ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
اس شعر میں شاعر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل شناس بھی ہے۔ اسی لیے شاعر نے ’’یہ بازی گر‘‘ اور ’’دھوکہ دہی‘‘ کے الفاظ لا کر بالترتیب بھیا کی مردم شناسی اور ان کی دھوکہ دہی کے بارے میں واشگاف...