عمران اکرم صاحب سے ہماری ملاقات ہونی ہی تھی۔ ہو ہی گئی۔ ہم دونوں دفتری ساتھی تھے اور ہیں۔ ابتدا میں جن عادات و خصائل نے ہمیں ان کی طرف متوجہ کیا۔ وہ ان کی خوش خلقی اور ملنساری تھی۔ موصوف کو تصاویر کھینچنے کا شوق تھا۔ شوقیہ فوٹو گرافر تھے۔ جب ہمیں اس بابت علم ہوا تو "ہم چپ رہے ہم ہنس دیے" والے...
اعلیٰ ترین یاد سر۔۔۔ ہمارے صادق آباد کے ریلوے سٹیشن کی چھت پر گولیوں سے جو سوراخ ہوئے ہیں۔ وہ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دادا ابو اور ابو کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں ان دنوں سے۔ دادا ابو تو اب رہے نہیں۔ نہ ہمیں بہت زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کا موقع مل سکا۔ لیکن ابو سے ایسے واقعات سننے کو ملتے...
میرا اس پورے دھاگے میں یہ پہلا تبصرہ ہے اور شاید آخری بھی۔ اس مارچ، حکومتی رویے اور پارلیمنٹ کے برتاؤ نے بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جہاں عمران خان کا بچگانہ رویہ سامنے آیا ہے۔ (کیوں کہ میں اس مارچ کے خلاف تھا) وہیں حکومتی نااہلی اور وزیروں کے بچگانہ رویے بھی کھل کر سامنے آگئے...
مشرف کو بھی انہی سیاسی مشیروں نے مروا دیا تھا۔۔۔ وگرنہ یہ کام اس کے لیے مشکل نہ تھا۔ لیکن وہ ان نام نہاد عوامی نمائندوں کے پیچھے لگ گیا۔۔۔۔ بجلی والی بات میں نے سوشل میڈیا پر ہی سنی اور دیکھی ہے۔ لہذا اس کی صداقت کے متعلق میرے بہت سے محفوظات ہیں۔
ملکی مسئلہ تھا۔ اندر کھاتے حل ہوجانا ہی بہتر ہے۔ لیکن بین الاقوامی سبکی پہلے ہی کم نہ تھی۔ اوپر سے کرسی کی خاطر ایسے بیکار جھوٹ۔۔۔ بلا ضرورت۔۔۔ اگر اپنے خاندان کے علاوہ کسی کو مشیر رکھا ہوتا۔ تو شاید کوئی عقل کا مشورہ ہی اس کو مل جاتا۔
میرے جذبات اس سال بھی وہی ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ضرب عضب میں شہید ہونے والوں کو سلام۔اسی عہد کی دوبارہ تجدید کے ساتھ۔۔۔۔
تمام اہل پاکستان کو یومِ دفاع مبارک ہو۔ :)