ہاں ہوجاے عشق تو پھر انکار کیا کریں
رویں گر نہ ہم تو تیرےبیمار کیا کریں
جو دل میں عداوتیں تو لب پر وفا کا ذکر
ہو ایسا اگر پیار پھر پیار کیا کریں
نگاہیں بیان کر چکی حالِ دل تمام
جو کھولیں زبان اب تو اظہار کیا کریں
کہ ہم منکرینِ عشق تھےکل کی بات ہے
ہیں ہم بھی اج اس کے جو سزاوار کیا...
غم کہاں تک شمار کرتے ہم
اس ستم گر سے پیار کرتے ہم
___________________
یوں نہ دل بے قرار کرتے ہم
بے وفا سے نہ پیار کرتے ہم
__________________ اس میں کون سا مطلح صیح یے
یہ بھی ممکن تھا مل ہی جاتا وہ
اور گر انتظار کرتے ہم
__________________
تو جو کہتا ہمیں محبت سے
جان تجھ پر نثار کرتے ہم...
عشق میں یہ وبال ہوتا ہے
کر کے جینا محال ہوتا ہے
کس ادا سے وہ ٹالتے ہیں اسے
جب بھی ذکرِ وصال ہوتا ہے
حسرتیں اور اداسیاں لے کر
پھر بھی جینا سوال ہوتا ہے
ہر کسی کو ملے جو چاہے وہ
زندگی میں محال ہوتا ہے
جو بھی انساں خطایں کرتا ہے
کھبی اس کو ملال ہوتا ہے
چھپا کے غم ہزار سینے میں
مسکرانا...
کیا کھبی اس طرح بھی گزری ہے
زندگی بے وجہ بھی گزری ہے
تیری الفت میں ہم پہ اے ہمدم
درد کی انتہا بھی گزری ہے
کوہی پیغامِ دوست لای کیا
ابھی تازہ ہوا بھی گزری ہے
ہر جگہ غم اداسیاں ہر سو
رندگی اس طرح بھی گزری ہے
ہجر سے بڑھ کے دنیا میں ریحاں
کوہی اب تک سزا بھی گزری ہے
یہ غزل اب کچھ اس طرح سے...
اسیر زلف کے تیری اے یار ہم بھی ہیں
کہ ایک تو ہی نہیں بیقرار ہم بھی ہیں
جو ہم کو بھی روتا ہے اٹھ کے راتوں میں
کسی کا چین کسی کا قرار ہم بھی ہیں
جو لٹ گیا چمن باغباں کے ہاتھوں سے
اسی چمن کی فصلِ ِبہار ہم بھی ہیں
نہ ایک مبتلاے غمِ عشق ہی نہیں ہم تو
ابھی اسیرِ غم روزگار ہم بھی ہیں
یہ تجھے کس خطا نے روکا ہے
ہم کو تیری ادا نے روکا ہے
ہم بھی چلتے گناہ کرنے کو
فکرِروزِ جزانے روکا ہے
اس چمن میں یہ پھول کیلیے نہیں
مجھ کوخارِوفا نے روکا ہے
شہر سے جانا تھا ہمیشہ کو
پھر یہ تیری صدا نے روکا ہے
میکشی سے تجھے اے واعظ بس
فقط اپنی انا نے روکا ہے
کب سے ڈرنے لگے خدا سے وہ
کب...