غزل
سچ سے رشتہ نبھا رہا ہُوں مَیں
دوست، دُشمن بنا رہا ہُوں مَیں
لوگ آتے ہیں اُس طرف سے کیوں
جس ہی جانب کو جا رہا ہُوں میں
میرے سینے میں بھی کہیں دل ہے
دُنیا والو ! بتا رہا ہُوں میں
ظلم اِس سے بھی اور ڈھاؤ گے
اب تو نوحے سُنا رہا ہُوں میں
شوق جینے کا کُچھ نہیں صاحب
ایک احساں چُکا رہا ہُوں میں...