نتائج تلاش

  1. A

    برائے اصلاح: خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے

    خوف اک پیش و پس میں رہتا ہے جانے کیا دُکھ نفس میں رہتا ہے جان کا کچھ نہیں بھروسہ پر دل مُسلسل ہوس میں رہتا ہے روح رہتی ہے جسم میں جیسے اک پرندہ قفس میں رہتا ہے سلطنت لاکھ سُکھ میں جیتی ہو ایک نالہ جرس میں رہتا ہے ہو جو اک بار آنکھ سے اوجھل کون پھر دسترس میں رہتا ہے کب مچل جائے کیا کہیں دل...
  2. A

    برائے اصلاح: نہیں مِل رہا بڑی دیر سے مِری ذات کا ہی پتا مجھے

    الف عین ڈاکٹر عظیم سہارنپوری محمد خلیل الرحمٰن محمّد احسن سمیع :راحل: ----------- نہیں مِل رہا بڑی دیر سے مِری ذات کا ہی پتا مجھے میں کسے کہوں کہ خبر کرے، میں کسے کہوں کہ بتا مجھے وہ سبق میں پڑھ کے بُھلا چُکا کہ اُصول تھامے رہو صدا کوئی منتقی سی دلیل دے، یہ مُحاورے نہ سُنا مجھے میں تو شاد...
  3. A

    غزل برائے اصلاح: جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا

    مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا میں دشمنوں کے درمیاں بھی حوصلے میں تھا ایسا نہیں کہ بس وہی مسمار ہو گیا میرا تمام جسم بھی تو زلزلے میں تھا ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے اک قربتوں کا ذائقہ سا فاصلے میں تھا جس پر سبھی یقیں کریں کہ رہنما ہے وہ ایسا کوئی بھی...
  4. A

    برائے اصلاح: تِرے فراق میں بڑھتا ہوا ملال ختم

    مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ---------------------- تِرے فراق میں بڑھتا ہوا ملال ختم تجھے اُداس جو دیکھا تو ہر سوال ختم تِرے وجود میں دیکھا کبھی جو تاج محل مِری نگاہ میں وہ تیرے خدوخال ختم محبتوں کی فُسوں کاریاں بے کار گئیں یہاں پہ عشق فنا ہے وہاں جمال ختم بڑے سنبھال کے رکھے تِرے خطوط مگر...
  5. A

    غزل برائے اصلاح: ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے

    فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن ان کہی بات بھی اِظہار میں آ جاتی ہے دل لگی چُھپ کے بھی اقرار میں آ جاتی ہے داستاں اپنی بھی اک دن کہیں چھپ جائے گی اب تو ہر بات ہی اخبار میں آ جاتی ہے دُکھ کِسی شخص کا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا جان خود میری بھی آزار میں آ جاتی ہے بات تہذیب کی پگڈنڈیوں سے گزرے...
  6. A

    غزل برائے اصلاح: میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا

    مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن میں ایک خواب نیند میں کھو کر چلا گیا اک اور اپنا روز یوں سو کرچلا گیا جانے دُعا وہ کس کی تھی جو کام کرگئی اک حادثہ قریب سے ہو کرچلا گیا خوابوں کے گلشنوں میں ہیں کانٹے اُگے ہوئے یہ کیا تُو میری نیند میں بو کر چلا گیا! میری سُنی نہ ایک، بس اپنی کہے گیا ساتھی بھی درد...
  7. A

    غزل برائے اصلاح

    میں اِس طرح نصیب کے ہاتھوں اُجڑ گیا جس نے مُجھے قریب سے دیکھا وہ ڈر گیا تُو نے یہ کس لڑائی میں مجھ کو لڑا دیا تجھ کو قبا کی فِکر ہے میرا تو سر گیا اے زندگی مزاج میں یہ تلخیاں ہیں کیوں جو بھی تِری پناہ میں آیا وہ مر گیا مُڑنا تھا جس مقام سے گھر کے لیئے مجھے شاید میں اُس مقام سے آ گے گزر گیا...
Top