آئیں تیسواں پارہ یاد کریں، سمجھیں اور سمجھائیں۔

۳-۔ وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا( 8 )

اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پید ا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظی مفہوم:
و خلقنا ۔۔۔ اور ہم نے پیدا کیا
کُم ۔۔۔ تمہیں
ازواجا۔۔۔ جوڑے
۔۔۔۔
الله تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے زمین کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر تمہیں جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کیا تاکہ نسل انسانی بڑھ سکے۔ یہ بھی الله تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ ایک انسانی جوڑے سے کروڑوں، اربوں جوڑے پیدا کیے اور ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہے ۔ جو الله ایک بار بنا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل نہیں ۔

۴-۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (9)

اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا۔۔۔۔ اور ہم نے بنایا
نَوْمَكُمْ۔۔۔ تمہاری نیند
سُبَاتًا ۔۔۔ راحت
۔۔۔۔
سُبات سبت سے مشتق ہے جس کا مطلب موندنے یا کاٹ دینے کے ہیں، نیند کو اللہ تعالی نے ایسی راحت بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام غم ، رنج، فکر اور خیالات کو کاٹ کر اس کے دل و دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے سبات کا ترجمہ راحت بھی کیا جاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو نیند الله تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو بادشاہ ، فقیر ، امیر و غریب سب کو مفت حاصل ہے بلکہ امیروں کی بجائے غریبوں کو یہ نعمت زیادہ میسر ہے۔ انسان کے اعضاء کاروبارِ زندگی میں مصروف رہنے سے تھک جاتے ہیں۔ اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے نیند کی نعمت عطا فرمائی جس سے انسان دوبارہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیند زبردستی طاری کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص رات کو مسلسل کام کرنا بھی چاہے تو رحمت باری تعالی اس پر زبردستی نیند مسلط کر دیتی ہے اور انسان نیند کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ نیند کی یہ نعمت کافر ہو یا مسلمان سب کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیند موت سے مشابہ ہے گویا الله تعالی انسان کو اس عارضی موت سے زندہ کر دیتا ہے تو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

۵-۔ وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا (10)

اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا۔۔۔ اور ہم نے بنایا
الَّيْلَ ۔۔۔ رات
لِبَاسًا ۔۔۔ لباس
۔۔۔۔۔
ہم نے نیند کو تمہاری راحت و آرام کا سبب بنایا، نیند کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی اندھیرا اور خاموشی اس کا ماحول تیار کر دیا چنانچہ رات کی تاریکی تمہیں لباس کی طرح ہر طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور سب ایک ہی وقت میں تھک کر سو جاتے ہیں۔

۶- وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (11)

اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا ۔۔۔ اور ہم نے بنایا
النَّهَارَ ۔۔۔ دن
مَعَاشًا ۔۔۔۔ معاش
۔۔۔۔
الله تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہاری راحت کو مکمل کرنے کے لیے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کرکے اپنی معاشی ضروریات اور سامانِ زندگی حاصل کر سکو۔
اللہ پاک آپ کو اِس کوشش کا اجرِ عظیم عطا فرمائے اِسی طرح پورے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر بیان کردیں جائے تو قرآن پاک کو سمجھنے اور اصل مقصد تک پہنچنے میں کافی مدد مِل سکتی ہے اِس نیک کام کو جاری رکھیں
 

ام اویس

محفلین
۹-۔ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا (14)

اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔

لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا (15)

تاکہ اس سے غلہ اور دوسری سبزیاں بھی اگائیں۔

وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا (16)

اور گھنے باغات بھی۔
۔۔۔۔
وَّاَنْزَلْنَا ۔۔۔ اور ہم نے اتارا
مِنَ ۔۔۔ سے
الْمُعْصِرٰتِ ۔۔۔ نُچڑتے بادل
مَاۗءً۔۔۔ پانی
ثَجَّاجًا۔۔۔ موسلا دھار

لِّنُخْرِجَ ۔۔۔ تاکہ ہم نکالیں
بِهٖ ۔۔ اس سے
حَبًّا ۔۔۔ دانہ
وَّنَبَاتًا۔۔۔ اور سبزہ
وَّجَنّٰتٍ ۔۔۔ اور باغ
اَلْفَافًا۔۔ گھنے
۔۔۔۔۔
پھر آسمان کے نیچے جو چیزیں انسان کی راحت کے لیے پیدا فرمائیں ان میں سب سے اہم چیز پانی برسانے والے بادل ہیں۔ الله تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے رزق کا انتظام اس طرح کیا کہ بادلوں سے بارش برسائی ۔ اس بارش سے غلہ اگایا جو تمہارے کھانے کے لیے ہے، پھر گھاس اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں جو تمہارے جانوروں کی خوراک ہے اور گھنے باغات پیدا کیے جن کے پھل تم کھاتے ہو ۔ یہ الله تعالی کا تم پر بہت بڑا انعام ہے ۔ دیکھو اس کی قدرت کتنی زبردست ہے کہ بارش عجیب طریقے سے نازل کی ، کبھی مسلسل چھوٹی چھوٹی بوندیں ، کبھی موسلا دھار بڑے بڑے قطرے۔ پھر اس ایک ہی پانی سے مختلف رنگ اور ذائقے کی چیزیں پیدا کیں۔ ایسی قدرت والی ذات تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

سوال : یہاں الله تعالی نے فرمایا ہم نے بادلوں سے پانی نازل کیا دوسری آیت میں ہے و انزلنا من السماء ماء ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ۔ بظاہر دونوں آیات میں تضاد ہے؟

جواب : کوئی تضاد نہیں ۔ سماء اوپر والی فضا کو کہتے ہیں ۔ بادل کو بھی سماء کہا گیا ہے بارش بادل سے ہی نازل ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں ممکن ہے کبھی آسمان سے بارش نازل ہوتی ہو کبھی بادل سے ۔ انکار کی کوئی وجہ نہیں۔

ایک خاص بات ؛ الله تعالی نے پہلے حبا کو بیان کیا پھر نباتا کو اور اس کے بعد جنات الفافا کو ۔ اس ترتیب کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ غلے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو پہلے ذکر کیا۔ دوسرے نمبر پر نباتات یعنی جانوروں کی خوراک ضروری ہے اور پھل کو ذائقے کی وجہ سے کھایا جاتا بطورِ غذا نہیں اگرچہ اس میں بھی غذائیت ہوتی ہے
 

ام اویس

محفلین
ربط آیات ۔ 17 تا30

گذشتہ آیات میں نو دلائل سے الله تعالی کی قدرت کو ثابت کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے لیے مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لیے جمع کرنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن تم سب ضرور اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔

اب اگلی آیات میں قیامت کے حالات بیان کیے جا رہے ہیں۔

اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا (17)

یقین جانو فیصلے کا دن ایک متعین وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّ ۔۔۔ بے شک
يَوْمَ ۔۔۔ دن
الْفَصْلِ ۔۔۔ فیصلہ
كَانَ ۔۔۔ ہے
مِيْقَاتًا۔۔۔ مقررہ وقت
۔۔۔۔۔۔

کافر سوال کرتے تھے کہ اگر قیامت کا آنا یقینی ہے تو پھر تاخیر کیوں ہورہی ہے، ابھی کیوں نہیں آتی ۔ الله تعالی نے فرمایا قیامت ضرور آئے گی۔ کب آئے گی اس کا علم صرف الله تعالی کو ہے ۔ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جس میں نہ تقدیم ہو سکتی ہے نہ تاخیر اس لیے تمہارے کہنے سے ابھی نہیں آئے گی۔

قیامت واقع ہونے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ۔
  1. روح کا جسموں سے تعلق ختم ہوجائے ۔
  2. دنیا کا کارخانہ درہم برہم ہوجائے۔ اس فانی گھر کی چھت ، فرش اور سامان رزق جس سے تمام مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے ختم کر دئیے جائیں۔
  3. تمام روحیں اس جہان سے فائدہ اٹھا لیں ۔
جب تک یہ تینوں کام مکمل نہ ہو جائیں قیامت نہیں آئے گی ۔

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا ( 18 )

وہ دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب فوج در فوج چلے آؤ گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يَّوْمَ ۔۔۔ دن
يُنْفَخُ۔۔۔ پھونک جائے گا
فِي ۔۔۔ میں
الصُّوْرِ ۔۔۔ صور
فَتَاْتُوْنَ ۔۔۔ پس تم آؤ گے
اَفْوَاجًا۔۔۔ گروہ در گروہ
۔۔۔۔۔

اس آیت میں دوسری بارصور پھونکنے کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام پہلی بار صور پھونکیں گے تو تمام عالم فنا ہوجائے گا دوسری بار صور پھونکیں گے تو لوگ زندہ ہوجائیں گے اور گروہوں کی شکل میں الله کے سامنے حاضر ہوں گے۔

حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (اردو مفہوم) جب لوگ قبروں سے نکل کر دربارِ خداوندی میں جائیں گے تو ان کے تین گروہ ہوں گے۔
  1. بعض پیٹ بھرے، اچھے لباس پہنے سواریوں پر سوار ہوکر جائیں گے۔
  2. بعض پیدل چل کر جائیں گے۔
  3. بعض منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔
بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بہت سے گروہ ہوں گے۔ ہر نبی علیہ السلام کی امت کے الگ الگ گروہ ہوں گے۔ مؤمنین کے الگ ، کفار کے الگ۔ پھر مؤمنین کے بھی رتبے کے لحاظ سے بے شمار گروہ ہوں گے۔
 
  • بعض پیٹ بھرے، اچھے لباس پہنے سواریوں پر سوار ہوکر جائیں گے۔
  • بعض پیدل چل کر جائیں گے۔
  • بعض منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے
ان تین گروہوں کا ذکر سورۃ الواقعہ میں تفصیل سےآیا ہے
1 ۔مقربین
2۔اصحاب یمین۔(دائیں ہاتھ والے لوگ)
3۔اصحاب شمال۔(بائیں ہاتھ والے لوگ)
 

سیما علی

لائبریرین
بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بہت سے گروہ ہوں گے۔ ہر نبی علیہ السلام کی امت کے الگ الگ گروہ ہوں گے۔ مؤمنین کے الگ ، کفار کے الگ۔ پھر مؤمنین کے بھی رتبے کے لحاظ سے بے شمار گروہ ہوں گے۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
پروردگار آپ پر اپنا کرم فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا (19)

اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّفُتِحَتِ ۔۔۔ اور کھولا جائے گا
السَّمَاۗءُ ۔۔۔ آسمان
فَكَانَتْ ۔۔۔ پس ہوگا
اَبْوَابًا۔۔۔ دروازے
۔۔۔۔

اس آیة میں پہلی بار صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔

ابوابا کے متعلق دو قول ہیں۔
  1. صور پھونکنے سے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ جس طرح کسی مضبوط چھت کے گرنے سے پڑجاتی ہیں۔ ان دراڑوں کو ابواب کہا گیا ہے۔
  2. جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان میں بہت سے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ان دروازوں سے فرشتوں کے گروہ نکلیں گے جو زمین کی ہر چیز کو فنا کر دیں گے۔
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا (20)

اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ ریت کے سراب کی شکل اختیار کرلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّسُيِّرَتِ ۔۔۔ اور چلایا جائے گا
الْجِبَالُ ۔۔۔۔ پہڑ
فَكَانَتْ ۔۔۔ پس ہوں گے
سَرَابًا۔۔۔۔ سراب
۔۔۔۔۔

سراب کے لفظی معنی ذھاب یعنی چلے جانے کے ہیں، صحرا کی وہ ریت جو دور سے چمکتا ہوا پانی نظر آتا ہے اسے سراب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ قریب جاتے ہی وہ نظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ذرات کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور زمین ایک سیدھا صاف میدان بن جائے گی جس پر نہ کوئی درخت ہوگا ، نہ کوئی پہاڑ ۔ پہاڑوں کو پہلے ریزہ ریزہ کیا جائے گا، پھر روئی کی طرح نرم کر دیا جائے گا، پھر ان ذرات کو ہوا میں غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا، یعنی پہاڑ بالکل مٹ جائیں گے اور ان کی جگہ سراب جیسی ہو جائے گی۔
 

ام اویس

محفلین
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا(21)

یقین جانو جہنم گھات لگائے بیٹھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّ ۔۔۔ بے شک
جَهَنَّمَ ۔۔۔ جہنم
كَانَتْ۔۔۔ ہے
مِرْصَادًا۔۔۔ نگرانی کی جگہ
۔۔۔۔۔
یہاں دوسری بار صور پھونکے جانے کے حالات کا بیان ہے جو الله سبحانہ وتعالی کے دربار میں پیش ہونے کے بعد ظاہر ہوں گے۔

مرصادا کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں بیٹھ کر کسی کی نگرانی یا انتظار کیا جائے۔ یہاں جہنم سے مراد پُل صراط ہے۔ جہاں ثواب اور عذاب دینے والے فرشتے انتظار کرتے ہوں گے۔ جہنم والوں کو جہنم کے فرشتے پکڑ لیں گے اور جنت والوں کو جنت کے فرشتے ان کے مقام پر لے جائیں گے۔

لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ بًا(22)

وہ سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لِّلطَّاغِيْنَ۔۔۔ سرکشوں کے لیے
مَاٰ بًا۔۔۔ ٹھکانا
۔۔۔۔۔
یہ پچھلی آیت میں موجود کانت کی خبر ثانی ہے۔ دونوں جملوں کے معنی یہ ہوئے کہ پل صراط ہر نیک اور بد کے لیے انتظار گاہ ہے سب لوگ اس کے اوپر سے گزریں گے۔ اور جہنم طاغین یعنی سرکشوں کا ٹھکانہ ہے۔ طاغی کا معنی ہے سرکش یعنی حد سے بڑھ جانے والا؛ چنانچہ اس سے مراد کفار بھی ہو سکتے ہیں اورمسلمانوں کے بدعقیدہ اور گمراہ فرقے بھی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی مقرر کردہ حد سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جیسے روافض ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ
 

ام اویس

محفلین
لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا (23)

جس میں وہ مدتوں اس طرح رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لّٰبِثِيْنَ ۔۔۔ وہ رہیں گے
فِيْهَآ ۔۔۔ اس میں
اَحْقَابًا۔۔۔ غیر معینہ مدت
۔۔۔۔

یعنی کافر لوگ جہنم میں بہت لمبے زمانے تک رہیں گے۔
حقب کا مطلب ہے بہت لمبی مدت۔ اس لمبی مدت کی مقدار کیا ہوگی اس میں مفسرین کے چند اقوال ہیں۔
  1. حقب کی مقدار اسی سال کی ہے جس کا ہر سال بارہ مہینے کا ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہوگا۔ اس طرح ایک حقب کی مدت تقریبا دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال بنتی ہے۔
  2. اسی حساب کے مطابق بعض نے حقب کی مقدار اسی کے بجائے ستر سال قرار دی ہے۔
دونوں قسم کی روایتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ حقب حقبہ بہت طویل زمانے کا نام ہے۔ یعنی دُھُورٌ متتابعةٌ پے در پے بہت سے زمانے

سوال: کیا کفار جہنم میں حقبہ حقب مقدار گزارنے کے بعد نکل جائیں گے؟

جواب: اس آیت میں لفظ احقابا ً سے یہ سمجھنا کہ چند احقاب کے بعد کفار جہنم سے نکال دئیے جائیں گے تمام صحیح نصوص کے خلاف ہے۔ یہاں صرف اس بات کا ذکر ہےکہ مدت احقاب ان کو جہنم میں رہنا ہوگا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ احقاب کے بعد کیا ہوگا۔ چنانچہ کہا گیا کہ الله تعالی نے جہنمیوں کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی جس کے بعد وہ وہاں سے نکل آئیں۔ احقاب سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ایک ختم ہونے پر دوسرا حقب شروع ہو جائے گا ، دوسرا ختم ہونے پر تیسرا شروع ہوگا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
قرآن مجید کی دوسری آیات ھم فیھا خالدون (وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) اور خلدین فیھا ابدا(ہمیشہ اس میں رہنے والے) سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
 

ام اویس

محفلین
لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا (24)

کہ اس میں نہ وہ کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے، اور نہ کسی پینے کے قابل چیز کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لَا يَذُوْقُوْنَ ۔۔۔ نہیں وہ چکھیں گے
فِيْهَا۔۔۔ اس میں
بَرْدًا ۔۔۔ ٹھنڈک
وَّلَا شَرَابًا۔۔۔ اور نہ پینے کی کوئی چیز
۔۔۔۔۔

پھر اس جھنم میں انہیں نہ تو ٹھنڈک ملے گی، نہ پانی، نہ سایہ، نہ مکان ، نہ لباس اور نہ کھانا ، نہ ہوا، آرام اور سکون پہنچانے والی کوئی چیز میسر نہ ہوگی۔
بعض علماء فرماتے ہیں برداً کا مطلب نیند ہے۔ یعنی اس قدر مصیبتوں کی وجہ سے نیند بھی نہ آئے گی۔ شراباً سے مراد پانی ہے، یعنی دنیا کی ہلکی سے ہلکی چیز یعنی پانی جو بدترین قیدی کو بھی پلا دیا جاتا ہے وہاں انہیں وہ بھی نہیں ملے گا۔

اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا (25)

سوائے گرم پانی اور پیپ لہو کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِلَّا ۔۔۔ مگر
حَمِيْمًا ۔۔۔ انتہائی گرم
وَّغَسَّاقًا۔۔۔ اور انتہائی ٹھنڈا
۔۔۔۔۔۔
حمیم: بے حد گرم پانی جو لوہے کی چمٹیوں سے پکڑ کر دوزخیوں کے سامنے لایا جائے گا۔ جب ان کے منہ کے قریب آئے گا تو چہرے جھلس جائیں گے اور پیٹوں میں اترے گا تو آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ (ترمذی)

غساق: بے حد ٹھنڈا ہوگا جسکی ٹھنڈک کی وجہ سے دوزخی اس کو پی نہ سکے گا، بعض کہتے ہیں کہ غساق جہنمیوں کا بہتا ہوا خون ہے یا پھر غساق جہنم کے ایک چشمے کا نام ہے جسمیں سانپ ، بچھو اور ہر زہریلے جانور کا زہر جمع ہوگا جب جہنمی کو اس میں غوطہ دیا جائے گا تو اس کی کھال ہڈیوں سے اتر کر ٹخنوں پرگر جائے گی جسے وہ گھسیٹتا پھرے گا۔

جَزَآءً وِّفَاقًا (26)

یہ ان کا پورا پورا بدلہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جَزَآءً ۔۔۔ بدلہ
وِّفَاقًا۔۔۔ پورا پورا
۔۔۔
یہ ظلم نہیں ہوگا بلکہ ان کے اعمال کا پورا بدلہ ہوگا۔ جہنم میں ان کو جو سزا دی جائے گی وہ ان کے باطل عقیدوں اور بد اعمالیوں کے عین مطابق ہو گی۔ عدل و انصاف کے حساب سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی اوریہ سزا ان کے بدترین جرم یعنی شرک و کفر کا بدلہ ہوگا۔
 

ام اویس

محفلین
اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا (27)

وہ (اپنے اعمال کے) حساب کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّهُمْ ۔۔۔ بے شک وہ
كَانُوْا ۔۔۔ تھے
لَا يَرْجُوْنَ ۔۔۔ نہیں وہ امید رکھتے تھے
حِسَابًا۔۔۔ حساب
۔۔۔۔

ان آیات میں جزا اور سزا کی وجہ کو بیان کیا گیا ہے۔ انہیں یہ سزا اس لیے دی جائے گی کیونکہ انہیں حساب و کتاب پر یقین ہی نہیں تھا اور نہ انہیں اس بات کا کوئی ڈر تھا کہ ان کے اعمال کا حساب بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے یہ کافر و مشرک دنیا میں بے دھڑک الله کی مقرر کردہ حدوں کو توڑتے رہے۔ نہ تو موت کے بعد زندہ ہونے پر یقین رکھتے تھے، نہ جزا و سزا پر۔ اسی لیے ان کی زندگیاں الله کی نافرمانیوں اور حکم عدولیوں سے بھر گئیں، اب انہیں اسی کی سزا مل رہی ہے۔

وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا ( 28 )

اور انہوں نے ہماری آیتوں کو بڑھ چڑھ کر جھٹلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّكَذَّبُوْا ۔۔۔ اور جھٹلایا انہوں نے
بِاٰيٰتِنَا ۔۔۔ ہماری آیات کو
كِذَّابًا۔۔۔ جھٹلانا
۔۔۔۔۔
آیات سے مراد ہر قسم کی نشانیاں ہیں خواہ قرآن مجید کی آیات ہوں یا قدرت کی نشانیاں یا دلائل توحید و رسالت۔ کفار اور مشرکین ہر قسم کی نشانیوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے تھے اور خوب جھٹلاتے رہے۔ فساد میں حد سے بڑھ گئے۔ کھلم کھلا حق کا انکار کیا اور باطل پر اڑے رہے۔
 

ام اویس

محفلین
وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا۔ (29)

اور ہم نے ہر ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَكُلَّ ۔۔ اور تمام
شَيْءٍ ۔۔۔ چیز
اَحْصَيْنٰهُ ۔۔ ہم نے محفوظ کیا اس کو
كِتٰبًا۔۔۔۔ کتاب، لکھنا
۔۔۔۔۔
الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے ہر چیز کو لوحِ محفوظ یا اعمالنامے میں لکھ رکھا ہے۔ ہم سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ ہمیں ان کے ہر عمل کی خبر ہے۔

فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا (30)

اب مزہ چکھو ! اس لئے کہ ہم تمہارے لیے سزا کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَذُوْقُوْا ۔۔ پس تم چکھو
فَلَنْ نَّزِيْدَ۔۔۔ پس ہرگز نہیں ہم بڑھائیں گے
كُمْ ۔۔۔ تم
اِلَّا ۔۔۔ مگر
عَذَابًا۔۔۔ عذاب
۔۔۔۔۔
لہذا ہم ان کو ان کے عملوں کی پوری پوری سزا دیں گے اور ہم ان سے کہیں گے اپنے برے اعمال کا مزہ چکھو۔ اے سرکشو! ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی رہیں گے۔ اس میں کمی نہیں کریں گے۔
جہنمیوں کے حق میں یہ آیت قرآن مجید کی تمام آیات سے سخت ہے۔
 

ام اویس

محفلین
ربط آیات: 31 تا 37

پچھلی آیات میں طاغین یعنی سرکش و نافرمان لوگوں کے انجام اور سزا کا ذکر تھا اب مؤمنین اور متقین کے لیے ثواب اور جنت کے انعامات کا ذکر ہے۔

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا (31)

جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا تھا، ان کی بیشک بڑی جیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّ ۔۔۔ بے شک
لِلْمُتَّقِيْنَ ۔۔۔ متقین کے لیے
مَفَازًا۔۔۔ کامیابی
۔۔۔۔۔
متقین کے لیے وہاں جسمانی اور روحانی ہر طرح کی کامیابی ہوگی۔ ان کو عذاب سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ جنت کے بے بہا انعامات ملیں گے۔

حَدَاۗئِقَ وَاَعْنَابًا (32)

باغات اور انگور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حَدَاۗئِقَ ۔۔۔ باغات
وَاَعْنَابًا۔۔۔ اور انگور
۔۔۔۔

لوگوں کی چند پسندیدہ چیزوں کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ مثلا حدائق یعنی باغات جو کھانے اور سیر کے لیے ہر قسم کے پھلوں اور میووں سے لدے ہوں گے۔ اعناب یعنی انگوروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غذا کا کام بھی دیتے ہیں اور اس کی بیلوں کا سایہ گھنا اور پر لطف ہوتا ہے، جس سے باغات کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔

وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا(33)

اور نو خیز ہم عمر لڑکیاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّكَوَاعِبَ ۔۔۔ نوجوان
اَتْرَابًا۔۔۔ ہم عمر
۔۔۔۔

پھر ہم عمر ہمنشینوں کا ساتھ بھی میسر ہوگا اور عمر کی مناسبت سے ان کی لذتیں کمال کو پہنچ رہی ہوں گی۔

وَّكَاْسًا دِهَاقًا (34)

اور چھلکتے ہوئے پیمانے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّكَاْسًا۔۔۔ پیالے
دِهَاقًا۔۔۔ لبالب بھرے
۔۔۔۔

چھلکتے ہوئے جام ہوں گے جن سے لطف و سرور میں ہر وقت تازگی رہے گی۔

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا (35)

وہاں پر وہ نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے، اور نہ کوئی جھوٹی بات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لَا يَسْمَعُوْنَ۔۔۔ نہیں وہ سنیں گے
فِيْهَا ۔۔۔ اس میں
لَغْوًا۔۔۔ لغو
وَّلَا كِذّٰبًا۔۔۔ اور نہ جھوٹ
۔۔۔۔

لیکن یہ بھرے ہوئے پیالے دنیا کی خرابیوں سے پاک ہوں گے۔ نہ ان سے بے ہوشی طاری ہوگی ، نہ نیند ، نہ سردرد اور نہ مار پیٹ، جنت کا سرور دنیاوی شرور سے پاک ہو گا۔
جنتی جام کے جام چڑھا کر بھی نہ تو بے ہودہ باتیں کریں گے، نہ جھوٹ بولیں گے، نہ ہی ان کی عقل میں کوئی فتور آئے گا۔

جنت کی نعمتوں کو دنیا کی چیزوں جیسا سمجھنا اور ناموں کا ملتا جلتا ہونے کی وجہ سے ان کا مذاق بنانا کم عقلی اور بد دماغی ہے۔ یہ مثالیں صرف سمجھانے اور رغبت دلانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں ورنہ جنت کی کسی معمولی سی چیز کا دنیا کی اعلی ترین چیز سے بھی کوئی مقابلہ نہیں۔
 

ام اویس

محفلین
جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿36)

یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہوگا۔ (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو لوگوں کے اعمال کے حساب سے دی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جَزَاءً ۔۔۔ جزا
مِّن۔۔۔ سے
رَّبِّكَ ۔۔۔ تیرا رب
عَطَاءً ۔۔۔ عطا
حِسَابًا۔۔۔ کفایت کرنے والا
۔۔۔۔۔
جنت کی یہ نعمتیں مؤمنین ، متقین کے لیے ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلہ اور بے بہا انعام ہوگا ۔ جنت میں ان کو جو کچھ ملے گا وہ بظاہر ان کے اعمال کا بدلہ ہوگا لیکن حقیقت میں عطائے الٰہی ہوگی؛ چنانچہ اس کے بعد بندوں کی کوئی تمنا و آرزو باقی نہ رہے گی۔

حسابا کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔

حسابا کافیا: یعنی ایسے انعامات جو ان کی تمام ضرورتوں اور خواہشوں کے لیے کافی ہو جائیں۔

حساب کا دوسرا معنی مقابلہ کا بھی ہے۔ یعنی جیسا ان کا اخلاص تھا بدلے میں اتنا ہی بڑا انعام دیا جائے گا۔ جیسا کہ صحابہ کے اعمال اور سابقون الاولون کے ایمان کے برابر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

سوال : ان نعمتوں کو پہلے اعمال کی جزاء کہا گیا پھر عطائے ربانی ۔ بظاہر یہ دونوں باتیں مختلف ہیں کیونکہ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور عطاء وہ ہے جو انعام میں دی جائے؟

جواب:
الله تعالی نے ان دونوں لفظوں کو اکٹھا بیان کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بخشش اورجنت کی نعمتیں بظاہر اہل جنت کے اعمال کا بدلہ ہیں لیکن اصل میں الله تعالی کا انعام و اکرام ہیں؛ کیونکہ انسان کو جو نعمتیں دنیا میں دی گئی وہ ان کا شکرانہ ہی ادا نہیں کر سکتے۔ جنت کے انعامات تو محض الله کا فضل و انعام اور خاص عطا ہے۔

جیسا کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک الله تعالی کا فضل نہ ہو۔

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا (37)

اسی پروردگار کی طرف سے جو سارے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کا مالک، بہت مہربان ہے۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے سامنے بول سکے۔
۔۔۔۔۔۔
رَّبِّ ۔۔۔ رب
السَّمٰوٰتِ ۔۔۔ آسمان
وَالْاَرْضِ ۔۔۔ اور زمین
وَمَا بَيْنَهُمَا ۔۔۔ اور جو ان کے درمیان ہے
الرَّحْمٰنِ ۔۔۔ رحمان
لَا يَمْلِكُوْنَ ۔۔۔ نہیں وہ مالک
مِنْهُ۔۔۔ اس سے
خِطَابًا۔۔۔ خطاب کرنا ، مخاطب ہونا
۔۔۔۔۔۔
جنت کے تمام انعامات اس کی طرف سے ہیں جو زمین اور آسمان کا رب ہے اور جو کچھ بھی ان دونوں کے درمیان ہے۔

رب جو ہر چیز کی پرورش کرکے اسے ترقی دے کر درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے اور دوسری صفت رحمان جس کی رحمت کا کوئی حساب اور کوئی شمار نہیں۔ کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہہ سکے مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی اور کسی دوسرے کو کوئی نعمت کیوں دی گئی۔

الله تعالی جس کو جو درجہ عطا کریں گے اس میں کسی کو بات کرنے یا اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی گفتگو کرنے کی مجال ہوگی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ حشر کے دن کسی کو بغیر الله جل جلالہ کی اجازت کے بات کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ البتہ یہ اجازت محشر کے بعض مقامات میں ہوگی اور بعض میں نہیں ہوگی۔
 

ام اویس

محفلین
ربط آیات: 38. تا 40

پچھلی آیات میں فرمایا کہ لوگ اللہ سبحانہ وتعالی سے گفتگو کرنے کی ہمت و مجال نہیں رکھیں گے۔ اگلی آیات میں اسی کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔

يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗئِكَةُ صَفًّا وَّ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ( 38 )
جس دن ساری روحیں اور فرشتے قطاریں بنا کر کھڑے ہوں گے، اس دن سوائے اس کے کوئی نہیں بول سکے گا۔ جسے خدائے رحمن نے اجازت دی ہو، اور وہ بات بھی ٹھیک کہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يَوْمَ ۔۔۔ دن
يَقُوْمُ ۔۔۔ کھڑا ہوگا
الرُّوْحُ ۔۔۔ روح
وَالْمَلٰۗئِكَةُ ۔۔۔ اور فرشتے
صَفًّا ۔۔۔ صف میں
وَّ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ ۔۔۔ اور نہیں وہ کلام کریں گے
اِلَّا ۔۔۔ مگر
مَنْ۔۔۔ وہ
اَذِنَ۔۔۔ اجازت دی
لَهُ ۔۔۔ اس کو
الرَّحْمٰنُ۔۔۔ رحمان
وَقَالَ ۔۔۔ اور کہا
صَوَابًا۔۔۔ بالکل درست
۔۔۔۔۔۔
یہ وہ دن ہوگا جب روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ اللہ جل جلالہ کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے ان کے دل لرز رہے ہوں گے، کوئی بھی بول نہ سکے گا اور نہ کسی کی سفارش کرسکے گا خواہ وہ روح و ملائکہ ہوں یا انبیاء علیھم السلام یا ان کے علاوہ کوئی اور، جب تک اللہ جل جلالہ اجازت نہ دے دیں۔ پھر جس کو سفارش کی اجازت ملے گی وہ بھی قاعدے کے مطابق ہی سفارش کر سکے گا اور با ادب ہوکر بامقصد بات کرے گا ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی نہ تو اجازت ہوگی نہ ہمت ہوگی۔

سوال: روح کیا ہے؟
جواب : روح کے متعلق علماء کے چند اقوال ہیں ۔
  1. روح سے مراد جبرائیل امین ہیں، عام فرشتوں سے پہلے ان کا ذکر ان کی عظمت اور شان کے اظہار کے لیے ہے۔
  2. روح اللہ سبحانہ وتعالی کا ایک ایسا عظیم الشان لشکر ہے جو فرشتے نہیں ہیں بلکہ انسانوں کی طرح ان کے سراور ہاتھ پاؤں بھی ہیں ۔ اس دن ایک صف ان کی ہوگی اور ایک فرشتوں کی۔
  3. روح کو الله تعالی نے اولادِ آدم کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ جو فرشتہ آسمان سے اترتا ہے اس کے ساتھ روح کا ایک شخص ضرور ہوتا ہے۔ واللہ اعلم
ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا (39)
وہ دن ہے جو برحق ہے۔ اب جو چاہے وہ اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنا رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذٰلِكَ۔۔۔ یہ
الْيَوْمُ ۔۔۔ خاص دن
الْحَقُّ ۚ۔۔۔ حق
فَمَنْ ۔۔۔ پس جو
شَاۗءَ ۔۔۔ چاہے
اتَّخَذَ ۔۔۔ اختیار کرے
اِلٰى ۔۔۔ طرف
رَبِّهٖ۔۔۔ اس کا رب
مَاٰبًا۔۔۔ ٹھکانہ
۔۔۔۔۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اس سے پہلی آیات کا خلاصہ بیان کر دیا ہے کہ ہماری ان تمام نشانیوں اور ہمارے قدرت و اختیار سے ثابت ہوگیا کہ انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور قیامت ضرور بالضرور واقع ہوگی۔ توجس شخص کو قیامت کا یقین ہوجائے وہ تقوی اختیار کرے اور نیک اعمال کرکے اپنا ٹھکانا اللہ تعالی کے پاس بنا لے۔
 

ام اویس

محفلین
اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَ۔۔نِيْ كُنْتُ تُرٰبًا (40)

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کردیا ہے جو قریب آنے والا ہے جس دن ہر شخص وہ اعمال آنکھوں سے دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے ہیں، اور کافر یہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اِنَّآ ۔۔۔ بے شک
اَنْذَرْنٰكُمْ۔۔۔ ہم ڈراتے ہیں تمہیں
عَذَابًا ۔۔۔ عذاب
قَرِيْبًا ۔۔۔ قریب
يَّوْمَ۔۔۔ دن
يَنْظُرُ۔۔۔ دیکھے گا
الْمَرْءُ۔۔۔ شخص
مَا قَدَّمَتْ ۔۔۔ جو آگے بھیجا
يَدٰهُ ۔۔۔ اس کے دو ہاتھ
وَيَقُوْلُ۔۔۔ اور کہے گا
الْكٰفِرُ ۔۔۔کافر
يٰلَيْتَنِيْ ۔۔۔ اے کاش
كُنْتُ۔۔۔ میں ہوتا
تُرٰبًا۔۔۔ مٹی
۔۔۔۔۔
الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہیں قیامت کے اس عذاب سے خبردار کر دیا ہے۔ قیامت بظاہر تمہیں دور دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اتنی قریب ہے جتنی انسان سے اس کی موت قریب ہے۔ اور موت تو بہت ہی قریب ہے۔
قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ وہ اس طرح کہ اس کا اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا یا پھر اس کے اعمال مختلف شکلوں میں اس کے سامنے آ جائیں گے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ زکوة نہ دینے والے کا مال سانپ کی شکل میں آئے گا اور قربانی کا جانور پُل صراط پر سواری بنے گا۔
یوم سے مراد قیامت کا دن بھی ہو سکتا ہے اور قبر و برزخ بھی ، جس میں انسان اپنے اعمال کو دیکھ لے گا۔
اعمال کی نسبت ہاتھوں کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر کام ہاتھوں سے انجام پاتے ہیں یا پھر یہ محاورے کے طور پر بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد اعمال کی دو قوتیں یعنی نیک عمل اور برے عمل ہوں۔
حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ساری زمین برابر اور ہموار کر دی جائے گی۔ پھر وہاں تمام جن و انسان ، وحشی اور پالتو ہر قسم کے جانور جمع کیے جائیں گے۔ اگر دنیا میں کسی جانور نے دوسرے جانور پر ظلم کیا ہوگا مثلا کسی سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہو گا تو اس سے بدلا دلایا جائے گا۔ اس کے بعد الله تعالی تمام جانوروں کو حکم دیں گے کہ تم سب مٹی ہو جاؤ تو اس وقت کافر تمنا کریں گے اور کہیں گے کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کافر سے مراد شیطان ہے جب وہ قیامت کے دن اولادِ آدم کی عزت دیکھے گا تو وہ کہے گا کاش میں بھی مٹی سے پیدا ہوا ہوتا۔

مختصر تفسیرِ عتیق، سورة النباء

سورة النباء چالیس آیات پر مشتمل ہے۔ مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہو جائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ بات برحق ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور متعین وقت میں آ موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ’’موسم‘‘ اور وقت مقرر یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہر ہو جائے گا۔ پھر جہنم کی عبرتناک سزاؤں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کر کے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح مٹی میں مل کر عذاب آخرت سے نجات پا جاتے۔
۔۔۔۔۔
الحمد للہ سورة نبا مکمل ہوئی۔
 

ام اویس

محفلین
سورة النازعات۔2
اسماء سورة
عم پارے کی دوسری سورة النازعات کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نام اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة الساھرہ اور سورة الطامہ بھی کہا جاتا ہے۔ مکی سورة ہے اورچھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔

روابط
اس سے پہلی سورة یعنی “النباء” میں قیامت کے متعلق کفار کے انکار اور سوال کا جواب دیا گیا ہے اور قیامت کے واقع ہونے کو دلائل سے ثابت کرکے منکرین کی سزا اور متقین کی جزا کا بیان کیا گیا۔ اب سورة النازعات میں قسم کے ساتھ، قیامت کی ابتداء یعنی موت کی کیفیت کا بیان ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی قیامت شروع ہوجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے “ من مات فقد قامت قیامتہ” (جو شخص مرگیا گویا اس کے لیے قیامت واقع ہو گئی)۔ یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موت قیامت کا ایک سبب ہے اور جس طرح انسان سے اس کی موت زیادہ دور نہیں اسی طرح قیامت بھی زیادہ دور نہیں ہے۔
ربط آیات: 1 تا 5
سورت کے شروع میں فرشتوں کی ان پانچ صفات کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کی موت اور نزع کے عالم سے ہے۔ فرشتوں کی قسم اس لیے کھائی گئی کہ فرشتے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے الله تعالی کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب دنیا کے تمام اسباب ختم ہو جائیں گے فرشتے ہی الله تعالی کے حکم سے مختلف کام انجام دیں گے۔

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١﴾

قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَالنَّازِعَاتِ ۔۔۔ قسم ہے کھینچ کا نکالنے والوں کی
غَرْقًا۔۔۔ ڈوب کر
۔۔۔۔
پہلی صفت: نازعات کا لفظ “نزع “ سے نکلا ہے جس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں اور غرقاً اس کی تاکید ہے جس کا معنی ہے، ڈوب کر یعنی پوری شدت کے ساتھ۔

اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو کافروں کی روح نکالتے ہیں۔ کافر کی روح آخرت کی مصیبتوں سے گھبرا کر اس کے بدن میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، اس لیے فرشتے اس کے بدن میں گُھس کر سختی سے کھینچ کر اس کی روح کو باہر نکالتے ہیں، جس سے اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔
بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کافر کی جان بہت آسانی سے نکل گئی ہے لیکن یہ آسانی صرف ظاہری ہوتی ہیں اس کی روح کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ الله تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ اس سختی سے روحانی تکلیف اور سختی مراد ہے ، دیکھنے والے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
 

ام اویس

محفلین
وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا (2)
اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّالنّٰشِطٰتِ ۔۔۔ کھولنے والے
نَشْطًا۔۔۔ گرہ کھولنا
۔۔۔۔
دوسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو مؤمن کی جان نکالنے آتے ہیں۔ فرشتے مؤمنوں کی روح کو نہایت آسانی اور سہولت سے نکالتے ہیں، شدت اور سختی نہیں کرتے؛ کیونکہ مؤمن روح کے سامنے برزخ کا انعام اور ثواب ہوتا ہےجسے دیکھ کر وہ جلدی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہوا یا پانی، کسی چیز میں بند ہو اور اس کا ڈھکن کھول دیا جائے، وہ نہایت آسانی اور تیزی سے باہر نکل جاتی ہے، اسی طرح مؤمن کی روح نکلتی ہے۔ یہاں بھی آسانی سے مراد روحانی آسانی ہے۔ بعض اوقات مؤمن پر موت کی سختی دکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا (3)
پھر (فضا میں) تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّالسّٰبِحٰتِ ۔۔۔ تیرنے والے
سَبْحًا۔۔۔ تیزی سے تیرنا
۔۔۔۔
تیسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو انسان کی روح نکالنے کے بعد تیزی سے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص دریا میں تیرتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اسی طرح فرشتے بھی آسانی اور تیزی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔
 

ام اویس

محفلین
فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۔ (4)
پھر تیزی سے لپکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَالسّٰبِقٰتِ ۔۔۔ آگے بڑھنے والے
سَبْقًا۔سبقت لے جانا
۔۔۔۔
چوتھی صفت: اس سے مراد یہ ہے کہ جو روح ان فرشتوں کے قبضے میں ہے اسے لے کر اچھے یا برے ٹھکانے پر تیزی سے پہنچاتے ہیں۔ روح کے بارے میں جو بھی حکم ہوتا ہے یعنی مؤمن کی روح کو جنت کی فضا اور نعمتوں کے مقام پر اور کافر کی روح کو دوزخ کی فضا اور عذاب کی جگہ پر فوراً پہنچا دیتے ہیں۔
فائدہ: قرآنِ کریم میں اصل لفظ، صرف اتنا ہے کہ ’’قسم اُن کی جو سختی سے کھینچتے ہیں‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتے ہیں جو کسی کی (عام طور سے کافروں کی) رُوح کو سختی سے کھینچتے ہیں، اور کسی کی ( عام طور سے مومنوں کی) روح کو آسانی سے اس طرح کھینچ لیتے ہیں جیسے کوئی گرہ کھول دی ہو۔ پھر وہ ان رُوحوں کو لے کر تیرتے ہوئے جاتے ہیں، اور جلدی جلدی اُن کی منزل پر پہنچا کر ان احکام کے مطابق اُن کا انتظام کرتے ہیں جو ﷲ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں دئیے ہوتے ہیں۔
پہلی چار آیتوں کا یہی مطلب ہے۔

فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا (5)
پھر جو حکم ملتا ہے اس (کو پورا کرنے) کا انتظام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَالْمُدَبِّرٰتِ۔۔۔ تدبیر کرنے والے
اَمْرًا۔۔۔ کام
۔۔۔۔
پانچویں صفت: فرشتوں کا آخری کام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کا انتظام کرتے ہیں جس روح کو ثواب اور راحت کا حکم ہو اس کے لیے راحت کے اسباب جمع کر دیتے ہیں اور جس روح کے لیے تکلیف اور عذاب کا حکم ہو اس کے لیے عذاب کے اسباب کا انتظام کرتے ہیں۔
فائدہ: موت کے وقت فرشتوں کا آنا اور انسان کی روح نکال کر آسمان کی طرف لے جانا پھر اس کے اچھے یا برے ٹھکانے پر جلدی سے پہنچا دینا اور وہاں ثواب یا عذاب اور راحت یا تکلیف کا انتظام کرنا ان آیات سے ثابت ہے۔ یہ ثواب و عذاب، قبر یعنی برزخ میں ہوگا۔ حشر کا عذاب و ثواب اس کے بعد ہوگا۔صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
سوال: غیر اللہ کی قسم کھانا جائز نہیں۔ الله تعالی نے خود یہاں غیر اللہ کی قسم کھائی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
۱- اللہ تعالی کی ذات کسی حکم اور قانون کی پابند نہیں، یہ حکم مخلوق کے لیے ہے۔ مخلوق کو غیر اللہ کی قسم سے اس لیے منع کیا گیا کہ کہیں قسم کھانے والا اس چیز کو ایسا عظیم اور بڑا نہ سمجھنے لگے جیسا اللہ کو سمجھنا چاہیے۔
۲- یہاں مضاف محذوف ہے۔ اصل عبارت یوں ہے “ و ربُّ النّٰزِعٰتِ “ روح کھینچنے والے فرشتوں کے رب کی قسم۔
فائدہ : بعض مفسرینِ کرام نے فرمایا ہے کہ نازعات سے مراد ستارے ہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق ستارے رات کے وقت اپنے آپ کو کھینچ کر لاتے ہیں۔ جس طرح اللہ کی قدرت انہیں ڈوب جانے کے بعد دوبارہ طلوع اور روشن کر دیتی ہے اسی طرح یہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ ان مفسرین کے قول کے مطابق ناشطات سے مراد ایسے ستارے ہیں جو چلنے والے ہیں اور السابحات سے مراد وہ ستارے ہیں جو اپنے دائرے میں تیرتے ہیں اور فالسابقات سے مراد ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ستارے ہیں؛ البتہ المدبرات فرشتوں کی صفت ہے ستاروں کی نہیں ہے۔
 
Top