یہی آدم کی بیٹی ہے
ستم کی تیز آندھی میں
خزاں آثار پیڑوں سے
بکھرتے پات کی صورت
ہوا کا ہاتھ تھامے
چل رہی ہے
کئی الزام سر لے کر
ہمیشہ خشک آنکھوں سے
جو دل اپنا بھگوتی ہے
کبھی شکوہ نہیں کرتی
وہی آدم کی بیٹی ہے
کسی انجان ستے پر
کسی ظا لم اشارے پر
کسی دیوار میں چنوائی جاتی ہے
میرے خالق نے گوندھا ہے
اسے...