نظر لکھنوی غزل: رہِ صواب کو چھوڑیں کبھی نہ فرزانے ٭ نظرؔ لکھنوی

رہِ صواب کو چھوڑیں کبھی نہ فرزانے
ہماری طرح سے وہ تو نہیں ہیں دیوانے

چلے ہیں فلسفۂ عشق سب کو سمجھانے
جنابِ شیخ کو کیا ہو گیا خدا جانے

پھِرا کے سَبحۂ گرداں کے ایک سو دانے
چلا ہے زاہدِ ناداں خدا کو اپنانے

وہ اپنی بات سے پھرتے نہیں کبھی کہہ کر
ہم اپنے دین سے پھر جائیں ایسے دیوانے

قدم اٹھانے سے پہلے تجھے خبر کر دوں
یہ راہِ عشق ہے کھوٹے کھرے کو پہچانے

صنم کدوں میں ہی جا کر کریں تکلف کیا
ہمارے کعبۂ دل میں ہزار بت خانے

اسی کے جادۂ پنہاں کا دل ہے شیدائی
حقیقت اتنی ہے باقی تو سب ہیں افسانے

ہمارے دل میں ہے کس کا یہ زخم یوں گہرا
کسی کے پاس ہو گہری نظرؔ تو پہچانے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top