زمین
من عاشقِ تنِ جاودانیِ تو هستم
که در بهاران لطیف
و در تابستان
گرم و مطبوع است
تنِ همیشگیِ تو
که در پاییز
از خزانِ عشقها
غنی است
و در زمستان
چون عروسی
در جامهٔ سپید پنهان
میشود
(بیژن جلالی)
زمین!
میں تیرے جاودانی بدن کا عاشق ہوں
جو بہاروں میں لطیف
اور تابستاں میں
گرم و دل پذیر ہے
تیرا...
آیا ممکن است که ما نیز
چون برگهای پاییزی
رقص کنان
به سوی خاک رویم
و در انبوهِ مردگان
در انتظارِ بهارِ دل انگیز
به آرامی و رضا
بیاساییم
(بیژن جلالی)
آیا ممکن ہے کہ ہم بھی
پائیزی پتّوں کی طرح
رقص کرتے ہوئے
خاک کی جانب جائیں
اور مُردوں کے انبوہ میں
بہارِ دل انگیز کے انتظار میں
آرام اور خوشنودی کے...
رحمتِ ترا به یاد میآورم
آنگاه که چون سایهای
بر خاک افتادهام
زیرا در شبِ من
نه راهی در پیش است
و نه راهی در پس
ققط امیدِ رحمتِ توست
که مرا برپای میدارد
(بیژن جلالی)
میں تیری رحمت کو یاد کرتا ہوں
جس وقت میں کسی سائے کی طرح
خاک پر گرا ہوا ہوتا ہوں
کیونکہ میری شب میں
نہ کوئی راہ روبرو ہے
اور نہ...
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
شفقتِ بیپایانِ تو
و شقاوتِ بیحدِ دنیاست
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
ابدیتِ تو
و زودگذریِ دنیاست
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
هستیِ تو
و تهیِ دنیاست
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
امیدِ ازلی
و ناامیدیِ ابدیست
(بیژن جلالی)
اے خدا! میرا دل
تیری بے پایاں شفقت
اور دنیا...
قبل از اینکه
تنِ من را به خاک
بسپارند
من روحم را به کلمات
و کلمات را به کاغذ
میسپارم
(بیژن جلالی)
اس سے قبل کہ
میرے تن کو
سپردِ خاک کر دیں
میں اپنی روح کلمات کو
اور کلمات کاغذ کو
سپرد کر دوں گا
بود پنهان دردِ عشقِ من، فضولی! مدتی
کرد رسوا پیشِ مردم دیدهٔ گریان مرا
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! ایک مدت تک میرا دردِ عشق پنہاں تھا (لیکن بالآخر) مجھے لوگوں کے سامنے میری دیدۂ گریاں نے رسوا کر دیا۔
خلعتِ آلِ تو آن آتشِ ابراهیم است
که نهان است در او نُزهتِ گلهای بهشت
(محمد فضولی بغدادی)...
نیست از مهر، این که خونم را نمیریزد فلک
از برای روزگاری زین بتر دارد مرا
(محمد فضولی بغدادی)
یہ جو فلک میرا خون نہیں بہاتا تو یہ از راہِ محبت نہیں ہے بلکہ اُس نے مجھے اِس سے بدتر زمانے کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
دانستهام که عارضهٔ عشق بیدواست
بیهوده دردِ سر چه رسانم طبیب را؟
(محمد فضولی...
نذر کردم گر از این غم به درآیم روزی
تا درِ میکده شادان و غزلخوان بروم
(حافظ شیرازی)
میں نے نذر کی ہے کہ اگر کسی روز اس غم سے رہا ہو جاؤں تو میخانے کے در تک شاداں و غزل خواں راہ طے کروں گا۔
نهای عاشق اگر فکرِ نجات از قیدِ غم داری
چه نسبت با اسیرِ عشق، تدبیر و تأمل را؟
(محمد فضولی بغدادی)
اگر...
ہجری شمسی تقویم کے ماہِ ثانی 'اردیبہشت' کا روزِ اول، مطابق بہ ۲۱ اپریل، ہر سال یومِ سعدی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جنابِ مصلح الدین سعدی شیرازی نے ایران سمیت اس پورے فارسی زدہ منطقے کے ادبی تکامل میں جو کردار ادا کیا ہے وہ فقط اسی بات سے ظاہر ہے کہ محض ایک صدی قبل تک ایران، عثمانی سلطنت، برِ...
تنم ز آتشِ دل میگداخت گر شبِ غم
سرشک، آب بر آتش نمیفشاند مرا
(محمد فضولی بغدادی)
اگر شبِ غم اشکوں نے میری آگ پر آب نہ چھڑکا ہوتا تو میرا تن دل کی آگ سے پگھل چکا ہوتا۔
چه جویم التفات از گلرخی کز غایتِ شوخی
ز اسبابِ کمالِ حسن میداند تغافل را
(محمد فضولی بغدادی)
میں اُس گُل چہرہ (محبوب) سے...
باور نکردنیست پس از قرنها هنوز
چون دلبرانِ دورهٔ سعدی ستمگری
(عبدالمهدی نوری)
یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ صدیوں بعد بھی تم ابھی تک شیخ سعدی شیرازی کے زمانے کے دلبروں کی طرح ستم گر ہو۔
نمیخواهم که از خوبان شکایت بر زبان رانم
همان بهتر نپرسد هیچ کس حالِ خرابم را
(محمد فضولی بغدادی)
میں نہیں چاہتا کہ خُوبوں کی شکایت (اپنی) زبان پر لاؤں؛ (لہٰذا) یہی بہتر ہے کہ کوئی شخص بھی میرے حالِ خراب کے بارے میں استفسار نہ کرے۔
هیچ شربت نیست بهرِ دفعِ سودایم مفید
غیرِ یادِ وصل و ذکرِ لعلِ...
اینکه گاهی چهرهات را ماه میخوانیم ما
بیشتر از هر کسی مهتاب لذت میبرد
(مهدی رحیمی)
یہ جو ہم بعض اوقات تمہارے چہرے کو 'ماہ' کہہ کر پکارتے ہیں تو (اس بات سے) ہر کسی سے بیشتر (خود) مہتاب لذت اٹھاتا ہے۔
[فارسی زبان میں لفظِ مہتاب، 'ماہ' اور 'تابشِ ماہ' دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔]
شبهای هجر را گذراندیم و زندهایم
ما را به سخت جانیِ خود این گمان نبود
(شکیبی اصفهانی)
ہم نے ہجر کی شبیں گذار دیں اور (پھر بھی) ہم زندہ ہیں؛ ہمیں اپنی سخت جانی کا یہ گمان نہیں تھا۔
آسایشِ دو گیتی، تفسیرِ این دو حرف است
با دوستان مروّت، با دشمنان مدارا
(حافظ شیرازی)
دونوں جہاں کی آسائش (در...
بہت خوب جناب!
===========
سیرِ گلشن کردی و گل غنچه شد بارِ دگر
بسکه از شرمِ جمالت دست پیشِ رو گرفت
(ابوطالب کلیم کاشانی)
تم نے گلشن کی سیر کی اور (نتیجتاً) گُل نے تمہارے جمال سے شرم محسوس ہونے پر اپنے چہرے کو ہاتھوں سے اتنا زیادہ چھپایا کہ وہ دوبارہ غنچہ بن گیا۔
نیست جفتِ ناموافق را علاجی جز طلاق
با تو گر دنیا نسازد، ترکِ دنیا بهتر است
(صائب تبریزی)
ناسازگار و ناموافق جُفت کا بجز طلاق کوئی علاج نہیں ہے؛ (لہٰذا) اگر دنیا کی تمہارے ساتھ نہ نبھے، تو دنیا کو ترک کر دینا بہتر ہے۔
[جُفت = جوڑا]
محمد وارث صاحب نے بالکل درست ترجمہ کیا ہے، اور امِ علی صاحبہ کی بات بھی غلط نہیں ہے۔ ماجرا دراصل یہ ہے کہ 'سر درآوردن' معاصر ایرانی فارسی میں 'سمجھنا، فہم کرنا، درک کرنا' وغیرہ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ کہنہ ادبی فارسی میں اس مصدر کا مطلب کسی کا مطیع ہونا اور سر جھکانا ہی تھا۔
جان به لب، از ضعف نتواند رسید
ما به زورِ ناتوانی زندهایم
(غنی کشمیری)
کمزوری کی وجہ سے (ہماری) جاں لبوں تک نہیں پہنچ پاتی؛ ہم (اپنی) ناتوانی کے زور پر زندہ ہیں۔
گشتم چنان ضعیف که گر آتشم زنند
دودم به پای خویش به روزن نمیرود
(طالب آملی)
میں اتنا ضعیف ہو گیا کہ اگر مجھے جلا ڈالیں تو میرا...