فارسی شاعری بیژن جلالی کے چند اشعار اردو ترجمے کے ساتھ

حسان خان

لائبریرین
قبل از اینکه
تنِ من را به خاک
بسپارند
من روحم را به کلمات
و کلمات را به کاغذ
می‌سپارم

(بیژن جلالی)

اس سے قبل کہ
میرے تن کو
سپردِ خاک کر دیں
میں اپنی روح کلمات کو
اور کلمات کاغذ کو
سپرد کر دوں گا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
شفقتِ بی‌پایانِ تو
و شقاوتِ بی‌حدِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
ابدیتِ تو
و زودگذریِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
هستیِ تو
و تهیِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
امیدِ ازلی
و ناامیدیِ ابدیست

(بیژن جلالی)

اے خدا! میرا دل
تیری بے پایاں شفقت
اور دنیا کی بے حد شقاوت کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
تیری ابدیت
اور دنیا کی ناپائداری کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
تیری ہستی
اور دنیا کی خلا کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
ازلی امید
اور ابدی ناامیدی کا
نقطۂ تصادم ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رحمتِ ترا به یاد می‌آورم
آنگاه که چون سایه‌ای
بر خاک افتاده‌ام
زیرا در شبِ من
نه راهی در پیش است
و نه راهی در پس
ققط امیدِ رحمتِ توست
که مرا برپای می‌دارد

(بیژن جلالی)

میں تیری رحمت کو یاد کرتا ہوں
جس وقت میں کسی سائے کی طرح
خاک پر گرا ہوا ہوتا ہوں
کیونکہ میری شب میں
نہ کوئی راہ روبرو ہے
اور نہ کوئی راہ عقب میں
فقط تیری رحمت کی امید ہے
جو مجھے ایستادہ رکھتی ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آیا ممکن است که ما نیز
چون برگ‌های پاییزی
رقص کنان
به سوی خاک رویم
و در انبوهِ مردگان
در انتظارِ بهارِ دل انگیز
به آرامی و رضا
بیاساییم

(بیژن جلالی)

آیا ممکن ہے کہ ہم بھی
پائیزی پتّوں کی طرح
رقص کرتے ہوئے
خاک کی جانب جائیں
اور مُردوں کے انبوہ میں
بہارِ دل انگیز کے انتظار میں
آرام اور خوشنودی کے ساتھ
آسودۂ خواب ہو جائیں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زمین
من عاشقِ تنِ جاودانیِ تو هستم
که در بهاران لطیف
و در تابستان
گرم و مطبوع است
تنِ همیشگیِ تو
که در پاییز
از خزانِ عشق‌ها
غنی است
و در زمستان
چون عروسی
در جامهٔ سپید پنهان
می‌شود

(بیژن جلالی)

زمین!
میں تیرے جاودانی بدن کا عاشق ہوں
جو بہاروں میں لطیف
اور تابستاں میں
گرم و دل پذیر ہے
تیرا دائمی بدن
جو موسمِ پائیز میں
محبتوں کی خزاں سے
غنی ہے
اور زمستاں میں
کسی دلہن کی طرح
جامۂ سفید میں پنہاں
ہو جاتا ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
صدای تو چون پنجره‌ای بود
که به فضای بی‌پایانی باز می‌شد
به چشم‌اندازِ مطبوع
ولی هراس‌انگیز
زیرا پایانی نداشت
زیرا قانون و منطقی
در آن حکم‌فرما نبود
چشم‌اندازی بود بی‌پایان
با همهٔ زیبایی‌های یک چشم‌انداز
با همهٔ طراوت و رنگ و بوی آن
ولی هراس‌انگیز بود
زیرا مرا به سوی خود می‌خواند
زیرا چون دریایی موج می‌زد
و من ناگزیر
در آن غرقه می‌شدم

(بیژن جلالی)

تیری آواز اُس کھڑکی کی طرح تھی
کہ جو ایک بے کراں فضا کی جانب کھلا کرتی تھی
ایک دل پذیر منظر کی جانب
لیکن خوف انگیز
کیونکہ اُس کا کوئی اختتام نہ تھا
کیونکہ کوئی قانون و منطق
وہاں حکم فرما نہ تھا
وہ منظر بے کراں تھا
کسی منظر کی تمام زیبائیوں کا حامل
اُس کی ساری طراوت اور رنگ و بو کا حامل
لیکن خوف انگیز تھا
کیونکہ مجھے اپنی جانب پکار رہا تھا
کیونکہ کسی دریا کی طرح موج مار رہا تھا
اور میں لامحالہ
اُس میں غرق ہو جاتا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
همچنان که پرندگان در فصلِ بهار
از شاخه‌های شکسته
و خاشاک
برای خود لانه‌ای می‌سازند
من نیز از شاخه‌های شکستهٔ خیال
و خرده‌های آرزو
برای خود لانه‌ای ساخته‌ام

(بیژن جلالی)

جس طرح فصلِ بہار میں پرندے
شکستہ شاخوں سے
اور گھاس پھوس سے
اپنے لیے ایک آشیانہ بناتے ہیں
میں نے بھی خیال کی شکستہ شاخوں سے
اور آرزو کے ریزوں سے
اپنے لیے ایک آشیانہ بنایا ہے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
غمِ عشق چه شیرین است
و کدام فرشتهٔ مقرب
آن را از کدام باغِ بهشت آورده‌است
یا من آن را در کدام سرزمینِ موعود
چشیده‌ام
که دیگر همهٔ مزه‌ها در من فرونشته‌اند
غمِ عشق چه شیرین است
و کدام زنبوِرِ عسل
آن را از کدام باغِ جاودانی به ارمغان
آورده‌است
یا من آن را از دهانِ که چشیده‌ام
که دیگر همهٔ مزه‌ها در من فرونشسته‌اند
و من با غمِ عشق زنده هستم

(بیژن جلالی)

غمِ عشق کیا ہی شیریں ہے
اور کونسا مقرّب فرشتہ
اُسے کس باغِ جنت سے لایا ہے
یا میں نے اُس کس سرزمینِ موعود میں
چکھا ہے
کہ اب مجھ میں دیگر تمام ذائقے دھیمے پڑ گئے ہیں
غمِ عشق کیا ہی شیریں ہے
اور کونسی شہد کی مکھی
اُسے کس جاودانی باغ سے بطورِ تحفہ
لائی ہے
یا میں نے اُسے کس کے دہن سے چکھا ہے
کہ اب مجھ میں دیگر تمام ذائقے دھیمے پڑ گئے ہیں
اور اب میں غمِ عشق کے ساتھ زندہ ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
خداوند با خاک
آب و آسمان
آوازی سروده‌است
که ما آن را جهان نامیده‌ایم
و گاه با خداوندِ خود
همان آواز را از سر می‌گیریم
و آن را شعر
موسیقی
یا نیکی می‌نامیم

(بیژن جلالی)

خداوند نے خاک،
آب اور آسمان کے ساتھ
ایک نغمہ گایا ہے
جسے ہم نے دنیا کا نام دیا ہے
اور کبھی کبھار ہم اپنے خداوند کے ہمراہ
اُسی نغمے کو دوبارہ شروع کرتے ہیں
اور اُسے شعر
موسیقی
یا نیکی کا نام دیتے ہیں
 
خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
شفقتِ بی‌پایانِ تو
و شقاوتِ بی‌حدِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
ابدیتِ تو
و زودگذریِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
هستیِ تو
و تهیِ دنیاست

خداوندا دلِ من
محلِ برخوردِ
امیدِ ازلی
و ناامیدیِ ابدیست

(بیژن جلالی)

اے خدا! میرا دل
تیری بے پایاں شفقت
اور دنیا کی بے حد شقاوت کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
تیری ابدیت
اور دنیا کی ناپائداری کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
تیری ہستی
اور دنیا کی خلا کا
نقطۂ تصادم ہے

اے خدا! میرا دل
ازلی امید
اور ابدی ناامیدی کا
نقطۂ تصادم ہے
واہ واہ واہ کیا کہنے ۔ بہت اعلیٰ
شکریہ
 

حسان خان

لائبریرین
گل‌های عزیز
که با تن‌های ظریف
و کوچکِ خود
به جهان شادی
می‌دهید
آیا ما قدرِ شما را
آنچنان که باید
می‌دانیم
و صورتِ زیبای
شما را
آنچنان که باید
به گنجینهٔ دلِ خود
می‌ سپاریم

(بیژن جلالی)

عزیز پھولو!
کہ اپنے ظریف
اور چھوٹے جسموں سے
دنیا کو خوشی
دیتے ہو
آیا ہم تمہاری قدر کو
اُس طرح کہ لازم ہے
جانتے ہیں؟
اور تمہاری
زیبا صورت کو
اُس طرح کہ لازم ہے
اپنے دل کے گنجینے کے
سپرد کرتے ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
زندگیِ من
چون حبابِ صابون
است
که کودکی آن را
باد می‌کند
و حبابِ صابون
بزرگ می‌شود
و به سوی بالا می‌رود
ولی آنگاه که ترکید
از آن لکه‌ای نیز
بر جای
‌نمی‌ماند

(بیژن جلالی)

میری زندگی
صابن کے بلبلے کی طرح
ہے
جسے کوئی بچہ
پُھلاتا ہو
اور صابن کا بلبلا
بڑا ہو جاتا ہو
اور اوپر کی طرح جاتا ہو
لیکن جس وقت کہ وہ پھٹ جائے
اُس کا کوئی دھبا بھی
باقی
نہ رہتا ہو
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در سراسرِ زندگی
زیبایی حیرت‌انگیزی هست
که ما را از خود بی‌خود می‌کند
و مانندِ خوابِ زیبایی است
که می‌بینیم
و هرگز جرأتِ بیدار شدن
از آن را نداریم

(بیژن جلالی)

زندگی میں ہر طرف
ایک حیرت انگیز زیبائی موجود ہے
جو ہمیں خود سے بے خود کر دیتی ہے
اور یہ اُس زیبا خواب کی طرح ہے
جسے ہم دیکھتے ہیں
لیکن اُس سے بیدار ہونے کی جرأت
ہم ہرگز نہیں رکھتے
 

حسان خان

لائبریرین
شاعر
پیکِ بیداریست
ولی از واقعیتی سخن می‌گوید
که فقط در خواب
ظاهر می‌شود

(بیژن جلالی)

شاعر
بیداری کا قاصد ہے
لیکن وہ اُس واقعیت کے بارے میں سخن کہتا ہے
جو فقط خواب میں
ظاہر ہوتی ہے
 

حسان خان

لائبریرین
گل‌ها هر یک
ما را تماشا می‌کنند
گویی چشمی هستند
که آسمان از خاک
به امانت گرفته‌است

(بیژن جلالی)

سب کے سب پھول
ہمیں دیکھ رہے ہیں
گویا وہ آنکھیں ہیں
کہ جنہیں آسمان نے خاک سے
امانتاً لیا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
بی‌آنکه برفی
آمده باشد
همه چیز سفیدرنگ
و یخ‌زده است
و بی‌آنکه شب در‌رسیده
باشد
همه جا سیاه و یک
رنگ است
و فقط صدای تو است
که می‌بارد
چون برفی
در شبِ زمستانی

(بیژن جلالی)

بغیر اِس کے کوئی برف
برسی ہو
ہر چیز سفید رنگ کی
اور یخ بستہ ہے
اور بغیر اِس کے کہ شب
پہنچی ہو
ہر جگہ سیاہ اور
یک رنگ ہے
اور فقط تمہاری صدا ہے
جو برس رہی ہے
کسی برف کی طرح
زمستانی شب میں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرگ است
که ما را می‌راند
از صبح تا شام
تا زنده باشیم
برای خوردن و خوابیدن
و مردن

(بیژن جلالی)

موت ہے
جو ہمیں چلاتی رہتی ہے
صبح سے شام تک
تاکہ ہم زندہ رہیں
کھانے اور سونے کے لیے
اور مرنے کے لیے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگر از کلمات می‌نوشیدیم
چنانکه از چشمه‌ای
و از کلمات می‌خوردیم
چون نانِ گندم
و با کلمات می‌زیستیم
شاید هرگز نمی‌مردیم

(بیژن جلالی)

اگر ہم الفاظ سے پیتے
جیسے کسی چشمے سے۔۔۔
اور الفاظ سے کھاتے
نانِ گندم کی طرح۔۔۔
اور الفاظ کے ساتھ زندہ رہتے
تو شاید ہم ہرگز نہ مرتے
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اسمِ من
بعد از من خواهد ماند
ولی اسمِ من
چه ربطی به من
و به شعرِ من دارد
نمی‌دانم

(بیژن جلالی)

میرا نام
میرے بعد باقی رہے گا
لیکن میرا نام
مجھ سے
اور میرے شعر سے
کیا ربط رکھتا ہے؟
میں نہیں جانتا
 

حسان خان

لائبریرین
بوتهٔ نسترن
با صدها چشمِ خوشرنگ
مرا تماشا می‌کرد
گوییا می‌گفت
آیا مرا می‌بینی
آیا نامِ مرا می‌دانی
و من با شعری
که در دلم جوانه می‌زد
به عشقِ او پاسخ می‌گفتم

(بیژن جلالی)

نسترن کی جھاڑی
سیکڑوں خوش رنگ آنکھوں کے ساتھ
مجھے دیکھ رہی تھی
گویا کہہ رہی ہو
کیا مجھے دیکھ رہے ہو؟
کیا میرا نام جانتے ہو؟
اور میں اُس شعر کے ساتھ
جو میرے دل میں پھوٹ رہا تھا
اُس کے عشق کا جواب دیتا رہا
 
Top