سر شفقت کے لیے بہت شکریہ۔
مصرع پہلے سے زیادہ بہتر اور موزوں ہے-
(جسم و جاں تیرے ہی ہیں، اور روح و قالب بھی ترے)
"جب ابلاغ ہی نہیں ہو گا کہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں تو مشورہ بھی نہیں دیا جا سکتا درستی کا" کی وضاحت فرما دیں۔
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
ایک محفل میں ابراہیم ذوق صاحب کا یہ مصرع غزل کے لیے پیش کیا گیا تھا- ایک ناقص سی کاوش پر احباب کی نظر شفقت درکار ہے۔
"جس جگہ پر جا لگی وہ ہی کنارہ ہو گيا"
بعد الفت ہم پہ بھی یہ آشکارہ ہوگیا
درد ہجراں سے تعلق اب ہمارا ہوگیا
آنکھ اٹھتے ہی قیامت خیزیاں برپا ہوئیں
زلف ہٹتے ہی قیامت کا نظارہ ہو...
آسماں پیار کی پونجی جو ادا کرتا ہے
ڈھلتا سورج بھی اُسی حق میں دعا کرتاہے
تجھ کو لاتا ہے سرِشام خیالوں میں مرے
ہجر کا چاند بھی اس جاں کا بھلا کرتا ہے
روگ ہستی کے چھپانے سے کہاں چھپتے ہیں
درد بڑھ جائے تو آنکھوں سے بہا کرتا ہے
یار کو قبلہ کیا عشق عبادت...
میں نے بھی اسی جستجو میں اسے یہاں پیش کیا ہے، کہ سنا تھا (ابھی تک پڑھا نہیں) بہت سے شعراء نے اس غزل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہ کیا وجوہات ہیں، جاننے کے لیے یہ لڑی بنائی ہے۔
یہاں شہزاد قیس کی مشہور زمانہ غزل (ردیف، قافیہ، بندش، خیال، لفظ گری) پر تبصرہ درکاہے کہ یہ عمومی غزلوں سے ہٹ کر، امراء القیس کے طویل قصیدوں کی طرز پر ہے۔
یہ غزل چار حصوں پرمشتمل ہے۔ پہلے حصے میں صرف پہلا مصراع مفرد الفاظ پر مبنی ہے۔ دوسرے حصے میں صرف دوسرا مصراع مفرد الفاظ پر مشتمل ہے۔ تیسرے...