- 016 -
شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اک حلقۂ گرداب تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں...