بھجوا دیا گیا۔ 8 فروری 1964 میں انہیں 22سیکٹر سگنل کمپنی میں پوسٹ کردیا گیا۔انہوں نے 1965 کی جنگ میں بطور آپریٹر ریڈیو اسسٹنٹ حصہ لیا۔ 1965 کی جنگ میں ایک آپریشن کے دوران بھارتی فوج کے نرغے میں آگئے۔ لیکن بھارت نے ان کا نام جنگی قیدیوں کی لسٹ میں شامل نہیں کیا اور نہ ہی انہیں جنیوا کنونشن کے تحت قیدیوں کو دی گئی سہولیات فراہم کی گئیں۔ پاکستان کو بھارت کی جانب سے سپاہی مقبول حسین کے بارے میں صحیح اطلاع نہ دینے کی بناء پر پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز نے اسے Missing believed dead قرار دے دیا۔ سپاہی مقبول حسین کو جب بھارتی فوج نے گرفتار کیا ان کی عمر 23 برس تھی۔ چالیس سال بھارت کی حبس بے جا میں رہنے اور اذیت آمیز سلوک کی بناء پر سپاہی مقبول حسین ذہنی طورپر مفلوج ہو کر رہ گیا ۔اس کی زبان تشدد کے ذریعے کاٹ دی گئی جس سے اب وہ بولنے سے بھی قاصر ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ 12 ستمبر 2005 کو بھارت نے سول قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ سپاہی مقبول حسین کو بھی واہگہ کے ذریعے پاکستان روانہ کردیا۔ وہاں انہیں انٹیلی جنس حکام نے رسیو کیا۔ اس کے بعد انہیں عدم شناخت اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے کی بناءپر ”بلقیس ایدھی ہوم لاہور“ بھجوا دیا گیا۔ جنہوں نے ان افراد کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی پر اشتہار بھی دئیے۔ اس اشتہار کو دیکھ کر محمد وزیر نامی ایک شخص نے اپنے ایک عزیز جو 1971 میں لاپتہ ہوگیا تھا کی تلاش میں بلقیس ایدھی ہوم سے رابطہ کیا۔ اس نے واپس آکر سپاہی مقبول کے بھانجے بشارت حسین کو اطلاع دی کہ وہاں کچھ ایسے افراد ہیں جن کی تاحال شناخت نہیں ہو پائی۔ آپ وہاں سے کنفرم کریں ‘ہوسکتا ہے آپ کے ماموں انہی میں سے کوئی ایک ہوں۔ بشارت حسین نے اپنی والدہ اور سپاہی مقبول حسین کی بہن سرور جان کے بتائے ہوئے حلیے اور شناختی نشانات کی مدد سے انہیں پہچان لیا لیکن یقین دہانی کرنے کے لئے ان کی ایک تصویر لے کر گاﺅں روانہ ہوگئے۔ سرور جان نے تصویر دیکھتے ہی سپاہی مقبول جان کو شناخت کر لیا۔ بشارت حسین دوبارہ ایدھی ہوم گئے اور ایک کاغذ پر سپاہی مقبول حسین اور سرور جان کے نام لکھ کر سپاہی مقبول کو دکھائے جنہوں نے انگلی کے اشارے کی مدد سے ان ناموں کی شناخت کی۔ اس کے بعد سپاہی مقبول حسین کے فرسٹ کزن حوالدار (ریٹائرڈ) محمد شریف 27 ستمبر 2005 کو انہیں کو بلقیس ایدھی ہوم سے ان کے آبائی گاﺅں ناریاں‘ تراڑ کھل‘ ضلع سندھنوتی آزادکشمیر لے گئے۔
نہ اوہ پینگاں نہ اوہ چُوٹے
نہ اوہ گھمرے گھمرے بُوٹے
نہ اوہ ٹھنڈی چھاں
اِیہہ نئیں مینڈاں گراں
سپاہی مقبول حسین کی تراڑکھل آمد پر بہت بڑی تعداد میں لوگ اس کے استقبال کے لئے وہاں موجود تھے۔ ہر چہرہ خوشی اور تشکر سے لبریز تھا۔ وہاں پر موجود لوگ بتاتے ہیں کہ سپاہی مقبول حسین اپنے آبائی گھر پہنچے تو ان کی آنکھوں میں ایک انوکھی چمک دیکھی گئی۔ انہوں نے اشارے کی مدد سے اپنا آبائی گھر بھی پہچاننے کی کوشش کی اور اپنے ایک پرانے دوست صوبیدار (ریٹائرڈ) برکت کا نام لینے کی کاوش بھی کی لیکن مناسب ادائیگی نہ کرپائے۔ کاش سپاہی مقبول حسین کی زبان کو تشدد کے ذریعے ناکارہ نہ بنا دیا گیا ہوتا تو آج وہ اپنے پیاروں سے چند باتیں تو کر لیتا۔ کچھ ان کی سنتا‘ کچھ اپنی سناتا۔

آٹھ اکتوبر 2005 ءکو سپاہی مقبول حسین کے بھانجے بشارت حسین انہیں آزادکشمیر رجمنٹل سنٹر ایبٹ آباد میں لے کر گئے۔ آزادکشمیر رجمنٹ سنٹر ان کی رول شیٹ کا معائنہ کیا گیا اور انہیں فوری طور پر اپنی Strength پرلے لیا گیا۔ وہاں انہیں جونیئر کمیشنڈ آفیسرز میس میں رکھا گیا اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک Attendent مقرر کیا گیا۔ بعدازاں سپاہی مقبول حسین نے جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں ایڈجوٹنٹ جنرل پاکستان آرمی سے ملاقات کی۔ جنہوں نے سپاہی مقبول حسین کی ہر لحاظ سے نگہداشت کرنے کا اعادہ کیا اور کہا کہ ایسے جوان پاک فوج کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سپاہی مقبول حسین کا علاج سینئر عسکری سائیکاٹرسٹوں سے کروایا جائے اور اس کے آرام و سکون کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جائے۔ انہوں نے سپاہی مقبول حسین کو ایک چیک بھی پیش کیا۔

سپاہی مقبول حسین کے معالج نے بتایا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی ذہنی حالت کس حد تک سدھرے گی۔ بہرکیف ہم پُرامید ہیں کہ مناسب علاج و معالجہ سے ان کی حالت کسی حد تک بہتر ضرور ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ سپاہی مقبول حسین زیادہ روشنی کا سامنا نہیں کرسکتے۔ بستر پر لیٹنے کی بجائے بیٹھے رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ واک بھی بستر پر ہی کرتے ہیں۔ انہیں باہر کھلی فضا میں نکل کر چلنا زیادہ پسند نہیں ہے۔ کھانا خود سے نہیں مانگتے۔ کھلائیں تو کھا لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی برسوں پر محیط قید تنہائی اور تناﺅ میں رہنے کی وجہ سے شاید ان کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کی حالت انشاءاﷲ بتدریج بہتر ہوگی۔

سپاہی مقبول حسین نے ملکی سرحدوں کے دفاع کو یقینی بنانے کے لئے اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ ان کی یہ قربانی قوم کے ہر نوجوان کے لئے ایک قابل تقلید عمل ہے کہ انہوں نے قوم کے آج کے لئے اپنی جوانی اور عمر داﺅ پر لگا دی۔ سپاہی مقبول حسین ایسے غازی جب تک اس ملک و قوم کو میسر رہیں گے دشمن ہماری سرحدوں کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا کہ بہادر ماﺅں کے یہ شیر دلیر سپاہی ہر دم ہر لحظہ وطن کے دفاع کے لئے مرمٹنے کو تیار ہیں۔ قوم اپنے اس ہیروکو یوم پاکستان کے موقع پر سلام پیش کرتی ہے۔
منبع
 
صرف چالیس دن کے تصور سے آدمی کانپ جاتا ہے لیکن اس نے تو چالیس سال گزارے ہیں۔میری پوری زندگی بھی اسکے ایک دن کی قیمت ادا نہیں کرسکتی
 
Top