آئیے افواہ "اُڑائیں"

محمد اسلم

محفلین
http://sohailahmad.wordpress.com/متفرق-تحاریر/افواہ/

افواہ—مضمون

اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی خبروں کی ترسیل کا بہترین ذریعہ ہیں۔ کچھ خبریں ایک فرد سے دوسرے فرد تک زبانی بھی پہنچتی ہیں۔ گلی محلوں میں اکثر مردوں اور عورتوں کا کام ہی دوسروں تک خبریں پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی فنکاری کی وجہ سے بہت مشہور ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ ایسی خبریں بھی بنا کر دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں کہ جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں۔ مختلف اقوام بھی ایسی خبروں کی تیاری کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتیں ہیں۔ ایسی خبریں قوموں کی تباہی، اور لوگوں کے لیے دہنی دباﺅ کا بھی باعث بنتی ہیں۔ اس کی واضح مثال معاشرے میں پیدا ہونے والا انتشار اور بگاڑ ہے۔ ہم ایسی خبروں کو”افواہ”کے نام سے جانتے ہیں۔
افواہ کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اِس کی وجوہات،اقسام اور اثرات پر نظر ڈالی جائے۔ عام طور پر لوگوں کی آپس کی رنجش، کشیدگی اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بھی افواہ جنم لیتی ہے۔ یہ ایسے معاشرے میں خوب پھلتی پھولتی ہے جہاں جہالت کا دور دورہ ہو اور خبروں کی تصدیق نہ کی جاتی ہو یا ایسے معاشرے کہ جہاں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی جیسی سہولیات موجود نہ ہو یا کم ہوں۔ خبروں کی تصدیق نہ کرنا افواہ کی بڑی وجہ بنتی ہے۔
افواہ کی تعریف کچھ یوں کی جا سکتی ہے “باہمی گفتگو سے ایک خبر جنم لیتی ہے جو بنا تصدیق کے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہوتی رہتی ہے”۔افواہ میں کچھ عنصر سچ کا بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جھوٹ ہو اور خود سے گھڑی گئی ہو۔ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
افواہ عمومی طور پر نقصان کا باعث بنتی ہے۔ بنا تصدیق کے کسی بھی خبر کو پھیلانا کم عقلی کی نشانی ہے۔ بعض دفعہ یہ نا صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بنا تصدیق کے خبر کو آگے پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاو”
(سورہ حجرات آیت نمبر 6)
قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کسی بھی خبر کو بنا تصدیق کے آگے پہنچانے سے منع فرما دیا ہے۔
افواہ کو پھیلانے میں چند لوگوں کا مفاد بھی شامل ہو سکتا ہے۔ کچھ شیطان صفت لوگ معاشرے میں بد امنی پیدا کرنے کے لیے بھی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کسی خاص شخص کو بدنام کرنے کے لیے بھی افواہ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے معاملات جن کو جاننے کے لیے لوگوں میں تجسس ہو اُن کے بارے میں افواہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
افواہ کے پھیلنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جہالت
افواہ کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے۔ جاہل لوگ کسی بھی خبر کو سچ مان لیتے ہیں اور اُس کی تحقیق /تصدیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اِس طرح خبر سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی جاتی ہے۔
تحقیقی/تصدیقی ذرائع کا نہ ہونا
افواہ کے پھیلنے کی ایک وجہ تحقیقی/تصدیقی ذرائع کا نہ ہونا بھی ہے۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی ہی کسی خبر کی تصدیق کا ذریعہ ہیں اگر یہ دستیاب نہ ہوں تو بھی خبر کی تصدیق نہیں ہو پاتی۔
تجسس
کچھ ایسے معاملات یا شخصیات ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں جاننے کے لیے عوام میں تجسس پایا جاتا ہے ۔ اگر کوئی خبر اُن کے متعلق ہو تو بہت تیزی سے اور بنا تحقیق کے پھیلتی ہے۔
غیر معمولی حالات
زلزلہ۔ سیلاب، الیکشن وغیرہ کے دنوں میں خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔
افواہ کی اقسام میں سے کچھ ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔
سیاسی افواہ
الیکشن کے قریب اپنے حریف کو پریشان کرنے کے لیے ، اُسکے ووٹوں کو توڑنے کے لیے اور اپنی برتری کو واضح کرنے کے لیے بھی ا فواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ حکومتیں بھی حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے افواہوںکا سہارا لیتیں ہیں۔
جنگی افواہ
جنگ کے دنوں میں اپنے دشمن پر طاقت کو ثابت کرنے کے لیے اور اُن کی عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے بھی افواہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔افواہ پھیلانے کے لیے ایجنٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
شخصی افواہ
ایسی شخصیات جو مشہور ہوں اُن کے بارے میں بھی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے اکثر عام لوگ ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف لطف اندوز ہونا ہوتا ہے۔ عام طور پر اداکاروں اورکھلاڑیوں وغیرہ کے بارے میں افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
امتحانی افواہ
امتحان کے دنوں میں لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اِن کے پیچھے بھی شیطانی ذہن ہوتے ہیں جو ایسی خبریں پھیلاتے ہیں۔
کسی بھی افواہ کے پیچھے کسی خاص فرد، افراد یا تنظیم کا کوئی نا کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے اِس لیے افواہ کو سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے بھی پھیلایا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں افواہیں بہت جلدی پھیلتی ہیں کیونکہ ہر معاشرے میں لوگوں کی اکثریت مذہب کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ مذہب کے بارے میں افواہ کا مقصد صرف لوگوں میں انتشار پھیلانا ہوتا ہے۔ جیسے پاکستان میں گورنر پنجاب کے قتل کے بعد ممتاز قادری پولیس کی حراست میں ہے ۔ لوگ مقدمے کے بارے میں جاننے کے لیے تجسس رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بھی افواہ اُڑے تو بہت تیزی سے پھیلے گی۔
عراق اور افغانستان پر حملے کے لیے بھی امریکہ نے کچھ افواہوں کو ہی بنیاد بنایا۔ یہ افواہیں پہلے امریکہ نے پھیلائیں اور پھر جنگ شروع کر دی۔ عراق کے بارے میں افواہ پھیلائی کہ اُن کے پاس مہلک ہتھیار ہیں جن کا وُہ غلط استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ اسی افواہ کی بنیاد پر یورپ کی طاقتوں نے عراق پر حملے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ عراق کے پاس ایک بھی ہتھیار نہیں ہے۔ 9 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر کسی نے جہازوں کو ٹکرا دیا۔ وُہ جہاز ہی تھے یا جہاز نما تھے یہ الگ بحث ہے۔ خیر امریکہ نے افواہ پھیلا دی کہ یہ القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کا کارنامہ ہے اور پھر اِس طرح افغانستان بھی امریکہ کی دہشت گردی کا نشانہ بنا ۔ سچ تو یہ ہے کہ 9 ستمبر کا ڈرامہ خود امریکہ نے ہی رچایا اور اُسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا یا ہے اِس کی تصدیق کسی نے نہیں کی۔
اوپر بیان کردہ دونوں مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقوام افواہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور افواہ اقوام کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔
اب امریکہ اِس افواہ کی بنیاد پر کہ القاعدہ کے رہنما پاکستان میں ہیں، یہاں پر بھی حملے کر رہا ہے۔ اور پاکستان میں بھی اِس خبر کی تحقیق یا تصدیق کے بنا ہی جنگ چھیڑ بیٹھا ہے۔
بیورج کمپنیوں میں پیپسی اور کوکا کولا ٹاپ پر ہیں۔ اِس دونوں میں سے پیپسی کی مارکیٹ کوکا کولا سے زیادہ ہے۔ پیپسی کے بارے میں مشہور ہوا کہ یہ اسرائیل کی کمپنی ہے اِس لیے اِس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالانکہ حقیقت اِس کے بر عکس تھی۔ پیپسی اسرائیل میں جا کر عرب امارات میں جو اُس کی بہت بڑی مارکیٹ تھی کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آخر کار جب کوکا کولا اسرائیل میں گئی تو اُس کے بعد پیپسی نے بھی وہاں پر اپنی مارکیٹ بنائی۔
آج کل موبائل فون بہت عام ہے۔ ہر امیر، غریب، پڑھے لکھے، ان پڑھ کی پہنچ میں ہے۔ ایس ایم ایس کی سروس کا استعمال بھی عام ہو گیا ہے۔ ایسے میں ایس ایم ایس افواہ کو پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اکثر ایسے ایس ایم ایس پڑھنے کو ملتے ہیں جو من گھڑت ہوتے ہیں۔ لیکن بنا تصدیق کے ہی اُن کو آگے بھیج دیا جاتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی خبر کی تحقیق یا تصدیق کے لیے جو ذرائع “اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل وغیرہ”ہیں وُہ ہی افواہوں کو پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی خبر کو سُننے کے بعد اُس کی تصدیق کر لی جائے اور پھر کسی اور تک پہنچائی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں تک ایس ایم ایس کے ذریعے پیغامات افواہ کی شکل میں پھیلانے کی بات ہے، تو میں سمجھتا ہوں یہ موبائل فون کمپنیاں خود ہی ایسے ایس ایم ایس بنا کر لوگوں کو بھیج دیتے ہیں اور پھر ہمارے پڑھے لکھے ان پڑھ ان پیغامات کو آگے بھیجنے میں سبقت لیجانے کے چکر میں جانے انجانے لوگوں کو بھیجنے میں وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
http://sohailahmad.wordpress.com/متفرق-تحاریر/افواہ/

افواہ—مضمون

اخبارات ، ریڈیو اور ٹی وی خبروں کی ترسیل کا بہترین ذریعہ ہیں۔ کچھ خبریں ایک فرد سے دوسرے فرد تک زبانی بھی پہنچتی ہیں۔ گلی محلوں میں اکثر مردوں اور عورتوں کا کام ہی دوسروں تک خبریں پہنچانا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی فنکاری کی وجہ سے بہت مشہور ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگ ایسی خبریں بھی بنا کر دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں کہ جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں۔ مختلف اقوام بھی ایسی خبروں کی تیاری کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتیں ہیں۔ ایسی خبریں قوموں کی تباہی، اور لوگوں کے لیے دہنی دباﺅ کا بھی باعث بنتی ہیں۔ اس کی واضح مثال معاشرے میں پیدا ہونے والا انتشار اور بگاڑ ہے۔ ہم ایسی خبروں کو”افواہ”کے نام سے جانتے ہیں۔
افواہ کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اِس کی وجوہات،اقسام اور اثرات پر نظر ڈالی جائے۔ عام طور پر لوگوں کی آپس کی رنجش، کشیدگی اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بھی افواہ جنم لیتی ہے۔ یہ ایسے معاشرے میں خوب پھلتی پھولتی ہے جہاں جہالت کا دور دورہ ہو اور خبروں کی تصدیق نہ کی جاتی ہو یا ایسے معاشرے کہ جہاں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی جیسی سہولیات موجود نہ ہو یا کم ہوں۔ خبروں کی تصدیق نہ کرنا افواہ کی بڑی وجہ بنتی ہے۔
افواہ کی تعریف کچھ یوں کی جا سکتی ہے “باہمی گفتگو سے ایک خبر جنم لیتی ہے جو بنا تصدیق کے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہوتی رہتی ہے”۔افواہ میں کچھ عنصر سچ کا بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جھوٹ ہو اور خود سے گھڑی گئی ہو۔ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
افواہ عمومی طور پر نقصان کا باعث بنتی ہے۔ بنا تصدیق کے کسی بھی خبر کو پھیلانا کم عقلی کی نشانی ہے۔ بعض دفعہ یہ نا صرف ہمارے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے بنا تصدیق کے خبر کو آگے پہنچانے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاو”
(سورہ حجرات آیت نمبر 6)
قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں کسی بھی خبر کو بنا تصدیق کے آگے پہنچانے سے منع فرما دیا ہے۔
افواہ کو پھیلانے میں چند لوگوں کا مفاد بھی شامل ہو سکتا ہے۔ کچھ شیطان صفت لوگ معاشرے میں بد امنی پیدا کرنے کے لیے بھی افواہیں پھیلاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کسی خاص شخص کو بدنام کرنے کے لیے بھی افواہ کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے معاملات جن کو جاننے کے لیے لوگوں میں تجسس ہو اُن کے بارے میں افواہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔
افواہ کے پھیلنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جہالت
افواہ کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے۔ جاہل لوگ کسی بھی خبر کو سچ مان لیتے ہیں اور اُس کی تحقیق /تصدیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اِس طرح خبر سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی جاتی ہے۔
تحقیقی/تصدیقی ذرائع کا نہ ہونا
افواہ کے پھیلنے کی ایک وجہ تحقیقی/تصدیقی ذرائع کا نہ ہونا بھی ہے۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی ہی کسی خبر کی تصدیق کا ذریعہ ہیں اگر یہ دستیاب نہ ہوں تو بھی خبر کی تصدیق نہیں ہو پاتی۔
تجسس
کچھ ایسے معاملات یا شخصیات ہوتی ہیں کہ جن کے بارے میں جاننے کے لیے عوام میں تجسس پایا جاتا ہے ۔ اگر کوئی خبر اُن کے متعلق ہو تو بہت تیزی سے اور بنا تحقیق کے پھیلتی ہے۔
غیر معمولی حالات
زلزلہ۔ سیلاب، الیکشن وغیرہ کے دنوں میں خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔
افواہ کی اقسام میں سے کچھ ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔
سیاسی افواہ
الیکشن کے قریب اپنے حریف کو پریشان کرنے کے لیے ، اُسکے ووٹوں کو توڑنے کے لیے اور اپنی برتری کو واضح کرنے کے لیے بھی ا فواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ حکومتیں بھی حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کے لیے افواہوںکا سہارا لیتیں ہیں۔
جنگی افواہ
جنگ کے دنوں میں اپنے دشمن پر طاقت کو ثابت کرنے کے لیے اور اُن کی عوام میں بے چینی پیدا کرنے کے لیے بھی افواہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔افواہ پھیلانے کے لیے ایجنٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
شخصی افواہ
ایسی شخصیات جو مشہور ہوں اُن کے بارے میں بھی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہیں پھیلانے والے اکثر عام لوگ ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف لطف اندوز ہونا ہوتا ہے۔ عام طور پر اداکاروں اورکھلاڑیوں وغیرہ کے بارے میں افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔
امتحانی افواہ
امتحان کے دنوں میں لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ اِن کے پیچھے بھی شیطانی ذہن ہوتے ہیں جو ایسی خبریں پھیلاتے ہیں۔
کسی بھی افواہ کے پیچھے کسی خاص فرد، افراد یا تنظیم کا کوئی نا کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے اِس لیے افواہ کو سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے بھی پھیلایا جاتا ہے۔ مذہب کے بارے میں افواہیں بہت جلدی پھیلتی ہیں کیونکہ ہر معاشرے میں لوگوں کی اکثریت مذہب کی طرف رجحان رکھتی ہے۔ مذہب کے بارے میں افواہ کا مقصد صرف لوگوں میں انتشار پھیلانا ہوتا ہے۔ جیسے پاکستان میں گورنر پنجاب کے قتل کے بعد ممتاز قادری پولیس کی حراست میں ہے ۔ لوگ مقدمے کے بارے میں جاننے کے لیے تجسس رکھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی بھی افواہ اُڑے تو بہت تیزی سے پھیلے گی۔
عراق اور افغانستان پر حملے کے لیے بھی امریکہ نے کچھ افواہوں کو ہی بنیاد بنایا۔ یہ افواہیں پہلے امریکہ نے پھیلائیں اور پھر جنگ شروع کر دی۔ عراق کے بارے میں افواہ پھیلائی کہ اُن کے پاس مہلک ہتھیار ہیں جن کا وُہ غلط استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ اسی افواہ کی بنیاد پر یورپ کی طاقتوں نے عراق پر حملے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ عراق کے پاس ایک بھی ہتھیار نہیں ہے۔ 9 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر کسی نے جہازوں کو ٹکرا دیا۔ وُہ جہاز ہی تھے یا جہاز نما تھے یہ الگ بحث ہے۔ خیر امریکہ نے افواہ پھیلا دی کہ یہ القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کا کارنامہ ہے اور پھر اِس طرح افغانستان بھی امریکہ کی دہشت گردی کا نشانہ بنا ۔ سچ تو یہ ہے کہ 9 ستمبر کا ڈرامہ خود امریکہ نے ہی رچایا اور اُسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا یا ہے اِس کی تصدیق کسی نے نہیں کی۔
اوپر بیان کردہ دونوں مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اقوام افواہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور افواہ اقوام کی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔
اب امریکہ اِس افواہ کی بنیاد پر کہ القاعدہ کے رہنما پاکستان میں ہیں، یہاں پر بھی حملے کر رہا ہے۔ اور پاکستان میں بھی اِس خبر کی تحقیق یا تصدیق کے بنا ہی جنگ چھیڑ بیٹھا ہے۔
بیورج کمپنیوں میں پیپسی اور کوکا کولا ٹاپ پر ہیں۔ اِس دونوں میں سے پیپسی کی مارکیٹ کوکا کولا سے زیادہ ہے۔ پیپسی کے بارے میں مشہور ہوا کہ یہ اسرائیل کی کمپنی ہے اِس لیے اِس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالانکہ حقیقت اِس کے بر عکس تھی۔ پیپسی اسرائیل میں جا کر عرب امارات میں جو اُس کی بہت بڑی مارکیٹ تھی کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آخر کار جب کوکا کولا اسرائیل میں گئی تو اُس کے بعد پیپسی نے بھی وہاں پر اپنی مارکیٹ بنائی۔
آج کل موبائل فون بہت عام ہے۔ ہر امیر، غریب، پڑھے لکھے، ان پڑھ کی پہنچ میں ہے۔ ایس ایم ایس کی سروس کا استعمال بھی عام ہو گیا ہے۔ ایسے میں ایس ایم ایس افواہ کو پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اکثر ایسے ایس ایم ایس پڑھنے کو ملتے ہیں جو من گھڑت ہوتے ہیں۔ لیکن بنا تصدیق کے ہی اُن کو آگے بھیج دیا جاتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی خبر کی تحقیق یا تصدیق کے لیے جو ذرائع “اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل وغیرہ”ہیں وُہ ہی افواہوں کو پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی خبر کو سُننے کے بعد اُس کی تصدیق کر لی جائے اور پھر کسی اور تک پہنچائی جائے۔
90 فیصد میڈیا رہ گیا بے چارہ :)
 
آج ایک واٹس ایپ پر وائس ریکارڈنگ سُنی کے آج رات بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے کے درمیان کوئی پلانٹ میں کوئی چیز ٹکرائے گی جس کی ریڈی ایشن بہت تیز ہوگی اسی لئے اِس وقت کے دوران جو چیزیں چارجنگ ہوتی ہیں اُن کو اپنے سے دور کرکے سوئیں اور موبائل وغیرہ کو بھی اپنے سے دور رکھ کر سوئیں
اب پتا نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آج ایک واٹس ایپ پر وائس ریکارڈنگ سُنی کے آج رات بارہ بجے سے ساڑھے تین بجے کے درمیان کوئی پلانٹ میں کوئی چیز ٹکرائے گی جس کی ریڈی ایشن بہت تیز ہوگی اسی لئے اِس وقت کے دوران جو چیزیں چارجنگ ہوتی ہیں اُن کو اپنے سے دور کرکے سوئیں اور موبائل وغیرہ کو بھی اپنے سے دور رکھ کر سوئیں
اب پتا نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ
ایسے جھوٹے پیغامات آئے دن گردش کرتے رہتے ہیں۔
 
Top