عشق کے حوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
درد کی مثالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
میں کہوں محبت میں جان بھی لٹا دونگا
میرے ان خیالوں سے اُن کو خوف آتا ہے
عاجزی تو لازم ہے پر اَنا کے عادی ہیں
سر جھکانے والوں سے اُن کو خوف آتا ہے
پوچھ لوں کبھی اُن سے ساتھ کب تلک دینگے
میرے ان سوالوں سے اُن کو خوف آتا ہے...