دخل در معقولات کے لیے معذرت، مناسب ہو تو ان صاحب کا نام تحریر فرمائیں۔
میرے لیے یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ آپ نے اس محفل پر اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ آپ نے فیس بُک پر مجھ سے بھی شاعری کے سلسلے میں رابطہ کیا تھا سو ریکارڈ کی درستی ضروری ہے :)
ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مستغنی است
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را
حافظ شیرازی
ہمارے ناقص و ناپختہ و خام عشق سے دوست کا حُسن و جمال بے نیاز ہے کیونکہ خوبصورت اور حسین چہرے کو آب و رنگ و خال و خط کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کسی بھلے وقت میں ہم ریڈیو پاکستان سنا کرتے تھے، اور یہ غزل بجتی ہی رہتی تھی، کسی نے بہت خوبصورت دھن میں گائی ہے، گلوکار کا نام اب ذہن سے نکل گیا ہے لیکن اس غزل اور گائیکی کے ساتھ جتنے جہان آباد تھے سب یاد آ گئے :)
گر بروئے آب رفتن آرزو داری غنی
زیرِ پائے اہلِ دل افتادہ چوں سجادہ باش
غنی کاشمیری
اے غنی اگر تُو پانی کے اُوپر چلنے کی آرزو رکھتا ہے (یعنی تجھ سے کرامات کا ظہور ہو) تو پھر مُصلّے کی طرح اہلِ دل کے پاؤں کے نیچے بِچھ جا۔
میں اس زندگی میں بہت کھیل کھیل چکا، ہم عمروں سے بھی اور بڑے چھوٹوں سے بھی، سو مجھے تو معاف ہی رکھیے کہ میرا من کھیلوں سے بھر چکا، آپ لوگ اپنا مسئلہ خود ہی نپٹا لیں :)