محمود احمد غزنوی
محفلین
حال ہی میں ایک چھوٹی سی کتاب نظر سے گذری جسکا نام ہے 'حدیث المرآۃ'، اسکے مصنف شیخ عبدالغنی العمری ہیں۔ میں نے چاہا کہ اسکا اردو ترجمہ کیا جائے۔ سو یہ ٹوٹا پھوٹا ترجمہ حاضرِ خدمت ہے۔ یہ بالکل لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں ترجمانی سے بھی کام لیا گیا ہے کیونکہ بعینہ لفظی ترجمہ کرنے سے اردو عبارت میں روانی و سلاست نہیں رہتی اور خاصی اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔
بس تو پھر بسم اللہ کرتے ہیں۔۔۔۔
اور ان متلاشیوں میں زیادہ تر شہرت فلسفیوں کو ہی حاصل ہوئی حتٰی کہ اب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں کسی نے اگر کچھ سنگِ میل طے کئے ہیں تو وہ فلسفیوں نے ہی کئے ہیں۔ حالانکہ اصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ فلسفیوں کے اقوال بھی اپنے قارئین کی مکمل تشفی کرنے میں ناکام اور حقیقت کی یافت سے عاجز رہے ہیں۔ اور یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ فلسفیوں نے اتنی مدتیں گذر جانے کے باوجود، عقلِ انسان کو سوائے حیرت اور اس بات کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں دیا کہ 'حقیقت مخلوق کی دسترس سے ماوراء ہے'۔
چنانچہ ان سب اہلِ فکر و فن کا غالب گمان یہی ہے کہ حقیقت کا کلّی ادراک ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ طالب، قرب کے ذریعے ایک اجمالی علم تک پہنچ جائے۔ اور اس اجمالی علم میں بھی وہ لوگ باہم مختلف الخیال ہیں۔
اور جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، تو اہلِ مذہب کی بھی کثیر تعداد نے اپنے ایمان و اعتقاد کی بناء پر جو علم حاصل کیا، وہ مختلف مذاہب کے اعتبار سے مختلف تھا۔ گویا ایک طاقتور گمان بغیر حقیقی علم کے۔ اور اہلِ فکر و نظر کی طرح انکا علم بھی جزوی ہے اور ذاتی و اجتماعی عوامل سے متاثر شدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں( یعنی مصّنف کو) سنِ شعور میں قدم رکھتے ہی تلاشِ حقیقت کیلئے راہِ سلوک کا راہی بنایا۔ اور ہم نے ہر مسلک سےآگاہی حاصل کی، ہر مشرب کا ذوق حاصل کیا، اور ہمیں تحقیق کی شرائط، اسکے نتائج اور اس راہ میں پیش آنے والے شخصی و انفرادی اور اجتماعی اثرات کی مشکلات اور قباحتوں کا بھی علم حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے ارادہ کیا کہ اس موضوع کا خلاصہ، ایک مکالمے کی صورت میں پیش کیا جائے جو پڑھنے والے کیلئے آسان بھی ہو، اور اگر وہ اسکا اہل ہے تو اسے اس مکالمے میں اپنی شمولیت کا احساس بھی ہو،ور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اس موضوع کے بنیادی خدّ و خال اس پر واضح ہوجائیں۔
اور ہم نے اس کتاب کے تین حصّے کئے ہیں :
پہلا حصّہ۔۔۔یہ ایک مکالمہ ہے کاتبِ حروف اور ایک کانچ کے آئینے کے درمیان جو اسکے اندر پائے جانے والے اسرار سے مطلع کرتا ہے۔
دوسرا حصّہ۔۔۔ یہ ایک مکالمہ ہے کاتبِ حروف اور آئینہءِ آدم کے درمیان، جس میں معرفت اور شناخت کی کچھ تفاصیل کو واضح کیا گیا ہے۔
تیسرا حصّہ۔۔۔ اور یہ ایک خودکلامی ہے کاتبِ حروف کی زبان سے، اس وقت، جب وہ بذاتِ خود، حقائقِ وجود کیلئے ایک آئینہ بن گیا۔
اس مکالمے میں ہم نے سلوک کے مراحل اور ہر مرحلے کی خصوصیت کو بھی مدِّ نظر رکھا ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ہم نے روحانی مفاہیم کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ وہ فکر و منطق سے نہیں ٹکراتے۔
اور اس سب سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ دونوں راستوں کے راہی اس سے کچھ نہ کچھ حاصل کریں۔ اور دونوں راستوں سے ہماری مراد، راہِ فلسفہ اور راہِ تصّوف ہے۔ درحقیقت ہم نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ "مابعد الفلسفہ" ہے۔ اور یہ مابعد الفلسفہ کی اصطلاح ہم نے تفنّن ِ خاطر کیلئے وضع نہیں کی، بلکہ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ علم تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ مختلف فلسفوں کی قائم کردہ حدود و قیود اور شرائط سے تجاوز کیا جائے۔
ہم اللہ سے ہی ہر قول و عمل میں راہِ صواب کی توفیق مانگتے ہیں۔ اور وہی سبحانہُ وتعالیٰ ہمارا مددگار ہے
(جاری ہے)۔۔۔۔۔
بس تو پھر بسم اللہ کرتے ہیں۔۔۔۔
مقدّمہ
جب سے انسانیت نے ہوش سنبھالا ہے، عقل ِ انساں حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یوں کہنا چاہئیے کہ ہر ڈھونڈنے والے نے دراصل اور حقیقت کو ہی ڈھونڈنا چاہا ، چاہے وہ اس بات سےآگاہ ہو یا نہ ہو۔اور ان متلاشیوں میں زیادہ تر شہرت فلسفیوں کو ہی حاصل ہوئی حتٰی کہ اب لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس راہ میں کسی نے اگر کچھ سنگِ میل طے کئے ہیں تو وہ فلسفیوں نے ہی کئے ہیں۔ حالانکہ اصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ فلسفیوں کے اقوال بھی اپنے قارئین کی مکمل تشفی کرنے میں ناکام اور حقیقت کی یافت سے عاجز رہے ہیں۔ اور یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ فلسفیوں نے اتنی مدتیں گذر جانے کے باوجود، عقلِ انسان کو سوائے حیرت اور اس بات کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں دیا کہ 'حقیقت مخلوق کی دسترس سے ماوراء ہے'۔
اور متلاشیانِ حقیقت کی ایک کثیر تعداد نے اپنے تمام غوروفکر کے بعد اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکے۔ اور جس روش پر عوام الناس کاربند ہیں، اسی پر اکتفا کرنے میں عافیت سمجھی۔
جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اور اہلِ فکر و نظر کے برعکس، بہت سے ماہرین ِ فن نے ایسی راہوں پر سفر کیا جن مین منطق و فلسفے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ صفائے ادراک اور لطیف محسوسات کی قوتوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک کثیر تعداد نے اس راہ سے ہونے والے ظنّی یعنی غیر یقینی علم پر اکتفا کیا، لیکن اس قابل نہ ہوسکے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔چنانچہ ان سب اہلِ فکر و فن کا غالب گمان یہی ہے کہ حقیقت کا کلّی ادراک ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ طالب، قرب کے ذریعے ایک اجمالی علم تک پہنچ جائے۔ اور اس اجمالی علم میں بھی وہ لوگ باہم مختلف الخیال ہیں۔
اور جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، تو اہلِ مذہب کی بھی کثیر تعداد نے اپنے ایمان و اعتقاد کی بناء پر جو علم حاصل کیا، وہ مختلف مذاہب کے اعتبار سے مختلف تھا۔ گویا ایک طاقتور گمان بغیر حقیقی علم کے۔ اور اہلِ فکر و نظر کی طرح انکا علم بھی جزوی ہے اور ذاتی و اجتماعی عوامل سے متاثر شدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں( یعنی مصّنف کو) سنِ شعور میں قدم رکھتے ہی تلاشِ حقیقت کیلئے راہِ سلوک کا راہی بنایا۔ اور ہم نے ہر مسلک سےآگاہی حاصل کی، ہر مشرب کا ذوق حاصل کیا، اور ہمیں تحقیق کی شرائط، اسکے نتائج اور اس راہ میں پیش آنے والے شخصی و انفرادی اور اجتماعی اثرات کی مشکلات اور قباحتوں کا بھی علم حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے ارادہ کیا کہ اس موضوع کا خلاصہ، ایک مکالمے کی صورت میں پیش کیا جائے جو پڑھنے والے کیلئے آسان بھی ہو، اور اگر وہ اسکا اہل ہے تو اسے اس مکالمے میں اپنی شمولیت کا احساس بھی ہو،ور اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم اس موضوع کے بنیادی خدّ و خال اس پر واضح ہوجائیں۔
اور ہم نے اس کتاب کے تین حصّے کئے ہیں :
پہلا حصّہ۔۔۔یہ ایک مکالمہ ہے کاتبِ حروف اور ایک کانچ کے آئینے کے درمیان جو اسکے اندر پائے جانے والے اسرار سے مطلع کرتا ہے۔
دوسرا حصّہ۔۔۔ یہ ایک مکالمہ ہے کاتبِ حروف اور آئینہءِ آدم کے درمیان، جس میں معرفت اور شناخت کی کچھ تفاصیل کو واضح کیا گیا ہے۔
تیسرا حصّہ۔۔۔ اور یہ ایک خودکلامی ہے کاتبِ حروف کی زبان سے، اس وقت، جب وہ بذاتِ خود، حقائقِ وجود کیلئے ایک آئینہ بن گیا۔
اس مکالمے میں ہم نے سلوک کے مراحل اور ہر مرحلے کی خصوصیت کو بھی مدِّ نظر رکھا ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے ہم نے روحانی مفاہیم کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ وہ فکر و منطق سے نہیں ٹکراتے۔
اور اس سب سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ دونوں راستوں کے راہی اس سے کچھ نہ کچھ حاصل کریں۔ اور دونوں راستوں سے ہماری مراد، راہِ فلسفہ اور راہِ تصّوف ہے۔ درحقیقت ہم نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ "مابعد الفلسفہ" ہے۔ اور یہ مابعد الفلسفہ کی اصطلاح ہم نے تفنّن ِ خاطر کیلئے وضع نہیں کی، بلکہ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ علم تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ مختلف فلسفوں کی قائم کردہ حدود و قیود اور شرائط سے تجاوز کیا جائے۔
ہم اللہ سے ہی ہر قول و عمل میں راہِ صواب کی توفیق مانگتے ہیں۔ اور وہی سبحانہُ وتعالیٰ ہمارا مددگار ہے
(جاری ہے)۔۔۔۔۔