حلوے کی طرح مٹھاس رہے آپ کی زندگی میں!
مجھے لگتا ہے کہ بہت دور ہو جائے گا سسرال۔ یہ نہ ہو کہ ایک بار بیچاری آئے اور ساری عمر میکے جانے کا ہی انتظار کرتی رہے
دل تو بہت چاہتا ہے کہ آؤں، ان شاء اللہ ضرور۔ فی الحال تو ماشاء اللہ کام کی مصروفیت اور کام کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ ایک دن کی چھٹی بھی مشکل ہے۔ بلکہ ایک دو گھنٹے کی بھی
ذہن پر زور ڈالیں تو ایک بات یاد آتی ہے، کہتے ہیں کہ لوگ کراچی جاتے تو ٹرین پر ہیں لیکن آتے اخبار میں ہیں!
خیر یہ تو ایک مذاق تھا۔ اب تو ماشاء اللہ کراچی کے حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں، اللہ کا شکر ہے
زندگی تقریباً آدھی سے زیادہ گزر گئی ہے لیکن میں آج تک کراچی نہیں دیکھ سکا۔ ایک بہت اچھا دوست بھی ہے کراچی میں۔ اس نے بھی کئی بار کہا کہ آؤ، مگر جانا ہی نہیں ہو پاتا۔
ظلم شاید یہی ہے پاکستان میں کہ زیادہ تر لوگوں نے تلاوت کو سننا یا قرآن بغیر سمجھے پڑھنا ہی ثواب یا دوکان/مکان وغیرہ میں خیر و برکت کا باعث سمجھ لیا ہے۔ جن میں ایک میں بھی تھا۔ کاش ہر جگہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا عام ہو جائے
گھر تو کہتے ہیں کہ بھلے ہی جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو لیکن اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے، مغربی ممالک میں ویسے ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے۔ زیادہ تر اشیا تو یہاں پاکستان سے ہی گئی ہوئی ہوتی ہیں۔ جیسے چاول، آم وغیرہ
قدر نہیں ہے ہم پاکستانیوں کو شاید۔ برطانیہ وغیرہ میں سارا سال موسم سرد ہی رہتا ہے۔ اور وہ لوگ گرمیوں کو ترستے ہیں، یہاں تک کہ میں بھی گرمیوں کو ترسنے لگا تھا تین چار سال کے عرصے میں ہی! اور یہاں پاکستان میں الحمد للہ گرمیاں بھی ہیں اور سردیاں بھی