راسخؔ دہلوی:::::سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا:::::RASIKH -DEHLVI

طارق شاہ

محفلین
غزل
راسخؔ دہلوی
سوالِ وَصْل پہ، وہ بُت نَفُور ہم سے ہُوا
بڑا گُناہ، دِلِ ناصبُور ہم سے ہُوا

جو کُچھ نہ ہونا تھا، ربِّ غفُور! ہم سے ہُوا
کیے گُناہ بہت کم، قُصُور ہم سے ہُوا

فِراقِ یار میں ہاں ہاں ضرُور ہم سے ہُوا
ضرُور صبر، دلِ ناصبُور! ہم سے ہُوا

جَفا کے شِکوے پہ اُن کی وہ نیچی نیچی نَظر
وہ ہاتھ باندھ کے کہنا، قُصُور ہم سے ہُوا

اُمِید کہتے ہیں کِس کو، یقین ہے زاہد!
گئے بہشت میں ہم، عِشقِ حُور ہم سے ہُوا

کِھنچا بَصورتِ خنجر، بَنا رَگِ گردَن !
وہ جِتنا پاس رَہا، اُتنی دُور ہم سے ہُوا

گُناہگار نہ ہوتے، تو عَفْو کیا ہوتا!
الٰہی! تیرے کَرَم کا ظہُور ہم سے ہُوا

تمھارے گالوں پہ کِس دِن تھا چار چُلُّو خُون
شہید وہ ہیں کہ چہرے پہ نُور ہم سے ہُوا

یہ کہہ رہے ہیں کِسی کی نشیلی آنکھ کے تِیر!
کہ چشمِ زخمِ جِگر میں سُرُور ہم سے ہُوا

کہے تو جائیے ترکِ بُتاں کی، اے واعظ!
حُضُور ہم سے یہ ہوگا، حُضُور ہم سے ہُوا

ہَمِیں تو توڑتے ہیں جام، مُحتَسِب سچ ہے!
کِسی کا شِیشۂ دِل چُور چُور ہم سے ہُوا

خَطا مُعاف! یہ جی میں ہے، لے کے بَوسۂ زُلف
تُمھِیں سے عرض کریں گے! قُصُور ہم سے ہُوا

حَیا میں شوخی سِکھائی تُمھیں، کَرَم میں سِتَم
نِگہ میں ناز، ادا میں غُرُور ہم سے ہُوا

شراب پی ہے بَیادِ رُخِ ملیح بُتاں
یہ آب، رشکِ شرابِ طہُور ہم سے ہُوا

سلیقہ، ہم نے بتایا سِتَم گری کا تُمھیں
تمیز، ہم نے سِکھائی، شعُور ہم سے ہُوا

نِکال لائے بُتوں کو ہزار پردوں سے!
جہاں میں عام تماشائے طُور ہم سے ہُوا

کمال یہ ہے کہ اِنساں بنے، وہ بُت راسِخؔ
یہ مانا، رشکِ پَرِی، رشکِ حُور ہم سے ہُوا


راسِخؔ دہلوی
1907 دہلی، انڈیا



 
آخری تدوین:
Top