شاہ نصیر

  1. فرخ منظور

    ادھر ابر لے چشمِ نم کو چلا ۔ شاہ نصیر دہلوی

    ادھر ابر لے چشمِ نم کو چلا ادھر ساقیا! میں بھی یم کو چلا مبارک ہو کعبہ تمھیں شیخ جی! یہ بندہ تو بیتُ الصنم کو چلا سرِ رہ گزر آہ اے بے نشاں کدھر چھوڑ نقشِ قدم کو چلا جواہر کا ٹکڑا ہے یہ لختِ دل تو اے اشک لے اس رقم کو چلا ترا مائلِ حسن اے سرو قد سنا ہے کہ ملکِ عدم کو چلا حبابِ لبِ...
  2. فاتح

    اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں ۔ شاہ نصیر

    اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں برق چمکتی کیوں کہ ہے؟ ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں چوری سے اس کے پاؤں تک پہنچی تھی شب کو کس طرح آ کہیں ہاتھ مت بندھا، کہہ دے اب اے حنا کہ یوں دن کو فلک پہ کہکشاں نکلے ہے کیوں کہ غیرِ شب؟ چینِ جبیں دکھا مجھے اس نے دیا بتا کہ یوں جیسے کہا کہ عاشقاں رہتے...
  3. فاتح

    عشق میں خاک اے بُتاں ہے زیرِ پا بالائے سر ۔ شاہ نصیر

    شاہ نصیر کو انتہائی مشکل زمینوں میں انتہائی خوبصورت اشعار اور غزلیں کہنے کا ملکہ حاصل تھا۔۔۔ ان کی یہ غزل بھی اسی فن کا ایک ثبوت ہے: عشق میں خاک اے بُتاں ہے زیرِ پا بالائے سر آب و آتش شمع ساں ہے زیرِ پا بالائے سر سبزۂ نوخیز و تارِ بارش اے ساقی ہمیں بن ترے تیر و سناں ہے زیرِ پا بالائے سر فرش...
  4. فاتح

    ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا ۔ شاہ نصیر

    ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا تجھ سے پر ساقیِ کم ظرف! سبو ٹوٹ گیا شیخ صاحب کی نمازِ سحَری کو ہے سلام حسنِ نیت سے مصلّے پہ وضو ٹوٹ گیا پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی دستِ شانہ سے تری زلف کا مُو ٹوٹ گیا دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں پیرہن کا مرے ہر تارِ رفو ٹوٹ...
  5. فاتح

    جا چھوڑ دیا حافظِ قرآن سمجھ کر ۔ دو غزلہ از شاہ نصیر

    غزل 1 رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر چلتا ہے زمیں پر ہر اک انسان سمجھ کر ہشیار دِلا رہیو کہ دکھلا کے وہ زلفیں لیتا ہے تجھے پہنچے میں نادان سمجھ کر سرکا ہے دوپٹا رخِ مہ وَش پہ سحر کو گردوں پہ نکل مبرِ درخشان سمجھ کر لایا ہوں تری نذر کو لختِ جگر و اشک رکھ دستِ مژہ پر دُرِ مرجان سمجھ کر...
  6. فاتح

    میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا ۔ شاہ نصیر

    شاہ نصیرؔ کو مشکل اور ادک زمینوں اور قافیوں میں شعر کہنے پر کمال حاصل تھا۔ مشکل زمین میں ان کی ایک غزل میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا سقفِ فلکِ کہنہ میں کیا خاک لگاؤں اے...
Top