احساسِ قرب و دوریِ منزل نہیں رہا
ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا
تسخیرِ کائنات کی سرگرمیاں عبث
زیرِ نگیں ترے یہ اگر دل نہیں رہا
ناکامیوں سے مجھ کو ملا عزمِ مستقل
نعم الحصول ہے کہ جو حاصل نہیں رہا
نالے فلک شگاف نہیں، آہ نا رسا
دل اب کچھ اعتبار کے قابل نہیں رہا
صحنِ چمن میں لالہ و گل...