خورشید رضوی

  1. نوید صادق

    خورشید رضوی نظم-سات سمندر پار وطن کی یاد۔۔خورشید رضوی

    خورشید رضوی سات سمندر پار وطن کی یاد اے میرے وطن اے پیارے وطن جب اسکولوں کے گیٹ کھلیں جب بچوں‌کا ریلا آئے پتھر کی سڑک پر پھول کِھلیں خوشبوؤں کا دریا آئے جب ایک سی وردی پہنے ہوئے بچوں کو گھر والے بھولیں جب سائیکلوں اور تانگوں پر بستے لٹکیں، تھرمس جھولیں تب سات سمندر طے کر کے اُن...
  2. نوید صادق

    خورشید رضوی نبضِ ایّام ترے کھوج میں چلنا چاہے - پروفیسر خورشید رضوی

    غزل نبضِ ایام ترے کھوج میں چلنا چاہے وقت خود شیشہء ساعت سے نکلنا چاہے دستکیں دیتا ہے پیہم مری شریانوں میں ایک چشمہ کہ جو پتھر سے ابلنا چاہے مجھ کو منظور ہے وہ سلسلہء سنگِ گراں کوہکن مجھ سے اگر وقت بدلنا چاہے تھم گیا آ کے دمِ بازپسیں، لب پہ وہ نام دل یہ موتی نہ اگلنا نہ نگلنا چاہے...
  3. محمد وارث

    پروفیسر خورشید رضوی کی ایک غزل درکار ہے!

    آج بہت عرصے کے بعد 'جم' کر ٹی وی دیکھنے کا اتفاق ہوا، اور شکر خدا کا کہ دو تین گھنٹے ضائع نہیں ہوئے، ایک چینل پر ایک مشاعرہ مل گیا تھا جس کی نظامت فرحت عباس شاہ کر رہے تھے، مشاعرہ شاید حال میں ہی ہوا تھا کہ جشنِ بہاراں کے سلسلے میں تھا۔ اس مشاعرے میں پروفیسر خورشید رضوی کی ایک غزل مجھے انتہائی...
  4. نوید صادق

    خورشید رضوی دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ۔۔۔۔۔(خورشید رضوی)

    غزل دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنہیں آتا تھا خاک سے دل جو اٹے ہوں انہیں جاری کرنا موت کی ایک علامت ہے ، اگر دیکھا جائے روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا تو کہاں مرغِ چمن، فکرِ نشیمن میں پڑ ا کہ ترا کام تو تھا نالۂ و...
  5. نوید صادق

    خورشید رضوی گُل کھلاتی ہے ، کبھی خاک اڑ اتی ہے یہ خاک ۔۔۔۔۔ (خورشید رضوی)

    غزل گُل کھلاتی ہے ، کبھی خاک اڑ اتی ہے یہ خاک شعبدے کرتی ہے ، نیرنگ دکھاتی ہے یہ خاک میں تو خود خاک ہوں میرا تو بھلا کیا مذکور آسمانوں سے ستاروں کو بلاتی ہے یہ خاک سال ہا سال کِھلاتی ہے جسے رزق اپنا آخرِ کار اُس انسان کو کھاتی ہے یہ خاک سب سے آخر میں اُبھارے تھے جو رفتہ رفتہ سب...
  6. نوید صادق

    خورشید رضوی یہ مری روح میں گونجتا کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔(خورشید رضوی)

    غزل یہ مری روح میں گونجتا کون ہے بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے کون سبزے کی صورت میں پامال ہے سرو بن کر چمن میں کھڑ ا کون ہے کس سے چھپ چھپ کے ملنے کو جاتی ہے تو جنگلوں میں ، بتا اے صبا، کون ہے پھول کھلنے کی کوشش سے اُکتا گئے آنکھ بھر کر انہیں دیکھتا کون ہے بے دلی سے کہاں...
  7. نوید صادق

    خورشید رضوی یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے ۔۔۔۔۔(خورشید رضوی)

    غزل یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ...
  8. نوید صادق

    خورشید رضوی ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو ََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔ (خورشید رضوی)

    غزل ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو جھلک اُس آنکھ کی دکھلا کے ستارہ مجھ کو ہوں میں وہ شمع سرِ طاق جلا کر سرِ شام بھول جاتا ہے مرا انجمن آرا مجھ کو رائگاں وسعتِ ویراں میں یہ کھلتے ہوئے پھول ان کو دیکھوں تو یہ دیتے ہیں سہارا مجھ کو میری ہستی ہے فقط موجِ ہوا، نقشِ حباب کوئی دم اور...
  9. نوید صادق

    خورشید رضوی یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں ،،، (خورشید رضوی)

    غزل یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا...
  10. نوید صادق

    خورشید رضوی پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے ۔۔۔۔ خورشید رضوی

    غزل پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے میں تجھے دُوں تری پانی کی لکھی تحریریں تو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے میں شب و روز کا حاصل اُسے لوٹا دوں گا وقت اگر...
  11. نوید صادق

    خورشید رضوی رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ خورشید رضوی

    غزل رہینِ صد گماں بیٹھے ہوئے ہیں مگر ہم رائگاں بیٹھے ہوئے ہیں بظاہر ہیں بھری محفل میں لیکن خداجانے کہاں بیٹھے ہوئے ہیں اِدھر صحنِ چمن میں مجھ سے کچھ دور وہ مجھ سے سرگراں بیٹھے ہوئے ہیں اُدھر شاخِ شجر پر دو پرندے مثالِ جسم و جاں بیٹھے ہوئے ہیں ستارے ہیں کہ صحرائے فلک میں...
  12. نوید صادق

    خورشید رضویà ایک درد مند شاعر ۔۔۔ پروفیسر صابری نورِ مصطفٰے

    خورشید رضوی۔۔۔ ایک درد مند شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کا شمار اُن معدودے چند نقادوں اور شاعروں میں ہوتا ہے،جن کو تخلیقی و تنقیدی سرمائے کے ساتھ ایک عالم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ خورشید رضوی پا کستان کے ممتاز ترین ادیب ہیں اور امسال،یوم پاکستان23 مارچ 2009 ئ کے موقع پر اُن کو صدارتی ستارہ امتیاز سے...
  13. نوید صادق

    خورشید رضوی جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں ۔۔خورشید رضوی

    غزل جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے ، نہیں ، ایسا نہیں وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا...
  14. نوید صادق

    خورشید رضوی کڑی ہے دھوپ، گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں ۔۔۔۔۔ خورشید رضوی

    غزل کڑی ہے دھوپ، گھٹا بن کے خود پہ چھاتے جائیں کسی کو یاد کریں اوس میں نہاتے جائیں یہ دل کی بھول بھلیاں، یہ ایک سے رستے ہر ایک موڑ پہ کوئی نشاں لگاتے جائیں سیاہ کیوں ہوں یہ طاق و دریچہ و محراب چلے ہیں گھر سے تو جلتا دیا بجھاتے جائیں یہ میری آپ کی ہمسائیگی کی آئینہ دار جو ہو سکے...
  15. نوید صادق

    خورشید رضوی دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں ۔۔۔۔ خورشید رضوی

    غزل دنیا کے ساتھ میں بھی برباد ہو رہا ہوں کس کس کو کھو چکا ہوں اور خود کو کھو رہا ہوں کھڑکی کھلی ہوئی ہے، بارش تلی ہوئی ہے آنسو امڈ رہے ہیں دامن بھگو رہا ہوں وہ جس کے ٹوٹنے سے نیندیں اڑی ہوئی ہیں وہ خواب جوڑنے کو، بن بن کے سو رہا ہوں ہاں فصل کاٹنے سے کوئی غرض نہیں ہے آیا کرے قیامت، میں...
  16. نوید صادق

    خورشید رضوی سحرِ آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو ۔۔۔۔۔ خورشید رضوی

    غزل سحرِ آئینہ کچھ ایسا ہے کہ ڈر پیدا ہو بول کچھ بول کہ دیوار میں در پیدا ہو پھر وہی سلسلہء نقشِ قدم دکھلا دے چشمکِ برقِ رواں، بارِ دگر پیدا ہو دل وہ پاگل ہے کہ ہو جائے گا غرقاب وہیں جھیل کی تہہ میں اگر عکسِ قمر پیدا ہو حسن ہے حسن وہی جس کے مقابل آ کر دیدہء کور میں بھی تارِ نظر...
  17. نوید صادق

    خورشید رضوی خورشید رضوی کی ایک غزل

    میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ نہیں ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے پہنچ رہی ہے وہاں تک مری صدا کہ نہیں زباں پہ کچھ نہ سہی، سن کے میرا حالِ تباہ ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں لبوں پہ آج سرِ بزم آ گئی تھی بات مگر وہ تیری نگاہوں کی...
Top