دہلوی

  1. طارق شاہ

    راسخؔ دہلوی:::::سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا:::::RASIKH -DEHLVI

    غزل راسخؔ دہلوی سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا بڑا گُناہ، دِلِ ناصبُور ہم سے ہُوا جو کُچھ نہ ہونا تھا، ربِّ غفُور! ہم سے ہُوا کیے گُناہ بہت کم، قُصُور ہم سے ہُوا فِراقِ یار میں ہاں ہاں ضرُور ہم سے ہُوا ضرُور صبر، دلِ ناصبُور! ہم سے ہُوا جَفا کے شِکوے پہ اُن کی وہ نیچی نیچی نَظر وہ...
  2. طارق شاہ

    درد خواجہ میر درد :::: سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے :::: Khwajah Meer Dard

    غزل سر سبز نیستاں تھا میرے ہی اشکِ غم سے تھے سینکڑوں ہی نالے وابسطہ ایک دَم سے واقف یہاں کسی سے ہم ہیں نہ کوئی ہم سے یعنی کہ آگئے ہیں بہکے ہُوئے عَدم سے مَیں گو نہیں ازل سے، پر تا ابد ہُوں باقی میرا حدوث آخر جا ہی بِھڑا قدم سے گر چاہیے تو مِلیے اور چاہیے نہ مِلیے سب تُجھ سے ہو سکے ہے، مُمکن...
  3. طارق شاہ

    احسن اللہ خان بیاؔں :::::: کیا بے طرح ہُوئی تِری دُوری میں شام آج :::::: Ahsan ullah KhaN bayaaN

    غزلِ احسن اللہ خان بیاؔں ۔ کیا بے طرح ہُوئی تِری دُوری میں شام آج مرنے کے پھر نہیں، نہ ہُوئے جو تمام آج تُو بزم سے اُٹھا، کہ ہُوئی تلخ مے کشی ! میں سچ کہوُں، شراب کو سمجھا حَرام آج غم جس کے پاس ہے، وہ فلاطُوں سے کم نہیں جمشید ہے وہ جس کو میسّر ہے جام آج اُس زُلف میں ہو گر، سَرِ مُو...
  4. طارق شاہ

    درد خواجہ میر درد :::: تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا :::: Khwajah Meer Dard

    غزل تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات ! ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر ! مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
  5. طارق شاہ

    میر تقی مِیؔر ::::::پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح :::::: Mir Taqi Mir

    پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی ! اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ ! ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے ! ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
  6. صادق آبادی

    داغ دل پریشان ہوا جاتا ہے

    دل پَریشان ہوا جاتا ہے اور سامان ہوا جاتا ہے خدمتِ پیرِ مغاں کر زاہد تُو اب انسان ہوا جاتا ہے موت سے پہلے مجھے قتل کرو اُس کا اِحسان ہوا جاتا ہے لذتِ عشقِ اِلٰہی مِٹ جائے درد ارمان ہوا جاتا ہے دَم ذرا لو کہ میرا دَم تُم پر ابھی قُربان ہوا جاتا ہے گِریہ کیا ضَبط کروں اے نَاصح...
Top