اگر تو آپ اس لئے کہہ رہی ہیں کہ اس میں نشے اور شراب ک ذکر ہے تو اس پر مجھے ہمارے ایک دوست شہزاد قیس کا شعر یاد آگیا۔
شراب بیچنے والوں پہ قیس حیراں ہوں
شراب بیچ کے آخر یہ کیا خریدیں گے
:)
غزل
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور...
غزل
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلا نوش کو شراب کہاں
عشق ہے...
معذرت چاہتا ہوں خرم کہ آپ کے ایس ایم ایس کا جواب نہیں دے سکا ۔ اور جب یاد آیا تو وقت گزر چکا تھا۔ بہرحال آپ کو نئی جگہ اور نئی نوکری کی بہت بہت مبارک ہو!
واہ واہ مغل صاحب کیا کمال کی نظم ڈھونڈ کر لائے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ نظم اور اس نظم کے شاعر کا تعارف سب رنگ میں چھپا تھا ۔ میں بہت عرصے سے سب رنگ کا وہ شمارہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن نہیں ملا اگر مل جاتا تو یہ نظم آپ کے بجائے میں پوسٹ کرتا ۔ خیر بہت بہت شکریہ جناب۔ اور ہاں مجھے یاد آیا اگر کوئی صاحب...