آئیں تیسواں پارہ یاد کریں، سمجھیں اور سمجھائیں۔

ام اویس

محفلین
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ!
یاسر شاہ بھائی کی توجہ دلانے پر خیال آیا کہ کیوں نہ تیسواں پارہ یاد کرنے اور ہر روز ایک یا دو آیات کو سمجھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ تیسویں پارے کی یہ تفسیر میں نے مدرسے کی بچیوں کی آسانی کے لیے نہایت آسان اردو میں ترتیب دی ہے۔ اس کا نام لؤلؤ القرآن میری استادِ محترم باجی جان سعیدہ ہاشمی صاحبہ نے رکھا ہے۔ ہم اسی سے ابتدا کر لیتے ہیں۔
باقی الله کی توفیق سے جیسے سلسلہ آگے بڑھے گا بڑھاتے رہیں گے۔ ان شاء الله
آپ اپنے دوستوں کو بھی اس سلسلہ میں شامل کریں۔ کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
الله کریم ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے اور کلام الله کو صحیح طور پر سمجھنے اور سمجھ کر سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ترجمہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے آسان قرآن سے لیا گیا ہے اور تفسیر کے لیے زیادہ تر استفادہ معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمہ الله سے کیا ہے۔
 

ام اویس

محفلین
اسماء سورة النبا

اس سورة کا مشہور نام “سورة النبا”ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ النباء کے علاوہ اسے “سورة التساول”، “عم”، “ عمّ یتساءلون” اور سورة المعصرات بھی کہتے ہیں۔

روابط

سورة النبا کا ماقبل سورة یعنی سورة المرسلات سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔

لفظی ربط تو یہ ہے کہ اس سورة کے الفاظ پچھلی سورة سے ملتے جُلتے ہیں اور معنوی ربط یہ ہے کہ سورة المرسلات میں قیامت کے آنے کا امکان ظاہر کیا گیا اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی جزا و سزا کا بیان ہے۔ اب سورة النبا میں بھی انہی مضامین کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں۔

شانِ نزول

الله سبحانہ وتعالی نے انسانوں کو کفر وشرک کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی ۔ جب آپ نے مکہ والوں کو دنیا میں کیے گئے کاموں کی جزاء و سزا کے متعلق بتایا اور قیامت کے آنے کی خبر دی تو انہیں بہت حیرت ہوئی ۔ وہ حیران ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم و صحابہ کرام سے قیامت اور حساب کتاب کے متعلق پوچھنے لگے۔ کیونکہ وہ الله پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوگا ؟

اس پر الله تعالی نے سورة النبا نازل فرمائی جس میں قیامت کی حقیقت اور اس کے واقع ہونے کے متعلق تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کافروں کے انکار اور ہنسی مذاق کو مختلف طریقوں سے رد کرکے قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔

اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم
بسم الله الرحمٰن الرحیم

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (1)

یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟

————-

سورة کی ابتدا ایک سوال کی شکل میں ہے۔ سوال کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ الله سبحانہ تعالی سے کائنات کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں اس لیے قرآن مجید میں کسی چیز کی عظمت ، اہمیت یا ہولناکی کو بیان کرنا ہو تو الله تعالی کی طرف سے سوال کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی سوال کا مقصد قیامت کی ہولناکی بیان کرنا ہے۔

جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکینِ مکہ کو قیامت کے متعلق آیات سنائیں تو وہ اپنی محفلوں میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے، ہر جگہ ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، آپس میں یہی گفتگو کرتے ، کوئی اسے سچ کہتا اور کوئی اس کا انکار کرتا ، کوئی مذاق کرتا اور مختلف اندازے لگاتا ۔ چنانچہ اس سورة کی پہلی آیت میں ان کا یہ حال بیان کیا گیا ہے۔

سوال : سوال کرنے والے کون تھے اور کس سے سوال کرتے تھے؟

جواب : اس میں مفسرین کے تین قول ہیں ۔

اس سے مراد کافر و مشرکین ہیں جو حیران ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے۔۔

کفار مکہ اور مشرکین مسلمانوں سے سوال کرتے تھے کہ تمہارے نبی یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟

سوال کرنے والوں سے کافر اور مسلمان دونوں مراد ہیں ۔ دونوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ مسلمان تو اس لیے پوچھتے تھے کہ ان کا ایمان مضبوط ہو اور کافر انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے لیے سوال کرتے تھے۔

پہلا قول راجح ہے۔
 
السلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ!
یاسر شاہ بھائی کی توجہ دلانے پر خیال آیا کہ کیوں نہ تیسواں پارہ یاد کرنے اور ہر روز ایک یا دو آیات کو سمجھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ تیسویں پارے کی یہ تفسیر میں نے مدرسے کی بچیوں کی آسانی کے لیے نہایت آسان اردو میں ترتیب دی ہے۔ اس کا نام لؤلؤ القرآن میری استادِ محترم باجی جان سعیدہ ہاشمی صاحبہ نے رکھا ہے۔ ہم اسی سے ابتدا کر لیتے ہیں۔
باقی الله کی توفیق سے جیسے سلسلہ آگے بڑھے گا بڑھاتے رہیں گے۔ ان شاء الله
آپ اپنے دوستوں کو بھی اس سلسلہ میں شامل کریں۔ کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
الله کریم ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے اور کلام الله کو صحیح طور پر سمجھنے اور سمجھ کر سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ترجمہ مفتی تقی عثمانی صاحب کے آسان قرآن سے لیا گیا ہے اور تفسیر کے لیے زیادہ تر استفادہ معارف القرآن مفتی محمد شفیع رحمہ الله سے کیا ہے۔
جی بہت اچھی کوشش ہے
اللہ برکت عطا فرمائے آمین
 

ام اویس

محفلین
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)

اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی کفار ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔ ان کے دل کفر کے اندھیروں سے سیاہ ہو چکے ہیں۔ اگران میں ایمان کی روشنی موجود ہوتی تو اس خبر کی عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بغیر کسی سوال و جواب کے اسے مان لیتے۔

سوال : نبا عظیم سے کیا مراد ہے؟

جواب : اس میں تین قول ہیں ۔

قیامت مراد ہے ۔

سیعلمون سے دھمکی دینے کا انداز ظاہر ہو رہا ہے کہ جب قیامت آئے گی وہ اسے دیکھ کر یقین کر لیں گے۔
اگلی آیات میں قدرت کاملہ کے دلائل دئیے گئے ہیں، جن سے الله تعالی کا قیامت برپا کرنے پر قادر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر العظیم کا لفظ قیامت کے لیے آیا ہے۔

2۔قرآن مجید مراد ہے۔

کیونکہ قرآن مجید بھی ایک بڑی خبر ہے اور وہ قرآن مجید کے متعلق بھی سوال کرتے رہتے تھے کہ یہ قرآن جادو، یا شاعری یا پہلوں کے قصے کہانیاں ہے۔

.3 نبوت مراد ہے۔

کیونکہ نبوت بھی عظیم الشان چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور پرانے رسم و رواج ختم کر دئیے۔ حکومتیں مٹا دیں اور نئے قوانین جاری کردئیے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)

اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی کفار ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔ ان کے دل کفر کے اندھیروں سے سیاہ ہو چکے ہیں۔ اگران میں ایمان کی روشنی موجود ہوتی تو اس خبر کی عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بغیر کسی سوال و جواب کے اسے مان لیتے۔

سوال : نبا عظیم سے کیا مراد ہے؟

جواب : اس میں تین قول ہیں ۔

قیامت مراد ہے ۔

سیعلمون سے دھمکی دینے کا انداز ظاہر ہو رہا ہے کہ جب قیامت آئے گی وہ اسے دیکھ کر یقین کر لیں گے۔
اگلی آیات میں قدرت کاملہ کے دلائل دئیے گئے ہیں، جن سے الله تعالی کا قیامت برپا کرنے پر قادر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر العظیم کا لفظ قیامت کے لیے آیا ہے۔

2۔قرآن مجید مراد ہے۔

کیونکہ قرآن مجید بھی ایک بڑی خبر ہے اور وہ قرآن مجید کے متعلق بھی سوال کرتے رہتے تھے کہ یہ قرآن جادو، یا شاعری یا پہلوں کے قصے کہانیاں ہے۔

.3 نبوت مراد ہے۔

کیونکہ نبوت بھی عظیم الشان چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور پرانے رسم و رواج ختم کر دئیے۔ حکومتیں مٹا دیں اور نئے قوانین جاری کردئیے۔
دوسری آیت کے متعلق بھی راجح قول لکھ دیں جیسے پہلی کے متعلق آخر میں درج کر دیا تاکہ ذہن منتشر نہ ہو۔جزاک اللہ خیر
 

نور وجدان

لائبریرین
پہلی چند آیات میں استہزاء پر جواب ہے.

جیسا کہ کوئ آپ کو کہے چل ترے گھر بیٹا ہوگا
آپ سمجھو گے دیوانہ ہے، کہاں کا بیٹا؟ کیسا بیٹا؟ میں نوّے سالہ بڈھا

یہ مثال ہے

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبشر و نذیر ہونے کی بات کی تو کچھ نے تمسخر اڑایا: اچھا کونسا دن؟ کیسا دن؟ ہمیں دیکھنا ہے وہ دن ...


اس تمسخر کا جواب یہ آیات ہیں

یہ آیات وقت کے مطابق لوگوں کے رویہ کے خدا اور اسکے رسول معظم نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات، کلام جو ہم تک.پہنچا
 

سیما علی

لائبریرین
عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ[2]
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)

اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عَنِ النَّ۔بَاِ الْعَظِ۔يْمِ (2)
اس بڑی خبر کے متعلق۔

{بڑی خبر کے بارے میں} اس چیز کی وضاحت اور اس کو بلند کرنے کے لیے سوال ، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، جو کہ قرآن کریم سے لایا گیا ہے جس میں قیامت اور دیگر شامل ہیں۔

تفسیر الطبری۔

ابو جعفر نے کہا: پھر خدا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اتسیلونا کون ہے ، اس نے بڑی خبر کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا: مطلب: بڑی خبر۔ اہل تفسیر نے اس بات پر اختلاف کیا کہ بڑی خبر سے کیا مراد ہے ، اور ان میں سے بعض نے کہا: اس سے مراد قرآن ہے۔ کس نے کہا کہ: 27890 - یہ مجھ سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ، انہوں نے کہا: اسے ابو عاصم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا: عیسیٰ نے بیان کیا۔ اور حارث نے مجھے بتایا ،
یونس نے مجھ سے کہا ، اس نے کہا: ہمیں ابن وہب نے بتایا ، اس نے کہا: ابن زید نے ، اپنے قول میں کہا: {ان میں کیا خرابی ہے؟} اس نے کہا: قیامت کے دن؛ اس نے کہا: انہوں نے اس دن کہا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اس میں رہتا ہوں اور ہمارے باپ دادا ، اس نے کہا ، مختلف کو سمجھیں ، اس پر یقین نہ کریں ، خدا نے کہا: یہ آپ کے بارے میں ایک بڑی خبر ہے بے نقاب ، قیامت کا دن نہیں اس پر یقین کرو. عرب کے کچھ لوگ کہتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ: چچا قریش کی طرف سے قرآن میں بولتے ہیں ، اور پھر جواب دیا کہ یہ چچا کے معنی بن گئے: قرآن کے بارے میں تعجب کی کوئی بات .قال ابو جعفر: پھر خدا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اتسیلونا کون تھا اس کے بارے میں ، اس نے کہا: حیرت انگیز بڑی خبر: بڑی خبر کے اختیار پر۔ اہل تفسیر نے اس بات پر اختلاف کیا کہ بڑی خبر سے کیا مراد ہے ، اور ان میں سے بعض نے کہا: اس سے مراد قرآن ہے۔ ذکر کیا کہ کس نے کہا: 27890 - مجھ سے محمد بن عمرو نے بیان کیا ، انہوں نے کہا: ابو عاصم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا: عیسیٰ نے بیان کیا۔ حارث نے مجھ سے بیان کیا ، اس نے کہا: الحسن نے بیان کیا ، اس نے کہا: اسے ورقہ نے روایت کیا ہے ، یہ سب ابن ابی ناجیہ کے اختیار میں ، ماجہ کے اختیار پر:{بڑی خبر کے اختیار پر} اس نے کہا: قرآن۔ دوسروں نے کہا: اس کا مطلب قیامت ہے۔
 

ام اویس

محفلین
لفظی معنی بیان کرنے کی کوشش

عَمَّ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (1)
اصل میں ”عن اور ” ما ہے۔
کس چیز ۔۔۔

یتساء لون
وہ آپس میں سوال کرتے ہیں ۔
یتساءلون ۔ تساول باب سے مضارع کا صیغہ ہے۔
جس کا معنی ایک دوسرے سے سوال کرنا ہے ۔

عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)
عن
متعلق ۔ سے۔ کے بارے میں
النبا
خاص خبر (اسم معرفہ، موصوف)

العظیم
بڑی، عظیم ( اسم معرفہ، صفت)
 

ام اویس

محفلین
الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْ۔تَلِفُوْنَ (3)

جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت کے واقع ہونے کے متعلق ہر فرقے کا مختلف عقیدہ تھا۔
عرب کے اکثر لوگ قیامت کے دن کو نہیں مانتے تھے اور حیران ہو کر کہتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔
اسی طرح نصارٰی کے خیال میں جسم مٹ جائیں گے صرف روحیں لوٹائی جائیں گی ۔ اب بھی اکثر کا یہی عقیدہ ہے ۔
یہودیوں کے بعض فرقے بھی قیامت کے سخت منکر تھے ۔ بعض کہتے تھے دوبارہ جسم کے ساتھ زندہ ہونا ناممکن ہے۔ مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔
غرض مر کر زندہ ہونے کے معاملے میں سب کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔
 

ام اویس

محفلین
كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4)

خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (5)

دوبارہ خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔
———-

کلا جہاں بھی آئے اس سے دو معنی مراد ہوتے ہیں۔

  1. پچھلی بات کو رد کرنے یعنی انکار کے لیے
  2. اگلی بات کو ثابت کرنے کے لیے یعنی بمعنی حقاً اور یقیناً
اگر معنی انکار ہو یعنی “ہرگز نہیں “ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کفار کا قیامت کے متعلق بحث و مباحثہ کرنا درست نہیں کیونکہ قیامت بحث کرنے سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں۔

اور اگر معنی “حقا” ہو یعنی “ یقینا “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا واقع ہونا حق اور یقینی بات ہے۔ عنقریب کفار اس سچ کو جان لیں گے۔ جب قیامت واقع ہوجائے گی اور قیامت کی ہولناکیاں اور واقعات ان کے سامنے آئیں گے اس وقت ان کو اس بڑی خبر کی حقیقت سمجھ آ جائے گی۔

سوال : یہاں کلا سیعلمون اور ثم کلا سیعلمون ۔ کا تکرار کیوں ہے؟

جواب: یہ تکرار تاکید اورمضمون کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ہے۔
  1. پہلے ”کلا سیعلمون“ کا مقصد ہے کفار پر جب موت آئے گی اس وقت جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق مرنے سے ہے۔
  2. دوسرے سیعلمون کا مقصد یہ ہے کہ کفار جب مرنے کے بعد زندہ ہوں گے اس وقت اپنا انجام جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق قیامت سے ہے۔
  3. یا اس سے مراد کافر اور مؤمن دونوں ہیں کہ کافر اپنے انکار کا اور مؤمن اپنی تصدیق اور ایمان کا حال جان لیں گے اور سزا و جزا پائیں گے۔
 

ام اویس

محفلین
ربط آیات : 6 تا 16

پچھلی آیات میں کفار مکہ کے سوال و جواب کا ذکر تھا۔ موت کے بعد زندہ ہونے اور انکارِ قیامت کا بیان تھا۔ اب اگلی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی عظیم الشان نشانیوں کا ذکر فرمایا اور نو دلائل سے اپنی قدرت کے عجیب و غریب مناظر پیش کیے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الله سبحانہ و تعالی کے لیے قطعا مشکل نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دیں۔ اس کے علاوہ الله تعالی نے انعامات کا ذکر فرما کر توجہ دلائی ہے کہ ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو اور اس کی توحید کا اقرار کرو۔

الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر:

۱- اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا (6)

کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظی ترجمہ:
اَ ۔۔۔۔ لَمْ نَجْعَلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الْاَرْضَ ۔۔۔۔ مِهٰدًا
کیا ۔۔۔ نہیں ہم نے بنایا ۔۔۔ زمین ۔۔۔ فرش

المھاد کا مطلب ہے ہموار اور درست کی ہوئی زمین۔ الله تعالی فرماتے ہیں: کہ ہم نے زمین کو تمہارے چلنے پھرنے ، اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے بالکل مناسب اور درست بنایا ہے۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ۔ جہاں چاہو لیٹ جاؤ۔ اگر زمین ہوا کی طرح ہلکی یا پانی کی طرح نرم یا آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم اس پر کس طرح چل پھر سکتے؟
یہ الله تعالی کی عظیم نعمت ہے جس میں کافر و مسلمان سب برابر کے شریک ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اس کی توحید کا اقرار کرو۔ جس ذات نے اتنی بڑی زمین کو قدموں کے نیچے ہموار اور درست بچھونے کی صورت میں بچھا دیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا بالکل مشکل نہیں۔

۲-۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا (7)

اور پہاڑوں کو (زمین میں گڑی ہوئی) میخیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّالْجِبَالَ ۔۔۔۔ اور پہاڑ
اَوْتَادًا۔۔۔۔ میخیں

جب الله سبحانہ وتعالی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے اور ڈگمگانے لگی۔ الله تعالی نے اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے گویا زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں جس سے وہ ساکن ہوگئی۔ یہ بھی الله تعالی کی نعمت ہے اور جو ذات اتنے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر سکتی ہے وہ انسان کو دوبارا پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ۔
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
۳-۔ وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا( 8 )

اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پید ا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظی مفہوم:
و خلقنا ۔۔۔ اور ہم نے پیدا کیا
کُم ۔۔۔ تمہیں
ازواجا۔۔۔ جوڑے
۔۔۔۔
الله تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے زمین کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر تمہیں جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کیا تاکہ نسل انسانی بڑھ سکے۔ یہ بھی الله تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ ایک انسانی جوڑے سے کروڑوں، اربوں جوڑے پیدا کیے اور ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہے ۔ جو الله ایک بار بنا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل نہیں ۔

۴-۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (9)

اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا۔۔۔۔ اور ہم نے بنایا
نَوْمَكُمْ۔۔۔ تمہاری نیند
سُبَاتًا ۔۔۔ راحت
۔۔۔۔
سُبات سبت سے مشتق ہے جس کا مطلب موندنے یا کاٹ دینے کے ہیں، نیند کو اللہ تعالی نے ایسی راحت بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام غم ، رنج، فکر اور خیالات کو کاٹ کر اس کے دل و دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے سبات کا ترجمہ راحت بھی کیا جاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو نیند الله تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو بادشاہ ، فقیر ، امیر و غریب سب کو مفت حاصل ہے بلکہ امیروں کی بجائے غریبوں کو یہ نعمت زیادہ میسر ہے۔ انسان کے اعضاء کاروبارِ زندگی میں مصروف رہنے سے تھک جاتے ہیں۔ اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے نیند کی نعمت عطا فرمائی جس سے انسان دوبارہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیند زبردستی طاری کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص رات کو مسلسل کام کرنا بھی چاہے تو رحمت باری تعالی اس پر زبردستی نیند مسلط کر دیتی ہے اور انسان نیند کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ نیند کی یہ نعمت کافر ہو یا مسلمان سب کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیند موت سے مشابہ ہے گویا الله تعالی انسان کو اس عارضی موت سے زندہ کر دیتا ہے تو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

۵-۔ وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا (10)

اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا۔۔۔ اور ہم نے بنایا
الَّيْلَ ۔۔۔ رات
لِبَاسًا ۔۔۔ لباس
۔۔۔۔۔
ہم نے نیند کو تمہاری راحت و آرام کا سبب بنایا، نیند کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی اندھیرا اور خاموشی اس کا ماحول تیار کر دیا چنانچہ رات کی تاریکی تمہیں لباس کی طرح ہر طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور سب ایک ہی وقت میں تھک کر سو جاتے ہیں۔

۶- وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (11)

اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا ۔۔۔ اور ہم نے بنایا
النَّهَارَ ۔۔۔ دن
مَعَاشًا ۔۔۔۔ معاش
۔۔۔۔
الله تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہاری راحت کو مکمل کرنے کے لیے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کرکے اپنی معاشی ضروریات اور سامانِ زندگی حاصل کر سکو۔
 

ام اویس

محفلین
۷-۔ وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا(12)

اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط وجود (آسمان) تعمیر کیے۔
۔۔۔۔
وَّبَنَيْنَا ۔۔۔ اور ہم نے بنایا
فَوْقَ ۔۔۔ اوپر
كُمْ ۔۔۔ تم
سَبْعًا ۔۔۔سات
شِدَادًا۔۔۔ مضبوط
۔۔۔۔۔
اس کے بعد انسان کی اس راحت کا ذکر ہے جو آسمان سے متعلق ہے، الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہارے لیے سات مضبوط آسمان بنا دئیے۔ آسمان کی یہ چھت الله تعالی کی عظیم الشان نعمت ہے جو بغیر کسی ستون کے مدت سے قائم ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال گزرنے کے باوجود نہ تو پرانی ہوئی ، نہ اس میں کہیں کوئی سوراخ ہوا ۔

سوال : آسمان سقف یعنی چھت ہے اس کے لیے بنینا کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟
جواب : اگرچہ آسمان چھت ہے لیکن مضبوطی میں بنیاد کی طرح پائیدار ہے اسی لیے اسے بنیاد سے تشبیہ دی گئی ہے۔

۸- وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا (13)

اور ہم نے ہی ایک دہکتا ہوا چراغ (سورج) پیدا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّجَعَلْنَا ۔۔ اور ہم نے بنایا
سِرَاجًا ۔۔۔ چراغ
وَّهَّاجًا۔۔۔ گرم اور روشن
۔۔۔۔۔
اس آیت میں الله تعالی اپنی نعمت و قدرت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے جگمگاتا ہوا سورج بنا دیا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریات کا انتظام کر سکو۔ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ۔ پھر سورج میں روشنی کے ساتھ گرمی بھی موجود ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت زندگی کی علامت ہے۔ یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانی ہے کہ تمام انسانوں کو خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہزاروں میل کی دوری سے دن کو سورج روشنی اور حرارت دیتا ہے اور رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے۔
 
Top