آئن اسٹائن : جدید سائنس کا بانی

شعیب

محفلین
جسے ایٹم بم کی تھیوری کا بانی کہا جاتا ہے ۔ ہٹلر نے اسے دو مرتبہ قتل کرانے کی کوشش کی تھی

عصر حاضر میں سائنس کی دنیا کے ایک معتبر نام آئن اسٹائن کی طرف سے 1905ء میں پیش کئے گئے پانچ تاریخی مقالوں کی 100 ویں اور ان کی وفات کی پچاسویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ اس حوالے سے 2005 کو فزکس کا عالمی سال قرار دیا گیا ہے ۔ آئن اسٹائن کو ایٹم بم کی تھیوری کا بانی کہا جاتا ہے ۔ اس کے نزدیک اس تھیوری کو پیش کرنے کا مقصد انسانیت کی فلاح تھا ۔ ذیل میں آئن اسٹائن اور اسکے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔

موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی آئن اسٹائن کی مرہون منت ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ جدید دور کا ارسطو تھا ۔ وہ گذشتہ چوبیس سالوں میں منظر عام پر آنے والے ذہین ترین سائنسدانوں میں سے ایک ہے ۔ بلا شبہ اسے اس فہرست میں نیوٹن گیلیو اور ارسطو کا ہم پلّہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ 1905 کے مقابلوں میں انہوں نے ابتدائی طور پر وقت، روشنی اور مادے کے بارے میں نظریہ کو تبدیل کردیا ۔ بعد ازاں خود اس نے ایک دہائی کے بعد اس نظریے کو مزید ترقی دی ۔

آئن اسٹائن نے ایک ایسے وقت میں آنکھ کھولی جب جدید ترقی کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا ۔ لوگ سفر کے لئے بگھی تانگے استعمال کرتے تھے ۔ ان کے نظریات نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ایسی حیرت انگیز ترقی کی بنیاد رکھی جس کی مثال گذشتہ دو ہزار سالوں میں نہیں ملتی ۔ جتنی ترقی محض اس ایک صدی میں دیکھنے میں آئی ۔ یہ یقینا آئن اسٹائن کے سائنسی نظریات کا ہی کمال تھا ۔ جب کہ کمپیوٹر، سٹیلائٹ، نیو کلیئر پاور اور نیوکلیئر بموں جیسی سائنسی ایجادات وجود میں آئیں ۔

آئن اسٹائن امن کا حقیقی علمبردار تھا ۔ اسکی خواہش تھی کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہٹلر کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف جرمنی کو خیر باد کہہ دیا ۔ جس نے اس پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ کرایا ۔ اس نے بقیہ زندگی امن کے حصول اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردی ۔ وہ اپنی شہرت کو فاشسٹ ازم اور نسلی تعصّبات کے خلاف بھر پور طریقے سے استعمال کرتا ۔ انسانیت کے حقوق کا علمبردار یہ عظیم سائنسداں 18 اپریل 1955 کو 76 برس کی عمر میں وفات پاگیا لیکن اپنے پیچھے علم کا ایک ایسا بیش بہا خزانہ چھوڑ گیا جس کے بغیر اس دنیا کی ترقی کا تصور ممکن نہیں تھا ۔ اس کی وفات کے موقع پر ایف بی آئی کی تیار کردہ فائل 1400 صفحات پر مشتمل تھی ۔ دنیا کو ترقی کے دھارے میں شامل کرنے والا آئن اسٹائن خود ذاتی زندگی میں انتہائی مضطرب اور پریشان حال انسان تھا ۔ دو مرتبہ ازدواجی زندگی شروع کی، بدقسمتی سے دونوں ہی مرتبہ وہ خوشگوار زندگی کی خوشیاں سمیٹنے میں ناکام رہا ۔ اس کے قریبی حلقوں کے مطابق اس کی ذاتی زندگی انتہائی پر آشوب تھی حتی کہ وہ اپنے بچوں کے مسائل سے بھی بالکل لاتعلق ہوگیا تھا ۔ اسکے دوست اور رشتہ دار اس کے عجیب و غریب رویے کی وجہ سے سخت نالاں رہے ۔ وہ فوٹو گرافرز کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا تھا اسکے برعکس وہ کارٹونسٹوں میں کافی مقبول تھا ۔

بیسویں صدی کے آغاز میں آئن اسٹائن نے خود کو کافی حد تک مصروف کرلیا ۔ زیادہ تر وقت فزکس سے متصادم تصورات سے نبرد آزما ہونے میں صرف کرتا ۔ اپنے سوئس آفس کے دفتر میں بیٹھ کر پہروں اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے تجربات پر کام کرتا رہتا ۔ آئن اسٹائن کا مقولہ تھا کہ تصورات علم سے زیادہ اہم ہیں اس لئے ضروری ہے کہ جستجو کا عمل جاری رہنا چاہئے ۔ 1905 ان کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اِس دوران اس کے پانچ شاہکار مقالے شائع ہوئے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ۔ یہیں سے آئن اسٹائن کی ایک سائنسدان کی حیثیت سے پہچان شروع ہوئی آئن اسٹائن گھر سے پرنسٹن یونیورسٹی کا سفر پیدل چل کر طے کرتا تھا ۔ اسے گاڑیوں میں سفر کرنا قطعی پسند نہیں تھا، پیدل چلتے ہوئے وہ سوچوں میں گم حقائق پر غور کرتا رہتا ۔ اس کی عادت تھی کہ وہ دفتر جاتے وقت اپنی چھتری باغ کے لوہے کے جنگلے کے اوپر رکھ کر اس عمل سے لطف اندوز ہوتا غلطی سے اگر چھتری اچھل جاتی تو وہ یہ عمل دوبارہ از سر نو شروع کردیتا ۔

پانچ نکاتی مقالہ کا پہلا کام مارچ 1905ء میں سامنے آیا جس کے مطابق روایتی فزکس میں روشنی شعاع کی لہر کی شکل میں ہوتی ہے ۔ جب کہ آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ روشنی توانائی کے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں یا کونٹیا انفرادی ذرات پر مشتمل ہے ۔ ماڈرن سائنس کا پہلو اس قدر مبہم ہے کہ اس پر آئن اسٹائن نے بھی طبع آزمائی کی کوشش نہیں کی ۔ ’’فوٹو الیکٹرانک اثرات‘‘ پر اسے 1921ء میں نوبل پرائز کا حقدار قرار دیا گیا ۔ اپریل میں پیش کیا گیا دوسرا مقالہ چینی کے مالیکیولز کے متعلق ہے جس میں اسکی پانی میں حل پذیری کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا ۔

مئی میں منظر عام پر آنے والا تیسرا مقالہ پانی میں مالیکیولز کی غیر ہموار حالت اور اس کے آئٹم کی بے ترتیبی کے متعلق تھا جسے براؤنین موشن کا نام دیا گیا ۔ آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ ایٹم وجود رکھتے ہیں اور پھیلاؤ پر کیمیائی عناصر بناتے ہیں ۔ جون میں آئن اسٹائن کا چوتھا مقالہ سامنے آیا جو ’’قانون بقائے مادہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا جس کے مطابق مادے کو فنا نہیں کیا جاسکتا ۔ جب کہ نیوٹن کا کہنا ہے کہ کشش ثقل ہی اہم چیز ہے ۔ اسکا کہنا تھا کہ حجم ہی حجم کو کھینچتا ہے ۔ سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روشنی بہت سے الیکٹرو میگنیٹس شعاعوں میں سے ایک ہے جو کسی بھی میڈیم میں حرکت کرسکتی ہے جسے وہ ایتھر کا نام دیتے ہیں ۔ اِن کا کہنا تھا کہ روشنی کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے ۔

نومبر میں آئن اسٹائن کا پانچواں اور آخری مقالہ سامنے آیا جس میں اِس نے قانون بقائے مادّہ کو وسعت دی جو کمیت کو توانائی میں تبدیل کرنے کے متعلق تھا ۔ آئن اسٹائن ایٹمی تھیوری کو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال میں لانا چاہتے تھے ۔ اِن کا مقصد ہرگز انسانیت کی ہلاکت نہیں تھا ۔ عمر کے آخری حصے میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد آئن اسٹائن نے ہر فورم پر امریکہ کی دنیا کو فتح کرنے اور ایٹمی پالیسیز کی بھر پور مخالفت کی ۔

شکریہ روز نامہ منصف حیدر آباد


شعیب، دبئی سے ایک ہندوستانی



ِ
 

جیسبادی

محفلین
خوبصورت پراپیگنڈہ ہے۔ لگتا ہے کہ برصغیر کی ساری اخباریں ترجمہ کرنے پر ہی گزارہ کرتی ہیں۔ اپنی دماغ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
 
امن

جیسبادی نے کہا:
خوبصورت پراپیگنڈہ ہے۔ لگتا ہے کہ برصغیر کی ساری اخباریں ترجمہ کرنے پر ہی گزارہ کرتی ہیں۔ اپنی دماغ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

غالباً آپ اس مضمون کی امن والی باتوں کو پراپگینڈہ کہہ رہے ہیں۔ ذرا اس حوالے سے اپنے نکتۂ اعتراض روشنی ڈالیں گے؟
 
جیسبادی نے لکھاہے۔
خوبصورت پراپیگنڈہ ہے۔ لگتا ہے کہ برصغیر کی ساری اخباریں ترجمہ کرنے پر ہی گزارہ کرتی ہیں۔ اپنی دماغ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔
پتہ نہیں آپ نے ایسا کیوں لکھا ۔۔۔ آپ کو کیا چیز اس میں پراپیگنڈہ لگی ۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں آپ سمجتھے ہیں کہ چُھری کا استعمال سبزی کاٹنا نہیں بلکہ لوگوں کے ہاتھ کاٹنا ہے۔
میرے خیال میں دوسرے کی اچھی باتوں کو ماننا چاہیے اور اگر کسی نے کوئی اچھا کام کیا ہو تو اسے بھی قبول کرنا چاہئے۔ :( :? :cry:
 
المیہ

ہمارا مسلم قوم کا ایک عظیم المیہ یہ ہے کہ ہم آپ ایک اہم فرض کو ترک کئے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ “ علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے“ مگر ہمارے علماء نے اسے فرضِ کفایا بنا دیا۔ حساب، الجبرا، لوگرتھم، جراہی، کیما وغیرہ کے علوم مسلمان سائینس دانوں کی مہربانیاں ہیں جنکا آج بھی یورپ کے نصاب اعتراف کرتے ہیں۔

مگر دوسری طرف آج ہم کہتے ہیں کہ جو حساب میں تیز ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا، کسی بھی شعبہ میں مہارت ایک بندہ کرلے تو سب بری۔ عورتوں کی تعلم بند، اور گائناکالوجی کو غیر شرعی قرار دیا جاتا ہے۔

رونا تو اس بات پر آتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے جب ساری دنیا ان پڑھ تھی تو کہا جاتا ہے کہ “ جو قیدی دس پچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اسکا جزیہ ادا ہوا“۔ فن تحریر میں ایک انقلابی ترقی آتی ہے اور دنیا آج بھی انسانی ترقی کے ادوار میں طلوع اسلام کو ایک اہم موڑ تسلیم کرتی ہے مگر آ ج جب لوگ چاند پر پہنچ چکے ہیں اور ادھر بستی بسانے کے چکر میں ہیں تو ہم اسکے دکھنے اور نہ دکھنے پر اتفاق نہیں کر سکتے۔

کیا یہ ساری منافقت کی نشانیاں نہیں؟
 
Top