بہت اچھی اور مترنم غزل ہے فاتح صاحب، کیا کہنے جناب۔
سبھی اشعار بہت اچھے ہیں لیکن یہ شعر بہت پسند آیا
کوچہ بہ کوچہ دل بہ دل، نقشِ وجود گِل بہ گِل
مثلِ صبا و آہِ دل پھرنا ہے جا بجا مجھے
واہ واہ واہ، لاجواب۔
جی ایک کیفی چڑیا کوٹی تھے، تخلص تو خیر کیفی ہے مگر چڑیا کوٹ کچھ اس قدر بے کیف ہے کہ تخلص کے کیف کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا، شعر دیکھیے کیسا پرکیف ہے
مزا آیا ہے اُن کو چھیڑنے کا صحنِ گلشن میں
اُڑا جب رنگِ رُخ، رنگت نکھر آئی گلستاں کی
ایک خیالی اور نادر پرندہ ہے جو اپنی جسامت کی وجہ سے مشہور ہے لغت میں ہے کہ تیس پرندوں کے برابر یہ ایک پرندہ ہے۔ یہ بھی اردو فارسی شاعری میں اسی قبیل میں سے ہے جس میں ہما، عنقا، سمندر یعنی آگ میں رہنے والا کیڑا وغیرہ ہیں۔ شعر میں بھی یہی مفہوم ہے کہ بہت بڑی اور نایاب و نادر چیز۔
کشایم دام بر کُنجشک و شادم، یادِ آں ہمّت
کہ گر سیمرغ می آمد بدام، آزاد می کردم
(عرفی شیرازی)
(دنیا نے میری یہ حالت کر دی کہ اب) چڑیا پر جال ڈالتا ہوں اور اسی میں خوش ہو جاتا ہوں اور بلند ہمتی کا وہ وقت یادآتا ہے کہ اگر سیمرغ بھی میرے جال میں آ جاتا تھا تو اسے آزاد کر دیا کرتا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
انتہائی افسوس ہوا یہ جان کر عاطف صاحب۔ میں نے مرحوم کے والدین کی حالت کے بارے میں سوچنا چاہ تو نہ سوچ سکا، او میرے خدایا، جوان بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔
جی اس غزل کا مطلع ہے
کہاں آ کے رکنے تھے راستے تھے، کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ گوگل کر لیں تو انشاءاللہ مکمل غزل بھی مل ہی جائے گی۔ اسے غلام علی نے گایا بھی ہے۔